استاد برہان الدین ربانی کے قتل کی خبر آئی تو افغانستان کی نصف صدی نگاہوں میں پھر گئی۔وہ ایک شخص نہیں ، ایک تحریک ، ایک تنظیم اور ایک چلتی پھرتی تاریخ تھے، اورتاریخ کے اس نازک موڑ پر افغانستان کو ان کی ضرورت ہمیشہ سے زیادہ تھی ۔
فکرفردا
ابھی بہت زیادہ دن نہیں ہوئے جب ڈنمارک کے ایک ملعون کارٹونسٹ نے اسلام اور پیغمبر اسلام کا خاکہ اڑایا تھااور دنیا بھر کے مسلمان بے چین ہو اٹھے تھے۔اس گستاخی کے خلاف افغانستان میں مظاہروں کے دوران درجن بھر سے زائد مسلمانوں کی جانیں چلی گئی تھیں۔ان خاکوں میں سے ایک میںنعوذباللہ محمد ﷺکی پگڑی کو بم کی شکل دی گئی تھی جو اب پھٹنے ہی والا تھا۔ایک اور کارٹون میں پیغمبر اسلام کوایک بارود سے بھرے ٹرک کا ڈرائیور دکھایا گیا تھا۔ دوسرے کارٹون بھی کم وبیش اسی نوعیت کے تھے۔سوچتا ہوں کہ اس گستاخ کارٹونسٹ کا جرم بڑاتھایا ان اسلام کے نام لیواؤںکا جرم بڑا ہے جوسچ مچ پگڑیوں میں بارود لیے پھرتے ہیں؟
احمدجاوید
کابل سے پروفیسر برہان الدین ربانی کے قتل کی خبر آئی توکسی ڈراؤنی فلم کے خونی مناظر کی طرح افغانستان کی نصف صدی نگاہوں میں پھر گئی۔استاد ربانی صر ف ایک شخص نہیں ،ایک تحریک ،ایک تنظیم اور ایک چلتی پھرتی تاریخ تھے۔تاریخ کے بہت سے راز ان کے سینے میں دفن تھے جو ان ہی کے ساتھ اب ہمیشہ کے لیے دفن ہوگئے ۔آپ کو ان کے نظریے اور طریق کار سے اختلاف ہوسکتا تھا، ناقدین کوان کی ذات میںکئی کمیاں مل سکتی تھیں، مبصرین ان کوایک سیاسی مدبر کی حیثیت سے افغانستان اور اسلام کا ایک گرانقدر سرمایہ بھی قرار دے سکتے ہیںاورافغانستان کی قابل رحم حالت کا سب سے بڑا ذمہ دار بھی۔ لیکن کسی متعصب سے متعصب مؤرخ کوبھی اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ جس ایک شخص نے گزشتہ نصف صدی میں افغانستان کو سب سے زیادہ متأثر کیا، وہ استاد برہان الدین ربانی تھے۔ ان کے قتل کی المناک خبر کے ساتھ یہ خبر بھی آئی جو زیادہ بڑی اور زیادہ اندوہناک خبر تھی کہ ان کے قاتل مذاکرات کار کی صورت میں ان کے پاس آئے تھے،یہ طالبان کے نمائندے اورقابل اعتماد افراد تھے لیکن اپنی پگڑیوں میںبم لائے تھے۔ پھرتواسلام اور عالم اسلام میں دہشت گردی کی پوری تاریخ، اسلام کے نام پر اسلام کے قتل کی انگنت خوں چکا ں داستانیں ،خوارج سے لے کر قرامطہ ،باطنیہ ، حشاشین اور موحدین تک کے کارنامے کسی آندھی سے پلٹ جانے والی کتاب کے اوراق کی طرح سطح ذہن پر الٹ پلٹ کر رہے تھے اور اپنے آپ کوان سے نکال پانامشکل تھا۔اس لیے کہ ہم ان میں سے نہیں ہیں جو عالم اسلام کی ہر خرابی کی جڑ بیرونی سازشوں میں ڈھونڈتے،اپنے اندر کے شیطان کو دیکھ کر بھی نہیں دیکھتے اور جہاد یا سرکشی میں فرق نہیں کر سکتے۔ابھی بہت زیادہ دن نہیں ہوئے جب ڈنمارک کے ایک ملعون کارٹونسٹ نے اسلام اور پیغمبر اسلام کا خاکہ اڑایا تھااور دنیا بھر کے مسلمان بے چین ہو اٹھے تھے۔