’’ احسن مفتاحی: شخصیت و فن‘‘ – کلیدی خطبہ قومی سیمینار

Table of Contents

(مغربی بنگال اردو اکادمی،ہفتہ ۳۰ستمبر۲۰۲۳، کلکتہ)

احمد جاوید
صدر باوقارو مہمانان گرامی! یہ ہمارے لیے بڑے اعزازو اکرام کا مقام ہے کہ مغربی بنگال اردو اکادمی نے ایک اتنےتازہ و توجہ طلب موضوع پر مذاکرے و محاضرےکا اہتمام کیا اور آپ سے شرف دیدوشنید کا موقع دیا ۔ اکادمی کے ذمہ داران بالخصوص وائس چیئرمین جناب ندیم الحق(ایم پی) ، سید شہاب الدین حیدرصاحب (سربراہ مجلس اہتمام تقریبات) ، اکادمی کی علمی و ادبی سرگرمیوں کےنقش گرو روح رواں ڈاکٹر دبیر احمدصاحب ،سکریٹری محترمہ نزہت زینب صاحبہ اور ہم سب کے سرپرست ومربی جناب وسیم الحق صاحب کا شکریہ واجب ہے۔’مژگاں ‘کے ایڈیٹر جناب نوشاد مومن، مولانا احسن مفتاحی کے دوسرے قدردانوں، شاگردوں ، فرزندان گرامی اور صاحبزادی خورشید جہاں (ایڈیٹر ’نیاکھلونا‘) کا بھی شکریہ جن کی کوششوں سے مولانا مرحوم کی نگارشات کتب و رسائل کی صورت ہم تک پہنچیں ۔
احسن مفتاحی کلکتے کی ادبی، علمی، سماجی ، سیاسی اور صحافتی تاریخ کے ایک بڑےاہم دورکےان اہم کرداروں میں ہیںجن کی حیات و خدمات کا جائزہ لینا اپنے آپ کو دریافت کرنےکا عمل اوراسی’ عہد پرآشوب‘ کے درون میں اترنےکی کوشش ہےجس میں ہم آپ جی رہے ہیں۔ یہ کام آسان نہیں ہوتا ۔ کہتے ہیں کہ معاصرت حجاب ہےاور عذاب بھی ہے۔آپ کواپنے عصراورآج کی دانش کےضمیر میں اتر کر چیزوں کو دیکھنا اور کرداروں کا معائنہ کرناہے۔پھریہ کہ یہ معائنہ کسی معالج یا طبیب کی کارگذاری یاطبی معائنہ(فزیکل اکزامنیشن) ہرگز نہیں جو یک طرفہ ہوتا ہے، یہ ہمارے لیے اپنی روحوں، اپنے ذہنوں، اپنے کرداروں اور اپنے اجتماعی ضمیرمیں اترنے کا عمل (Process)ہے جس کو درویشوں کی زبان میں دھیان ، توجہ ،درون بینی، انتردرشٹی اورمراقبہ کہتے ہیں۔ اکادمی نے اس کی دعوت دے کر بلاشبہ اہل علم و دانش کو آزمائش میں ڈالاہےورنہ ایسے موقعوں پراہل قلم کے لیے اپنے تحفظات و تعصبات یا تعریف و توصیف اور عقیدت و محبت کا اظہاربہت آسان ہوتا ہے۔مفتاحی صاحب مرحوم شاعرتھے، انشاپرداز،مبصراور مترجم تھے،ایک بڑےکامیاب اور بہت شفیق معلم و مربی تھے،اور ایک بہت جری اوربے خوف صحافی تھے اور ان کی سیاسی وسماجی سرگرمیوں کا بھی ایک خاص دائرہ ہے بالخصوص اردو کے آئینی حقوق کی لڑائی میں ان کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتے۔غرض یہ کہ وہ مغربی بنگال میں ایک عہد کی تاریخ ہیں۔
حضرات گرامی! خطبہ ایک بہت ہی مہتم بالشان لفظ ہےاور مجھے احساس ہےکہ یہ حقیر ایسی کسی چیز کے پیش کرنے کا اہل نہیں ہے لیکن آپ کی محبت نے اسےحوصلہ دیا اور حکم کی تعمیل میں حاضر ہوگیا کہ یہ جو کچھ سوچتا سمجھتا ہے پیش کرے۔ اجازت دیں تو عرض کروں۔گفتگو ذرا لیک سے ہٹ اور صبر طلب ہوگی۔صبرآزماہوجائے تو آپ اشارہ کردیں ، وہیںروک دوںگا۔
