ایک منی بھائی دیسائی ہونا یہاںہزار سیاسی ،سماجی اور مذہبی رہنما ہونے سے بہتر ہے جو کسی ارولی کنچن یارالے گاؤںکی قسمت بدل دے؟ جنگل کا زمانہ، ہم اور ہمارے حکمراں

Table of Contents

فکر فردا
ہماراقافلہ رالے گاؤں سدھی پہنچا تومیرے اس سوال کا جواب ہماری آنکھوں کے سامنے تھاکہ کسی آبادی کو کس طرح صالح خطوط پر استوارکر کے ایک فلاحی ریاست کا نمونہ بنایا جاسکتا ہے اور اگر ہر گاؤں اور ہر بستی ان ہی خطوط پر گامزن ہوجائیں تو ہماری ریاستیں اور ہمارے ملک کیا سے کیا ہوجائیں۔اس خطے میں رالے گاؤں سدھی اپنی نوعیت کی واحد مثال نہیںہے۔ ارولی کنچن کا ذکر پہلے ہی آچکا ہے جس کی کایا مشہور مجاہدآزادی منی بھائی دیسائی نے آزادی سے پہلے ہی پلٹ دی تھی۔

احمد جاوید
یہ غالباً ۲۰۰۱ء کی بات ہے۔میرے ایک شناسا نے مشرقی یوپی کے ایک عالم دین سے میری ملاقات کرائی تھی۔ وہ ا سلام کے لیے ان کے اخلاص، ان کے جذبہ اور ان کی جدوجہد سے بے حد متأثر تھے اورشاید ان کا خیال تھا کہ میں بھی ان سے متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکوںگا۔یہ تو ان سے ملنے کے بعد معلوم ہوا کہ مولانا موصوف ملک کے ان گنے چنے علماء میں سے ایک ہیںجن کی ہرتان دارالاسلام اور دارالحرب کی بحث پر آکرٹوٹتی ہے۔ ان ہی دنوں نئی دہلی کے ایک کثیرالاشاعت رسالہ میں اسلام اور جمہوریت کے موضوع پر لکھنؤ کے ایک مشہور عالم دین کا بڑا مفصل مضمون شائع ہوا تھاجس کا لب و لباب یہ تھا کہ جمہوریت اسلام کے منافی ہے اور پھر دہلی کے ایک دوسرے رسالہ کے اس کے خلاف مورچہ سنبھال لینے سے اس موضوع پر بڑی گرماگرم بحث چھڑگئی تھی۔فریق ثانی کی رائے تھی کہ آج کی دنیا کو یکسر دارالاسلام اور دارالحرب میں تقسیم کر کے حکم جہاد دے دینانہ قرین عقل ہے اور نہ منشائے شریعت۔اس کے برعکس موجودہ جمہوریت اور جمہوری آئین کو ایک قسم کی تحکیم اور پارلیمنٹ؍اسمبلی کو مختلف قوموں اور فرقوں کے درمیان’ حکم‘کا درجہ دینا مناسب ہوگا۔انسانوں کے مختلف گروہوں اور فرقوں کے مختلف فیہ مسائل کو باہمی رضامندی سے طے کرنے اور مذہبی امور میں ان کو اپنے اپنے مذاہب پر عمل کرنے کی آزادی اور پرامن زندگی کی ضمانت دینے کے لیے دنیا کو پہلی بار ایک ایسے نظام سے میثاق مدینہ کی شکل میں اسلام نے ہی روشناس کرایا۔ اس قسم کی تحکیم اور معاہدے( آئین ؍پارلیمان ) کو اسلام کے منافی اور شرک کہناغلط ہے۔یاد آتا ہے کہ مولاناموصوف اس مختصر سی ملاقات میں مجھے یہ سمجھانے کی بڑی مدلل اور پرزور کوشش کر رہے تھے کہ مسلمانوں پر اسلام کا مکمل نفاذ و قیام فرض ہے ، جس کی پہلی شرط امارت ہے۔ اورمیری زبان سے بے ساختہ نکل گیا تھا ’ تو پھر آپ کو کس نے اس سے روکا ہے؟ جمہوریت آپ کو اس کی آزادی اور گارنٹی دیتی ہے کہ آپ اپنے آپ کو ، اپنے خاندان کو اور اپنے قبیلے یا معاشرے کوبہتر سے بہتر سانچیںمیں ڈھالیں، بہت دور جانے کی ضرورت نہیں ہے، کوئی شہر، گاؤں یا محلہ ہی لے لیجیے، اس محلہ اور اس بستی کو اسلام اور عدل اسلامی کے سانچے میں ڈھال دیجیے،جس کا ایک امیر ہو، قاضی ہو اور اس بستی کا ہر باشندہ شریعت کا تابع اور مطیع ہو، اگر آپ نے کوئی ایسا نمونہ پیش کیا، عین ممکن ہے کہ کل کلاں کو دوسرے مذاہب کے لوگ بھی اس کو اپنا لیں۔اگر آپ چاہیں تو اس کام کی ابتدا آج ہی اپنے محلہ سے کر سکتے ہیں لیکن کیا یہ صرف باتوں سے ممکن ہے؟عین ممکن ہے کہ آپ کی اس امارت کا دائرہ پھیلتے پھیلتے پوری ریاست اور پورے ملک کو محیط ہوجائے لیکن کوئی نمونہ تو پیش کیجیے۔ایک ایسے ملک اور معاشرے میں جہاں اسلام کے ماننے والوں کی تعداد بہت کم ہے، کیا جمہوریت کی دی ہوئی یہ آزادی کم ہے اور کیااسلام اس کے بجائے ٹکراؤ کا راستہ اختیار کرنے کی اجازت دیتاہے؟ موصوف میری باتیں بڑی توجہ سے سن رہے تھے لیکن ان کے چہرے کا رنگ اور پیشانی کی لکیریں بتا رہی تھیں کہ یہ سوال ان کو کتنا ناگوارگزرا ہے۔
رالے گاؤں سدھی میں ہمارا قافلہ پہنچا تومیرے اس سوال کا جواب ہماری آنکھوں کے سامنے تھاکہ کسی آبادی کو کس طرح صالح خطوط پر استوارکر کے ایک فلاحی ریاست کا نمونہ بنایا جاسکتا ہے اور اگر ہر گاؤں اور ہر بستی ان ہی خطوط پر گامزن ہوجائیں تو ہماری ریاستیں اور ہمارے ملک کیا سے کیا ہوجائیں۔اب یہ دوہرانے کی ضرورت نہیںرہ گئی ہے کہ یہ گاؤں ایک سرپنچ کے زیر نگیں ہے جس کی مجلس شوری کے ارکان پنچ کہلاتے ہیں۔گاؤں کے دائرے میں شراب کباب اور دوسری برائیوں پر مکمل پابندی عائد ہے اور اگر گاؤں کے کسی باشندہ نے اس کی خلاف ورزی کی تو اسے سخت سزا دی جاتی ہے۔یہ بھی دوہرانے کی ضروت نہیں ہے کہ سماجی برائیوں ، بھوک، غریبی اورناخواندگی کی بیخ کنی کے لیے اس گاؤں کو اور گاؤں کے سرپنچ کو قومی اوربین الاقوامی اعزازات سے نوازا چاچکاہے اور عالمی سطح پر اس کو ہندوستان کا ایک ماڈل گاؤں تسلیم کیا جاتا ہے ۔اس خطے میں رالے گاؤں سدھی اپنی نوعیت کی واحد مثال نہیںہے۔ پونہ سے بیس کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ارولی کنچن کا ذکر پہلے آچکا ہے جس کی کایا گاندھی جی کی فکرو فلسفہ کے مبلغ اور مشہور مجاہدآزادی منی بھائی دیسائی نے آزادی سے پہلے ہی پلٹ دی تھی اور شاید آپ کے علم میں نہ ہو کہ منی بھائی دیسائی کی محنتوں کی بدولت یہی ارولی کنچن آزادی کے بعد ملک میں سبز انقلاب اور پھر۸۰-۱۹۷۰ء کے عشرے میںسفید انقلاب کانقطۂ آغاز بنا۔رالے گاؤں سدھی کے سرپنچ انا ہزارے کو بھی یقینا منی بھائی دیسائی کی جدوجہد نے ہی راہ دکھائی ہوگی۔
