۔۔۔اوریہ ممتابنرجی کے دس ہزار مدرسے

Table of Contents

مغربی بنگال کی نئی حکومت تو ملک کے مسلمانوں کو تابڑتوڑ چونکا رہی ہے!
احمد جاوید
کلکتہ کی تاریخی رائٹرز بلڈنگ سے جمعہ کو یہ خبر آئی کہ وزیر اعلی ممتا بنرجی کی حکومت نے ریاست کے دس ہزار مدرسوں کو منظوری دینے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ یہ مدرسے اور ان کے طلبا واساتذہ ریاست اور مرکز کی متعدد اسکیموں سے مستفید ہوسکیں توپہلے توذہن میں تاریخ کے کئی اوراق گڈمڈ کرنے لگے ۔پھر ایک جھٹکہ کے ساتھ میںماضی کے دوش سے آج کی زمین پر گرا‘اعصاب پر وہ شور حاوی تھا جو پچھلے دنوں مرکز میں مدرسوں کے بورڈ کے قیام اور ان کی منظوری کی مخالفت اور حمایت میں برپا تھا ۔یہ آواز یں ذرا کمزور پڑیں تو پھر تاریخ کے اوراق پھڑ پھڑانے لگے ۔ان دونوں کیفیات کے درمیان میری ذہنی حالت کا اندازہ وہی کرسکتا ہے جس پر یہ کیفیات کبھی خود بھی طاری ہوئی ہوں۔
ہندوستان میںحکومت وقت سے تسلیم شدہ یاامداد یافتہ مدارس کی تاریخ صدیوں پرمحیط ہے بلکہ یوں کہیں کہ اس برِّ عظیم میں مدارس کی تاریخ جہاں سے شروع ہوتی ہے اس سلسلہ کا آغاز بھی وہیں سے ہوتا ہے- ہر دور میں اور ہر قسم کی حکومتوں نے مدارس اسلامیہ کی سر پرستی کی حتی کہ انگریزوں کو بھی اپنی رعایا کی خواہش اور ان کی ضرورتوں کے زیر اثر ایسا کرنا پڑا-یہاں مدارس اسلامیہ کا جو موجودہ نظام ہے اس کی نشاۃ ثانیہ انگریزوں کے دور میںاورکلکتہ سے ہی ہوئی- 1781 میں مدرسہ عالیہ کلکتہ کے قیام سے ہندوستان میں جدید طرز کے مدرسوں کی تاریخ شروع ہوتی ہے۔ برصغیرمیں طے شدہ قواعد و ضوابط ، معیار معین اور مخصوص نظام کے تحت چلنے والے مدارس کی خشت اول یہی تھی – اس کے بعد ہی دہلی کالج(۱۷۹۲)،ــ اجمیر کالج ، بریلی کالج، جون پور، لکھنو اور الہ آباد کے مدرسے باقاعدہ وجود میں آئے-ورنہ اس سے قبل علما کی اپنی اپنی درس گاہیں ہوتی تھیں جو عموماً مسجدوں او رخانقاہوں سے منسلک تھیں- ایک علم آپ نے کسی استاد سے الہ آباد یا جون پور میں سیکھ لیا تو دوسرا مضمون پڑھنے کے لیے بریلی یا حیدر آبادجائیں- مدارس کے نظام اور نصاب کے معیار کے تعین اور اس معیار کے پابند مدارس کے قیام کی اس پہل نے تقریباً ایک سو سال کے بعد اپنا مثبت اثر دکھایا اور اس ملک میں تعلیمی اداروں کے قیام کی نئی تحریک پیدا ہوئی ۔دار العلوم دیوبند (۱۸۶۸ء) ،مدرسۃ العلوم علی گڑھ (۱۸۷۵ء) ، جامعہ نظامیہ حیدر آباد (۱۸۷۶ء)، دار العلوم حمیدیہ دربھنگہ ( ۱۸۸۵ء)، مدرسہ اسلامیہ شمس الہدی پٹنہ (1911) ، ڈھاکہ، سلہٹ،مراد آباد ، بریلی ، کانپور ، اعظم گڑھ، اجمیر شریف، لاہور، بہاولپور اور دوسرے شہر و قصبات کے سینکڑوں چھوٹے بڑے مدرسے اسی تحریک کی یادگار ہیں جس کی خشت اول یہاں مدرسہ عالیہ کلکتہ اور مدرسہ غازی الدین حیدر، دہلی (دہلی کالج )کی شکل میں رکھی گئی تھی۔ دار العلوم دیوبند اور مدرسۃ العلوم ، علی گڑھ کے بانیوں میںکوئی ایک شخص بھی ایسا نہ تھا جس نے مدرسہ دہلی (دہلی کالج) میں تعلیم نہ حاصل کی ہو-سر سید احمد خاں اور ان کے رفقا کے بارے میں تو کہنا ہی کیا ہے- دار العلوم کے بانیوں میں حاجی محمد عابد حسین سے مولانا ذوالفقارعلی تک سب کے سب اسی مدرسہ کے تعلیم یافتہ تھے- ان سب کی تعلیم و تربیت دہلی میں مولانا مملوک علی نانوتوی کی سرپرستی میں ہوئی تھی جو مدرسہ دہلی کے مدرس تھے- مولانا محمد قاسم کو وہی نانوتہ سے دہلی لائے تھے، دار العلوم کے پہلے مہتمم مولانا یعقوب علی ان کے اپنے بیٹے تھے- مولانا ذوالفقار علی ( شیخ الہند مولانا محمود الحسن کے والد)کے استاد و مربّی بھی مولانا مملوک علی ہی تھے، مولانا فضل الرحمان عثمانی نے بھی مدرسہ دہلی میںمولانا مملوک علی سے ہی تعلیم پائی تھی اور وہ عرصہ تک حکومت کے محکمہ تعلیم میں ڈپٹی انسپکٹر رہے-مدرسہ عالیہ سلہٹ، مدرسہ عزیزیہ بہار شریف اورمدرسہ شمس الہدیٰ پٹنہ کے پرنسپل مولانا مفتی محمد سہول بھاگلپوری برسوں دارالعلوم کے مفتی اور مسلسل 56 برسوں تک دار العلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ کے رکن رہے جبکہ یہ تینوں مدرسے سرکاری تھے- وہ اس وقت بھی دار العلوم کی مجلس شوریٰ کے رکن تھے جب مدرسہ شمس الہدیٰ پٹنہ میں بہار مدرسہ اگزامنیشن بورڈ کا قیام عمل میں آرہا تھا اور وہ اس مدرسہ کے پرنسپل ( صدر مدرس) تھے-
ابھی چند دنوں قبل مغربی بنگال کی نو منتخب وزیر اعلی نے ریاست میں اردو کو آفیشیل لنگویج (سرکاری زبان)بنانے کا اعلان کیا تھا۔یاروںپرابھی اس اعلان کی سرشاری طاری ہی تھی کہ اب ریاست کے دس ہزار نئے مدرسو ںکو منظوری دینے کا فیصلہ کرکے بنگال ہی نہیں‘ہندوستان بھر کے مسلمانوں کو چونکا دیا اور انکے اس جرأت مندانہ قدم کی ہمارے ملی حلقوں میں چوطرفہ تعریف وتوصیف ہورہی ہے ۔لگتا ہے کہ اب شک کی اس نفسیات سے ہم لوگ باہر آرہے ہیں جس نے اس ملک میں ملت مظلوم کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا یا اور جس کا ملت کے سودا گروںنے ہر دور میں استحصال کیا۔ بے شک اس نفسیات کے ٹھوس سماجی، معاشی وسیاسی عوامل ومحرکات ہیں جنکی جڑیں تاریخ میں گہری پیوست ہیں لیکن اس ملک کی سیات نے بڑی چالاکی سے جمہوریت کے اس دور میں بھی ان کی آبیاری جاری رکھی ہے ۔حتی کہ آپس میں بھی ہم ایک دوسرے کو شک کی نظروں سے دیکھنے کے عادی ہیں ۔اسی ذہنیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہمیں بیچ کی راہ بہت کم دکھائی دیتی ہے ۔ہمارا ایک طبقہ وہ ہے جس نے مدرسوںکو مقدس گائے بنالیا ہے اور دوسرا وہ جسے مدرسے اور اس کی تعلیم ایک آنکھ نہیں بھاتی، مدارس کی تعلیم اوراس کے نصاب کو فرسودہ اور ازکار رفتہ تصور کرتا ہے۔
جہاں تک مغربی بنگال میں مدرسوں کا سوال ہے تو اس وقت وہاں بورڈ کے مدارس کی تعداد 507ہے جن میں سوا لاکھ سے زائد بچے زیر تعلیم ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ان مدرسوں کا معیار کیاہے، ان کے طلبہ واساتذہ کوجو سہولیات دی جاتی ہیں وہ کتنی کافی یا ناکافی اور کتنی مفید ونتیجہ خیز ہیں، ہاں اتنا ضرور جانتے ہیں کہ یہ مدرسے انتہائی افتادہ وپسماندہ علاقوں کے غریب مسلمانوں میں تعلیم کی روشنی پھیلانے اور ناخواندگی دور کرنے کی گراںقدر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس تصویر کا دوسرا رخ جو اس وقت زیادہ قابل توجہ ہے یہ ہے کہ 1781سے 2011تک پورے 230سال کی مدت میں مغربی بنگال میں حکومت سے منظور شدہ مدرسوں کی تعداد 507کو پہنچی اور اب 2011میں اگر حکومت کو اسکے فیصلے پر عمل کرنے دیا گیایا خود حکومت نے کسی فریب سے کام نہیں لیا تو یہ تعداد دس ہزار سے تجاوز کرجائے گی۔ اس لحاظ سے دیکھیں تو یہ ممتا بنرجی کا ایک بڑا جرأت مندانہ اور انقلابی قدم ہے جس کی اہمیت ومعنویت پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے لیکن ملت کے بہت سے محسنوں کے ذہنوں میں اس وقت بے چینیاں کروٹیں لے رہی ہوںگی، اورخوف ہے کہ کہیں وہ ممتا کے اس جرأت مندانہ فیصلہ کو سوالوں اور اندیشوں کے گھیرے میں نہ کھڑا کردیں۔
ممتا نے حکومت کے اس جرأت مندانہ فیصلے کااعلان کیا تو یہ کہنا نہ بھولیں کہ حکومت اس کے لئے اخبارات میں اشتہارات دے گی،مدرسوں کے ذمہ داران کو درخواست دینی ہوگی اور جولوگ منظوری لینے کے لئے حکومت سے درخواست کریں گے ان ہی مدارس کو منظوری دی جائے گی۔یہ وہی خوف بول رہاہے جو میرے اعصاب پر سوار ہے ۔اگرچہ کسی ذی شعور ہندوستانی کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ نہ تو تعلیمی اداروں کی منظوری یا الحاق یک طرفہ معاملہ ہوتا ہے اور نہ کسی بورڈکو ان کے اندرونی وانتظامی امور میں مداخلت کا اختیار ہے۔وہ صرف اسکے تعلیمی معیار کی نگرانی کرتا ہے ــ،امتحانات کاانعقاداوراسناد کا اجرا اسکی ذمہ داری ہوتی ہے۔اسی اصول پرملک کے دوسرے بورڈ،سی بی ایس ای اور یوجی سی وغیرہ بھی کام کرتے ہیں ۔حکومت چاہتی ہے تو یوجی سی اور دوسرے اداروں کی طرح بورڈ کو بھی مالی امداد مہیا کرانے کے لیے بطوراجنسی استعمال کرتی ہے لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے بعض حلقوں کی جانب سے یا تو اس خوف سے مدرسہ بورڈ کی مخالفت کی جاتی ہے کہ ریاضی، سائنس وغیرہ عصری علوم پڑھنا پڑھانا پڑے گا اور امتحانات میں ہمارے طلبا کامیاب نہیں ہوں گے ، قواعد و ضوابط کی پابندی جو کرنی پڑے گی وہ الگ یا پھر اس اندیشے کے زیر اثر کہ حکومت مداخلت کریگی ’’ سرکار پیسے دے گی تو ہم سے کام بھی لے گی-‘‘ در اصل اس ملک میں مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ آج بھی اس سوچ کا حامل ہے کہ یہ سرکار ہماری نہیں ہے وہ آج تک یہ نہیں سمجھ سکے ہیں کہ جمہوریت میں سرکار کسی اور کی نہیں ہوتی مگر اس کے ٹھوس اسباب وعوامل ہیں اور ہمیں جان بوجھ کر اس سوچ میں گرفتار رکھا گیاہے –
اسی ہفتے کی بات ہے دارالعلوم دیوبند کے طلبہ کی ایک انجمن کے سالانہ اجلاس میں مدارس اسلامیہ کے فارغین کی معاشی حالت زیر بحث تھی۔یہ ناچیز بھی وہاں باریاب تھا ۔ اپنے مختصر وغیر رسمی خطاب میں اس نے طلبا سے کہا کہـ مدارس کے فارغین کی کمزور معاشی حالت کے اور بھی اسباب ہیںلیکن ایک سب سے بڑی وجہ منصوبہ بندی کی کمی اور وقت کا ضیاع ہے۔