مولانا شاہ مفتی عبدالواجد قادری – ذکر ایک’ خمسہ متحیرہ‘ کا

Table of Contents

احمدجاوید

یہ ہمارے زمانے کے ابن بطوطہ ہیں جن کی آنکھوں سے میں نے دنیا کو دیکھا اور سمجھا

عزیزگرامی مولانا فیضان الرحمن سبحانی میاں ازہری(۱) نے حضرت امین شریعت مولانا شاہ مفتی عبدالواجدقادری دامت برکاتہ کی شخصیت اور خدمات کے موضوع پر سیمینار کے لیے یاد کیا تو میں اپنے ماضی کی خوبصورت یادوں میں کھوگیا۔ان ایام میں چلا گیاجن کو سوچتا ہوں تو دیر تک ایک محویت کا عالم اور ایک سرشاری کی کیفیت طاری رہتی ہے۔دل و دماغ کی دنیا پر نہ جانے کیسے کیسے ماہ و نجوم ضو فشاں ہوجاتے ہیں۔ استاذگرامی علامہ شبنم کمالی ، مولانامفتی عبدالجلیل نعیمی،مولاناابوالسہیل انیس عالم قادری ، مولانا صوفی عبدالواجدقادری اوررئیس القلم علامہ ارشدالقادری جو اس خمسہ کے زاویہ قائمہ کا درجہ رکھتے تھے ۔ ویسے تو علم ادب کی اور بھی بہت سی کہکشائیں ہیںجو اپنی اپنی بلندیوں پر چمک رہی ہیں لیکن اس خمسہ متحیرہ کی جگہ آج تک کوئی اور نہ لے سکاجبکہ اب ہمارے درمیان اس خمسہ کا صرف ایک ستارہ رہ گیاہے۔ اوراب شایدکوئی ستارہ اس کے سوا کہکشاں کو قطع نہیں کرتا۔

خمسہ متحیرہ کی یہ ترکیب میںنے پہلی باراستاذگرامی مولانامحمد نعمان صاحب نوراللہ مرقدہ سے سنی تھی۔وہ اپنی طالب علمی کے زمانے کے ایک واقعہ کا ذکر کر رہے تھے۔یہ غالباً ۱۹۵۰ء کے اوائل کی بات ہے۔مدرسہ اسلامیہ شمس الہدی پٹنہ میں طلبہ کے ایک گروپ کو اساتذہ ’ خمسہ متحیرہ‘ کہا کرتے تھے۔یہ پانچ دوست تھے ، سب کے سب ذہین اور محنتی، درجہ میں بھی ساتھی تھے، باہر بھی اکثر ساتھ نظر آتے لیکن پانچوں کا علمی ذوق مختلف تھا۔کسی کوحدیث و تفسیر سے شغف تھاتو کسی کو شاعری اور خطابت کا شوق،کوئی منطق و فلسفہ اور عقائدوکلام میں گہری دلچسپی رکھتاتھاتو کوئی زبان و ادب کا بے پناہ ذوق،یہاں تک کہ ایک کی انگریزی زبان و ادب میںغیرمعمولی دلچسپی تھی۔ ان پانچوں کے اختلاف مذاق و طبائع اوران کی دوستی کی وجہ سے اساتذہ ان کو خمسہ متحیرہ کہتے تھے۔ اس واقعہ پر جب بھی غور کرتا ہوں تو میری نگاہوں میںایسی کئی شخصیتیں پھر جاتی ہیں جو اپنی ذات میں تنہا خمسہ متحیرہ تھیں لیکن شاید اب ہمارے درمیان ایسی ایک ہی شخصیت رہ گئی ہے۔
مولانا صوفی عبدالواجد قادری جن کی ذات کے اجالے اور خدمات کے دائرے برصغیر ہندوپاک سے مغربی یوروپ کے ملکوں تک پھیلے ہوئے ہیں اور جس دور میںلوگ یوروپ یا امریکہ کے کسی شہر کا ایک تبلیغی دورہ کرلیں یا کہیںکسی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد یا برائے نام اسلامی مرکز میںبھی ملازم ہوجائیں تودوردور تک ڈھنڈورے پیٹ دیں، اگرکوئی