فلسطین کے آنسو اور فلسطینیوں کی مسکراہٹ

Table of Contents

محمود عباس اور ان کی الفتح کے لیے اگر یہ ایک تاریخی جیت ہے تو حماس کی نگاہ میں فلسطین کی توہین اور مغربی سامراج کا ایک اور دھوکہ ۔

اسرائیل اور امریکہ اپنے اسی منصوبہ پر ایک ایک قدم کر کے آگے بڑھ رہا ہے جو پلان اس نے مرحوم یاسر عرفات کے سامنے رکھاتھااور جس جال میں آنے سے شیر عرب نے انکار کردیا تھا۔اوسلو معاہدہ کے بعد امریکی صدر بل کلنٹن اور اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق رابن نے صدر عرفات سے غرب اردن اور غازہ پٹی (نام نہاد خود مختار فلسطین )کو دنیا کی جنت بنا دینے کی پیشکش کی تھی ۔اس کے عوض ان کو صرف یروشلم پر اپنے دعوے سے دست بردار ہونا اور ۵۰ لاکھ فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی کی ضد ترک کرناتھا

احمدجاوید
گزشتہ سے پیوستہ
فلسطین کے لوگ ابھی لہولہان تھے، ابھی اسرائیلی بمباری کی چنگاریاں ان کی آنکھوں میں چمک رہی تھیں ، ابھی ان کے زخموں سے خون ابل رہا تھااور وہ ابھی تڑپ ہی رہے تھے کہ نیویارک سے فلسطین کو اقوام متحدہ میں مبصر ریاست کا درجہ دینے کی خبر آئی اور ہماری آنکھوں کے سامنے یہ منظر تھاکہ جیسے کوئی لہولہان شخص بے شان و گمان مسکرا دے ،جیسے کوئی معصوم بچہ روتے روتے ہنس دے یا جیسے کسی بیوہ کی مانگ میں کوئی اچانک سیندور بھر دے ۔اور میرے ذہن و فکرمیںمغربی سامراج کے مکرو فریب کی پوری ایک صدی گردش کر رہی تھی۔بالفور اعلامیہ کے اجرا کواب سو سال ہونے کو ہیں۔دنیا دیکھ رہی ہے کہ کیسا شرمناک دوہراکھیل ہے جو فلسطین کے ساتھ کھیلا جارہاہے اور یہ کہ جو کھیل پچھلی صدی کی ابتدا میں شروع ہواتھا وہ اکیسویں صدی کی دہلیز پر بھی بدستور جاری ہے۔نہ کسی کو فلسطین کے زخموں پر رحم آیا ،نہ اس کے بہتے لہو نے متأثر کیا،نہ اس کی معصومیت پر ترس آئی،صیہونیت کل بھی پھل پھول رہی تھی آج بھی پھل پھول رہی ہے۔یہ معمہ شاید ایک عام آدمی کی سمجھ میں نہ آئے کہ امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطین کو مبصر ریاست کا درجہ دینے کی اس تجویز کی سخت مخالفت بھی کی ، اس کی منظوری پر اپنی شدید ناراضگی کا اظہار بھی کیالیکن ان میں سے کسی نے اس کے خلاف اپنے حق تنسیخ(ویٹو)کا استعمال کیوں نہیں کیا۔اسرائیل کے لیے بات بات پر ویٹوکا استعمال کرنے اور اس کی انسانیت سوز فوجی کارروائیوںکی مذمت تک کی قرار دادیں منظور نہ ہونے دینے والے امریکہ نے بھی اس بار ایسا نہیں کیالیکن نیو ورلڈآرڈر اور اسرائیل و فلسطین کی تازہ سیاسی صورتحال پر نگاہ رکھنے والے کسی طفل مکتب کو بھی بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس کاراز کیا۔
یہ ۱۹۳۹ء کا واقعہ ہے۔برطانیہ نے فلسطین پر ایک اور قرطاس ابیض جاری کیا تھا۔وہ ایک طرف عربوں کو یہ یقین دہانی کرارہاتھاکہ یہودیوں کے قومی گھر سے اس کی مرادکوئی علاحدہ مملکت نہیں بلکہ یہودیوں کی ثقافتی خود مختاری ہے لیکن دوسری جانب وہ یہودیوں کی اس تحریک نقل مکانی کی حمایت بھی کررہا تھاجو وہ فلسطین کو اپنا ملک بنانے کے لیے چلا رہے تھے۔اس نے اس ا قرطاس ابیض میں اس تحریک کی مخالفت کی ڈھکے چھپے لفظوں میں مذمت کی تھی تاکہ عربوں کو دی جانے والی طفل تسلیوں پر صیہونی لیڈران چیں بہ جبیں نہ ہوں۔