فکر فردا
ہمارا قافلہ پہلے ارولی کنچن پہنچا تو اور پھر رالے گاؤں سدھی پہنچ کرمیں دیر تک مگدھ اور ویشالی میں بھٹکتا رہا۔یہ سوال بار بار بے چین کر رہاتھاکہ ہم لوگ آج مگدھ میں جی رہے ہیں یا ویشالی میں؟ اگر ارولی کنچن کے جنگل میں منی بھائی ڈیسائی کے دم قدم سے منگل ہوسکتاہے اور رالے گاؤں سدھی کی قسمت انا ہزارے اور ان کے رفقاء بدل سکتے ہیں تو ملک کے دوسرے گاؤوں اور شہروں کی قسمت ہم کیوں نہیں بدل سکتے؟
احمد جاوید
گزشتہ سے پیوستہ
ابھی کوئی کوئی تیس بتیس سال ہوئے ہیں جب رالے گاؤں سدھی بھی مہاراشٹر کے ان گاؤں کی طرح قحط کی مار جھیل رہا تھاجن کے باشندے بوند بوند پانی کے لیے ہونٹوں پر زبان پھیر رہے ہیں۔ غریبی اور تنگ دستی کی مار جھیلتے ، بوند بوند پانی اور دانے دانے اناج کو ترستے اس گاؤں کے باشندے کو شراب خوری کی لعنت نے مزید تباہ کر رکھا تھا۔ ناجائز شراب کے کاروبارکا قہر الگ تھا۔ایک ایسے گاؤںکو جہاں چاروں طرف مایوسی اورتاریکیوں نے ڈیرے ڈال ارکھے تھے ،چند برسوں میںایک ماڈل گاؤں کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر لے آنا کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔اور آپ کو معلوم ہے کہ اسی کرشمہ کے کر دکھانے کے لیے انا ہزارے کو ملک کا سب سے بڑا شہری اعزاز پدم بھوشن دیا گیا تھا۔ جس گاؤں کی زمین کل تک تیزی سے بنجر ہوتی جارہی تھی آج وہی گاؤںماحولیاتی تحفظ کا نمونہ بن چکا ہے۔ گاؤں کی مٹی اب سونے اگل رہی ہے۔ توانائی کے شعبہ میں بھی خود کفیل ہے ۔ یہ کرشمہ اس نے بائیو گیس، شمسی توانائی اور ہوا سے حاصل کی جانے والی توانائی کی بدولت کر دکھایا ہے۔گاؤں کے لوگوں نے اپنے ماحول اور اپنی قابل کاشت زمین کے تحفظ کے لیے بڑے پیمانے پر شجر کاری کی اور بارش کے پانی کو جمع کرنے کے لیے تالاب اور نہریں کھودیں جس سے بنجر زمینیں لہلہا اٹھیں۔گاؤں کے حدود میں شراب مکمل طور پر ممنوع ہے۔گاؤں میں سارے سال پانی کی کوئی کمی نہیں ہوتی،اس گاؤں میں اب کوئی بھوکا پیاسا نہیں سو سکتا کیونکہ یہاں اناج کابینک بھی ہے اور دودھ کا بینک بھی۔ افلاس و تنگ دستی کی لعنت اس بستی سے رخصت ہوچکی ہے، گاؤں کا ہرباشندہ ایک دوسرے کے دکھ درد میںایساشریک ہے جیسے ایک خاندان کے افراد ہوتے ہیں۔اس بستی کو دیکھ کر میرے ذہن میں اس فلاحی ریاست کا نقشہ گھوم گیا جس کا تصور دنیا کو چودہ سو سال پہلے مدینہ منورہ میں پیغمبراسلام ﷺ نے پیش کیا تھا لیکن اسی کے ساتھ اس سوال نے پوری شدت کے ساتھ اعصاب کو اپنی گرفت میں لے لیاکہ بیس کروڑ کی مسلم آبادی والے ہندوستان میں مسلمانوں کا کوئی ایک گاؤں بھی تو ایسا ہوتا ؟