عزیزان گرامی !اگر میں آپ سے سوال کروں کہ آپ بیربل کو جانتے ہیں؟تو آپ کو ہنسی آئےگی۔ کہیں گے کہ یہ کیا احمقانہ سوال ہے، اکبر اور بیربل کو بھلا کون نہیں جانتالیکن اگرکوئی یہ پوچھے کہ پنڈت مہیش داس برہمابھٹ کون تھا؟عہدوسطی کے ہندوستان کی تاریخ میں اس کا کیا کردارہے؟جلال الدین اکبر سے اس کا کیا تعلق تھا، اس کے نورتنوں میں اس کا کیا مقام ہے، اس کی زندگی کے آخری ایام کہاں بیتے اور اس کی سمادھی کہاں ہے؟ تو شاید سرکھجانے لگیں؟ ہمارے کئی دوست اور بزرگ مسکرارہے ہیںکیونکہ وہ جانتے ہیں کہ مہیش داس اور راجا بیربل الگ الگ افراد نہیںتھے۔ یہ دونوں ایک ہی شخصیت کےنام و القاب ہیں لیکن دنیا بیربل کو جانتی ہے،اس کی حاضر جوابی کی شہرت ہے،اس کی ذہانت کے قصے اور لطیفے زبان زد عام ہیں ۔ مہیش داس کو تاریخ دان جانتے ہیں۔صرف اہل علم و دانش کو معلوم ہے کہ اکبر کی حکومت اور دربارمیں اس کا مقام کیاتھا ؟عام لوگوں کو کیا پتاکہ وہ برج بھاشاکا باکمال شاعرتھا، موسیقی کا استادتھا ، ویدپران کاعالم ،ہندوی، سنسکرت اور فارسی زبانوں کا انشاپردازبھی تھا ، اکبر کی اہم ترین فوجی مہمات میں بھی اس نے نمایاں خدمات انجام دیں اور سفارتی ذمہ داریاں بھی اسی مہارت اور کامیابی سے انجام دیں۔پھر یہ بھی کتنے لوگ جانتے ہیں کہ اپنے آخری ایام میںوہ سلطنت کےایک شورش زدہ شمال مغربی خطہ کے قلعہ اٹک میں تعینات تھااوراس کی موت آٹھ ہزار فوج کے ساتھ پہاڑوں سے گھری وادی سوات میں پٹھانوں کے ہاتھوں ہوئی تھی اور کسی کو کبھی نہیں معلوم ہوا کہ اس کا جسد خاکی کہاں گیا۔
جی ہاں! اپ نے بالکل ٹھیک سمجھا ، کہنا یہی چاہتا ہوں کہ احسن مفتاحی کو دنیا جانتی ہے،ان کے قلم کی کاٹ کو لوگ یاد کرتے ہیں، ان کی بیباکی اور جُرات و جسارت کی قدرو قیمت آج اس موسم جبر میں زیادہ محسوس ہوتی ہے اور ان کو پڑھنے دیکھنے والی آنکھوں کو صحافت کا زوال اور زبان و بیان کی گراوٹ بے چین کرتی ہے لیکن یہ سب کچھ ان کی مقبول عام شخصیت کا صرف ایک پہلو ہے۔ان کی کثیرالابعاد شخصیت، افکارو نظریات اور ہمہ جہات خدمات کی تفہیم ابھی تک اہل علم پرقرض ہے۔راجا مہیش داس کی حقیقت یاتو اکبر جانتا ہے یا ملاعبدالقادر بدایونی اور علامہ ابوالفضل بتا سکتے ہیں۔قدر گوہر شاہ داند یا بداند جوہری۔ابھی تو سب کچھ تازہ ہے، کل کی بات ہے کہ وہ ہمارے درمیان موجودتھے۔ابھی تویہاں سےوکٹوریا ہال (کلکتہ)جتنی دوری بھی طے کرنےکی ضرورت نہیں ہے جہاںدربار اکبری کا پوٹریٹ نصب ہے۔جس میں بیربل کی نشست بادشاہ کےبالکل بعد،اس کے دائیں بازو اور دوسرے امرائے دربار سے ممتاز کیوں ہے؟ اکبر کے نو رتنوں میں صرف اس کی رہائشگاہ کا دو منزلہ شاہی محل سےمتصل کیوں تھا۔ آئین اکبری میں کیوںدرج ہے کہ اکبر کے’ دین الٰہی‘ کو سب سے پہلے اس نے قبول کیا اورابوالفضل نےکیوں لکھا کہ راجا مہیش داس آفتاب کے ہزار نام بیان کرتے تھے، قبلہ عالم کو یہ سارےکے سارےازبر تھے۔ تھوڑی سی توجہ دیں تو ایک ایک کرکےسارے راز، سب رموز و اسرار آپ پر کھلتے جائیں گے۔ ہم اپنی جامعات ، اکیڈمیزاور محققین طلبہ و اساتذہ سے یہ بھی کہنا چاہتے ہیں کہ ہم غیروں کی طرح کچھ کام کے کام بھی کریں ۔ازکار رفتہ موضوعات اورچبائے ہوئے نوالوں کو چبا چبا کر ڈگریوں کے حصول اور اجرا کا کارخانہ چلانا ہے تو چلاتے رہیں، کچھ توعلمی دیانت اورمنصبی ذمہ داری کا پاس و لحاظ رکھیں۔یہ ہماری ہی کی ذمہ داری ہے کہ احسن مفتاحی جیسے کرداروں کی اہمیت و معنویت کووسیع تناظر میں دریافت کریںورنہ جو قومیں اپنے محسنوں کی قدرنہیں جانتیں اورتاریخ سے روشنی نہیں لیتیں پہلے تہی دامن ہوتی ہیں اور پھر وقت کی گرد میں تنکوں کی طرح کھو جاتی ہیں۔
حضرات!اردو زبان اور اس کے ادب و صحافت میں کلکتہ کا حصہ تاریخی بھی ہے اور تاریخ سازبھی۔اردو کے پہلے اخبار کی طرح پہلا روزنامہ بھی یہیں سے جاری ہوا۔الہلال، البلاغ(مولانا ابوالکلام آزاد)، ہمدرد(مولانا محمد علی جوہر)، ہند ، آزاد ہند(مولاناعبدالرزاق ملیح آبادی) اور عصر جدید(مولانا شائق عثمانی) اسی شہر کے اخبارات تھے جن کے ذکر کے بغیر ہماری جنگ آزادی کی تاریخ مکمل نہیں ہوتی۔ بعد کے زمانوں میں بھی یہاں کے صحافیوں نے ملک اور سماج کو راستے دکھائے، حوصلہ دیا اور منزلوں سے ہمکنار کیاجس کے لیے ان کو ہمیشہ یاد رکھا جائےگا اور ان میں مولانا احسن مفتاحی ایک بڑا اہم اور نمایاں نام ہے۔
اردو صحافت کاپہلا دور ابتدا سے 1857ء تک کا ہے،جس کا باضابطہ آغاز ۱۸۲۲ء میں جام جہاں نما کی اشاعت کو مانا جاتا ہے اور اس سے انکار کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی کہ جام جہاں نما کے طابع و ناشر پنڈت ہری ہر دت اور ایڈیٹر منشی سدا سکھ لعل نے کاروبار صحافت یا بزنس میڈیاکے لیے اردو زبان کی صلاحیت کو دریافت کیا، اسے باضابطہ عملی شکل دی اور ان کی اس دریافت نے نئے ہندوستان کے ذہن و مزاج کی تخلیق اور نشوونما میں وہ کردار ادا کیا جو کسی اور کے حصے میں نہیں آیا۔یہ گرچہ دیسی صحافت کابالکل تشکیلی دور تھا مگر اسی دور میں اس نے وہ کردار ادا کیا اور ایسی قربانیاں دیں جنھوں نے برصغیر میں صحافت اور سیاست کے پیمانے طے کئے۔ منشی سدا سکھ لال اور ہری ہردت اس کی ابتدا ہیں تو دہلی اردو اخبار اورمولوی محمدباقرشہید اس کا کلائمکس ۔ (۲) دوسرا دور ۱۸۵۸ء سے ۱۹۴۷ء تک کا ہے جب اخبار اودھ ، پیسہ اخبار اور زمیندار جیسے کثیر الاشاعت اخبارات اور دلگداز، مخزن ، اردوئے معلی اور زمانہ جیسے معیاری رسائل و جرائد نے برعظیم کے ذہن و فکر کی نشوونما میں غیرمعمولی کردار ادا کیا۔اس دور کے دوسرے حصے( ۱۹۱۱ء سے ۱۹۴۷ءتک)میں وہ اخبارات و جرائد میدان میں آتے ہیں جنھوں نے ہندوستان کی قومی تحریک اور جنگ آزادی کو زیادہ طاقت سے آگے بڑھایابلکہ اس میں قائدانہ کردار ادا کیا۔ (۳) تیسرا دور ۱۹۴۷ء میں شروع ہواجب آپ قومی آواز،آزاد ہند، انقلاب، نئی دنیا، صدائے عام ،ساتھی ،سنگم ، سیاست، آبشار ،ندیم ،عوام اور اخبارمشرق جیسے اخباروں کو ہندوستان کے آئین اور جمہوریت کی بقا کی جنگ لڑتے اور اس راہ میں قسم قسم کی قربانیاں دیتے اور صعوبتیں برداشت کرتےہوئے پاتے ہیںاور (۴)اب ہم اردو صحافت کی دوسو سالہ تاریخ کے چوتھے دور میں ہیںجو۱۹۹۰ء میںجدید مواصلاتی ٹکنالوجی اور کھلی معیشت کی آمدکے ساتھ شروع ہوا۔آپ اردومیں ملٹی ایڈیشن اخباروں کا وہ ظاہرہ دیکھ رہے ہیں جب ملک کی ایک سے زائدکارپوریٹ کمپنیاں اردو میڈیا میں سرمایہ لگارہی ہیں اورہماری صحافت انفرادی ملکیت کے اخباروں سے نکل کر میڈیا کی صنعت کے بڑے گھرانوں کے ہاتھوںمیں پہنچ گئی ہے۔ آخرالذکر دو ادوار کے بیچ جن صحافیوں اور اخباروں نے پل کاکام کیااوراردوکی صحافت کو ایک دور سے دوسرے دور میںداخل ہونے کی بنیادی فراہم کیں ان میں احسن مفتاحی اور اخبار مشرق کے کردار کی اہمیت و معنویت کو کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
عزیزان محترم !کثیرالاشاعت اخبارات، ٹی وی چینلز، پورٹلز اور او ٹی ٹیز (OTTs) میں اردو اپنے امکانات کی دنیا آبادتو کررہی ہے ، لیکن دوسری زبانوں کی طرح اردو میں بھی جس رفتار سے اشاعتیں اور نشریات بڑھ رہی ہیں، اس تعداد میں اہل افراد نہیں مل رہے ہیں۔ ایسانہیں ہے کہ یہ مسئلہ آج ہی ہے اور یک طرفہ ہے۔ ایک طرف تو صلاحیتوں کی کمی کا رونا ہے لیکن دوسری طرف صلاحیتوں کی قدردانی کا مسئلہ بھی اتنا ہی سنگین ہے اور یہ اس وقت بھی تھا۔ جس پر بہت سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔
۱۹۸۰ء میں کلکتہ سے’اخبار مشرق‘ کا اجرا اردو صحافت کی تاریخ کا کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔اردو میں تواخبارات نکلتے اور بند ہوتے ہی رہے ہیں۔لیکن یہ اخباراس کے بانی اور ایڈیٹر جناب وسیم الحق کا وژن تھا، صحافت کے میدان میںان کےتجربات اور پیشے (Profesion) کی باریکیوں پر ان کی گہری نظر کے نتیجے میں ان کا ایک سوچا سمجھا قدم تھا جو اردو صحافت کی تاریخ کا ایک سنگ میل ثابت ہوا ۔ شانتی رنجن بھٹاچاریہ اور رضوان اللہ جیسےاہل نظر اعتراف کرتے ہیں کہ ’ اخبار مشرق نے کلکتہ کی اردو صحافت میں ایک انقلاب برپا کیا(۱)‘‘ اور یہ کہ ’’اخبار مشرق کی اشاعت سے کلکتہ کی اردو صحافت میں کئی نئے باب کھلے(۲)‘‘۔اس اخبار نے اردو کے اخباروں کی گرتی ہوئی تعداد اشاعت(سرکولیشن) کو مزید گرنے سے بچایا، نئے قارئین پیدا کیے، اس کی صاف ستھری جاذب نظرکتابت و طباعت اورآزادانہ و غیرجانبدارانہ صحافت نے اردو کو ایک نئے دور میں داخل کیا۔کلکتہ کے کئی نامور اخبارات کو بھی اس کی مقبولیت نے پتھرکے دور سےنکالا اور جدید آفسیٹ پرنٹنگ کے دور میں قدم رکھنے پر مجبور کیا۔ اخبار مشرق کی اس کامیابی میں احسن مفتاحی کا کیا کردار تھا، اس کو سمجھنے کے لیے احسن مفتاحی ایک بڑےقدآورناقد کی یہ گواہی بہت اہم ہے کہ وسیم صاحب نے ’’اظہار میں ’شدت‘ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تو اپنے معاونین اور شرکائے کار میں ردو بدل کیا اور احسن مفتاحی کی شخصیت نمودار ہوئی‘‘(۳)۔ رضوان اللہ مرحوم کےاس جملے میںموجود لفظ ’شدت‘ ظاہرکرتا ہے کہ وہ ان کے کتنے سخت ناقد تھے لیکن’ مدعی لاکھ پہ بھاری ہے گواہی تیری‘(داغؔ)۔
ایک تاریخی مثال سےہم اس واقعہ کو اور واضح کرنا چاہتے ہیں۔’ اخبار مشرق‘ کی اشاعت کےچار پانچ سال بعد پٹنہ سے روزنامہ ’ایثار ‘ جاری ہوا۔غالباً یہ وہی زمانہ تھا جب کلکتہ میں ’اقرا‘ منظر عام پر آیا تھا۔ اس کےپیچھےوسائل بھی بہت تھے، سیاسی و سماجی حمایت بھی اچھی تھی، باصلاحیت اہل قلم کی خدمات بھی اسے حاصل تھیں ، قارئین نے بھی اسے ہاتھوں ہاتھ لیالیکن خوب درخشید ولے شعلہ مستعجل۔کیوں؟ اس لیے کہ وہاں کوئی وسیم الحق نہیں تھا جو’کمرشیل جرنلزم ‘کی باریکیوں اور وقت کے تقاضوں کو سمجھتا اور کسی احسن مفتاحی کو دریافت کرتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پٹنہ کےاس صاف ستھرے آفسیٹ پرنٹنگ کے معیاری اخبارنے ایک ایک کرکے مقبول عام کثیرالاشاعت اخباروں کی بساط تو سمیٹ دی اور پھر خود بھی سمٹ گیا۔جس سے اردوصحافت بیس پچیس برسوں کے اپنے ایک بڑے زرخیز مرکزمیں ناگفتہ بہ حالت میں چلی گئی۔۲۰۰۶ء میں اس وقت اس میں کچھ جان آئی جب ایک کارپوریٹ ہاؤس نے بہار کی اردو صحافت میں قدم رکھااور اس کے دباؤ میں مقامی اخباروں نے اپنارنگ ڈھنگ کچھ تبدیل کیا اورمزیدتبدیلی اس وقت آئی جب ۲۰۱۳ء میں یہاں ایک اور کارپوریٹ ہاؤس ’انقلاب ‘لایا اور اس کے ادارتی ذمہ داروں نے اردو صحافت کے معیار کی اصلاح کے لیےباضابطہ مہم چلائی۔مختلف اداروں کے تعاون سے اخباروں کے ادارتی اسٹاف اور نامہ نگاروں کی تربیت کے لیے ورکشاپس کرائے۔ اردو کے لیے بہارملک کی سب سے زرخیز ریاست ہےلیکن ’ایثار‘کےطلوع و غروب سےوہاںاردو صحافت کتنی پچھڑ گئی ؟آپ اس مدت کےپٹنہ کے اخباروں کی فائلیں اٹھا کر دیکھیں ، کیا طباعت ، کیا زبان و بیان اور کیامعیار صحافت و ادارت اورکیا کاروبارہر محاذ پرآپ وہ زوال پائیںگےجس سے دنیا کے سامنے اہل زبان کاسر جھکتا اور دل دکھتا ہے۔پھر آپ کو اس دبستان صحافت کی قدرو قیمت کا صحیح اندازہ ہوگا جس کا نام ’اخبار مشرق‘ ، وسیم الحق اور احسن مفتاحی ہے۔