اس دستاویز میںفلسطین میں یہودیوں کے زمین خریدنے پر پابندی عاید کی گئی تھی اور اس میں فلسطین کی آزادی کا ایک دس سالہ منصوبہ بھی بیان کیا گیاتھا۔لیکن اب بہتر سال بیت گئے فلسطین کو تو آج تک آزادی نہیں ملی، ہاں!اسرائیل کی علاحدہ مملکت چند ہی برسوں میں وجود میں آگئی تھی۔امریکہ اور برطانیہ نے ۲۰ اپریل ۱۹۴۶ء کوسوئزرلینڈ میںفلسطین سے متعلق ایک مشترکہ رپورٹ جاری کی تھی۔اس اینگلو امریکن انکوائری رپورٹ کے انڈیکس نمبر ۴ میںفلسطین کا تاریخی پس منظر تحریر کیا گیا ہے اور لکھا گیا ہے کہ پہلی جنگ عظیم سے پہلے فلسطین کی کل آبادی۶ لاکھ ۸۹ ہزار تھی اور اس میں یہودیوں کی تعداد فقط ۸۵ ہزار۔لیکن اسی امریکہ، برطانیہ اور اس کے حلیفوں نے پہلی جنگ عظیم سے دوسری جنگ عظیم تک کی درمیانی مدت میں دنیا بھر سے ہزاروں یہودیوں کو فلسطین پہنچایا بھی اوردوسری جنگ عظیم کے بعد ڈیڑھ دوسال کے اندر اندردنیا کے نقشہ پر اس نئے ملک کو جنم بھی دے دیاجو مغربی سامراج کی کوکھ میں پہلی جنگ عظیم کے زمانے سے پل رہاتھا۔ ہم اگر آج اقوام متحدہ میں فلسطین کو مبصر ریاست کا درجہ دئے جانے کو فلسطین کی جیت سمجھیں تو یہ ایک تاریخی بھول اور ایک انتہائی بھیانک سادہ لوحی ہوگی۔اسرائیل ، امریکہ اور ان کے حلیف ممالک تو کب سے چاہتے ہیں کہ فلسطین ایک علاحدہ نیم خود مختار ریاست کی حیثیت سے خود کو تسلیم کرلے کیونکہ اسی صورت میں اسرائیل کو اپنے وجود کی ضمانت حاصل ہوسکتی ہے ورنہ پچھلی ایک صدی سے دنیا کے کونے کونے سے یہودیوں کو یہاں لا لاکر بسائے جانے کے باوجود بھی وہ اقلیت میںہیں۔
صدر بارک ابامہ نے پچھلے سال بہار عرب کے پس منظرمیں امریکی جیوش کمیونٹی سے خطاب کرتے ہوئے اسرائیل کو مشورہ دیا تھاکہ اگر اسے اس کی سرحدوں کے تحفظ کی ضمانت مل جاتی ہے تو بہتر ہوگا کہ وہ ۱۹۶۷ء کی سرحدوں پر چلا جائے۔یہ کوئی اتفاقی مشورہ ، محض جوش رواداری یا عربوں کا خوف نہیں تھا۔یہ مستقل امریکی پالیسی ہے جس میں وقت کے لحاظ سے پیش قدمی یا پسپائی ہوتی رہتی ہے لیکن بنیادی موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ اسرائیل اور امریکہ اپنے اسی منصوبہ پر ایک ایک قدم کر کے آگے بڑھ رہا ہے جو پلان اس نے مرحوم یاسر عرفات کے سامنے پیش کیاتھااور جس جال میں آنے سے شیر عرب نے صاف انکار کردیا تھا۔ مبصر ریاست کا یہ درجہ بھی ایک جال ہے ۔اوسلو معاہدہ کے بعد امریکی صدر بل کلنٹن اور اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق رابن نے صدر عرفات سے غرب اردن اور غازہ پٹی (نام نہاد خود مختار ریاست )کو دنیا کی جنت بنا دینے کی پیشکش کی تھی ۔اس کے عوض ان کو صرف یروشلم پر اپنے دعوے سے دست بردار ہونا اور ۵۰ لاکھ فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی کی ضد ترک کرناتھالیکن یاسر عرفات نے ان سے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ پناہ گزینوں کی واپسی اور یروشلم ( بیت المقدس) کے بغیر وہ فلسطین کا تصور بھی نہیں کر سکتے اور ان کا یہی قصور تھا کہ جس شخص کو امریکہ نے کل وہائٹ ہاؤس کے سبزہ زار پر استقبالیہ دیا تھا،اگلے دن اسی کو نشان عبرت بنا دینے کی دھمکی دے دی تھی اور یک طرفہ طور پر یروشلم کو فلسطین کی راجدھانی تسلیم کر لینے اور تل ابیب سے امریکی سفارت خانہ منتقل کرکے یروشلم لے آنے کا اعلان کردیاتھا۔