مسلسل پچیس تیس برسوں سے اسلام کی گوناگوں خدمات انجام دے رہا ہو، دین کی تبلیغ و اشاعت میں ہمہ تن مصروف ہو، الگ الگ ملکوں کے ایک سے زائد، سب سے بڑے اور مرکزی دارالافتاء کے صدرالصدور کے منصب عالیہ پر فائز ہواور اردو ، انگریزی اور ڈچ زبانوں میںدرجنوں کتابیں لکھ کر دینی ضرورتوں کی تکمیل کر رہا ہواور نام و نمودسے گریزاں صرف کام کی دھن میں مگن ہو توکس کا جی نہ چاہے گا کہ اس کی عظمتوں کو سلام کرے۔مولانااکتوبر ۱۹۸۵ء میں نیدر لینڈ اسلامک سوسائٹی کی دعوت پر ہالینڈ گئے۔۱۹۸۷ء میں ورلڈ اسلامک مشن نے ہالینڈ میں عراق، ترکی ، شام ،مغرب اور دوسرے مسلم ملکوں کے سفیروں اور عمائدین ملک و ملت کی موجودگی میںکار افتا ء و قضا آپ کے سپردکرکے انٹرنیشنل سیٹی’ دی ہیگ‘ کے جامعہ مدینۃ الاسلام کو مرکزی دارالافتا قرار دیا۔آپ کا مستقل قیام آمسٹرڈم میں تھا جہاں ۱۹۹۹ء میںآپ کی سرپرستی میں اسلامک فاؤنڈیشن( تنظیم القرآن) نیدر لینڈ کا قیام عمل میں آیاتو اس کے دارالافتاء و قضا کی ذمہ داری بھی آپ نے خودہی سنبھالی۔ یوروپ کے مسلمانوں ، ان کی نئی نسلوں اور نو مسلموں کو نگاہوں میں رکھ کر دو جلدوں میں ’قرآنی تعلیم‘ لکھی،کائنات آرزو ،فتاوی یوروپ، نیت نامہ کلاں، مسائل حج و زیارت ، حج و زیارت کی دعائیں، کتاب الدعوات ، قادیانی دھرم اور تمہید ایمان جیسی کتابیں تصنیف کیں جن میں سے دو انگریزی اور دس کتابیں ڈچ زبان میں بھی شائع کیں ۔حتی کہ مقامی مسلمانوں کے ذوق ایمان و عقیدت کی تسکین کے لیے اپنے مجموعہ ٔ حمدو نعت ’تنویر نیر‘ کا ڈچ ترجمہ بھی پیش کیا۔جو کام اکیڈمیاں کرتی ہیں وہ تنہا انجام دیتے ہیںاورایسا کہ ان کا ہر کام اور ان کی شخصیت کا ہر پہلو حیران کرتا ہے۔
اپنے وقت کے جن دو تین علماء و مصنفین کے نام اور کام سے ہمارے کان شعور کی آنکھیں کھلنے سے پہلے ہی آشنا ہوچکے تھے، ان میں ایک نام مولانا صوفی عبدالواجد قادری صاحب نیرؔ رضوی کا بھی ہے۔اس شناسائی میں ابتداہی سے ایک خاص قسم کی اپنائیت کا عنصر غالب تھا۔ویسے تو ان دنوں یہاں کونسی محفل تھی جس میں ان کا ذکر نہ تھالیکن یہ میرے والد مرحوم کے دوست اور خاندان کے طبیب خاص مولانا حکیم شاہ حبیب اللہ قادری کی مجلسیں تھیں جن میں ان کے تذکروں نے دل میں ان کی ایک خاص جگہ بنادی تھی۔ ایک سے بڑھ کر ایک روشن صورتوں، علم و فضل اور جاہ جلال کے کئی پیکر وں ،کئی پیران طریقت اورصوفیوں کے درمیان یہ ایک ممتاز اور خاصی اونچی جگہ تھی جس پریہ متمکن تھے۔شاہ صاحب اایک وسیع المطالعہ اور جہاندیدہ شخص تھے، بڑے ہی دانا ، بینا اور روشن ضمیر۔ وہ ایک مسیحا نفس حکیم تھے۔ آسانی سے نہ کسی کی باتوں میں آتے نہ کسی کے قائل ہوتے، ان کی گفتگو میں بھی منتخب روزگار ہی جگہ پاتے ۔