اس گستاخی کے خلاف افغانستان میںپرتشدد مظاہروں کے دوران درجن بھر سے زائد مسلمانوں کی جانیں چلی گئی تھیں۔ان خاکوں میں سے ایک میںنعوذباللہ محمد ﷺکی پگڑی کو بم کی شکل دی گئی تھی جو اب پھٹنے ہی والا تھا۔ایک اور کارٹون میں پیغمبر اسلام کوایک بارود سے بھرے ٹرک کا ڈرائیور دکھایا گیا تھا۔ دوسرے کارٹون بھی کم وبیش اسی نوعیت کے تھے۔سوچتا ہوں کہ اس گستاخ کارٹونسٹ کا جرم بڑاتھایا ان اسلام کے نام لیواؤںکا جرم بڑا ہے جوسچ مچ پگڑیوں میں بارود لیے پھرتے ہیں؟
استاد برہان الدین ربانی نائن الیون کے بعد کے تباہ شدہ افغانستان میں’ متوازی حکومت کے صدر کے طور پرامریکی ٹینکوں پر بیٹھ کر کابل میں داخل ہوئے تھے‘۔وہ ملک میں قیام امن کی کوششوںمیں مصروف تھے اور اس کے لیے ہر فریق سے بات کرنا چاہتے تھے، ہر قسم کے روابط کا استعمال کررہے تھے۔لیکن بد قسمتی سے وہ طالبان کے لیے کفار کے ساتھی اور واجب القتل تھے توپاکستان مخالف عناصر کے لیے آئی ایس آئی ایجنٹ ۔ نہ وہ پاکستان کے پورے بھروسے کے قابل تھے نہ ان کو امریکہ کا مکمل اعتمادحاصل تھا،ہندوستان ان کو طالبان اور پاکستان کے مقابلے اپنا دوست باور کراتا تھالیکن وہ اس کی نگاہ میںبھی افغانستان کے مودودی اور سید قطب تھے۔ افغانستان کی سیاست میں شاید ان کا سب سے بڑا قصور یہی تھا کہ وہ کسی کا آلہ کار بننے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے ،اسلام اور افغانستان سے ان کی وفاداری اٹوٹ تھی اور وہ خود ایک پر عزم سیاسی مدبر تھے۔ شاید امریکہ امن مذاکرات کو طالبان کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا چاہتا تھالیکن طالبان نے ان مذاکرات کواستاد ربانی کا قتل کرنے لیے استعمال کرکے اس سے بھی برا کیا۔کاش ! یہ ظالم ایسا نہ کرتے۔ افغانستان کوتاریخ کے اس نازک موڑ پران کی ہمیشہ سے زیادہ ضرورت ہے۔
برہان الدین ربانی نے ۱۹۴۰ء میں بدخشاں میں آنکھیںکھولیں۔وہ نسلا تاجک تھے۔ ان کی ابتدائی تعلیم و تربیت بدخشاں میں ہی ہوئی۔وہ اعلی تعلیم کے لیے کابل آئے جہاں دارالعلوم الشرعیہ (ابوحنیفہ) کے طالب علم تھے۔ دارالعلوم ابوحنیفہ سے فراغت کے بعد۱۹۶۳ء میں کابل یونیورسیٹی سے اسلامی دینیات وقانون میںگریجویشن کیا اور اسی سال کابل یونیور سیٹی میں اسلامی قانون کے استاد مقرر کردئے گئے۔۱۹۶۶ء میں وہ مصر گئے جہاں جامعہ الازہر(قاہرہ)سے اسلامی فلسفہ میں ماسٹر ڈگری لی۔مصر میں قیام کے دوران اخوان سے ان کا گہرا ربط پیدا ہوا اورکہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہی ان کی سیاسی زندگی کا اصل آغاز تھا۔کابل واپس آکرجو سب سے پہلا کام کیا وہ سید قطب شہید اور حسن البناکی کتابوں کا فارسی ترجمہ اور ان کی اشاعت تھی۔۱۹۶۸ء میں ان کو جمیعت اسلامی افغانستان کی مجلس شوری نے طلبہ تنظیم کی ذمہ داری سونپی ۔ کابل یونیورسیٹی کے طلبہ کی جس نسل نے آگے چل کر اشتراکیت اور روسی تسلط کے خلاف لوہالیا، ان میں اسلامی فکر کی آبیاری پروفیسر ربانی نے ہی کی تھی۔ ۱۹۷۲ء میں ان کو جمیعت اسلامی کا امیر منتخب کرلیا گیا۔جمیعت کے بانی غلام محمد نیازی بھی اس جلسے میں موجود تھے اوربلاشبہ یہ ربانی کی علمی قابلیت،سوجھ بوجھ،اور مجاہدانہ صلاحیتوں پرتنظیم کے اعتماد کاغیر معمولی اظہار تھا۔ ۱۹۷۴ء کا موسم بہار تھا جب کابل کی پولس ان کو گرفتار کرنے کے لیے یونیورسیٹی آئی تھی لیکن وہ طلبہ کی مدد سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ بہت کم لوگوں کے علم میں ہے کہ۱۹۷۴ء میںذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے پروفیسر ربانی کو پاکستان میں پناہ دی تھی کیونکہ وہ افغانستان کی سردار داؤد حکومت سے پاکستان کے علاحدگی پسند عناصر کی سرپرستی کا انتقام لینا چاہتے تھے۔پاکستانی ذرایع کی مانیں تو بھٹونے روس کے پٹھو سردار داؤد کو سبق سکھانے کے لیے استاد ربانی کو اپنا مہمان بنایاتھاجو افغانستا ن میںاسلام کا نفاذچاہتے تھے۔استاد ربانی اس وقت جن نوجوانوں کو اپنے ساتھ پاکستان لائے تھے ان میںگلبدین حکمت یار ، احمد شاہ مسعود اور جان محمد خاں شامل تھے۔یہ پروفیسر ربانی کی جمیعت اسلامی ہی تھی جس نے ۱۹۷۹ء کی بغاوت کے زمانے میں قیادت کا خلا پیدا نہیں ہونے دیا اور سوویت افواج کی پسپائی کے بعدسب سے پہلے ان ہی کی جماعت کے مجاہدین کابل میں داخل ہوئے تھے۔
غالبا ۱۹۸۲ء کے اواخر کی بات ہے۔اس وقت تک افغان مجاہدین لال فوج کے خلاف الگ الگ اور اپنے اپنے حلقہ اثر کے لحاظ سے مزاحمتی کارروائیاںکررہے تھے۔پروفیسر ربانی نے افغان لیڈروں کو ایک چھت کے نیچے بٹھایا اور ان کو منظم کر کے سات جماعتی اتحاد تشکیل دیا۔ان سات دھڑوں کے لیڈر مولوی یونس خالص،گلبدین حکمت یار،استاد برہان الدین ربانی، مولوی غلام نبی محمدی،پروفیسر صبغت اللہ مجددی،پیر سید احمد شاہ گیلانی اوراستاد عبد الرسول سیاف تھا۔اسی اتحاد نے افغانستان میں تاریخ کی طویل ترین گوریلا جنگ لڑی اور کامیابی حاصل کی۔لیکن اسے اس کے ثمرات نصیب نہیں ہوئے۔در اصل روسی افواج کے خلاف مجاہدین کی جنگ ابھی اپنے شباب پر تھی اور آثار نمودار ہوچکے تھے کہ اس اتحاد کی فتح ہوگی،ان ہی دنوں پتہ نہیںکن لوگوں نے استاد عبد الرسول سیاف پرایسی محنت کی کہ وہ جلد ہی سلفی المسلک ہو گئے۔پھر انہیں سلفی المسلک سعودیوں کی زبر دست حمایت حاصل ہوگئی۔بتدریج ان پر نئے مسلک کا غلبہ اتنا بڑھاکہ استاد عبد الرسول سیاف نے اپنا نام بدل کر عبدالرب رسول سیاف کرلیا۔ایسے لوگ عموما مسلک کو دین سمجھ لیتے ہیں اور دوسرے مسلمانوں کو بے دین،کافرومشرک بلکہ قابل گردن زدنی۔افغانستان میں طالبان کی یہ خشت اول تھی جس نے آگے چل کردنیا کی سب سے طاقتور فوج کوپسپا کر دینے والے اتحاد کا شیرازہ بکھیر دیا۔ بات یہ ہے کہ اول الذکر دونوں دھڑوں کا اثرورسوخ اہل سنت کے علماومشائخ میںتھا،بقیہ دھڑے بہت چھوٹے تھے۔استاد سیاف کی تبدیلی مسلک اور اپنے نئے مسلک کے تئیںان کی شدت نے اتحاد کا ایسا شیرازہ بکھیرا کہ عرصہ دراز تک خانہ جنگی جاری رہی۔