جیساکہ ہم سب جانتے ہیں احسن مفتاحی(۸؍ستمبر۱۹۳۸۔۱۴جون۲۰۱۱ء) کا تعلق مئو سے تھا۔ وہ مئوکے ایک راسخ العقیدہ سنی مسلم دینی علمی خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کی تعلیم وتربیت تومدرسہ مفتاح العلوم میں ہوئی لیکن ان کی ذہنی و فکری نشوونما ان کے نانا صوفی عبدالرؤف کے زیر سایہ ہوئی جوسلوک و طریقت میں اعلیٰ مقام رکھتے تھے(۴)۔ شعرو سخن کا ذوق بچپن سے تھاجس کو فضا ابن فیضی کی صحبت، نانیہال کے متصوفانہ ماحول اور مئو کی ادبی فضا نے پروان چڑھایا۔ ’قند شیراز‘حافظ و سعدی سے ان کی گہری ذہنی مناسبت کا ثبوت ہے۔جمعیۃ علما ہند اور انجمن ترقی اردو سےان کا گہرا تعلق اور فعال کردار رہا ۔ صحافت میں آنے سے پہلے وہ اردو فارسی اور عربی زبانوںکے مدرس تھے، ان کی تدریسی خدمات کا اعتراف بھی اسی طرح کیا جاتا ہے جس طرح ان کی شاعری ، صحافت اورسماجی خدمات کا اعتراف کیا جاتا ہے ۔ ان کی تدریسی زندگی کا دورانیہ بھی کوئی دو چار سال نہیںہے، رشڑا اور ہگلی کے مدرسوں میں ان کےدرس تدریس کی مدت بیس برسوں کے قریب ہوتی ہےاور وہ اپنے زمانےکے بہت ہی کامیاب مدرسین میں گنے جاتے ہیں۔جس کسی کی سرگرمیوں کے اتنے سارے میدان ہوتے ہیں ، وہ عموماً کہیں کا نہیں رہتااور اس کی کوئی پہچان نہیں بن پاتی لیکن ان کی عظمت ہے کہ وہ جہاں بھی رہے،محسوس کیے گئے، ان وجود نا محسوس نہیں رہا، انہوں نے اپنے اثرات چھوڑے اور پہچانے جاتے ہیں۔ ان کا دوسرا اختصاص یہ ہے کہ وہ ایک اچھی خاصی باوقارو پرسکون ملازمت کوچھوڑ کر صحافت میں آئے جہاں قدم قدم پر خطرات تھے، بے یقینی تھی ،سکون کا تواس کام سے کوئی واسطہ ہی نہیں ۔ اپنے پرائے ان کو ایسا کرنے سے روک بھی رہے تھے، پھر بھی انہوں اس پیشے کو اپنایااور اس کی الجھی ہوئی زلفوں کو سنوارا۔
آپ نے ’گڈھے کی نفسیات ‘سنی ہے۔ شاید آپ نے دیکھی بھی ہواور وہ آپ کے ارد گرد گھومتی پھر نظر آتی ہوگی۔ میرا ماننا ہے کہ اردو صحافت کی سب سے بڑی کمزوری اور اس کی جان کا روگ یہی نفسیات رہی ہے۔اردو کی صحافت ہر زمانے میں بڑے عالم فاضل اور جہل مرکب لوگوں کی آماجگاہ رہی ہے۔ہمارے ایک بزرگ دوست اور نامور صحافی انبساط احمد علوی کہا کرتے تھے کہ’ اردو میں صحافت کا وجود اسی لیےبہت کمزور رہا ہے۔ یہاں شمشیر بکف مجاہد ہوئے ہیں یا پھر کاسہ بکف ’مارسیاہ‘، پروفیشنل جرنلسٹ بہت کم ہوئے ہیں‘۔ جن دنوں احسن مفتاحی نے صحافت کا پیشہ اختیار کیا، یہاں ان صحافیوں کی کثرت تھی جن کو’حادثاتی صحافی ‘کہتے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی نگاہ اس پیشے کی نزاکتوں، اس کے تقاضوں اور اس کی دشواریوں پرتو بالکل نہیں ہوتی ، صرف اس کی چمک دمک ان کویہاں کھینچ لاتی ہے یا پھر وہ حادثاتی طور پر یہاں آجاتے ہیں۔ گویا کسی نے ان کو دھکا دے دیاہے، وہ زندگی بھر اسی گڈھے میں رہتےہیںلیکن یاتواس باوقار پیشہ کی اقدار و اخلاقیات کا کچھ پاس و لحاظ نہیں رکھتےیا پھر اپنے ماحول سے دل برداشتہ رہتے ہیں، مقدر کو کوستے ہیں۔یہاں سے نکلنا چاہتے ہیں ، نکل نہیں سکتے۔پھسل پھسل کراسی گڈھے میں گرتے ہیں۔مفتاحی صاحب نے اس پیشے میں قدم رکھا توکشتی جلا کر قدم رکھا، دل سے اس کو اپنایا،پوری دلجمعی سے پیشہ ورانہ خطوط پر کام کیا،اداریے میں ان کا اسلوب الگ ہے، صحافتی مضامین اور تبصروں کارنگ الگ ہے، خبریں لکھتے ہیں تو ایک اور احسن مفتاحی سے ملاقات ہوتی ہےاور ان کی ادبی نگارشات ایک الگ احسن مفتاحی سے ملواتی ہیں لیکن دو باتیں ہر جگہ مشترک ہیں ، ایک تو ان کا قلم کبھی معیار سے نیچے نہیں آتا۔ دوسرے وہ ہر جگہ ایک شفیق استاداور ایک سخت گیرمعلم ہیں۔ اپنی اس جبلت کووہ کبھی مار نہیں سکے۔اردو میڈیاکو اس کے زوال سے نکالناہے توآج اس کو بہت سے احسن مفتاحی کی ضرورت ہے۔
صحافت جس قسم کی بھی ہوبنیادی طور پر اس کی ذمہ داری افراد معاشرہ کو باخبر رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کی تعلیم اور تفریح ہے۔وہ ہماری ثقافتی وراثتوں کو ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل کرنے کا فریضہ انجام دیتی ہے۔مرحوم مفتاحی صاحب کی صحافت میں ان جہات پر کہاں کتنی توجہ تھی اور اس پر اہل نقدو نظر کیا رائے رکھتے ہیں، وہ آپ کے سامنے ہے،ان کی تفصیلات میں جانے کا وقت ہے نہ موقع لیکن بچوں اور بڑوں کی تعلیم و تربیت پران کی اور اخبار مشرق کی جتنی توجہ رہی ہے، اتنی ان کے معاصرین میں کسی اور کی نہیں رہی اور ہوتا بھی کیوں نہ کہ ان کی شخصیت کا خمیر اس رسول کریم ﷺ کی سیرت سے اٹھاتھاجس کا فرمان ہے انما انا بعثت معلماً(میں معلم بناکر بھیجا گیا )۔ اسی طرح ظلم و جبر کے خلاف بلا خوف و خطر ڈٹ جانابھی ان کی سرشت میں تھا۔ مولانا آزاد اور مولانا جوہرکی سوچ تھی تو مولاناحسرت موہانی کا انقلابی ذہن۔ ان کے بعض معاصرین ان کے زور بیان و ’شدت ‘ اظہارپرمعترض ہیں تو بعض کی رائے ہے کہ ان کی اسی خوبی اور جرات اظہار نے اردو صحافت پر’ کٹر الحاد پسندوں‘ کی اجارہ داری ختم کوکیا اور اگر رئیس الدین فریدی، احمد سعید ملیح آبادی ، ابراہیم ہوش اور سالک لکھنوی کے بعدکلکتہ کی اردو صحافت میں ان کا نام احترام سے لیا جاتا ہے تواسی لیے کہ وہ ایک بے خوف و جری صحافی تھے۔سیاسی خطوط پردومحاذوںمیں بٹی ہوئی صحافت میں تیسرا زاویہ پیدا کرنا اور آزادانہ صحافت کے لیےجگہ بناناکیا کوئی معمولی کارنامہ تھاجواخبار مشرق اور احسن مفتاحی نے انجام دیا؟