اس کے بعد اس وقت تک یاسر عرفات کو راملہ میں محصور رکھا گیا جب تک کہ وہ شدید بیمار نہ ہوگئے اور ان کو بے ہوشی کی حالت میں علاج کے لیے باہر لے جایا گیا جہاں سے ان کا جنازہ آیا اور ان کی جگہ الفتح میں ان کے بائب محمود عباس نے لی۔اس کے بعد کے سلسلہ واقعات پر نگاہ ڈالیں تو آپ پائیںگے انتخابات میں حماس کو عوام کی زبردست حمایت حاصل ہوئی لیکن اسرائیل ، امریکہ اور ان کے حلیفوں نے اس کی حکومت کو تسلیم نہیں کیاکیونکہ یہ ان کی نگاہ میں دہشت گردوں کی تنظیم ہے، محمودعباس امریکہ کی گود میں کھیلنے لگے اور اس کے نتیجے میں فلسطین انتظامی طور پر مغربی کنارے اور غازہ پٹی میں تقسیم ہوگیا اور اب بھی تقسیم ہے۔محمود عباس کی تجویز پر اقوام متحدہ میں فلسطین کو مبصر ریاست کا درجہ دیا جانا اگر الفتح کے لیڈران و کارکنان کی تاریخی جیت ہے تو حماس کی نگاہ میںجو فلسطین ا ورالقدس کی مکمل اور غیر مشروط آزادی سے کم پر کسی قیمت پر راضی نہیںہے، یہ فلسطین کی توہین اور اس کے ساتھ مغربی سامراج کا ایک اور دھوکہ ہے ۔
تصویر کا ایک اور رخ یہ ہے کہ اس وقت اسرائیل میں بھی انتخابات ہونے ہیں اور فلسطین میں بھی محمود عباس کو انتخابات کا سامنا کرنا ہے۔بین الاقوامی مبصرین کی رائے ہے کہ غازہ پر حملے کی وقتی وجہ چاہے جو بھی رہی ہو،خواہ حماس کے فوجی سربراہ کے قتل کے جواب میں راکٹ داغے جانے کے ردعمل میں ہی اس نے ایسا کیوںنہ کیا ہولیکن غازہ پٹی کو لہولہان کیا جانا بھی نتن یاہو کی ناپاک سیاست تھی، امریکہ کی مداخلت پر جنگ بندی بھی اسی کھیل کا حصہ ہے اور فلسطین کویو این میںمبصر ریاست کا درجہ دینے کی تجویز بھی محمود عباس کی امیج سازی کی مہم کا حصہ ہے۔اس وقت ہم دیکھ رہے ہیں کہ فلسطین کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے عزم مصمم کا اظہار اور فلسطینی انتظامیہ کا فنڈ روک دینے کا اعلان کر کے نتن یاہو نے متوسط طبقات کے ووٹروں کو اپنے حق میں کرلیا ہے ورنہ لگاتار جنگ اور تشدد کے نتیجے میں اسرائیل میں ایک ایسا طبقہ پیدا ہوچکا ہے جو عدم استحکام ، عدم تحفظ اور خوف و دہشت سے نکلنا چاہتا ہے ۔۲۰۰۵ ء میں غازہ پٹی سے اسرائیل کا انخلا یہی اندرونی دباؤ تھا۔ ۵۰لاکھ فلسطینیوں کو بے گھر اور مزید ۲ کروڑ کو دوسرے درجے کا شہری بناکر اگر اسرائیل اپنے وجود کی گارنٹی چاہتا ہے اور امریکہ و برطانیہ اس کی پشت پناہی کر رہے ہیں تو ان میں سے ہر ایک خوب واقف ہے کہ یہ کاٹھ کی ہانڈی کب تک چولہے پر چڑھی رہے گی۔اسرائیلی قیادت اقتدار پر قابض رہنے کے لیے بھی دفاع کی آڑ میں جنگی جنون پیدا کرتی ہے اور اسرائیل کے وجود کی گارنٹی برقرار رکھنے کے لیے بھی ایسا کرنا ضروری ہے۔یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ ۱۹۹۶ء میں لبنان پر اور ۹۔۲۰۰۸ء میں غازہ پر حملے کا فیصلہ اس نے عام انتخابات سے ٹھیک پہلے کیاتھا۔

مصنف کے بارے میں

احمد جاوید

احمد جاوید اردو کے ممتاز صحافی، مصنف، مترجم اور کالم نگار ہیں۔ تاریخ و تمدن پر گہری نظر اور ادب و صحافت میں اپنے منفرد اسلوب سے پہچانے جاتے ہیں۔

مزید