احمدجاوید
مدرسہ کی ابتدا کب ہوئی، اس نے باضابطہ ادارہ کی حیثیت کب اختیار کی اوراس ادارہ(institution) نے اپنا موجودہ خدوخال کب حاصل کیا؟ مؤرخین میں اس پر اختلاف ہے۔ بعض مانتے ہیں کہ اسلام کی تاریخ کے بالکل ابتدائی دور اور پیغمبر اسلام ﷺ کی حیات طیبہ میں ہی مدینہ منورہ میں اس کی ابتدا ہوچکی تھی۔اہل مدینہ کو لکھنا پڑھنا سکھانے کے عوض اسیران بدر کی رہائی کا واقعہ اورمسلمان بچیوں کی تعلیم و تربیت اور ان کو لکھنا پڑھنا سیناپروناسکھانے کے لیے آپ ﷺ کا بعض صحابیہؓ کو مقرر فرمانا اوراس امر میں امہات المؤمنینؓکی کوششیں اس کے ابتدائی نقوش ہیں۔مدینہ منورہ میں صفہ واحد درسگاہ نہ تھی بلکہ یہاں مسجدنبوی کے علاوہ کم ازکم ۹ مساجد تھیںجو عہد نبوی میںاپنے آس پاس کی آبادیوں کے لیے درسگاہ کا بھی کام دیتی تھیں خصوصاً بچے وہاں پڑھنے آیا کرتے تھے(۱) جبکہ دوسرے مؤرخین ان واقعات کودرس و تدریس کی غیررسمی صورتیں قرار دیتے ہوئے اس کی ابتدا تیسری چوتھی صدی ہجری سے مانتے ہیںجب اسلام تیزی کے ساتھ جزیرۃ العرب سے باہر پھیلا۔لیکن اس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیںکہ اس کا نقش اول حضرت محمد ﷺ کی مجلس، آپ کی مسجد، اس سے متصل صفہ اور اصحاب صفہ ؓ ہیں جنہوں نے خود کو علم سیکھنے اور سکھانے کے لیے وقف کردیا تھا۔
دنیائے اسلام میں تعلیم و تربیت کے بڑے مراکزیا اسکول کالجوں کی حیثیت سے مدارس کا فروغ گیارہویں صدی عیسوی(تیسری چوتھی صدی ہجری) میں ہوا۔اس وقت یہ صرف مذہبی تعلیم کے مراکز نہیں تھے بلکہ ان میں جملہ مروجہ علوم و فنون کی تعلیم و تدریس ہوتی تھی۔ملکوں اور قوموں کو یہیں سے ڈاکٹر ، انجینئر، فوجی و غیر فوجی حکام اور وزراء بھی ملتے تھے اور قاضی، مفتی، منشی،اساتذہ اور اتالیق بھی۔مدارس کے باضابطہ فروغ اور اس کی بڑی بڑی الگ عمارتیں وجود میں آنے سے قبل بڑی بڑی مساجدہی مدارس اور جامعات کا کام دیتی تھیں خصوصاً کتاب و سنت کی تعلیم کے لیے لوگ علماء و فقہا کی خدمت میں حاضر ہواکرتے جن کے درس میں بعض اوقات ہزاروں کا مجمع ہوتا۔تاریخ کے اوراق ان مجالس کے ذکر سے بھرے پڑے ہیں۔ہم دیکھتے ہیں کہ خود حیات طیبہ میں مدینہ منورہ سے خاص خاص مقامات کے لیے تربیت یافتہ معلمین بھیجے جاتے تھے ۔صوبہ کے گورنر کے فرائض منصبی میں صراحت کے ساتھ شامل کردیاجاتا تھاکہ وہ اپنے ماتحت علاقہ میںتعلیمی ضروریات کی تکمیل کامناسب انتظام کریں(۲)۔یمن کے گورنر عمروبن حزمؓ کے نام طویل تقرر نامہ یا ہدایت نامہ جناب رسالتمآبﷺ نے لکھا تھا۔تاریخ نے اسے محفوظ رکھاہے۔اس میں یہ ہدایت موجو ہے کہ لوگوں کے لیے قرآن و سنت اور علوم دین کی تعلیم کابندوبست کریں(۳)۔خلفاء راشدین نے بھی اس پر خصوصی توجہ دی۔حضرت ابوبکر صدیقؓ کے مختصردورخلافت کے بعد جو فتنۂ ارتداد اور شورشوں کازمانہ تھا حضرت عمرفاروقؓ نے دمشق حلب، کوفہ، بصرہ اور دوسرے شہروں کے لیے علماء صحابہ کو روانہ کیے(۴)۔ابتدائی تعلیم کے لیے مکاتب جاری کیے۔خود مدینہ منورہ میں آپ ؓ نے بچوں کو مسجد نبوی میں جمع کیااور وہاں عبداللہ بن خزاعی کو مامور فرمایا(۵)۔یہاں تک کہ قرآن کی تعلیم کامختصر نصاب مقرر فرمایاجس کا پڑھنا ،سمجھنااور یاد کرنا لازمی تھا(۶)۔