اکثر میرے یہاں کئی کئی دن اور کبھی کبھی ہفتوں قیام فرماتے۔ یاد آتا ہے کہ ان ہی کی خواہش اور تحریک پرمولاناشاہ ولی محمدؒ قادری مبارکی کے عرس کی مجلس میں خلاف معمول اور شاید پہلی بارکسی کی تقریر ہوئی تھی۔اور غالباً یہی میری مولانا صوفی عبدالواجد قادری کی پہلی دید و شنید تھی۔ وہ ان دنوں دارالعلوم المشرقیہ حمیدیہ دربھنگہ کے نائب صدر المدرسین، ناظم تعلیمات اور قلعہ گھاٹ کے قدیمی دارلافتاء کے مفتی تھے ۔آپ کے ذہن میں کسی کی جو غائبانہ تصویر بنتی ہے،عموماً اس سے مل کر، اس کو دیکھ اور سن کر ڈھہ جاتی ہے لیکن جو تصویر میرے ذہن میں تھی ان کی دیدوشنید سے مزید چمک اٹھی۔ایک آٹھ دس سال کے بچہ کی بساط کتنی اور اس کا آئینۂ ادراک کیا، اس سے زیادہ وہ کیا محسوس کر سکتاتھالیکن اب سوچتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ یہ ایک عبقری عالم و فقیہ کا ذہن، ایک روشن ضمیر درویش کادل اور ایک قادرالکلام شاعروادیب کی زبان تھی جس کا جادو ہر کس و ناکس کے سر چڑھ کر بول رہا تھا۔
چند سال بعد مدھوبنی میں ایک جلسہ تھا۔ اس جلسہ کے محرک بھی مولانا حکیم شاہ حبیب اللہ قادری تھے۔میں نے پہلی بار اسی جلسہ میں محدث کبیر علامہ شاہ ضیاء المصطفی اعظمی کو سناتھا۔یاد نہیں آتا کہ اس جلسہ میں مولانا صوفی عبدالواجد قادری آئے تھے یا نہیں لیکن جلسہ گاہ کے باہر کتابوں کے ایک اسٹال پر’تازیانہ ‘اور’ ضیائے تصوف‘ موجود تھی اور یہی دونوں کتابیں مصنف کا مجھ سے پہلا باضابطہ تعارف تھا۔ کچھ دنوں بعد ان کی نعتوں اور غزلوں کا مجموعہ ’نقش دوام‘ بھی نظر نواز ہواز جس کا مقدمہ علامہ قتیل ؔدانا پوری نے لکھا تھا۔جن کی نگاہوں سے یہ کتابیں گزر چکی ہیں وہی سمجھ سکتے ہیں کہ یہ کتابیں کتنی بھرپور قوت کے ساتھ ان کی شخصیت کے تین مختلف اور متوازی جہات(parallel dimentions ) پیش کرتی ہیں۔فقیہ، شاعر اور صوفی ،ہر جہت یکساں روشن اور طاقتور(forceful ) ۔
ان کو اور بھی قریب سے دیکھنے سننے کا موقع اس وقت ملاجب ہم اور ہمارے اساتذہ ان کو جامعہ اسلامیہ امانیہ لوام، دربھنگہ میں درجات عالیہ کے مدرس کے ایک عہدے پر لانے کی کوشش کر رہے تھے۔ خوش قسمتی سے میں ان طلبہ میں شامل تھاجنہیںان کوانٹرویو کے دوران ایکسپرٹس کی موجودگی میں بطور امتحان درس دیناتھا۔مقابلہ سخت تھا۔امیدواروں کی طویل فہرست تھی جن میں بڑے عالم فاضل قسم کے کئی امیدوار شامل تھے اورکچھ لوگوں نے ایک خاص مسلک کے امیدوار کے لیے ساری طاقت جھونک رکھی تھی۔ایکسٹرنل ایکسپرٹ شیخ عبدالخالق سلفی (پرنسپل ،مدرسہ احمدیہ سلفیہ ، دربھنگہ )تھے جو سوالات عربی میں کر رہے تھے۔