کسی ملک اور معاشرے میں جب جب انقلاب دستک دیتا ہے،اس کا جائزاور ناجائزفائدہ اٹھانے والے بھی سر گرم ہوجاتے ہیں اور بہت سے دوسرے لوگ اپنی جھوٹی انا،ضد،سادہ لوحی یاحماقتوں کے باعث ان کے مدد گار بن بیٹھتے ہیں۔
احمدجاوید
فکرفردا
یہ شکست خوردگی کی نفسیات ہے جو ہر انقلاب میں کسی بیرونی طاقت کا ہاتھ ڈھونڈ لیتی ہے۔ اسی پر تکیہ کیے رہتی ہے ۔اپنوں کی کامیابی کا سہرا بھی اوروں کے سر باندھ دیتی ہے ۔یہ وہی لوگ ہیںجنہوںنے انقلاب ۱۸۵۷ء میں جنرل بخت خاں اورعلامہ فضل حق کی تو ایسی تیسی کردی لیکن ہر صبح یہ مسجدوں کی چھتوں ،قلعوں اور پہاڑیوں پر چڑھ کر دیکھتے تھے کہ شاہ طہماسپ کی فوجیںآرہی ہیں ،ان کوانتظار تھا کہ شاہ ایران کی فوجیںآکر انگریزوں سے مقابلہ کریںگی۔ یہ ایمان لائے بیٹھے ہیں کہ ہم کچھ کرہی نہیں سکتے،دنیا کا ہر سیاہ وسفیدصیہونیت کی مرضی پر موقوف ہے،جوکچھ ہونا ہے وہ یہودونصاری ہی کر سکتے ہیںیا ان کے ایجنٹ۔
اردو کے ایک نامور صحافی نے لیبیا کے انقلاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لندن سے لکھا کہ’’ مغرب نے ان کو استعمال کرلیا‘‘اور’’مغربی طاقتیںافغانستان اور عراق کے بعد ایک اور مسلم ملک کو زیر کرنے میںکامیاب ہوگئیں‘‘ تومیری زبان سے بے ساختہ نکلا کہ’ ہمارے بزرگ دوست نے بہ یک جنبش قلم ان ہزاروں نوجوانوں کے خون پر کالک پھیردی جو کرنل قذافی اور ان کی فوج کے ہاتھوںشہید ہوئے، ان تمام علماو دانشوران،بیوروکریٹس،سفارت کاران،فوجی افسروں اور سپاہیوںکی قربانیوں کی نفی کر دی، جنہوں نے قذافی کے خلاف اپنا سب کچھ دائو پر لگادیا تھا،اوران انقلابی رہنمائوں کی ساری کی ساری جدوجہد، محنت، منصوبہ بندی، برسوں کی تگ و دو اور قائدانہ صلاحیتوں کو دریا برد کر دیاجن کی آواز پر لاکھوں لوگ سڑکوں پر اتر آئے ‘۔ عالم اسلام اورسیاسیات عالم پر گہری نظر رکھنے والے اپنے ایک د انشور دوست سے میں نے جب اس واقعہ کا ذکر کیا اور بتایا کہ موصوف نے انکشاف فرمایا ہے کہ’ لیبیا کے انقلاب کی منصوبہ بندی امریکا کی ایما پرتقریبا ایک سال پہلے لندن اور پیرس میں کی گئی تھی اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظوری سے بہت پہلے برطانیہ کے کمانڈوز لیبیا میں اتر چکے تھے۔یہ کمانڈوز براہ راست برطانوی فوج سے منسلک نہ تھے بلکہ خصوصی دستہ ایس اے ایس کے سابق کمانڈوز تھے جنہیں ایک نجی کمپنی نے لیبیا بھیجا تھا۔یہ کمانڈوز دنیا بھر میں جنگی محاذوں پر لڑنے کا تجربہ رکھتے ہیں۔ ان کمانڈوز نے بڑے پیمانے پر قذافی مخالفین کو تربیت دی اوربعد میں کئی محاذوں پرباغیوں کی قیادت بھی کی‘ تو پہلے ا نہوںنے ایک زوردار قہقہہ لگایا،پھر کہنے لگے کہ شکر ہے، انہوں نے یہ نہیں لکھا کہ ان کمانڈوز نے آنافانا اپنے چہروں پرلمبی لمبی داڑھیاں بھی بڑھا لی تھیں،میدان جنگ میں وہ نماز بھی پڑھ رہے تھے، انقلابیوں کو نمازپڑھا بھی رہے تھے اور وہی اب لیبیا میں اسلامی شریعت پر مبنی جمہوری نظام کے قیام کی پیشرفت بھی کرارہے ہیں۔در اصل یہ شکست خوردگی کی نفسیات ہے جو ہر انقلاب میں کسی بیرونی طاقت کا ہاتھ ڈھونڈ لیتی ہے۔ اسی پر تکیہ کیے رہتی ہے ۔یہ وہی ہیںجنہوںنے انقلاب ۱۸۵۷ء میں جنرل بخت خاں اورعلامہ فضل حق کی تو ایسی تیسی کردی،لیکن ہر صبح یہ مسجدوں کی چھتوں ،قلعوں اور پہاڑیوں پر چڑھ کر دیکھتے تھے کہ شاہ طہماسپ کی فوجیںآرہی ہیں ،ان کوانتظار تھا کہ شاہ ایران کی فوجیںآکر انگریزوں سے مقابلہ کریںگی۔ یہ ایمان لائے بیٹھے ہیں کہ ہم کچھ کرہی نہیں سکتے،دنیا کا ہر سیاہ وسفیدصیہونیت کی مرضی پر موقوف ہے،جوکچھ ہونا ہے وہ یہودونصاری ہی کر سکتے ہیںیا ان کے ایجنٹ۔
ہر انقلاب کی اپنی عمرانیات ہوتی ہے۔کسی ملک اور معاشرے میں جب جب انقلاب دستک دیتا ہے،اس کا جائزاور ناجائزفائدہ اٹھانے والے بھی سر گرم ہوجاتے ہیں اور بہت سے دوسرے لوگ اپنی جھوٹی انا،ضد،سادہ لوحی یاحماقتوں کے باعث ان کے مدد گار بن بیٹھتے ہیں۔اس کی تازہ اور بالکل سامنے کی مثال ہمارے انا ہزارے اور ان کے ساتھیوں کی بدعنوانی مخالف تحریک،اس کے کندھوں پرسوار ہونے کی سنگھ پریوار کی کوششیںاور سب سے بڑھ کرگجرات کے وزیراعلی نریندر مودی ہیںجنہوں نے اب اچانک مہاتما بننے کی مہم چھیڑ دی ہے۔یہ اس انقلاب کو ہائی جیک کرنے کی بے چینی ہے جس کی علامت بن کر انا ہزارے ابھرے ہیں ورنہ مودی اور ستیاگرہ ،چہ نسبت خاک را با عالم پاک۔ماروکاٹو پارٹی کا سب سے بڑالیڈرآج فرقہ وارانہ ہم آہنگی ،سد بھاونااوراختلاف میں اتحاد کی بات کر رہاہے۔ یہ اپنی ہر تنقیدکو گجرات کی عزت و وقار کا سوال بنالینے،بات بات پر گجرات کوبدنام کرنے والوں کو للکارنے اورمسلمانوں کو نشانہ بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دینے والا مودی ہی ہے جو ملک بھر کے اخبارات میں پورے پورے صفحے کا اشتہار دے کرکہہ رہاہے کہ گذشتہ دس برسوں میںجنھوں نے میری کوتاہیوں سے مجھے آگاہ کیا،میں ان سب کا تہہ دل سے احسان مند ہوں۔کسی کے خواب و خیال میں بھی نہیں رہا ہوگا کہ بات بات پر اپنے مخالفین کو للکانے والا مودی اس طرح اپنی غلطیوں کے لیے معافی مانگے گا،اس کے لیے تین تین دن کے فاقے پر بیٹھے گا،اور عرض گزارے گا کہ بھید بھائو اور فرقہ پرستی سے کبھی کسی سماج کابھلا نہیں ہوا ہے۔