معلمین کی تنخواہیں مقررکیں ، خانہ بدوشوں کے لیے قرآن کی تعلیم جبری طور پر رائج کی(اس کے لیے ایک شخص ابو سفیان کوچند افراد کے ساتھ مقرر کیا)۔ اس سلسلہ کو امیرالمومنین حضرت عثمان غنی ؓ اور حضرت علی ؓ المرتضی نے بھی بکوشش جاری رکھا(۷)۔ گوناگوں سماجی و سیاسی اتھل پتھل کے باوجودعہد بنوامیہ میں بھی یہ سلسلہ بدستور جاری رہا۔مکہ میںعبداللہ بن عباس ؓ کا حلقہ درس بہت وسیع تھا۔مدینہ میں حضرت سعیدبن مسیب اور ربیعۃ الرای کا حلقہ درس مشہور تھا۔امام مالک اور امام اوزاعی اسی حلقہ کے تعلیم یافتہ تھے۔کوفہ میں عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ اور امام شعبی کے حلقہ ہائے درس تھے۔بصرہ میں حضرت حسن بصری کا حلقہ درس امتیازی حیثیت رکھتا تھا۔اموی دور حکومت کے اواخر اور عباسی عہد کے اوائل میں مدینہ منورہ میں حضرت امام جعفر صادق کا حلقہ درس بہت وسیع تھا۔امام ابو حنیفہ اورجابر بن حیان دونوں اسی درسگاہ کے تعلیم یافتہ تھے،جس سے درس اور مضامین درس کی وسعت و جامعیت کا اندازہ لگایا جاسکتاہے۔ عہد بنو عباس تک تعلیم وتدریس مساجد کے صحنوں، خانقاہوں،علماء کے مکانوں اور امراء کی حویلیوں میں جاری رہی۔اس دور کی دو درسگاہیں خاص طورپربڑی ممتاز تھیں،کوفہ میں امام ابو حنیفہؒ اور مدینہ میں امام مالکؒ ۔ جن کی مجالس میںہرات سے دمشق و حمص اور سمرقندو بخارا سے تونس، قیروان، قرطبہ اور سرقسطہ تک کے طلبہ درس لینے آیا کرتے تھے(۸)۔ حضرت امام جعفر صادق ؑاور ان کے اصحاب و تلامیذ کی مجالس، حضرت امام مالک بن انس، حضرت امام ابو حنیفہ ، صاحبین ابو حنیفہ،حضرت امام احمدبن حنبل، ان کے شاگردوں، امام شافعی اور ان کے شاگردوں کی مجالس نے ایک وقت پورے پورے شہر کو دارالعلوم بنا دیا تھا۔
۸۵۹ء میں مراکش ( المغرب) کے شہر فأس میں جامعہ القرأویین کے قیام کو تاریخ کے ایک سنگ میل کا درجہ حاصل ہے۔مؤرخین اس کو دنیا کی پہلی یونیورسیٹی تسلیم کرتے ہیں جو مسجد القرأویین میں قائم کی گئی تھی ۔ اس کی بانی و موسس فاطمہ الفہری ایک دولت مند تاجر محمد الفہری کی کی بیٹی تھیں۔اس سے اسلام میں عورتوں کے مقام اور علم کے فروغ میں خواتین اسلام کے کردار کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔اسی طرز پر ۹۷۰ء ؍۴۵۹ھ میں قاہرہ میں جامعہ الازہر کا قیام عمل میں آیا جس کو تاریخ کا دوسرا سنگ میل کہا جاسکتا ہے(۹)۔
خلافت عباسیہ (بغداد )کے آخری دور میں اس وقت عالم اسلام ایک تعلیمی انقلاب سے ہمکنار ہوا ، جب سلجوقیوں کے وزیر نظام الملک خواجہ ابو علی الحسن طوسی نے باضابطہ تعلیم کا سرکاری نظام مرتب کیا اور سلطنت کے طول و عرض میں بڑے بڑے مدرسے قائم کئے ۔ مورخین کی رائے میں عالم اسلام میں مدرسہ نظامیہ اور درس نظامیہ کی اصطلاح اسی وقت سے رائج اور اسی دور کی دین ہے ۔ نظام الملک طوسی کومتعینہ قواعدوضوابط کے تحت قائم کئے گئے مدرسوں کا بانی تسلیم کیاجاتا ہے (۱۰)۔ بغداد کے مدرسہ نظامیہ کا قیام ۱۰۶۵ء میں عمل میں آیا اور بلاشبہ یہ تاریخ کا تیسرا سنگ میل تھا ۔ نظام الملک طوسی نے اعلیٰ تعلیم کے اس ادارہ کیلئے امام جوینی ، ابو اسحاق شیرازی ، امام غزالی،امام ابوبکر الشاشی جیسے علماء وفقہاء اور حکماء و فلاسفہ کی خدمات حاصل کیں اور بغداد ہی نہیں ، نیشاپور ، آمل، بلخ ، ہرات ، اصفہان ، بصرہ، مرو،موصل اور عراق و خراسان کے ہرشہرمیںاتنے ہی بڑے بڑے مدرسے قائم کئے۔ الغرض پوری سلطنت میں چھوٹے بڑے مدرسوں کا جال بچھادیا جو سب کے سب مدرسہ نظامیہ کے نام سے مشہور ہوئے (۱۱)۔اس عہد میں مدارس کی کثرت اور ان کے قیام کے رجحان کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ۱۱۵۵ء سے ۱۲۶۰ء کے دوران قاہرہ میں مدرسوں کی تعداد ۷۵، دمشق میں ۵۱ اور حلب میں۴۴ تھی(۱۲)۔
