یہ ایک انتہائی بہیمانہ قتل تھاجس کے دردناک مناظرمجھے برسوں بے چین رکھیںگے لیکن اس لیے نہیں کہ ہمیں مقتول سے بڑی محبت یا ہمدردی تھی بلکہ اس لیے کہ قاتل اور مقتول دونوں اللہ اکبرکے نعرے لگارہے تھے جبکہ اللہ کا دین دونوں کے ہاتھوں لہولہان تھااوراسلام کی روح زخموںسے تڑپ رہی تھی۔
فکر فردا
ہم اسلام کے نام لیوا ہیں،شمع رسالت کے پروانے کہلاتے ہیں،قرآن اور صاحب قرآن کی شان میں کسی سے ذرا بھی کوئی بے ادبی ہوجائے تڑپ اٹھتے ہیںلیکن نفرت وعداوت،انتقام اور غصہ کی اسی آگ میںجلتے رہتے ہیںجس کو اسلام اور قرآن نے حرام ٹھہرایاہے۔سمجھ میں نہیں آتا کہ آج ہم لیبیا کے عوام کوآزادی کی مبارک باد دیں اور ان کے اس جشن میں شامل ہوں، جو طرابلس، بن غازی، مصراتہ اورزاویہ کی سڑکوں پر وہ منارہے ہیں یا کرنل معمر قذافی کے بہیمانہ قتل پر ماتم کریں۔ یہ فیصلہ کرنا بھی مشکل ہے کہ قذافی اور ان کے بیٹوں کی موت کے بعدلیبیاسچ مچ آزاد ہوگیا ہے یاجبرواستبداد کے ایک پنجوں سے نکل کر دوسرے پنجوں میں چلا گیا ہے۔
احمدجاوید
طرابلس میں ایک عالی شان محل کے ملبہ پر چندوردی پوش مسلح جوان کھڑے تھے۔ان کے چہروں پرفتح و کامرانی کی مسکراہٹ،گردنوں میں خم اور آنکھوںمیں بے پناہ چمک تھی،پاس ہی ایک ٹینک کھڑا تھا، لگ رہا تھا کہ اپنی اگلی منزل کی کی جانب بڑھنے کو تیار ہے ۔ابھی ابھی بلڈوزروں سے اس محل کومسمار کیا گیا تھا،تصویر کے نیچے درج تھا:قذافی کے محل کو مسمار کرنے کے بعد اس کے ملبہ پر کھڑے انقلابی۔اسی دن اخبار کے اسی صفحہ پرایک دوسری تصویر چھپی تھی۔یہ بھوٹان کے راجا جگمے کھیسر نامگئیل وانچک اور ان کی نوعروس رانی جتسون پیما کی تصویر تھی۔کوہستانی ریاست کا یہ حکمراں اپنی شادی کی خیر مقدمی تقریب میںراجدھانی تھمپو کے چانگلی متھانگ اسٹیڈیم میںکھڑاتھا جہاں ۳۵۰۰۰لوگ موجود تھے۔بہ ظاہر ان دونوں تصویروںمیں کوئی نسبت نہیںہے لیکن اس کو کیا کہیے گا کہ میرے ذہن میں دیر تک یہ دونوں تصویریں ایک ساتھ گردش کرتی رہیں۔میرا ذہن ودل تاریخ کے دھندلکوں میں دیر تک بھٹکتا رہا۔در اصل اس دن پورا ملک بھوٹان ایک خاندان لگ رہا تھا۔روایت کے مطابق ایک دن پہلے پناکھا کے شاہی محل میںراجا وانچک کی شادی ہوئی،اگلے دن راجدھانی تھمپو میںرانی کی رونمائی کی رسم ادا کی جانی تھی۔بھوٹان کی رانی جتسون پیما شاہی محل سے راجا کے ساتھ تھمپو کے لیے نکلی تو۷۲ کلو میٹر کے اس سفر میںراستے کے دونوں کنارے ملک کے عوام شمعیں لیے کھڑے تھے۔وہ کسی کے دباؤیا خوف سے اپنے گھروں سے نہیںنکلے تھے بلکہ اپنے راجا کی شادی کی خوشی میںنکل آئے تھے ۔دوسری طرف ان کی عقیدت و محبت کے جواب میں نو عروس جوڑے(راجااور رانی) کاعالم یہ تھا کہ وہ دونوں ۱۵کلو میٹرسے زیادہ دور تک پیدل چلتے رہے۔وہ ملک کے عوام سے دعائیں اوربدھائی وصول بھی کررہے تھے ،اور ان کو بدھائی اور آشیرواد دے بھی رہے تھے ۔گویاوہ سب کے سب اس شادی کے باراتی تھے اور پورا ملک ایک خاندان لگ رہا تھا۔