امیدواروں کے پسینے چھوٹ چھوٹ جاتے تھے۔کئی نے گونگا بن جانے میں عافیت سمجھی ،کئی کے چغادری کے ہاتھ پیر کانپتے دیکھے، ایک نے گھبراہٹ میں کہہ دیا’انا اقول قلیلاً‘ لیکن مفتی صاحب کے استحضار علم کے کیا کہنے۔یہ طعنہ دینے والوں کے سامنے والوں کے سامنے کہ علمائے اہل السنۃ کی عربی کمزور ہوتی ہے، ہمارے سینے چوڑے ہوگئے(اور اب تو انگریزی اور ڈچ زبانوں میں بھی آپ کی تصانیف خراج تحسین حاصل کرچکی ہیں)۔ تقرری کے لیے منتخب امیدواروں کی فہرست میں پہلا نام آپ کا تھا(۲)۔ یہ ان کی شخصیت کا ایک اور پہلو تھا جو اس دن ہمارے سامنے آیا۔ ان ہی دنوں آپ کے صاحبزادے خالدرضاقادری نے جامعہ اسلامیہ امانیہ لوام میں داخلہ لیا تھااورہماری یہ قربت بتدریج قریبی دوستی میںبدل گئی، یہاں تک کہ جب میں کالج کے دنوں میں دربھنگہ آیاتو وقفہ وقفہ سے کافی دنوں ان کے گھر میں رہا۔گویا ان کی خانگی اور شخصی زندگی کو بھی کسی حد تک قریب سے دیکھنے کا موقع ملالیکن ان کی شخصیت کا اصل ڈسکورس مجھ پر اس وقت ہواجب ان کا سفرنامہ ’ کائنات آرزو‘ منظر عام پر آیا(۳)۔اس کتاب کو میں نے ایک دو بار نہیں بار بار پڑھا اور اب بھی جب جب موقع ملتا ہے، پڑھتا ہوں۔اگر میں یہ کہوں کہ یہ ہمارے زمانے کے ابن بطوطہ ہیں جن کی آنکھوں سے میں نے دنیا کو دیکھا اور سمجھا ہے تو غلط نہ ہوگا۔جن دنوں امریکہ نے عراق پر فوج کشی کی تھی اور بابل، بصرہ، بغداد، موصل، نجف، کربلا اور عراق کے دوسرے چھوٹے بڑے شہروں کو بموں اور میزائلوں سے تہہ و بالا کیا جارہاتھا، میںنے ’نئی دنیا‘ میں ’کائنات آرزو‘ کے عراق سے متعلق حصے کو بالاقساط شائع بھی کیا اور اسے قارئین کی بے پناہ پذیرائی حاصل ہوئی۔ جن تاریخی مقامات اور عالمی ورثہ کو اس حملے میں نقصان پہنچا، ان کی اس سے بہتراور تفصیلی معلومات کسی اور ذرائع سے مل بھی نہیں سکتی تھی۔سفر نامہ کیا ہے؟ ایک جہان علم و آگہی جس میں ان کی شخصیت کا ہر پہلو اپنی پوری توانائی کے ساتھ سامنے آتاہے ۔یہ مغرب سے مشرق کا ایک ایسا سفرہے جو آپ کو تاریخ، تہذیب، جغرافیہ،سیاست، ثقافت اور معیشت ، غرضیکہ زندگی کے ہر پہلو سے روبرو کراتا ہے۔اسلوب نگارش ایسا کہ ہر منظر نگاہوں میں پھر جائے ، محسوس ہو کہ آپ اپنی سر کی آنکھوں سے ان مقامات کی سیر کر رہے ہیںاورایسی کہ منظر ہی نہیں ، پس منظر اور پیش منظر تک کوپا لیں۔ کوزہ میں سمندر سمو دینا سنا تھا، اس سفرنامہ کی شکل میںیہ دیکھ بھی لیا کہ کوزہ میں سمندر سمونے کا عمل کیا ہوتا ہے۔ یوروپ کے سات آٹھ ملکوں کا جغرافیہ،ان کی سیاسی، سماجی اور اقتصادی زندگی کی جھلک ،ان ملکوں سے ترکی کی سرحد کی طرف راستوں کی معلومات، ترکی ، عراق اور حجاز کے مقدس مقامات کی تفصیلات ، عجائب گھروں میں محفوظ آثارو تبرکات کی جانکاریاں ، اثنائے سفر ذاتی واردات و تأثرات ،کیا نہیں ہے جویہاں ایک لڑی میں نہ پرو دی گئی ہے۔