مسلم فاتحین اورمبلغین اسلام نے سرزمین ہند پر قد م رکھا تو اپنے ساتھ علم دوستی کی یہ شاندار روایات بھی لائے ۔ اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ اس ملک میں مسلم حکمرانوں کی جو اولین تعمیرات ہیں ان میں مساجد کے ساتھ ساتھ مدارس بھی لازماً موجود ہیں ۔ آپ سمرقندوبخاراسے کا بل وقندھار ، ملتان ولاہور اور دہلی واکبرآباد سے بدایوںوجون پور ، مرشدآباد وڈھا کہ تک چلے جائیں ، برصغیر کے ہر خطے اور ہر علاقے میں عہد مملوک اور اس سے قبل وبعد کے تاریخی مدارس کے آثاروبا قیات مل جائیں گے ۔ سمرقند میں الغ بیگ کے مدرسہ (۱۴۱۷ء )کی پر شکوہ عمارتیں ، شیردر کا قلعہ نما مدرسہ(۱۶۱۹ء) اور دہلی میں قطب مینار ومسجد قوت الاسلام کے عقب میں موجود عہد خلجی (۱۲۹۶ء۔۱۳۱۶ء )کی اس عالی شان عمارت کے گنبد و محراب آج تک مسلم فاتحین کی علم دوستی کا خطبہ پڑھتے نظر آتے ہیں ۔
سرزمین دہلی پر جو پہلی عمارتیں کسی سلطان نے تعمیر کرائیں ان میں یہ مدرسہ بھی شامل تھا اور غالباً اس سرزمین پر یہ پہلا مدرسہ تھا ۔ بعض تاریخی شواہد کی روسے ہندوستان کی دھرتی پر جو دوسری بڑی درسگاہ قائم ہوئی وہ سرزمین بدایوں میں شیخ الاسلام حضرت قاضی دانیال قطری کی درسگاہ تھی ۔ بدایوں کو خود سلطان قطب الدین ایبک نے ۱۲۰۲ء (۵۹۹ھ)میں فتح کیا تھا اور شیخ دانیال قطری عثمانی ایبک کے سپہ سالار شمس الدین التمش کی فوج کے ساتھ بدایوںآئے تھے جس کو یہاںکا صوبیدار مقرر کیاگیا تھا ۔ یہ بدایوں کی درسگاہیں ہی تھیں ، جن سے سلطان المشائخ محبوب الہٰی حضرت نظام الدین بدایونی (دہلوی )،سلطان العارفین حضرت خواجہ حسن شیخ شاہی ، حضرت خواجہ بدرالدین ابوبکر موئے تاب ، حضرت خواجہ شرف الدین اعلیٰ عقباہی ، شیخ شہاب الدین ماہمرا، خواجہ ضیاالدین نخشابی اور حضرت امیر حسن علاسجزی (صاحب فوائدالفواد) پیداہوئے ۔ علم وفضل اور ولایت وروحانیت کی جو فضا بدایوں میں تیر ہویں صدی عیسوی میں تھی اس کو خراج عقید ت پیش کرتے ہوئے حضرت امیر خسرو نے لکھا ہے کہ بدایوں کی خاک کو سرمہ بنائوں تاکہ میری آنکھیں ٹھنڈی ہوں ۔ معاصر مورخین نے اس شہر کو مدینتہ الاولیا لکھا ہے ۔
سرزمین دہلی پرعہدوسطی کی جو دوسری قدیم ترین عمارتیں ملتی ہیں، ان میں محمد بن تغلق(۵۱۔۱۳۲۱ء) کے دارالحکومت جہاں پناہ میں بھی ایک مدرسہ موجود ہے اور اپنی طرز تعمیر کے لحاظ سے وہ ایک منفرد عمارت ہے۔یہ حقیقت اب بہت کم لوگوں کے علم میں ہے کہ تغلقوں کے وزیر خواجہ جہاں ملک سرور کوہندوستان کا نظام المک طوسی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔بد قسمتی سے خاندان تغلق کے حکمرانوں کی ناسمجھی و خود سری کے جھوٹے سچے قصے مشہورہوگئے ہیں اور وقت کے ساتھ یہ سچائی دب گئی ہے کہ مؤرخین عالم عہد وسطی کے ہندوستان میں عہد تغلق و عہد لودی کو علوم و فنون اور صنعت و حرفت کا عہد زریں مانتے ہیں۔