میں گہری سوچ میں ڈوبتا چلا گیا۔ پیغمبر اسلام نے مخلوقات کوخدا کا کنبہ کہا ہے۔اسلام میں سارے انسان ایک ماں باپ کی اولاد ہیں،ہمیں بچپن سے پڑھایا گیابنی آدم اعضائے یک دیگرند،قرآن نے مومن کی پہچان بتائی آپس میں ریشم کی طرح نرم لیکن ہم ہیںکہ غیظ و غضب کے پتلے،نہ ہمارے حکمران ہم کواپنے کنبہ کے افراد سمجھتے ہیں،نہ ہم ان کواپنا بھائی اور سرپرست جانتے ۔وہ بھی ہمیں کیڑے مکوڑے جانتے ہیں اور ہم بھی ان کو اپنا دشمن تصور کرتے ہیں۔نفرت وعداوت کا یہ عالم ہے کہ موقع ملتے ہی اس کی ایک ایک نشانیوں کو مٹادینا چاہتے ہیں۔محلوں کو مسمار اورآبادیوںکو تہہ و بالا کرتے وقت یہ خیال بھی نہیں آتاکہ یہ ہمارا اپنا ہی اثاثہ ہے،ہماری ہی خون پسینے کی کمائی سے تعمیر ہوا ہے اوریہ ہمارے اپنے ہی بھائی ہیں۔ اپنے ہی ہاتھوںاپنے ملک ،اپنی دولت اور اپنی آبادیوں کو تاراج کر رہے ہیں۔یہ کیسے انقلابی ہیں اور یہ کون سی جمہوریت ہے جوسرکاری دفاتر اورعالی شان محلوں پر بلڈوزر چلواکر ان کے ملبے پر آزادی کا جشن منا رہی ہے۔غم صرف ایک لیبیاکا نہیں،۵۲ ملکوں میں کوئی ملک بھی تو ہوتا جہاںنفرت وعداوت کے المناک مناظر دیکھنے کو نہ ملتے،جنرل عبدالکریم، رضاشاہ پہلوی، انورسادات، ذوالفقار علی بھٹو،نجیب اللہ، صدام حسین،حسنی مبارک اور کرنل قذافی ، کس کس کا نام گنوائیں ۔کتنے دردناک نظارے ہیں جو نگاہوں کو اپنی جانب کھینچ لیتے ہیں۔
ابھی ہم سوچ سمندر کے گہرے پانیوں میں غوطے کھا ہی رہے تھے کہ وہ حادثہ بھی گزرگیاجس کاخوف تھا۔ یہ ایک انتہائی بہیمانہ قتل تھاجس کے دردناک مناظرمجھے برسوں بے چین رکھیںگے لیکن اس لیے نہیں کہ ہمیںمقتول سے بڑی محبت یا ہمدردی تھی بلکہ اس لیے کہ قاتل اور مقتول دونوں اللہ اکبرکے نعرے لگارہے تھے جبکہ اللہ کادین دونوں کے ہاتھوں لہولہان تھااوراسلام کی روح زخموںسے تڑپ رہی تھی۔ویسے تواس کہانی کی اسکرپٹ بہت پہلے لکھی جا چکی تھی،نوشتہء دیوار دنیا نے پڑھ لی تھی ،اگر کوئی نہیں پڑھ سکا تھا تو وہ خود قذافی اور ان کے بیٹے تھے۔بہرکیف ایک اورعرب حکمراں کو اس کے اپنے ہی ہم وطنوں نے تڑپا تڑپا کر قتل کردیااور اس کی فلم بندی کی گئی۔یہ وہی مناطر تھے جو عراق کے انقلاب رمضان میںجنرل کریم کے ساتھ بغداد نے دیکھے تھے،مصراتہ میں نیا کچھ بھی نہیں ہوا،تاریخ اپنے آپ کو دوہررہی تھی ۔ نصف صدی کی طویل مدت میں دنیا جانے کتنی کروٹیں لے چکی ،عالمی جنگوں کی لرزہ خیز تاریخ رقم کرنے والے ممالک ایک کنبہ بن گئے لیکن اگر نہیںبدلی تو عالم اسلام کی تقدیر نہیںبدلی،عربوںکی قسمت نے کوئی کروت نہیںلی۔ہم اسلام کے نام لیوا ہیں،شمع رسالت کے پروانے کہلاتے ہیں،قرآن اور صاحب قرآن کی شان میں کسی سے ذرا بھی کوئی بے ادبی ہوجائے تڑپ اٹھتے ہیںلیکن نفرت وعداوت،انتقام اور غصہ کی اسی آگ میںجلتے رہتے ہیںجس کو اسلام اور قرآن نے حرام ٹھہرایاہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ آج ہم لیبیا کے عوام کوآزادی کی مبارک باد دیں اور ان کے اس جشن میں شامل ہوں، جو طرابلس، بن غازی، مصراتہ اورزاویہ کی سڑکوں پر وہ منارہے ہیں یا کرنل معمر قذافی کے بہیمانہ قتل پر ماتم کریں۔ یہ فیصلہ کرنا بھی مشکل ہے کہ قذافی اور ان کے بیٹوں کی موت کے بعدلیبیاسچ مچ آزاد ہوگیا ہے یاجبرواستبداد کے ایک پنجے سے نکل کر دوسرے پنجوں میں چلا گیا ہے۔