اردو میں سفر ناموں کی کمی نہیں ہے، برصغیر سے مشرق یا مغرب کو بیرون ملک سفر کر نے والا ہر وہ شخص جس کی دسترس میں قلم ہے، پہلا کام یہی کرتا ہے اور مقصود ’ ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا‘ ہواکرتاہے۔لیکن ’کائنات آرزو‘ اس کے برعکس ایک ایسا سفر نامہ ہے جس میں مصنف اپنی کثیرالابعادو ہمہ جہات شخصیت کے ساتھ ہرجگہ موجود تو ہے لیکن کہیںکسی منظر اور قاری کے درمیان حائل نہیںہے۔ابن بطوطہ کی طرح ہی’ کائنات آرزو‘ کے مصنف نے بھی نہ تو بے مقصد سفر کیا اور نہ بے مقصد سفر نامہ لکھا، مقصد مغرب کے باشندوں کی رہنمائی اور منزل صاحب لولاک کا در ہے اور اس کے لیے معلومات کے سارے دستیاب ذرائع استعمال کئے گئے ہیںحتی کہ اسی مقصد سے دوبارہ سفر کیاہے تاکہ زیادہ بہتر لکھ سکیں اور زیادہ سے زیادہ معلومات مہیا کراسکیں۔زبان وبیان کی خوبی یہ ہے کہ ایک عام آدمی بھی اسی طرح استفادہ کرسکتا ہے جس طرح کوئی عالم فاضل ۔پھر یہ کہ آپ جتنی بار پڑھتے ہیںہربار لطف اندوزہوتے ہیں۔یہ آپ کی معلومات میں بھی اضافہ کرتا ہے اور جذبات میں بھی تموج لاتا ہے۔ ایک زندہ ادب کی بنیادی خوبی یہی ہے اور بلاشبہ یہ سفر نامہ ہمیشہ زندہ رہے گا بلکہ مرور ایام کے ساتھ اس کی قدرو قیمت میں اضافہ ہی ہوگا۔ یہ سفر نامہ آپ کو اصحاب کہف کے غار میں بھی لے جاتا ہے اور تاریخ کے نہاخانوں کی بھی سیر کراتا ہے۔ آیہ صوفیہ کی سیڑھیوں پر ہی نہیں چھوڑتا، قلوپطرہ کے مجسمہ اور بحر مرمرا کے ساحلوں پر بھی لے جاتا ہے۔یہ بھی دکھاتا کہ تہذیبیں کیا کیا کروٹیں لے رہی ہیں اور اس کے محرکات و عوامل کیا ہیں۔مسافر کی اصل منزل توترکی، عراق اور حجازکے مقدس مقامات ہی ہیںلیکن ان ملکوں کی عام زندگی، سیاست اور معیشت بھی خود بخود آپ کی نگاہوں پر کھلتی چلی جاتی ہے۔مصنف کے لطیف ،بامعنی اورفکر انگیزتبصرے جابجاآپ کی توجہ کھینچ لیتے ہیں۔آپ حیران رہ جاتے ہیں کہ مصنف عالم و فقیہ بھی ہے، مصلح اور مفکر بھی، سیاست کی باریکیوں سے بھی اتنا ہی آگاہ ہے جتنا معیشت کے نشیب و فراز اور اقتصادیات جدیدہ کی باریکیوں سے۔ تاریخ پربھی اس کی اتنی ہی گہری نظر ہے جتنی جغرافیہ پر،کسی نے سچ کہا ہے کہ انسان آپ پر صحیح معنوں میں اس وقت کھلتا ہے جب آپ اس کے ساتھ سفر کرتے ہیں۔’کائنات آرزو‘ میں مولانا کی شخصیت کے ہر رنگ اپنے جلوے بکھیر رہے ہیں۔