ملک سرور کو سلطان نصیر الدین محمود شاہ ثانی تغلق نے صوبہ جات شرق کا گورنر مقررکیا تھااور تغلقوں کا یہی وزیر جون پور کی دولت شرقیہ کا بانی تھااس لیے جون پور کو رشک شیرازو اصفہان بنتے دیر نہیں لگی۔یہاں تک کہ اس سلطنت کے دور دراز امصارو قصبات بھی علوم و فنون کے گہوارے بن گئے تھے۔ اس سے بھی کم لوگوں کو معلوم ہے کہ جونپورہی وہ مقام ہے جہاں عہد وسطی میں لڑکیوں کی اعلی تعلیم تک کے لیے بھی مدرسہ موجود تھاجوخاندان شرقی کی ایک عظیم خاتون ابراہیم شاہ شرقی کی بہواور اس کے جانشین محمود شاہ کی بیگم راجی نے قائم کی تھی۔ہم دیکھتے ہیں کہ یہ روایت عہد مغلیہ میں بھی قائم رہی۔ شاہجہاں کی بیگمات فتحپوری بیگم نے دہلی کے بازار چاندنی چوک اور اکبرآبادی بیگم نے فیض بازار میںمسجدو مدرسہ(۱۶۵۰ء) تعمیر کرائی۔اول الذکر اب بھی مدرسہ عالیہ ، مسجد فتحپوری کے نام سے موجود ہے جبکہ ثانی الذکر کو۱۸۵۷ء میں انگریزوں نے مسمار کرادیا تھا۔
ملک سرور کو ۱۳۸۹ء میںخواجۂ جہاں کے خطاب سے سرفراز کیاگیااور ۱۳۹۴ء میں ملک الشرق کے لقب کے ساتھ اسے ولایت جونپور کا گورنر مقرر کیاگیا لیکن جلد ہی اس نے اپنی خود مختاری کا اعلان کردیا۔دولت شرقیہ میں قنوج اور اودھ سے بہار و ترہت تک کے علاقے شامل تھے۔جاج نگر اور لکھنوتی (بنگال ) کے حکمرانوں نے بھی اس کی اطاعت قبول کرلی تھی۔ملک الشرق کو مبارک شاہ اور ابراہیم شاہ جیسے اہل جانشین ملے جنہوں نے اس کی علم دوستی کی روایات کو آگے بڑھایا۔مؤخرالذکر کی علم اور علماء نوازی کا تو دنیا بھر میں ڈنکا بجتا تھا۔اس نے مسلسل ۳۸ سال تک حکومت کی ، اپنی سلطنت کے حدود میں اور اس سے باہربھی بہت سے مدرسے قائم کیے۔اس کے بیٹے اور جانشین محمود شاہ کی بیگم بی بی راضیہ(راجی) کا قائم کردہ مدرسہ اور مسجدلال دروازہ کے ساتھ آج بھی موجود اوراسی نام سے مشہور ہے۔تاریخ بتاتی ہے کہ یہ عمارت ملکہ کی خاص مسجد کے طور پر۱۴۴۷ء میں تعمیر کرائی گئی تھی۔اور اپنے زمانہ کے ایک سب سے بڑے عالم شیخ علی داؤد قطب الدین کے سپرد کی گئی تھی۔محلہ نمازگاہ کے مقام پر بھی بی بی راضیہ(راجی) نے ایک مدرسہ تعمیرکرایاتھا جس کے لیے بڑے بڑے علماء ، فقہا ، حکماء اور فلاسفہ کی خدمات حاصل کی گئی تھیںاور ملک کے ہر حصہ کے طلباء اس میں علم کی پیاس بجھاتے تھے۔تاریخ کی بعض کتابوں میں آیا ہے کہ بی بی راضیہ نے ۱۴۴۱ء میں خواتین کی اعلی تعلیم کے لیے بھی ایک مدرسہ بنوایاتھا۔جونپور کے اسی علمی ماحول میں ملا افضل جونپوری، دیوان محمد رشید جونپوری( صاحب مناظرہ رشیدیہ) اورملا محمود جونپوری( صاحب شمس بازغہ)جیسے عظیم فلاسفہ پروان چڑھے جن کے علم پر دنیا انگشت بدنداں تھی۔ملا محمود(۵۱۔ ۱۶۰۶ء) دنیا کی تاریخ میں نیچرل سائنس کے پہلے عالم (سائنسداں) مانے جاتے ہیںجنہوں نے سترہویں صدی میں بطلیموسی نظام پر سوالات کھڑے کیے اور چاند کے داغ پر بحث کرتے ہوئے اس وقت بتایا کہ یہ کچھ چھوٹے چھوٹے اجسام ہیں جن پر سورج کی روشنی منعکس ( رفلکٹ) نہیں ہوتی جب یوروپ نے اس نہج پر سوچنا بھی شروع نہیں کیا تھا۔ہندوستان میںمدارس کی تاریخ میںعہد عالمگیری(۱۶۵۸ء۔۱۷۰۷ء)کو بھی ایک عہد زریں کا درجہ حاصل ہے۔اسی زمانے میں شیخ الاسلام ملا احمد جیون(متوفی۱۱۳۰ھ) کی درسگاہ اورپھرملا نظام الدین سہالوی کے دارالعلوم فرنگی محل(۱۶۹۳ء) اور اس کے نصاب درس کو بے پناہ شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی جس (درس نظامیہ )کو ہندوستان کی علمی تاریخ کا ایک سنگ میل تسلیم کیا جاتا ہے۔
