افغانستان کا مستقبل پھر بیرونی طاقتوںکا تختہ مشق بن گیا ہے ۔پھر وہی حالا ت سامنے ہیں جن حالات نے طالبان کو جنم دیا اور اقتدار تک پہنچایاتھا، فرق صرف یہ ہے کہ اس وقت امریکہ نے چشم پوشی کرلی تھی لیکن اس بار وہ اس سے سخت پریشان ہے کیونکہ آج اس دلدل میں وہ خود پھنسا ہوا ہے ، اس کا اپنا مستقبل، معیشت،اور فوجیں داؤ پر لگی ہوئی ہیں۔
فکرفردا
احمدجاوید
جمعہ کو خبر آئی کہ صدر بارک ابامہ نے پاکستان کی فوج اور انٹلی جنس سروسزکے مخصوص انتہا پسندوں سے روابط پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ واشنگٹن کے لیے پریشان کن ہے اور اسی کے ساتھ افغانستان میں بیرونی طاقتوں کی مفادات کی جنگ پر پاکستان کو نصیحت کی ہے کہ وہ اب بھی ہندوستان کو اپنا دشمن سمجھتاہے حالانکہ اسے سمجھ لینا چاہیے کہ’’ ہندوستان کے تئیں پر امن طرز فکر وعمل ہی ہر ایک کے مفاد میں ہوگا۔‘‘ تومیرا ذہن ماضی کے ان دھندلکوں میں کھو گیااوردیرتک کھویا رہا جب طالبان کا ہیولہ تیار ہو رہا تھا۔ لگاکہ افغانستان کی تاریخ ایک بار پھر اپنے آپ کو دوہرا رہی ہے،پھر وہی حالات بن رہے ہیں جن حالات نے طالبان کو جنم دیا اور اقتدار تک پہنچایاتھا، فرق صرف یہ ہے کہ اس وقت امریکہ نے چشم پوشی کرلی تھی لیکن اس بار وہ اس سے سخت پریشان ہے کیونکہ آج اس دلدل میں وہ خود پھنسا ہوا ہے ،اس کا اپنا مستقبل، معیشت،اور فوجیں داؤ پر لگی ہوئی ہیں۔
صدر ابامہ نے اگرچہ کسی کانام نہیں لیا ہے لیکن حقانی گروپ سے پاکستان کے روابط پر امریکہ اور پاکستان کے اعلی حکام اور وزرا ء کی لفظی جنگ کے بعد ان کے اس بیان سے کہ’’ اب اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہ گئی ہے کہ پاکستانی فوج اور انٹلی جنس سروسز کے ان خاص افراد سے روابط ہیں جن سے ہمیں پریشانی ہے‘‘،ساری کہانی خود بہ خود سامنے آجاتی ہے۔پھر یہ احتیاط کہانی کا دوسرا رخ بھی پیش کردیتی ہے کہ وہ ان ’خاص افراد‘(certain individuals)کے لیے دہشت گرد جیسے الفاظ استعمال نہیں کرتے،غیر محفوظ وناقابل بھرسہ یا زیادہ سے زیادہ خطرناک کردار کے الفاظ استعمال کرتے ہیںاور کسی تنظیم کا نام بھی نہیں لیتے۔امریکہ کی اصل مشکل یہ ہے کہ ایک طرف تواسے افغانستان میںاس طاقت کی تلاش ہے جواسے اس دلدل سے نکلنے کا محفوظ راستہ دلاسکے اور امید کی موہوم سی کرن حقانی میں ہی نظر آرہی ہے ۔دوسری طرف ابھی وہ یہاں سے نکلنے کی تیاری ہی کر رہا ہے کہ اس سنگلاخ سرزمین میں ایک بار پھربیرونی طاقتوںمیں مفادات کی وہی جنگ چھڑ گئی ہے جوافغانستان سے سوویت افواج کی پسپائی کے بعد چھڑ گئی تھی۔وہی مناظر ہیں ، ہندوستان ،ایران اور روس ایک طرف ہیں، پاکستان اور چین ایک طرف اور امریکہ ایک طرف جبکہ افغانوںکی آپسی رنجشیں، رقابتیں اورروایتی عداوتیں اپنی جگہ ہیں۔ کابل ہندوستان اورایران کی طرف بڑھ رہا ہے کیونکہ وہ اپنی موجودہ قابل رحم حالت کا سب سے بڑاذمہ دارپاکستان کو ہی تصور کرتا ہے۔افغانستان کی ۸۰فیصد آبادی پاکستان سے آج سخت بیزارومتنفر ہے حتی کہ طالبان بھی جن کی نشوونما پاکستان میںہی ہوئی تھی۔ کابل کے تاجک تو پاکستان کو اپنے ہیرواحمد شاہ مسعودکا قاتل تصور کرتے ہیں اورپرفیسرربانی کے قتل نے ان کے پرانے زخموں کو تازہ کر دیا ہے۔ ایسی صورت میںاسے امید کی کرن حقانی اور ان طالبانی عناصر میںنظرآتی ہے جو کسی نہ کسی سطح پر اب بھی آئی ایس آئی سے روابط بنائے ہوئے ہیں ۔ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ پاکستان ایک بار پھراپنے مفادات کا تحفظ افغانستان کی ان ہی طاقتوں میں دیکھ رہا ہے ،جن کو روسی افواج کی پسپائی کے بعد خانہ جنگی کے زمانے اس نے آگے بڑھایا تھا اور جن کی مدد سے وہ طالبان کو اقتدار میں لانے میں کامیاب ہواتھا۔
جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے تو وہ ابھی چند ماہ پیشتر جلال الدین حقانی اور ان کے بیٹے سراج الدین حقانی سے مذاکرات میں مصروف تھا ، قطر اور جرمنی ثالثی کر رہے تھے اور صدر حامد کرزئی نے حقانی جونیئر کو وزیر اعظم کے عہدہ کی پیشکش تک کردی تھی۔گویانہ امریکہ کا یہ دعوی جھوٹ ہے کہ حقانی گروپ سے آئی ایس آئی اور پاکستانی افواج کے گہرے روابط ہیں اور نہ پاکستان کایہ جواب دعوی کہ اس گروپ کو سی آئی اے کی امداد حاصل رہی ہے۔ بلا شبہ روسی تسلط کے خلاف اسے ہر قسم کی امداد اور ٹریننگ سی آئی اے نے دی۔امریکی کانگریس کے رکن چارلی ولسن جنہوںنے افغان جہادمیں لاکھوں ڈالرلگائے ،جلال الدین حقانی کونیکیوں کا پتلا (goodness personified)کہا کرتے تھے ۔اسٹیو کول کی کتاب ’دی بن لادنس‘The Bin Ladens) ( میں تفصیلی ذکر موجود ہے کہ انہوں نے سی آئی اے سے نقد اور ہتھیار دونوں حاصل کیے۔امریکہ اور پاکستان کے حلیفوں میں کلیدی حیثیت رکھتے تھے۔عرب ملکوں کی سب سے زیادہ سپورٹ انہیں ،پھر استاد سیاف کو حاصل تھی۔نجیب اللہ کی حکومت سے جنہوں نے سب سے پہلے کوئی شہر چھینا تھا،وہ حقانی تھے اور یہ شہر خوست تھا۔اور ۱۹۹۲ء میں ان کو عبوری حکومت کا وزیر انصاف مقرر کیا گیا تھا۔حقانی کی طاقت، پاکستان سے ان کے گہرے روابط اوران سے اپنے پرانے تعلقات کے سبب امریکہ کو حقانی گروپ سے یہ امید تھی کہ وہ اسے افغانستان کے دلدل سے نکالنے میں مدد کریگا اور اب بھی وہ یہی کہہ رہے ہیں کہ ’’یہ طالبان نہیں ہیں لیکن طالبان سے تعاون کر رہے ہیں‘‘۔
در اصل جلال الدین حقانی افغانستان کے صوبہ پکتیا کے پشتو قبیلہ جدران سے تعلق رکھتے ہیں ۔یہ علاقہ پاکستان سے تین طرف سے گھرا ہوا ہے اورپاکستانی وفاق کے زیر انتظام قبائلی خطہ(فاٹا)سے متصل ہے ،پھران کو پاکستان کا اعتمادبھی حاصل رہاہے اوران کی اسی خوبی کی وجہ سے ان کو سی آئی اے کی زبردست حمایت حاصل رہی ہے ۔ روسی تسلط کے خلاف افغان جہاد کے دور میںوہ مولوی محمد یونس خالص کے حزب اسلامی کے رکن تھے جن کو صدر رونالڈ ریگن نے وھائٹ کا مہمان بنایا تھا۔رپورٹیں بتاتی ہیں کہ افغان پاک سرحد پر واقع اس وسیع وعریض خطہ میںآج اس گروپ کی متوازی حکومت قائم ہے،اسی علاقہ سے وہ شاہراہیں گزرتی ہیں جن سے روزانہ ہزاروں ٹرک افغانستان آتے جاتے ہیںاور ان میں سے کوئی بھی ان کی اجازت اور ان کو ٹیکس ادا کیے بغیریہاں سے گزر نہیں سکتا۔