یہ کہہ دینا آسان ہوگا کہ یہ مغربی طاقتوں کی سازش ہے،وہ نہیں چاہتی کہ انتقام در انتقام کا یہ سلسلہ ختم ہو،اس قتل میں بھی اس کی منصوبہ بندی کا فرما ہے،یہ بھی کہا جائے گا کہ قذافی کے زندہ رہنے سے بہت سے راز کھل جانے کا خوف تھا، اس لیے ناٹو کی فوج اور سی آئی اے نے کسی بھی قیمت پراسے زندہ گرفتار کرنے کے بجائے صفحہء ہستی سے مٹادینے کی پلاننگ کی تھی لیکن سوال یہ ہے کہ یہ ممکن کیونکر ہوا اور کن ہاتھوں سے ہوا؟ابھی کل کی بات ہے ،اسی قذافی کے خلاف امریکہ نے ہرہتھکنڈہ آزمایا، ہوائی حملے تک کیے لیکن اسے کامیابی نہیں ملی ۔آخر پچھلے چند برسوں میں کیا ہوا جس نے صورت حال تبدیل کردی؟ یہی نہ کہ جب تک لیبیا کا مرد آہن مغرب اور بالخصوص امریکہ کے خلاف ڈٹا ہوا تھا، اس کی پیٹھ پرملک کے عوام ڈٹے ہوئے تھے۔نائن الیون کے بعداس نے گھٹنے ٹیک دئے اورپھر دیکھتے ہی دیکھتے اس شیر عرب کی ہوا نکل گئی ۔اس لیے اس سانحہ میں مغرب کے لیے بھی بہت امید افزا پیغام نہیںہے، یہ اس قذافی کا قتل ہے جوامریکہ کی غلامی قبول کرچکا تھا۔امریکہ کی دشمنی جس کا تیس پینتیس برسوں تک کچھ نہیں بگاڑ سکی،اس کی چند برسوں کی دوستی نے اسے صفحہء ہستی سے مٹادیا۔ سوائے ایک اتنی سی راحت کے مغربی طاقتوں کے لیے اس میںاور کچھ نہیں ہے کہ عرب امراء و سلاطین قذافی کی اس موت سے ڈر کرپہلے سے بھی زیادہ سعادت مندی کے ساتھ ان کی فرما برداری کریں کیونکہ وہ دیکھ رہے ہیں کہ اگر ناٹو کی فوجی مداخلت نہ ہوتی تو لیبیا کے انقلابی اتنی آسانی سے اس کا یہ حشر ہرگز نہیں کر سکتے تھے۔اسی طرح لیبیا کے نئے حکمراںان کے احسان مند رہیں کہ یہ ان کے نجات دہندہ ہیں۔یہ عراق اور افغانستان سے مختلف تصویر ہے جو اس کے حصہ میں آئی ہے۔پچھلے دنوں برطانوی اخبارات نے لیبیا کے اس انقلاب کا سہرا مغربی طاقتوں کے سر باندھتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ سلامتی کونسل کی منظوری سے بہت پہلے برطانیہ کے کمانڈوز لیبیا میں اتر چکے تھے۔یہ خصوصی دستہ ایس اے ایس کے کمانڈوز تھے جنہیں ایک نجی کمپنی کے ذریعہ لیبیا بھیجا گیا تھا۔یہ کمانڈوز دنیا بھر میں لڑنے کا تجربہ رکھتے ہیں۔ ان کمانڈوز نے بڑے پیمانے پرقذافی مخالفین کوتربیت دی اور بعد میں ان ہی کمانڈوز نے عربوں کا بھیس بدل کرکئی محاذوں پر باغیوں کی قیادت بھی کی،اسی طرح سی آئی اے کے کمانڈوز بھی باغیوں کی مدد کررہے تھے۔کیا یہ اخبارات اب یہ بھی کہیںگے کہ قذافی کو بے رحمی سے قتل کرنے والے بھی وہی امریکہ اور برطانیہ کے تربیت یافتہ کمانڈوز تھے ؟اس وقت تو وہ انسانی حقوق کا مرثیہ پڑھنے کے ساتھ ساتھ عربوں کی سفاکی کا ڈنکا پیٹ رہے ہیں۔