فاطمی اور مملوک بادشاہوں ، انکے جانشینوں اور امراء نے کثرت سے مدرسے بنائے ، علماء کی سرپرستی کی ، علم کے فروغ کیلئے جاگیریں اور معافیاں دیں اور اوقاف قائم کئے حتیٰ کہ ایک ایسی فضاقائم ہوگئی تھی کہ جب کوئی ذی حیثیت شخص یامنصب دار حکمران وقت سے ملنے جاتا تو کوئی مدرسہ قائم کرکے جاتا تاکہ پوچھیں تو اپنے قابل ذکر کاموں میں شمار کر اسکے ۔ مغربی مورخین لکھتے ہیں کہ یہ عمل اپنی نسلوں میں عزت ووقار اور دولت وامارات بر قرار رکھنے کا ذریعہ بن گیا تھا۔ بادشاہوں کی طرف سے معافیاں اور جاگیریں مل جاتی تھیں ۔ دیمیتری گٹاس اور اسٹینڈ فورڈ انسائیکلو پیڈ یا آف فلاسفی نے گیارہوںصدی سے چودہویں صدی عیسوی کے بیچ کے زمانہ کو عربی اور اسلامی فلسفہ کا عہدزرین قرار دیا ہے ۔ لکھا ہے کہ اس زمانہ میںمدارس کے نصاب میں فلسفہ ومنطق کو باضابطہ شامل کیا گیا جس سے ابن سینا جیسے حکماء وفلاسفہ پیدا ہوئے ۔ اس مقام پر یہ ذکر بیجانہ ہوگا کہ عہد وسطیٰ میں ابتدائی تعلیم کی درسگا ہیں مکتب کہلاتی تھیں اور اعلیٰ تعلیم کی درسگاہوں کوہی مدرسہ کہا جاتا تھا اور ان کے نصاب میں زبان وادب ، منطق وفلسفہ ، قرآن وحدیث اور فقہ یعنی قانون کی اعلیٰ تعلیم کے علاوہ ، جیو میٹری ، کیمیا، طب ، ادویہ ، تجارت اور صنعت وحرفت کی تعلیم کو خاص اہمیت حاصل تھی ۔ یہاں تک کہ بچوں کو سپہ گری،گھڑسواری اور تیراندازی کی تعلیم بھی دلائی جاتی تھی ۔
مدارس کا یہی نظام تھا جس نے دنیا کی کا یا پلٹ کر رکھ دی تھی اور اسی نظام تعلیم کی برکت نے پندرہویںسولہویں صدی آتے آتے بر عظیم ہندوستان کو سونے کی چڑیا بنا دیا تھا۔ صنعت وحرفت سے علوم وفتون تک کو نسامیدان تھا جس میں ہم نے دنیا سے اپنا لوہا نہیں منوایا ۔دوہرانے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس کا سہرا علوم وفنون اور تہذیب وتمدن کے ان مراکز کے سرجاتا ہے جو بغداد وشیراز ، دمشق وحلب اور قرطبہ وغرناطہ کی جگہ لے چکے تھے۔ سلاطین شرقی (۹۴۔۱۳۔۱۴۷۹)کا جونپور شیراز ہند کہلاتا تھا ۔ بدایوں ، بریلی ، الہ آباد ، بلگرام ، خیرآباد ، عظیم آباد اور دکن وبنگالہ کے وہ دیار وامصار جہاں سے ایک وقت علم وفضل کے آفتاب وماہتاب نکلتے تھے ، بدقسمتی سے پہلے عہد مغلیہ میں ایک مختصر وقفہ کیلئے اور پھر ہندوستان پر برطانوی غلامی کا سایہ پڑنے کے ساتھ ساتھ زوال کا شکار ہوگئے ۔ عہد اسلامیہ میں اس نظام تعلیم کو جو چمک ودمک حاصل تھی وہ ماند پڑنے لگی ۔ ۱۸۵۷ء کے انقلاب کی قیادت علماء نے کی تھی اس لئے انگریزوں نے مدرسوں کو مزاحمت کے ممکنہ مراکز کے طور پر دیکھنا شروع کر دیا ۔مدارس کے اوقاف اور جاگیر یں ضبط کر لیں ۔ ہزاروں علمائے دین کو پھانسیاں دے دی گئیں ۔ اس کے ردعمل میں دو تحریکیں پیدا ہوئیں ۔ ایک مغربی تہذیب وثقافت کا مقابلہ کرنے کے لئے قرآن وحدیث کی تعلیم زیادہ سے زیادہ پھیلانے کی تحریک ، دوسری جدید علوم وفنون اور مغربی سائنس کو اپنانے کی تحریک ۔ ہندوستان اور پاکستان میں آج مسلمانوں کی جو بڑی بڑی درسگا ہیں نظر آتی ہیں ، بیشتر ان ہی تحریکات کی پیداوار ہیں۔