سب سے پہلے تو ہمیں اپنا اور اپنی صلاحیتوں کا جائزہ لینا چاہئے کہ ہم کونسا کام بہتر کرسکتے ہیں اور کس مضمون میں ہماری صلاحیتوں کے جوہر زیادہ کھلیں گے ،پھر اسی شعبے اور اسی میدان میںاپنے اہداف طے کرنا چاہئے ،آج کی تیزرفتاردنیامیںکام اور محنت کی تقسیم کے اصول کو اپناکر ہی آگے بڑھاجا سکتاہے۔اس کے برعکس عربی مدارس کے لوگ کشتیاںموجوںکے حوالے کیے بیٹھے ہیں ۔ان میں آج کل ایک وبااور چل گئی ہے ، فارغین مدارس کی ایک بڑی تعداد یونیورسٹیوں اور کالجوں کاچکر لگا کر اپنی عمریں ضائع کررہی ہے،ان میں بہت کم ایسے ہوتے ہیں جو واقعی اعلی تعلیم کا ذوق رکھتے ہیں ۔اسی طرح ہمارے مدارس میں ایک خطرناک رجحان محنت سے جی چرانے اور مشکلات سے بھاگنے کاپروان چڑھ رہا ہے ۔کسی زمانے میں ہمارے مدارس جملہ علوم وفنون متداولہ کے مراکز ہوتے تھے،معقولات ومنقولات کے جامع علما واساتذہ موجود تھے ۔منطق ، فلسفہ، طب، فلکیات، ریاضی اور دوسرے مروجہ جدید وقدیم علوم وفنون مدارس کے نصاب میں شامل تھے ۔لیکن آج کیاحالت ہے؟مدارس کے نصاب سے مشکل کتابیں نکلتی چلی گئیں۔اس وقت زیادہ افسوس ہوتا ہے جب ہم مدرسہ کے کسی فاضل کی زبان سے سنتے ہیں کہ منطق وفلسفہ پڑھ کر کیا ہوگا؟جبکہ یہی منطق یونیورسٹیوں میں پہنچ کر ایک ضروری علم بن جاتی ہے، اس کی اعلی تعلیم کے بغیر علم قانون اورکٔی دوسرے ماڈرن سایٔنس میں مہارت ودسترس ممکن نہیں ، اسی کی ایک اور شاخ ریزننگ ہے ۔اسی طرح فلسفہ کی جو کتابیں مدارس کے نصاب میں شامل ہیں ،وہ ہیئت ،فلکیات ،اور سائنس کی دوسری کٔی شاخوں کے بنیادی مباحث کومحیط ہیں ۔فرق صرف یہ ہے کہ جزء الذی لایتجزا کی جو بحث آپ آٹھ سوسال سے پڑھ رہے ہیں ،وہ کہاں سے کہاں بڑھ گئی ،دنیا نے ایٹم کی کھوج کرلی ،عنصر کو توڑ لیا لیکن ہم نے خبر نہیں لی ،ہمارے کسی عالم دین ماہر معقولات کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ اس بحث پراور کچھ نہیں تو حاشیہ ہی لکھ دیتا۔ڈارون کا فلسفہ ارتقاساری دنیا میں رائج ہوگیا لیکن اگر اسلامی نقطہ نظر سے اس کی تردید وتغلیط کرنے کی توفیق کسی کو ہوئی تو وہ بھی ترکی کی ایک غیر اسلامی یونیورسٹی کا گریجویٹ ہارون یحیٰ تھا۔اس خطاب کے بعض حصے اخبار میں شائع ہوئے تو ہمارے ایک کرم فرما نے اور باتوں کے علاوہ یہ بھی لکھا کہ جدید علوم کے بجائے منطق وفلسفہ جیسے فرسودہ مضامین کی تعلیم جاری رکھنے سے کیاحاصل ہوگا؟حیات کے کس سے شعبے میں ان علوم کی ضرورت ہے اوران مضامین سے اخذ کردہ صلاحیت کس معاشی ،سماجی اور تعلیمی میدان میں کام آئے گی؟وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ اب دنیا کہیں سے کہیں پہنچ چکی ہے لیکن ہندوستانی مسلمانوں خصوصا شمالی ہند کے مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ وہ ابھی تک ماضی میں منجمد ہیں۔ایک طرف یہ ہیں اور دوسری طرف وہ جن کااصرار ہے کہ ہمارے مدارس اور ان کا نصاب اسلام دشمن طاقتوں کے نشانے پر ہیں۔