فلاسفہ نے خمسہ متحیرہ کے تعلق سے لکھا ہے کہ یہ پانچ سیارے ہیں، زحل، عطارد،مشتری، مریخ اور زہرہ اور ان کو خمسہ متحیرہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ ان کی چال مختلف، ان کی شکل مختلف اور یہاں تک کہ ان کا حجم مختلف ہے لیکن پھربھی وہ ایک ربط باہم رکھتے ہیںاور ان کا یہی ربط ایک نظام تشکیل دیتا ہے ورنہ نظام کائنات درہم برہم ہوجائے۔قرآن پاک کی ایک آیت (فلااقسم بالخنس الجوارالکنس) کی تفسیر میں آیا کہ یہ ان کے وقوف، استقامت اور رجعت کا بیان ہے کہ یہ سیدھے چلتے ہیں،پھر ٹھہر جاتے ہیں،پھرپیچھے ہٹتے ہیں، پھر ٹھہرتے ہیں، پھر سیدھے ہوجاتے ہیں اس لیے ان کو خمسہ متحیرہ کہتے ہیں۔ابن ابی حاتم نے اسی آیت کی تفسیر میںحضرت امیر المومنین مولی علی کرم اللہ وجہ کا یہ قول پیش کیا ہے کہ وہ پانچ ستارے ہیں زحل، عطارد، مشتری، مریخ اور زہرہ، کوئی ستارہ ان کے سوا کہکشاں کو قطع نہیں کرتا۔یعنی ثوابت میں جو کہکشاں پر ہیں، وہیں کے وہیں ہیں، جو اس کے آس پاس ہیں وہ بھی وہیں ہیں، ان کی حرکت خفیفہ ایسی نہیں کہ ابھی کہکشاں سے ادھر تھے، چند ساعت میں اس پار چلے گئے۔اقبالؔ نے تمثیلی اور وسیع تر معنی میں کہا تھا’جہاں میں اہل ایماں صورت خورژید جیتے ہیں،ادھر ڈوبے ادھر نکلے ادھر ڈوبے ادھر نکلے ‘لیکن یہ مولانا صوفی عبدالواجد قادری کی شخصیت پریہ حقیقتاً حرف بہ حرف صادق آتا ہے۔بلاشبہ وہ ایک خمسہ متحیرہ ہیں اور شایداس عہد میں کوئی ستارہ ان کے سوا کہکشاں کو قطع نہیں کرتا۔
حواشی
(۱) مہتمم جامعہ واجدیہ، دربھنگہ
(۲) ادارۂ شرعیہ بہار، پٹنہ کے ذمہ داران بالخصوص علامہ ارشدالقادری کے اصرار پرآپ نے جامعہ اسلامیہ امانیہ لوام دربھنگہ آنے کا ارادہ ترک کردیاتھا حالانکہ جامعہ کی منتظمہ ان کو لوآم سے بھی ادارہ شرعیہ کے لیے کار افتاء انجام دیتے رہنے کی جملہ سہولیات مہیا کرانے کے لیے تیار تھی ۔ہمارے لیے اس سے بھی زیادہ افسوس کی بات یہ تھی کہ اس کے بعدادارہ شرعیہ بہار پٹنہ میں بھی ان کا قیام بوجوہ بہت مختصر مدت تک رہا۔ پہلے بریلی شریف کے مرکزی دارالافتاء میں کچھ دنوں تک خدمات پیش کیں، پھر ہالینڈ چلے گئے ۔
(۳)سفرنامہ ’ کائنات آرزو ‘ہالینڈ کے سفر اور وہاں سے بذریعہ کار حرمین شریفین کے سفر کی برکت ہے۔ اس وقت بڑا افسوس ہوا تھا جب آپ نے جامعہ اسلامیہ امانیہ لوام دربھنگہ کی پیشکش ٹھکرادی تھی لیکن اب سوچتا ہوں کہ مشیت کو تو کچھ اور ہی منظور تھا۔

احمد جاوید
ایڈیٹر(انچارج)، روزنامہ ’ انقلاب‘ لکھنؤ
[email protected]
[email protected]
+91 9818844546
+91 9807859536

مصنف کے بارے میں

احمد جاوید

احمد جاوید اردو کے ممتاز صحافی، مصنف، مترجم اور کالم نگار ہیں۔ تاریخ و تمدن پر گہری نظر اور ادب و صحافت میں اپنے منفرد اسلوب سے پہچانے جاتے ہیں۔

مزید