یہ غالباً ۲۰۰۱ء کی بات ہے۔میرے ایک شناسا نے مشرقی یوپی کے ایک عالم دین سے ملاقات کرائی تھی۔ وہ ا سلام کے لیے ان کے اخلاص، ان کے جذبہ اور ان کی جدوجہد سے بے حد متأثر تھے اورشاید ان کا خیال تھا کہ میں بھی ان سے متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکوںگا۔یہ تو ان سے ملنے کے بعد معلوم ہوا کہ مولانا موصوف ملک کے ان گنے چنے علماء میں سے ایک ہیںجن کی ہرتان دارالاسلام اور دارالحرب کی بحث پر آکرٹوٹتی ہے۔ ان ہی دنوں نئی دہلی کے ایک کثیرالاشاعت رسالہ میں اسلام اور جمہوریت کے موضوع پر لکھنؤ کے ایک مشہور عالم دین کا بڑا مفصل مضمون شائع ہوا تھاجس کا لب و لباب یہ تھا کہ جمہوریت اسلام کے منافی ہے اور پھر دہلی کے ایک دوسرے رسالہ کے اس فکر کے خلاف مورچہ سنبھال لینے سے اس موضوع پر بڑی گرماگرم بحث چھڑی ہوئی تھی۔فریق ثانی کی رائے تھی کہ آج کی دنیا کو یکسر دارالاسلام اور دارالحرب میں تقسیم کر کے حکم جہاد دے دینانہ قرین عقل ہے اور نہ منشائے شریعت۔اس کے برعکس موجودہ جمہوریت اور جمہوری آئین کو ایک قسم کی تحکیم اور پارلیمنٹ؍اسمبلی کو مختلف قوموں اور فرقوں کے درمیان’ حکم‘کا درجہ دینا مناسب ہوگا۔انسانوں کے مختلف گروہوں اور فرقوں کے مختلف فیہ مسائل کو باہمی رضامندی سے طے کرنے اور مذہبی امور میں ان کو اپنے اپنے مذاہب پر عمل کرنے کی آزادی اور پرامن زندگی کی ضمانت دینے کے لیے دنیا کو پہلی بار ایک ایسے نظام سے میثاق مدینہ کی شکل میں اسلام نے ہی روشناس کرایا۔ اس قسم کی تحکیم اور معاہدے( آئین ؍پارلیمان ) کو اسلام کے منافی اور شرک کہناغلط ہے۔یاد آتا ہے کہ مولاناموصوف اس مختصر سی ملاقات میں مجھے یہ سمجھانے کی بڑی مدلل اور پرزور کوشش کر رہے تھے کہ مسلمانوں پر اسلام کا مکمل نفاذ و قیام فرض ہے ، جس کی پہلی شرط امارت ہے۔ اورمیری زبان سے بے ساختہ نکل گیا تھا ’ تو پھر آپ کو کس نے اس سے روکا ہے؟ جمہوریت آپ کو اس کی آزادی اور گارنٹی دیتی ہے کہ آپ اپنے آپ کو ، اپنے خاندان کو اور اپنے قبیلے یا معاشرے کوبہتر سے بہتر سانچیںمیں ڈھالیں، اوروں کو جانے دیجیے کوئی ایسا گاؤں، محلہ یا شہرہی لے لیجیے، اس محلہ اور اس بستی کو اسلامی نظام کے سانچے میں ڈھال دیجیے، آپ کا ایک امیر ہو، قاضی ہو اور اس بستی کا ہر باشندہ شریعت کا تابع اور مطیع ہو، اگر آپ نے کوئی ایسا نمونہ پیش کیا، عین ممکن ہے کہ کل کلاں کو دوسرے مذاہب کے لوگ بھی اس کو اپنا لیں۔اگر آپ چاہیں تو اس کام کی ابتدا آج ہی اپنے محلہ سے کر سکتے ہیں لیکن کیا یہ صرف باتوں سے ہوگا؟عین ممکن ہے کہ آپ کی اس امارت کا دائرہ پھیلتے پھیلتے پوری ریاست اور پورے ملک کو محیط ہوجائے لیکن کوئی نمونہ تو پیش کیجیے۔ایک ایسے ملک اور معاشرے میں جہاں اسلام کے ماننے والوں کی تعداد بہت کم ہے، کیا جمہوریت کی دی ہوئی یہ آزادی کم ہے اور کیااسلامامن کی بجائے ٹکراؤ کا راستہ اختیار کرنے کی اجازت دیتاہے؟ موصوف بڑی توجہ سے میری باتیں سن رہے تھے لیکن ان کے چہرے کا رنگ اور پیشانی کی لکیریں بتا رہی تھیں کہ یہ سوال ان کو کتنا ناگوارگزرا ہے۔