استاد ربانی اور ان کی جمعیۃسیاف کے شمالی اتحادمیں شامل ہوگئی اور ان کااساطیری شہرت کاحامل گوریلاکمانڈراحمدشاہ مسعودحکمت یار خاں پر پل پڑا۔یاد رہے کہ اسامہ بن لادن شمالی اتحاد کے لیڈر سیاف کی دعوت پر ہی ۱۹۹۶ء میںسعودی عرب سے افغانستان آیا تھا۔بعد میں جب طالبان نے کابل پر غلبہ حاصل کرلیاتو اپنی پناہ میں لے کراسے قندھار منتقل کیا۔اس وقت تک شمالی اتحاد کی حکومت کوامریکہ اور سعودی عرب کے ساتھ ساتھ پاکستان کی حمایت بھی حاصل تھی جس کے سربراہ پروفیسر ربانی تھے لیکن طالبان کا غلبہ جیسے جیسے بڑھتا گیا،یہ حمایت ان کی جانب منتقل ہوتی گئی جبکہ طالبان کے مقابلے پرشمالی اتحاد کوہندوستان، روس اور ایرن کی تائید حاصل تھی جس کوپاکستان مخالف گٹھ جوڑ تصور کیا جاتا تھا۔
جن دنوں افغانستان پر روسی افواج اور اشتراکیت پسندوں کا تسلط قائم تھا،روسی مظالم کی لرزہ خیز خبریںسنکرکراچی کے مشہور مدرسہ جامعہ بنوریہ ٹاؤن سے طلبا کی ایک جماعت افغانستان گئی جس کی قیادت ارشاد حسین نام کا ایک طالب علم کر رہا تھا۔یہ جماعت غلام نبی محمدی کی جماعت میںشامل ہو گئی۔پھر پاکستانی طلبہ کی کئی کھیپ وہاں گئی اورمولوی محمدی کادھڑا نسبتا مضبوط ہونے لگا لیکن بعد میں ان کا اختلاف ہو گیا اور ان طلبہ نے مولانا فضل الرحمان خلیل کی سر پرستی میں حرکۃ الجہاد الاسلامی بنائی۔ حرکۃ المجاہدین اور حرکۃالانصار اسی سے پیدا ہونے والی تنظیمیں ہیں۔طالبان کا تیسرا گروہ وہ تھا جن کو پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں نے پاکستان کے شمال مغربی علاقوں میں سرگرم عمل کیاتھا۔ اپنے مسلک کو فروغ دینے کے حریص طلبا اور علما کے جتھوں کے جتھے ان سرحدی علاقوں میںبھیجے گئے جنہوں نے وہاں بڑے پیمانے پر تشدد کا بازار گرم کیا۔حتی کہ مقامی شیعہ اور آغا خانی آبادیوں کی جائدادیں تک غصب کرلی گئیں۔ یہ مہم اس خطے کی آبادی کی بناوٹ تبدیل کرنے کی پاکستان کی منصوبہ بند کوشش تھی۔ طالبان کا چوتھاگروہ وہ تھا جو۱۹۹۵ ء کے آس پاس افغان پاک سرحدپر واقع چمن، اسپن بلدوک کے علاقے اور قندھار کے ایک مدرسہ سے ابھرا۔چمن کے علاقے میں واقع مولانا سمیع الحق کا مدرسہ اس کا بھرتی کیمپ بن گیا۔وہ جمعیۃ علمائے اسلام (پاکستان) کے ایک دھڑے کے سربراہ ہونے کی حیثیت سے صوبہ سرحد کے بعض علاقوں میں زبردست اثرو رسوخ رکھتے تھے( اسی تعلق کی بنا پر طالبان کو دیو بندی کہا جاتا ہے) ۔ جمعیۃ علمائے اسلام کے دوسرے دھڑے کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے بھی طالبان لیڈروں سے گہرے مراسم تھے، قندھار کے طلبہ کی اس نئی تحریک نے افغانستان کو اس طویل خانہ جنگی سے نجات دلائی جو سوویت یونین کی پسپائی کے بعد پھوٹ پڑی تھی۔اس سے آگے کی کہانی یہاںدوہرانے کی ضرورت نہیں ، صرف اتنا جان لینا کافی ہے کہ طالبان کو استاد ربانی، گلبدین حکمت یار،حاجی اسمعیل خاں،استاد سیاف اور احمد شاہ مسعود کی غلطیوں نے پروان چڑھایا۔