ہندوستان میںبرطانیہ کے پہلے گورنر جنرل لارڈہیسٹنگر نے کلکتہ میں مدرسہ عالیہ قائم کیا تو اس کا مقصد فارسی، عربی اور فقہ اسلامی کے ایسے جانکار پیدا کرنا تھا جو سرکاری دفاتر اور عدالتوں میں کام کرسکیں۔ سرکار کو قاضی، مفتی ، منشی اور امام مل سکیں۔ بد قسمتی سے مدارس کے اسی کردار اور اسی مقصد کو آگے چل کر خود مسلمانوں نے بھی قبول کرلیا اور علم کی باضابطہ تقسیم عمل میں آگئی اور آج ہمارے بعض بہی خواہان ملت اس پر اس حد تک اصرار کرتے ہیں جیسے یہی ہمارا مقدراور نص قطعی ہو، ان کو بورڈ کے مدرسے سخت نا پسند ہیں کیونکہ ان میں دینی علوم کے ساتھ ساتھ سائنس ، ریاضی اور دوسرے ضروری مضامین بھی پڑھائے جاتے ہیں۔
مرکزی مدرسہ بورڈ کی تجویز آئی تو بعض عناصر نے جان بوجھ کر مسلمانوں کو اس کی مخالفت پر ابھارنے کے لیے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ یہ قدم حکومت کی جانب سے مدرسوں کی نگرانی اور ان میں مداخلت کے لیے اٹھایا جارہا ہے۔ پھر وہی ہوا جو ہونا تھا۔ ملک کی 12 ریاستوں میں بورڈموجودہیں، ان کی مخالفت کبھی نہیں کی گئی بلکہ یہ تمام کے تمام بورڈ مسلمانوں کے مطالبے پر قائم کیے گئے تھے لیکن مرکزی مدرسہ بورڈ کی بڑی شدید مخالفت کی گئی جبکہ اس سے ہندوستان میں مدرسہ نظام تعلیم کو قومی سطح پر منظوری اور قانونی حیثیت حاصل ہوتی-یہ مخالفت حکومت اوراسکے محکمہ تعلیم کو خوب راس آ یی اورحسب منشایہ تجویزسردخانے میںپہنچادی گیی۔ اب جب کہ ملک میں حقوقِ تعلیم ایکٹ نافذ ہے جس کی رو سے 6 تا14 سال عمر کے تمام بچوں کی تعلیم لازمی ہے اور ان کو کسی غیرتسلیم شدہ تعلیمی ادارے میں بھی روکا نہیں جاسکتا حتی کہ پرائیویٹ اسکولوں کو بھی وارننگ دے دی گئی ہے کہ یا تو وہ معیار کی پابندی کریں یا بند کردیے جائیں تو مدرسوں کو اس قانون کی زد میں آنے سے بچانے کا ایک ہی راستہ ہے کہ وہ قواعد و ضوابط کے مطابق تعلیمی ادارے کی حیثیت سے خود کو تسلیم کرائیں اور اس کا مدرسہ بورڈ سے الحاق یا منظوری سے آسان اور بہتر کوئی اور طریقہ نہیں ہوسکتا- مسئلہ یہ بھی ہے کہ جن ریاستوں میں ابھی تک مدرسہ بورڈ نہیں ہے وہاں کے مدرسوں کا کیا ہوگا؟ ذرا آپ ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ان ہزاروں مدارس کا تصور کیجیے جو مقامی مسلمان اپنے خرچ سے چلاتے ہیں۔ غریب آبادیوں میں قائم ان مدرسوں کے ذمّہ داران اس کے لیے کیا کیا جتن نہیں کرتے- یہ مدارس سرکاری امداد کے دوسروں سے زیادہ حقدار ہیں جن سے کسی ضابطہ کے تحت آئے یا کسی بورڈ کی منظوری حاصل کیے بغیر یہ محروم ہی رہیں گے۔ممتا بنرجی نے تو اس مسئلے کا حل پیش کردیا۔ اس سے قبل بہار میں نتیش کمار کی حکومت ڈھائی ہزارنیٔے مدرسوں کی منظوری کا نوٹیفکیشن جاری کرچکی ہے؟ کیا مرکز اور دوسری ریاستیں بھی اسی جرأت سے کام لیں گی؟اگرمرکزی حکومت اور اسکی وزارت فروغ انسانی وسایل ایماندارہوتی تو ممتا بنرجی کی طرح کابینہ میں فیصلہ لیتی، پارلیمنٹ میں بل پیش کرتی اور اعلان کردیتی کہ اب جو مدرسے درخواست دینگے انہیں منظوری دی جایگی نہ کہ کمیشن کمیٹی کا کھیل کھیلاجاتااور علما کے اختلافات کو ہوادی جاتی۔

مصنف کے بارے میں

احمد جاوید

احمد جاوید اردو کے ممتاز صحافی، مصنف، مترجم اور کالم نگار ہیں۔ تاریخ و تمدن پر گہری نظر اور ادب و صحافت میں اپنے منفرد اسلوب سے پہچانے جاتے ہیں۔

مزید