بیرونی دنیا سے حقانی کے پرانے روابط اب بھی قائم ہیں،نیویارک ٹائمز کی مانیں تو اب بھی غیر ملکی مجاہدین اور بیرونی امداد ان کو مل رہی ہیں۔ خود امریکی انٹلی جینس ذرایع کے مطابق پاکستان کے میراں شاہ(شمالی وزیرستان) او ر ا فغانستان کے خوست، وردک، لوگر، اور غزنی وغیرہ پر پھیلی ہوئی حقانی کی ایک چھوٹی سی ریاست ہے جہاں اس کے محصولات کے دفاتر، عدالتیں، مدرسے، اور یہاں تک کہ موٹر گاڑیاں بیچنے والی کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔سوال یہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں امریکہ کے مسلسل ڈرون حملوں کے بعد بھی اگر یہ سب کچھ محفوظ ہیں ، ان کا نیٹ ورک کام کر رہا ہے اور حقانی خاندان کا بال بیکا نہیں ہوا ہے تواس کا راز کیا ہے؟
یہ غالبا ۱۹۸۲ء کے اواخر کی بات ہے۔اس وقت تک افغان مجاہدین لال فوج کے خلاف الگ الگ اور اپنے اپنے حلقہ اثر کے لحاظ سے مزاحمتی کارروائیاںکررہے تھے۔پروفیسربرہان االدین ربانی نے افغان لیڈروں کو ایک چھت کے نیچے بٹھایا اور ان کو منظم کر کے سات جماعتی اتحاد تشکیل دیا۔ان سات دھڑوں کے لیڈر مولوی یونس خالص،گلبدین حکمت یار،استاد برہان الدین ربانی، مولوی غلام نبی محمدی،پروفیسر صبغت اللہ مجددی،پیر سید احمد شاہ گیلانی اوراستاد عبد الرسول سیاف تھا۔اسی اتحاد نے افغانستان میں تاریخ کی طویل ترین گوریلا جنگ لڑی اور کامیابی حاصل کی۔لیکن اسے اس کے ثمرات نصیب نہیں ہوئے۔در اصل روسی افواج کے خلاف مجاہدین کی جنگ ابھی اپنے شباب پر تھی اور آثار نمودار ہوچکے تھے کہ اس اتحاد کی فتح ہوگی،ان ہی دنوں پتہ نہیںکن لوگوں نے استاد عبد الرسول سیاف پرایسی محنت کی کہ وہ جلد ہی سلفی المسلک ہو گئے۔پھر انہیں سلفی المسلک سعودیوں کی زبر دست حمایت حاصل ہوگئی۔بتدریج ان پر نئے مسلک کا غلبہ اتنا بڑھاکہ استاد عبد الرسول سیاف نے اپنا نام بدل کر عبدالرب رسول سیاف کرلیا۔ایسے لوگ عموما مسلک کو دین سمجھ لیتے ہیں اور دوسرے مسلمانوں کو بے دین،کافرومشرک بلکہ قابل گردن زدنی۔افغانستان میں طالبان کی یہ خشت اول تھی جس نے آگے چل کردنیا کی سب سے طاقتور فوج کوپسپا کر دینے والے اتحاد کا شیرازہ بکھیر دیا۔کیونکہ اول الذکر دونوں دھڑوں کا اثرورسوخ اہل سنت کے علماومشائخ میںتھا،بقیہ دھڑے بہت چھوٹے تھے۔استاد سیاف کی تبدیلی مسلک اور اپنے نئے مسلک کے تئیںان کی شدت نے اتحاد کا ایسا شیرازہ بکھیرا کہ عرصہ دراز تک خانہ جنگی جاری رہی۔استاد ربانی اور ان کی جمعیۃسیاف کے شمالی اتحادمیں شامل ہوگئی اور ان کااساطیری شہرت کاحامل گوریلاکمانڈراحمدشاہ مسعودحکمت یار خاں پر پل پڑا۔یاد رہے کہ اسامہ بن لادن شمالی اتحاد کے لیڈر سیاف کی دعوت پر ہی ۱۹۹۶ء میںسعودی عرب سے افغانستان آیا تھا۔بعد میں جب طالبان نے کابل پر غلبہ حاصل کرلیاتو اپنی پناہ میں لے کراسے قندھار منتقل کیا۔ اسامہ کوطالبان حکومت کا مہمان بنانے میںحقانی کاکلیدی رول تھا۔کیونکہ طالبان کواقتدار میں لانے اور ان کے اقتدار کو مضبوط کرنے میں حقانی کا کلیدی کردار تھا۔وہ اس سے قبل عبوری حکومت میں وزیر انصاف رہ چکے تھے۔ خانہ جنگی کے زمازے میں زیادہ طاقت کے ساتھ ابھرے ،طالبان کا ظہور ہوا تووہ ان کے ساتھ تو نہیں تھے لیکن کابل پر طالبان کا قبضہ ہوجانے کے بعد ان کی حکومت میںشامل ہو گئے ،اس وقت تک شمالی اتحاد کی حکومت کوامریکہ اور سعودی عرب کے ساتھ ساتھ پاکستان کی حمایت بھی حاصل تھی جس کے سربراہ پروفیسر ربانی بدخشاں میںپناہ لے چکے تھے لیکن طالبان کا غلبہ جیسے جیسے بڑھتا گیا،یہ حمایت ان کی جانب منتقل ہوتی گئی جبکہ طالبان کے مقابلے پرشمالی اتحاد کو ہندوستان، روس اور ایرن کی تائید حاصل تھی جس کوپاکستان مخالف گٹھ جوڑ تصور کیا جاتا تھا۔
جن دنوں افغانستان پر روسی افواج اور اشتراکیت پسندوں کا تسلط قائم تھا،روسی مظالم کی لرزہ خیز خبریںسنکرکراچی کے مشہور مدرسہ جامعہ بنوریہ ٹاؤن سے طلبا کی ایک جماعت افغانستان گئی جس کی قیادت ارشاد حسین نام کا ایک طالب علم کر رہا تھا۔یہ جماعت غلام نبی محمدی کی جماعت میںشامل ہو گئی۔پھر پاکستانی طلبہ کی کئی کھیپ وہاں گئی اورمولوی محمدی کادھڑا نسبتا مضبوط ہونے لگا لیکن بعد میں ان کا اختلاف ہو گیا اور ان طلبہ نے مولانا فضل الرحمان خلیل کی سر پرستی میں حرکۃ الجہاد الاسلامی بنائی۔ حرکۃ المجاہدین اور حرکۃالانصار اسی سے پیدا ہونے والی تنظیمیں ہیں۔اسی طرح حزب اسلامی سے حرکۃ انقلاب اسلامی پیدا ہوئی ۔طالبان کا تیسرا گروہ وہ تھا جن کو پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں نے پاکستان کے شمال مغربی علاقوں میں سرگرم عمل کیاتھا۔ اپنے مسلک کو فروغ دینے کے حریص طلبا اور علما کے جتھوں کے جتھے ان سرحدی علاقوں میںبھیجے گئے جنہوں نے وہاں بڑے پیمانے پر تشدد کا بازار گرم کیا۔حتی کہ مقامی شیعہ اور آغا خانی آبادیوں کی جائدادیں تک غصب کرلی گئیں۔ یہ مہم اس خطے کی آبادی کی بناوٹ تبدیل کرنے کی پاکستان کی منصوبہ بند کوشش تھی۔ طالبان کا چوتھاگروہ وہ تھا جو۱۹۹۵ ء کے آس پاس افغان پاک سرحدپر واقع چمن، اسپن بلدوک کے علاقے اور قندھار کے ایک مدرسہ سے ابھرا۔چمن کے علاقے میں واقع مولانا سمیع الحق کا مدرسہ اس کا بھرتی کیمپ بن گیا۔وہ جمعیۃ علمائے اسلام (پاکستان) کے ایک دھڑے کے سربراہ ہونے کی حیثیت سے صوبہ سرحد کے بعض علاقوں میں زبردست اثرو رسوخ رکھتے تھے۔ جمعیۃ علمائے اسلام کے دوسرے دھڑے کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے بھی طالبان لیڈروں سے گہرے مراسم تھے، قندھار کے طلبہ کی اس نئی تحریک نے افغانستان کو اس طویل خانہ جنگی سے نجات دلائی جو سوویت یونین کی پسپائی کے بعد پھوٹ پڑی تھی۔اس سے آگے کی کہانی یہاںدوہرانے کی ضرورت نہیں ہے، صرف اتنا جان لینا کافی ہے کہ شمالی وزیرستان اورخوست کا وہی خطہ حقانی گروپ کا ملٹری بیس ہے اور ایک بار پھرپاکستان وہی بساط بچھارہاہے ،اور اس کے مخالفین بھی وہی کھیل کھیلتے نظر آرہے ہیںجو انہوں نے اس وقت کھیلاتھا۔ تاجک رہنما اور افغانستان کے نائب صدرمحمد قاسم فہیم جس وقت کابل میں کہہ رہے تھے کہ اگر اپوزیشن نے ہماراساتھ نہیں دیا تو افغانستان ہمسایہ ملک (پاکستان)کا صوبہ بن جائے گا،عین اسی وقت نئی دہلی میںصدر حامد کرئی اور وزیراعظم منموہن سنگھ ہندافغان اسٹریٹیجک اشتراک کے معاہدہ پر دستخط کررہے تھے۔