یہ کہنا تو مشکل ہے کہ مودی کو سچ مچ وہ بات سمجھ میں آگئی ہے جو اب تک ان کو لوگ سمجھانے کی کوشش کرتے آئے ہیں یا ان کو واقعی اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے اور وہ دل سے بدل گئے ہیںلیکن یہ تو ہرکس وناکس پر عیاں ہے کہ ا ن کو اس لہرمیں اپنا مستقبل نظر آرہاہے جو انا کی بھوک ہڑتال نے جنم دی ہے۔وہ سمجھ رہے ہیں کہ انشن کرکے وہ مہاتما نہیں بن سکتے لیکن اس لہر سے فائدہ ضرور اٹھا سکتے ہیں جس نے انا ہزارے کو کروڑوں نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن بنادی ہے۔
یہ محض اتفاق ہے کہ جس وقت اروند کیجریوال وشو ہندو پریشد کے اس دعوے کی تردیدکررہے تھے کہ رام لیلا میدان میں انا ہزارے کی ستیا گرہ کے دوران کھانے پینے کے انتظامات ہندو پریشد کے لوگوں نے سنبھال رکھے تھے، عین اسی وقت ’ندوہ‘ کے ایک فاضل نوجوان راقم سے یہ دریافت کر رہے تھے کہ ونوبا بھاوے اور ان کی بھودان تحریک کو آر ایس ایس نے کس طرح استعمال کیا تھا؟اور تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میرے لیے ان کو یہ سمجھا پانامشکل تھا کہ ونوبا بھاوے ہندوستان کی تاریخ کا ایک بیحد مضبوط اورمعتبرسیکولرسوشلسٹ کردارہے،وہ ایک گاندھیائی رہنما تھے، اہنسا اور انسانیت کے اصولوں پر مرتے دم تک قائم رہے،سماج کے اس آخری شخص کی زندگی میںآزادی کی روشنی پہنچانا ان کی زندگی کاواحد نصب العین تھا، جس کی زندگی میں آزادی کی کرن نہ پہنچی تو گاندھی جی کی نظر میں آزادی ادھوری تھی، اپنی ایک ایک سانس انہوںنے گاندھی جی کے اصولوں کے لیے وقف کردی تھی، آرایس ایس اوراس کی انتہا پسندانہ ثقافتی قوم پرستی کے سخت خلاف تھے ،اتنے سخت خلاف کہ جب سارا سنگھ پریوارجیلوں میں بندتھا،اندرا گاندھی کی ایمرجنسی کوانہوں نے انوشاسن کاپرب قراردیاتھا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ آر ایس ایس نے ان کی تحریک کو اپنے کازکے لیے استعمال کیا۔ اس تضاد کی تطبیق میرے لیے آسان نہ تھی کیونکہ ہملوگ تصویر کاایک رخ دیکھنے کے عادی ہیںاور جمہوری معاشرے کی پیچیدگیوں کی سمجھ آج بھی ہم میں بہت کم ہے۔
اناہزارے کی تحریک کوئی ایک دو دن کا قصہ نہیں ہے۔یہ نہ تو راتوں رات کھڑی ہوگئی نہ وہ بھیڑ جو انا کے پیچھے کھڑی تھی،یونہی کھڑی ہوگئی تھی۔ اس کے پیچھے برسوں کی محنت اورایک منظم ومسلسل جدوجہد تھی۔ جو لوگ اروند کیجریوال، ان کے’ پریورتن ‘اورپی سی آر ایف کو جانتے ہیںاور ملک کے طول عرض میں ان سے جڑے ہزاروں نوجوانوں کی آر ٹی آئی کے ہتھیار سے بدعنوانی کے خلاف جنگ کی سرگرمیوں کا علم رکھتے ہیں وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ انڈیااگینسٹ کرپشن کی اصل باگ ڈور کن ہاتھوں میںہے اوروہ کتنے باشعور اورسنجیدہ لوگ ہیں۔ یہ وہی کیجریوال ہیںجنہوں نے بدعنوانی کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے محکمہ انکم ٹیکس کا اعلی عہدہ چھوڑ دیا،آرٹی آئی لانے کی جنگ جیتی اور اس کے لیے ملنے والے اپنے میگسیسے ایوارڈ کی ساری رقم پی سی آر ایف کے نام سے وقف کردی۔ پھر یہ کہ کیجریوال اور ان کی ٹیم نے پورے ایک سال پہلے اس مہم کی پلاننگ شروع کردی تھی،پہلے انا کو جوڑا۔پھر کرن بیدی،پرشانت بھوشن،سنتوش ہیگڑے اور دوسری شخصیتوںکوجوڑنے میں کامیاب ہوئے ،انہوں نے محسوس کیا کہ آج اس ملک میںقابل اعتماد عوامی قیادت کاجو خلاہے اس کو اگر کوئی پرکر سکتا ہے تووہ صرف وہ ہے جس میں لوگوںکو گاندھی جی کی جھلک نظرآ سکے۔ خودانا ہزارے کو جو لوگ جانتے ہیں وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ مہاراشٹر میںایسی کتنی تحریکیں منظم کرچکے ہیں،کتنے قانون بنوا اوربدلواچکے ہیں،وہ بنکروں،کسانوں ،مزدوروں اور غریبوںکے لیے انصاف کی لڑائی کب سے لڑرہے ہیں،کس طرح مہاراشٹرکے ایک انتہائی پسماندہ،غریبی اوربدحالی کی تاریکیوں میںڈوبے ہوئے گائوں کودنیا کے نقشے پرلائے اوریہ ان کاپہلا انشن تھایاوہ اس سے قبل تیرہ چودہ بھوک ہڑتال کرچکے ہیں۔ اگر اس کے باوجود ہم یہ کہیں کہ اس تحریک کے پیچھے اصل طاقت آر ایس ایس ہے توآپ اس کو کیا کہیںگے؟یہی نہ کہ ہم اناہزارے کی شخصیت،ان کی برسوں کی جدوجہد،اروند کیجریوال اور ان کے پی سی آر ایف کی پوری ٹیم کی محنتوںاور سب سے بڑھ کرملک کے ان کروڑوں نوجوانوں کی ایمانداری پر بیک جنبش قلم پانی پھیر رہے ہیںجو بغیر کسی لاگ لپیٹ اور سیاسی ونظریاتی وابستگی کے کرپشن کے خلاف ہیںاوراس کے سرسہراباندھ رہے ہیںجو ہرگز اس کا اہل نہیں۔لیکن یہی خیال ہمارے ان لیڈروں اورقلم کاروںکو کیوں نہیں آیا جو انا ہزارے اور ان کی ٹیم کوآر ایس ایس کاآلہ کارثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں؟دراصل وہ یاتواس مفروضہ پرایمان لاچکے ہیںکہ اس ملک میں کوئی بڑی عوامی تحریک آرایس ایس کے علاوہ کوئی اورمنظم کر ہی نہیں سکتایاپھر ان کی آنکھوں پر کوئی پٹی بندھی ہے جو ان کو یہ بھی نہیں دیکھنے دیتی کہ اگر آر ایس ایس اوروشو ہندو پریشد کے پاس اتنی ہی طاقت ہوتی توبی جے پی کی ریلیوںاور دھرنوں میںبھی سروں کا یہی سیلاب کیو ں نہیں امڈ پڑتا؟اس معاملے میں سب سے گھٹیا اورسوقیانہ کرداربعض مسلم قایدین نے ادا کیا، انہوں نے ملک کے بدعنوانی مخالف جذبات کے طوفان کے سامنے مسلمانوں کو کھڑا کرکے حکومت کو راحت پہنچانے کی کوشش کی۔