ہندوستان میں جدید طرز کے رائج الوقت مدرسہ کی تاریخ مدرسہ عالیہ (کلکتہ )سے شروع ہوتی ہے ۔ جس کو ۱۷۸۰ ء میں لارڈ بیسٹنگز نے قائم کیا تھا ۔ ۱۷۹۲ء میں غازی الدین حیدر نے اسی طرز پر دہلی میں ایک اور مدرسہ قائم کیا ( مدرسۃ العلوم علی گڑھ اور دارالعلوم دیوبند دونوں کے بانیان مدرسہ دہلی کے تعلیم وتربیت یافتہ تھے جو تاریخ میں دہلی کالج کے نام سے مشہور ہے )۔ اس کے تقریبا ًستراسی سال کے بعدسر سید احمد خان نے پہلے غازی پور (۱۸۶۵)اور پھر علی گڑھ میں مدرسۃ العلوم قائم کیا۔ ان ہی دنوں دیوبند میں حاجی عابد حسین اور ان کے رفقاء نے مدرسہ عربی فارسی (۱۸۶۷ء)،مولانا محمد عبدالکافی نے الہ آبادمیںد ارالعلوم سبحانیہ (۱۸۷۶)اور مولانا شاہ انوار اللہ فاروقی نے حیدر آباد میں مدرسہ نظامیہ(۱۸۷۶ء)قائم کیا ۔مولانا علی حسن نے دربھنگہ میںدارالعلوم المشرقیہ حمیدیہ(۱۸۸۵ء)کے قیام کی تحریک پیدا کی اور اس کے لیے الہ آباد سے مولانا عبدالحمید کو بلایا گیا جو اس وقت دارلعلوم سبحانیہ کے صدرالمدرسین تھے ۔ لکھنو ٔ میںسلطان المدارس اور مدرسہ ناظمیہ (۱۸۹۱)قائم ہوا ۔ ۱۸۹۴ ء میں ندوۃ العلماء کا قیام اور علی گڑھ ودیوبند کی تحریکوں کے بالمقابل بدایوں ، بریلی ، مارہرہ ، رامپور ، کچھوچھہ، لکھنؤ، عظیم آباد،لاہور اور ملک کے دوسرے قدیم دینی وعلمی مراکز میں پید ا شدہ نئی بیداری اور مدرسوں (اشرفیہ ،مبارکپور(۱۸۹۸ء) ، منظر اسلام بریلی(۹۱۰۴ء) ،جامعہ نعیمیہ مراد آباد،حزب الاحناف لاہور(۱۹۲۴ء) وغیرہ )کا قیام ہندوستان میں مدارس اسلامیہ کے اس نئے سفر کا وہ سنگ میل ہیں جن کو نگاہوں میں رکھے بغیر تاریخ کے ساتھ انصاف نہیں کیا جا سکتا ۔۱۹۱۱ء میں مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ کا قیام اور ۱۹۲۲ء میں اس کی کوکھ سے مدرسہ اگزامنیشن بورڈ کا جنم ہندوستان میں اس سفر کاایک اور سنگ میل اور تاریخ ساز واقعہ ہے۔ مدرسہ اسلامیہ شمس الہدی پٹنہ کے قیام کے ساتھ اس تحریک نے ایک نئی کروٹ لی۔مدرسہ شمس الہدیٰ کے بانی سیدنورالہدیٰ مرحوم(آئی سی ایس) اور اس وقت کے وزیر تعلیمات حکومت بہار سر فخرالدین احمدکی سوجھ بوجھ اوردور اندیشی نے اس دوری اور اس خلیج کو دور کیاجو بوجوہ اب ملک کے مسلمانوں میں تعلیم کو دو متوازی دھاروں میں بانٹ چکی تھی ۔ اب ہر پڑھا لکھا مسلمان بالفاظ مولانامناظراحسن گیلانی’ مسٹر‘ تھا یا’ ملا‘ اور عالم یا تعلیم یافتہ (۱۳)۔ تعلیم میں دین اور دنیا کی تقسیم کو ختم کرنے کی یہ ایک شعوری کوشش تھی جو ان کی بے لوث جدوجہدسے کامیاب ہوئی۔دینی اور عصری علوم کی تعلیم ایک ہی درسگاہ میں ہونے لگی ۔سید نورالہدیٰ مرحوم کی کوششوں سے آگے چل کر مدرسہ اکز امنیشن بورڈ کو دوسرے مدارس کو بھی منظوری دینے اور ان کے امتحانات کرانے کی اجازت مل گئی اور پھر ریاست بہار کے طول وعرض میں اس سے الحاق یافتہ ؍منظور شدہ مدارس کا جال جو پھیلا ہے وہ آپ کے سامنے ہے ۔ یہ تحریک ریاست بہارتک ہی محدود نہیں رہی ، اس وقت ملک کی کم ازکم ۱۲؍ ریاستوں میں مدرسوں کے بورڈ کام کررہے ہیں (۱۴)اور ان سے الحاق یافتہ مدارس کی تعداد ہزاروں میں ہے۔