رالے گاؤں سدھی میں ہمارا قافلہ پہنچا تومیرے اس سوال کا جواب ہماری آنکھوں کے سامنے تھاکہ کسی آبادی کو کس طرح صالح خطوط پر استوارکر کے ایک فلاحی ریاست کا نمونہ بنایا جاسکتا ہے ۔اور اگر ہر گاؤں اور ہر بستی ان ہی خطوط پر گامزن ہوجائیں تو ہماری ریاستیں اور ہمارے ملک کیا سے کیا ہوجائیں۔یہ دوہرانے کی ضرورت نہیںرہ گئی ہے کہ یہ گاؤں ایک سرپنچ کے زیر نگیں ہے جس کی مجلس شوری کے ارکان پنچ کہلاتے ہیں۔گاؤں کے دائرے میں شراب کباب اور دوسری برائیوں پر مکمل پابندی عائد ہے اور اگر گاؤں کے کسی باشندہ نے اس کی خلاف ورزی کی تو اسے سخت سزا دی جاتی ہے۔یہ بھی دوہرانے کی ضروت نہیں ہے کہ سماجی برائیوں ، بھوک، غریبی اورناخواندگی کی بیخ کنی کے لیے اس گاؤں کو اور گاؤں کے سرپنچ کو قومی اوربین الاقوامی اعزازات سے نوازا چاچکاہے اور عالمی سطح پر اس کو ہندوستان کا ایک ماڈل گاؤں تسلیم کیا جاتا ہے ۔اس خطے میں رالے گاؤں سدھی اپنی نوعیت کی واحد مثال نہیںہے۔ پونہ سے بیس کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ارولی کنچن کا ذکر پہلے آچکا ہے جس کی کایا گاندھی جی کی فکرو فلسفہ کے ایک عظیم مبلغ اور مشہور مجاہدآزادی منی بھائی دیسائی نے آزادی سے پہلے ہی پلٹ دی تھی اور شاید آپ کے علم میں نہ ہو کہ منی بھائی دیسائی کی محنتوں کی بدولت یہی ارولی کنچن آزادی کے بعد ملک میں سبز انقلاب اور پھر۸۰-۱۹۷۰ء کے عشرے میںسفید انقلاب کانقطۂ آغاز بنا۔رالے گاؤں سدھی کے سرپنچ انا ہزارے کو بھی یقینا منی بھائی دیسائی کی بے لوث جدوجہد نے ہی راہ دکھائی ہوگی۔
آپ کولہاپور سے ناسک تک پورے مغربی مہاراشٹر کا سفر کرجائیں، امداد باہمی کی وہ روح جو اس خطے کے باشندوں میں منی بھائی دیسائی نے پھونکی تھی، ہر جگہ اپنے جلوے بکھیرتی نظر آئے گی۔، سڑکیں، پل، بڑے بڑے تالاب، باغات، آشرم، زمین کی اصلاحات اور بنجر زمینوں کو قابل کاشت بنانے کی گوناگوں کوششیں، زرعی صنعتوں اور گھریلوصنعت و حرفت کی منظم اکائیوں اور ان کی پیداوار کی فروخت کے لیے بازار کو دیکھ کر آپ عش عش کر اٹھیں گے۔یہ منی بھائی دیسائی ہی تھے جنہوں نے بھارتیہ ایگریکلچرل اندسٹریز فاؤنڈیشن (BAIF) کی بنیاد رکھی اورجن کی کوششوں کے نتیجے میں ۷۳- ۱۹۷۲ء میں پہلی بار ملک میں جرسی نسل کی ۲۵۰ گائیں لائی گئیںاور ۷۵-۱۹۷۴ء میں فروزن سیمن لیب کھلا جس کی بدولت آج ہندوستان کی ۱۶ ریاستوں کے ۶۰ ہزار گاؤوں کے۴۵ لاکھ سے زائد خاندان ایک بہتر زندگی جی رہے ہیں۔میں اکثر سوچتا ہوں اور جب سے ارولی کنچن کے جنگل میں منگل دیکھ کر آیا ہوں ، اس سوچ میں بار بار ڈوب جاتا ہوں ، کوئی منی بھائی دیسائی ہمارے درمیان کیوں نہیں ہوا؟ میری رائے ہے کہ ہزار مفکرین و مبلغین اسلام ہونے سے بہتر اس ملک میں ایک منی بھائی دیسائی ہونا ہے کیونکہ میں اپنی آنکھیں بند کرکے وہ مناظر دیکھ سکتا ہوںاور آپ بھی تصور کر کے دیکھیں کہ منی بھائی دیسائی اگر مسلمان ہوتے تو۰۰۰
(جاری)