آپ کولہاپور سے ناسک تک پورے مغربی مہاراشٹر کا سفر کرجائیں، امداد باہمی کی وہ روح جو اس خطے کے باشندوں میں منی بھائی دیسائی نے پھونکی تھی، ہر جگہ اپنے جلوے بکھیرتی نظر آئے گی۔، سڑکیں، پل، بڑے بڑے تالاب، باغات، آشرم، زمین کی اصلاحات اور بنجر زمینوں کو قابل کاشت بنانے کی گوناگوں کوششیں، زرعی صنعتوں اور گھریلوصنعت و حرفت کی منظم اکائیوں اور ان کی پیداوار کی فروخت کے لیے بازار کو دیکھ کر آپ عش عش کر اٹھیں گے۔یہ منی بھائی دیسائی ہی تھے جنہوں نے بھارتیہ ایگریکلچرل اندسٹریز فاؤنڈیشن (BAIF) کی بنیاد رکھی اورجن کی کوششوں کے نتیجے میں ۷۳- ۱۹۷۲ء میں پہلی بار ملک میں جرسی نسل کی ۲۵۰ گائیں لائی گئیںاور ۷۵-۱۹۷۴ء میں فروزن سیمن لیب کھلا جس کی بدولت آج ہندوستان کی ۱۶ ریاستوں کے ۶۰ ہزار گاؤوں کے۴۵ لاکھ سے زائد خاندان ایک بہتر زندگی جی رہے ہیں۔میں اکثر سوچتا ہوں اور اس سوچ میں بار بار ڈوب جاتا ہوںکہ کوئی منی بھائی دیسائی ہمارے درمیان کیوں نہیں ہوا؟ میری رائے ہے کہ ہزار مفکرین و مبلغین اسلام ہونے سے بہتر اس ملک میں ایک منی بھائی دیسائی ہونا ہے کیونکہ میں اپنی آنکھیں بند کرکے وہ مناظر دیکھ سکتا ہوںاور آپ بھی تصور کر کے دیکھیں کہ منی بھائی دیسائی اگر مسلمان ہوتے تو۰۰۰
اس واقعہ ایک رخ اور بھی ہے ۔میں نے ان ہی کالموں میںایک موقع پر لکھا تھا’بیروت کی مہاجر بستیوں سے دہلی ، مرادآباد، کولکاتہ ، ممبئی، سورت اور احمد آباد کی جھونپڑپٹیوں تک اسلام اور مسلمانوں کی نارسائیوں کے مناظرہر جگہ یکساں دردناک اورعبرت انگیز ہیں لیکن اسلام کی تبلیغ اور تحفظ کی کوششیں اور ہی رخوں پر ہو رہی ہیں۔ہم اپنی بہترین توانائیاں اس راہ میں لگا رہے ہیںلیکن صحیح معنوں میں ان کی فکر کسی کو نہیںہے جو جانوروں سے بدتر زندگی جی رہے ہیں۔وہ جو دوسروں کا سہارا بن سکتے تھے خود محتاجی و نارسائی کے شکار ہیں اور ناقابل تصور افلاس و تنگ دستی ان میں نسل در نسل منتقل ہو رہی ہے۔لگتا ہے تنگ دستی، غریبی اور فقروفاقہ سے نجات ہماری دینی ترجیحات میں شامل ہی نہیں رہ گیا ہے۔ ہم جھونپڑیوں کو اسلام کے نور سے روشن کرنے کے بجائے بلندو بالا میناروں اور محرابوں سے اسلام کی شان اور عظمتیں بڑھارہے ہیں ۔ مشہور برطانوی محقق مائیکل بورنرنے جرنل آف رائل ایشیاٹک سوسائٹی کے جلد۶ شمارہ ۳ میں شامل اشاعت اپنے تحقیقی مضمون’’ غریبی کی تعریف اور مسلم شہری غریبوں کی تعداد میں اضافہ‘‘ میں اس صورت حال کے اسباب و عوامل کا تفصیلی جائزہ پیش کیا ہے اور لکھاہے کہ’ یہ اسلام کی ایک بہت بڑی ٹریجڈی ہے کہ وہ دنیا میں اسی لیے تیزی سے پھیلاکہ اس نے مساوات کا درس دیا ، فقروفاقہ، تنگ دستی اور غلامی کو مٹایالیکن آج دنیابھر میں مسلم معاشرے ہی سب سے زیادہ غریبی ، نارسائی اور نا برابریوں میں مبتلا ہیں‘۔ لیکن اس کے باوجود اگر ان میں کوئی منی بھائی پیدا نہیں ہوتا تو آپ اس کو کیا کہیںگے؟

مصنف کے بارے میں

احمد جاوید

احمد جاوید اردو کے ممتاز صحافی، مصنف، مترجم اور کالم نگار ہیں۔ تاریخ و تمدن پر گہری نظر اور ادب و صحافت میں اپنے منفرد اسلوب سے پہچانے جاتے ہیں۔

مزید