ملک میں تعلیم کے فروغ اور ناخواندگی کے خاتمہ میں مدارس اسلامیہ کا کیا کردار ہے اوراس تحریک نے تعلیم و تربیت کے کتنے بڑے نظام کو وجود بخشا، اس کا اندازہ مختلف ریاستوں میں بورڈ کے مدارس میں زیر تعلیم بچوں کے متعلق دستیاب اعداد وشمار سے لگایا جا سکتا ہے ۔ مغربی بنگال میںیہ تعداد 2007میں 110950تھی جن میںمدارس عالیہ(۹۳)کے۱۹۴۵۰، مدارس فوقانیہ(۱۷۴) کے۵۶۵۰۰، وسطانیہ (140)کے ۳۲۵۰۰اور تحتانیہ مدارس (13) کے ۲۵۰۰؍طلبا شامل ہیں ۔ اترپردیش میں بورڈ کے مدارس کی تعدادتقریباً۲۰۰۰ہے جن میں 459امدادیا فتہ ہیں ۔ آسام میںیہ تعداد 800کے آپ پاس ہے ۔کیرل میں صرف سمستھ کیرل اسلام متھاودیا بھیا سابورڈ (آل کیرل اسلامی مدارس بورڈ)کے مدرسوں کی تعداد 10ہزار سے زائد ہے جن میں زیر تعلیم بچوں کی تعداد 15لاکھ سے اوپر ہوتی ہے ۔ یہ بورڈ کیرل کے مسلمانوں نے 1952میں ازخود قائم کیا تھا اور اس وقت اس سے صرف ۱۰؍مدرسے ملحق تھے ۔ بہار مدرسہ بورڈ سے منظور شدہ مدارس کی تعداد ۱۹۳۵ء میں ۹ تھی جبکہ اب یہ 3555ہے جن میں 1118امداد یافتہ ہیں۔ ان مدارس میں زیر تعلیم بچوں کی تعداد کے سرکاری اعدادوشمارپر اعتبار نہ بھی کریں اور بقیہ مدرسوں کو چھوڑ کرصرف پر انے 1118مدرسوں میں اوسطاً ڈیڑھ سو طلباء کے حساب سے ہی جوڑ لیجئے تو یہ تعداد 2لاکھ کے قریب ہوتی ہے جبکہ ان میں ایسے مدرسے بھی شامل ہیں جن میں 500سے 1000تک طلبازیر تعلیم ہیں۔ بہار مدرسہ بورڈ کے امتحانات کے تازہ اعداد و شمار کی رو سے پچھلے سال وسطانیہ( جماعت ہشتم)میں تقریباً 1.75 لاکھ ، فوقانیہ اور مولوی (دہم و دوازدہم ) میں 1.25لاکھ اور عالم و فاضل (گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ ) درجات میں 20سے 25 ہزار طلبہ شریک تھے ۔ملک کے جن صوبوں میںمدارس کی کوئی باضابطہ تنظیم یا بورڈ نہیں ہے وہاں بھی مدرسوں کی کثیر تعدادکام کر رہی ہے اور جن ریاستوں میں بورڈ ہیں وہاں بھی ایسے مدارس سینکڑوں میں ہیںجن کا کہیں الحاق یا اندراج تو نہیں ہے لیکن وہ تعلیم و تربیت کے میدان میں گرانقدرخدمات انجام د رہے ہیں۔
جہاں تک زبانوںکی تعلیم و تدریس کا سوال اور مدارس کی لسانی خدمات کا تعلق ہے توابتدا میں یہاںعربی اور فارسی زبانیں ذریعۂ تعلیم تھیں، دوسری زبانیں بقدر ضرورت سکھائی جاتی تھیں۔کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس دور میں یہی علمی زبانیں تھیں، درسی کتب اور علوم و فنون کے ذخائر ان ہی زبانوں میںدستیاب تھے۔ہندوستان میں عربی ، فارسی اور ترکی کے ساتھ مقامی زبانوں کے اختلاط سے ایک نئی زبان کا جنم ہواجو پہلے ہندوی کہلائی اورپھر اردو کے نام سے جانی جاتی ہے۔سنسکرت اور برج کی یہ بیٹی جس کے حسن میں عربی کی وجاہت،فارسی کی حلاوت اور ترکی کا نمک شامل ہے دراصل صوفیاء و مبلغین اسلام کے نازوں کی پالی ہے جوخانقاہوں کے سجادۂ رشدو ہدایت، مسجدوں کے منبرو محراب اور مدارس اسلامیہ کے مسانید درس و تدریس پر جلوہ افروز تھے بلکہ اس زبان کو صحیح معنوں میں زبان صوفیا و مبلغین اسلام ، ان کی خانقاہوں اور مدارس نے بنایا۔یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ اردو شاعری کے اولین نمونے امیر خسرو اور ملک محمد جائسی کے یہاں ملتے ہیں یااس زبان کی اولین کتب خواجہ گیسو درازؒ جیسے صوفیا کی تصانیف ہیں۔ تاریخی شواہد سے ثابت ہے کہ ہندوی کے اولین نمونے پیش کرنے کا حکم اپنے چہیتے مرید امیر خسرو کو سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدینؒ نے دیا تھا۔اس سے قطع نظر کہ یہ زبان ہندوستان میں مسلم سلطنتوں کے زوال کے دور میں کس طرح اور کیونکرشرفا اور عوام کی مشترکہ زبان بن گئی یا اس نے کب اور کیسے فارسی کی جگہ لے لی اور اس کے ادب کو وہی مقام حاصل ہوگیاجو کبھی اس ملک میں سنسکرت اور پھر عربی و فارسی زبانوں کے شعرو ادب کو حاصل تھا،یہ بتدریج مدارس اسلامیہ کی ذریعۂ تعلیم بنتی چلی گئی اور آج پورے ملک میںسوائے جنوب کے بعض حصوںکے یہی ان میں ذریعہ تعلیم ہے۔اس تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ ۱۹۴۷ء میں اردو پرتقسیم کی افتاد پڑی تویہ ہندوستان کے مدارس ہی تھے جو یہاں اس کی زندگی کی ضمانت ثابت ہوئے اور آج تک اسے آکسیجن دے رہے ہیں۔ملک کے طول عرض میںپھیلے ہوئے مدارس اسلامیہ اگرچہ کسی ایک نظام کے تحت مربوط و منظم یا کسی ایک معیار کے پابند نہیں ہیںاور بنیادی طور پر یہ مذہبی خطوط پرقائم اوررضاکارانہ طور پر چلائے جارہے ہیںلیکن ایک لحاظ سے یہ ہندوستان میں فری ایجوکیشن کا سب سے بڑاغیر سرکاری نیٹ ورک ہیںجو ملک کے ہر حصے میں پھیلا ہوا ہے۔ ان میں دارالعلوم دیوبند، ندوۃ العلماء لکھنؤ، جامعہ اشرفیہ مبارکپور، جامعہ نظامیہ حیدرآباد، جامعہ مرکز الثقافۃ السنیہ کالیکٹ جیسے بڑے بڑے مدارس بھی شامل ہیںجو بعض اعتبار سے بین الاقوامی جامعات کا درجہ رکھتے ہیںاور دور افتادہ قصبوں اور گاؤوں میں قائم متوسط اور چھوٹے چھوٹے مدارس و مکاتب بھی ہیںجن کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ یہ مدارس ہمارے معاشرے میںناخواندگی دور کرنے اور بحیثیت زبان اردو کی تعلیم و ترویج میں جو کردار ادا کر رہے ہیں، وہ اپنی نظیر آپ ہے۔
حواشی
(۱)ابو داؤد،کتاب المراسیل؍ ابن عبدالبر کتاب العلم ص۹۷
(۲)عبدالحی الکتانی، نظام الحکومت النبویہ ج ۱ص ۱۰۵
(۳) ابن ہشام،السیرۃ النبویہ ج ۲ ص۵۰۰
(۴) قاضی اطہر مبارکپوری،خیرالقرون کی درسگاہیں
(۵) علاء الدین علی المتقی، کنزالعمال، دائرہ معارف نظامیہ، حیدر آباد ،ت ن ،ج۱ ص ۲۲۴
(۶)عبدالکریم شہرستانی، الملل و النحل، دارالمعرفہ، بیروت ص ۸۰
(۷) ابن جوزی، سیرۃ العمرین، مکتبہ الخانجی، قاہرہ ص ۴۷، محمدبن اسحاق بن ندیم ، الفہرست، دارالمعرفہ، بیروت(۱۹۹۴ء)ص۱۶۲
(۸) اردو دائرہ معارف اسلامیہ ج ۲ ص۱۶۲
(۹) فاطمی خلیفہ امعز باللہ کے حکم سے اس کے جرنیل جواہر الکاتب نے تعمیر کرایا، سلطان صلاح الدین ایوبی کی فتح مصر کے بعداس کی مزید توسیع ہوئی اور اب یہ اہل السنۃ والجماعۃکا علمی و فقہی مرکز بن گیا۔
(۱۰) جلال ہمائی ،غزالی نامہ( اردو ترجمہ:رئیس احمد جعفری)، شیخ غلام علی اینڈ سنس لاہورص ۶۷
(۱۱) ڈاکٹر احمد شلیبی،مسلمانوں کا نظام تعلیم، اردو اکیڈمی سندھ ص۱۷
(۱۲) ہسٹری آف اسلام، این انسائکلوپیڈیا آف اسلامک ہسٹری، کراچی
(۱۳) پروفیسراخترالواسع، تعلیم کی دینی و دنیاوی تقسیم،انقلاب ،کانپور،اتوار۳۰؍ستمبر۲۰۱۲ء (بحوالہ ’ہندوستان میں مسلمانوں کا نظام تعلیم و تربیت؍ مناظر احسن گیلانی)
(۱۴)ان میں سب سے قدیم ’امتحانات عربی فارسی بورڈ(اب’اترپردیش مدرسہ تعلیمی بورڈ‘)، الہ آبادہے ، جس کا سن قیام غالباً ۱۹۲۴ء