۱۹۹۲ء میںصبغۃ اللہ مجددی کوافغانستان کی عبوری حکومت کا صدر بنایا گیاتھا لیکن وزیر دفاع احمد شاہ مسعود نے اپنے ہی صدر پرقاتلانہ حملہ کرادیا،ان کے جہاز پر راکٹ فائر کئے گئے ۔ انہو ںنے صدارت چھوڑ دی اور استاد ربانی نے صدارت سنبھال لی۔پھر احمد شاہ مسعود اور حکمت یار نے آپس کی لڑائی میں کابل کو تباہ کردیااور استاد ربانی کچھ نہ کرسکے۔۱۹۹۳ء میں ان افغان لیڈروں کو مکہ مکرمہ میں جمع کیا گیا۔طے پایا کہ ربانی صدر اور حکمت یار وزیر اعظم ہوںگے،سب نے قرآن پاک پرہاتھ رکھ کر ایک دوسرے سے تعاون کی قسمیں کھائیں لیکن واپس آکر پھر لڑنے لگے۔یہاں تک کہ قندھار سے طالبان اٹھے اور کابل پر قابض ہوگئے۔صدر ربانی کوکابل چھوڑناپڑا۔وہ دوبارہ کابل میں داخل ہوئے تو طالبان اور افغانستان دونوں کو امریکہ تباہ کر چکا تھا۔اب ایک بار پھر استاد ربانی وہی کوششیں کررہے تھے جو ۱۹۸۲ء کے اواخر میں کی تھیں اور جن کے نتیجے میںوہ اس اتحاد کی بنیاد رکھنے میں کامیاب ہوگئے تھے ، جس نے تاریخ کی طویل ترین گوریلا جنگ لڑی اور دنیا کی طاقتور ترین فوج کو پسپا کرنے میں کامیابی حاصل کی ۔
وہ ایران کے دورہ پر تھے اور واپسی میں دبئی میں رکے تھے ۔ان کو یہ کہہ کر بلایا گیا کہ امن مذاکرات کے لیے ایک بہت ہی اہم ٹیم آرہی ہے۔منگل (۲۰ستمبر)کی صبح پروفیسر ربانی کے معتمد خاص محمد معصوم استانک زئی کے ہمراہ وہ ٹیم ان سے ملنے آئی۔ یہ طالبان کے دو نمائندے تھے اورافغان امن کونسل کے رکن فضل کریم اعماق کی مانیں تو وہ دونوں انتہائی قابل اعتمادافرادتھے۔افغانستان کے سابق صدر پروفیسر ربانی نے آگے بڑھ کر ان مہمانوں کو گلے لگایااور پھر وہ سانحہ گزر گیا جس کا کسی نے تصور نہیں کیا تھا۔ یہ افغانستان میں اپنی نوعیت کی پہلی واردات نہیں تھی۔۲۰۰۱ء میں افغانستان پرامریکی فوج کشی سے ٹھیک ایک دن پہلے پروفیسر ربانی کے دست راست اوراساطیری شہرت کے حامل تاجک کمانڈر احمد شاہ مسعود کو بھی اسی طرح قتل کیا گیا تھا۔ ان کا قاتل صحافی کی صورت میں ان سے ملنے آیاتھااور وہ کیمرے میں چھپا کر بم لایاتھا۔ ابھی اسی جولائی میںقندھار کے گورنر غلام حیدر حمیدی کو بھی اسی طرح قتل گیا گیا تھا، ان کا قاتل بھی پگڑی میں بم لے کر آیا تھا۔ اس سے پہلے احمد ولی کرزئی کوبھی قندھار میں اسی قسم کی ایک خود کش کارروائی میں قتل کیاگیا۔ بے شک پروفیسر برہان الدین ربانی کے قتل کے لیے دشمنوں نے جو طریقہ اختیار کیاافغانستان کی مزاحمتی سیاست میں یہ نیا نہیں ہے لیکن اس کے لیے جس تواتر کے ساتھ پگڑی کا استعمال جارہا ہے،وہ استاد ربانی کے قتل سے زیادہ بڑا سانحہ ہے، یہ صرف ایک شخص کا قتل نہیں،افغانستان کی روایات، اسلام اور انسانیت کاقتل ہے۔ایک بنیادی سوال یہ بھی ہے کہیہ طالبان ہی تھے جن کی حکومت نے ایک مہمان کے لیے پورے ملک کو داؤ پر لگادینا گوارا کر لیا لیکن ان کو افغانستا ن کی روایات سے سمجھوتہ گوارا نہیں تھااور یہ بھی طالبان ہی ہیں جو پگڑیوں میں بارود لیے پھرتے ہیں؟