جہاں تک آر ایس ایس کا تعلق ہے توہر کامیابی کا سہرا اپنے سر باندھنے کاہنر کوئی سنگھ پریوار سے سیکھے۔جو لوگ انا ہزارے کی تحریک کی کامیابی کا سہرا اس کے سرباندھنے پر تلے ہوئے ہیں، وہ ایک طرف انا اور ان کی ٹیم کو زبردستی سنگھ پریوار کے پالے میںدھکیل رہے ہیں ،دوسری طرف اس تحریک سے پیداشدہ لہر پر سوار ہوکرووٹ کی فصل کاٹنے کی فضا بنانے میں بی جے پی کی مدد کر رہے ہیں۔
اروند کیجریوال کہہ رہے تھے کہ’’ وی ایچ پی کا بیان گمراہ کن ہے۔یہ ان کی تحریک کو بدنام کرنے کی سازش کا حصہ ہے۔ تحریک جب آگے بڑھی اور بھیڑ بڑھ گئی تو افراد اور جماعتوں کی ایک بڑی تعداد نے ان سے رجوع کرنا شروع کیا۔وہ لوگوں کے لیے کھانے کے اسٹال لگانا چاہتے تھے۔میرے پاس ایسی دس تنظیموں کی فہرست ہے جنہوں نے وہاں یہ اسٹالز لگائے تھے ‘‘۔ انہوں نے ان تنظیموں اور افراد کے نام نہیںبتائے۔کہانہیں جاسکتا کہ ان میںسنگھ پریوار کے لوگ تھے یانہیںتھے ۔ لیکنبھیڑمیں گھس کر مقصد حاصل کرنا آر ایس ایس کا نیا وطیرہ نہیں ہے ۔ گاندھی جی کے قتل کے بعد آر ایس ایس پرجب زمینیں تنگ ہوگئیں تواس کے لیڈروں اور پرچارکوں نے ونوبا بھاوے کی بھودان تحریک میںگھس کرنہ صرف اپنے سیاسی وسماجی وجود کو بچایا بلکہ بڑی چالاکی سے نئی زمینیں ہموار کیں۔فرق صرف یہ ہے کہ اس وقت کسی اشوک سنگھل کی ہمت نہیں تھی کہ وہ یہ دعوی کرتا کہ سروودیہ کے سالانہ اجتماع میںآر ایس ایس کے کتنے کارکنان شریک تھے۔
ہندوستان کی سیاست کو جن رہنمائوں نے سب زیادہ متأثر کیاہے،سنیاس ان میں ایک قدرمشترک رہاہے ۔سماجی زندگی میںیہ ایک بہت بڑی طاقت ہوتی ہے۔گاندھی جی بھی ایک سنیاسی تھے ،ونوبا بھی سنیاسی تھے اورجے پی بھی سرگرم سیاست سے سنیاس لے چکے تھے۔ ونوبا اور انا میں کئی مماثلتیںہیں۔ونوبا کا تعلق بھی مہاراشٹر سے تھااور انا ہزارے بھی مہاراشٹر کے رہنے والے ہیں۔دونوں میں کوئی برابری نہیں ہے لیکن وہ بھی گاندھیائی تھے یہ بھی گاندھیائی ہیں،انہوں نے بھی غریب کسانوں، مزدوروںاوربے زمینوں کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی تھی،یہ بھی گاؤں اور غریبوں کی لڑائی لڑتے آئے ہیں ،جن لوک پال بل پرسرکار کے جھک جانے کے بعدبہ ظاہر تنازعہ ختم ہو گیا ہے لیکن یہ خطرہ مزید بڑھ گیا ہے کہ ان کی تحریک کے کندھوں پرفرقہ پرست طاقتیں سوار ہوجائیں۔اس خطرے سے نبٹنا بھی حکومت اورسیکولرطاقتوں کی ذمہ داری ہے جو ٹکراؤ سے نہیں، حکمت اوردانائی سے ممکن ہے۔ضرورت ہے کہ ہم اس انقلاب کی عمرانیات کو سمجھنے کی کوشش کریں پھر بہت سی مشکلیں آسان ہوجائیں گی۔ لیکن تاریخ کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ تاریخ سے ہم سبق نہیں لیتے۔