کلکتہ ایک بندرگاہی شہر اور ایک بین الاقوامی تجارتی مرکزرہاہے۔یہ ملک کی صنعتی راجدھانی بھی تھا۔ایسے شہر کی ایک خصوصیت منظم جرائم، گروہی تشدد اورآئے دن کے خونی تصادم (گینگ وار) ہے جس کو ایندھن غیر قانونی تجارتوں اور منشیات کی اسمگلنگ جیسے کاروبار سے ملتا ہے اور جس کا ایندھن شہرکی غریب آبادیاں اور افلاس کے مارے لوگ بنتے ہیں۔اسمگلرز، مافیا، ان کےشارپ شوٹر اور کرایے کے قاتلوں کی سرگرمیوں اورپولیس و اقتدار میں بیٹھےان کے وفاداروں کی کارروائیوں سے لرزاں و ترساں کسی شہر میں سچ بولنا اور سچ لکھنا کتنا مشکل ہوتاہوگا، وہی لوگ بتا سکتے ہیں جنھوں نے ۱۹۸۰اور ۹۰ کی دہائیوں کے کلکتہ میں ان حالات و واقعات کا سامنا کیا ہےجس کی ایک مثال مارچ ۱۹۸۴ء کا گارڈن ریچ قتل کانڈ اور اس کے پہلے اور بعد کے واقعات ہیں۔
۱۸مارچ ۱۹۸۴ کی صبح ڈی سی پی پورٹ ڈویزن ونود کمار مہتا کو ہوم سکریٹری رتھن داس گپتا نے اطلاع دی کہ وزیر اعلیٰ کو پارٹی کارکنوں سے اطلاع ملی ہے کہ گارڈن ریچ میں حالات اچھے نہیں ہیں۔افواہ پھیلائی گئی تھی کہ کارتک سے بم لائے گئے ہیں اور مسلمان حملہ کرنے والے ہیں۔ڈی سی پی اپنے باڈی گارڈ مختار احمد خاں کے ساتھ وہاں پہنچ گئے۔ مقامی پولیس کام نہیں کررہی تھی۔ لیکن اسے خبر ہوئی کہ ڈی سی پی موقع پر پہنچ گئے ہیں توآدھے گھنٹے بعد وہ بھی وہاں پہنچی۔اینٹ پتھروں اور بموں سے اس کا استقبال ہوا۔اس نے دیکھا کہ کمشنر کی گاڑی وہیں کھڑی ہے لیکن مہتا اور ان کا باڈی گارڈ کہیں نہیں ہے۔کچھ اہلکار بھاگ کر مہتا کی رہائشگاہ آئےجہاں وہ نہیں تھے لیکن موقع پر کسی نے ان کو تلاش نہیں کیا۔بعد میں مہتا اور مختار کی لاشیں ایک تنگ گلی میں انتہائی ناقابل دید حالت میں ملیں۔مہتا نے دو دن قبل ایک مشتعل ہجوم پر گولیاں چلانے کا حکم دیا تھا جس میں دو نوجوان مارے گئے تھےاور ان میں ایک والد نے مبینہ طور پر مہتا سے اس کا انتقام لینے کا اعلان کیاتھا۔یہ ایک منصوبہ قتل تھاجس کا منصوبہ اسمگلروں کے گروہ نے بنایا تھا اور اس کے بعد پورے علاقے میںپولیس نے مسلمانوں پر وہ مظالم ڈھائے کہ اللہ کی پناہ ۔جس کو پایا اٹھالیا۔ داخل زنداں کر کے اذیتوں کے پہاڑ توڑے یہاں تک کہ ایک ملزم ادریس میاں کو لال بازار تھانہ میں قتل کردیا ۔ ایک سو سے زائد لوگوں کو گرفتار اور ۴۰ ؍افراد کو قتل کا ملزم بنایا ۔احسن مفتاحی نے کرفیو کے باوجود گارڈن ریچ کے بےگناہ مظلوموں سے ملتے ،ان کی حالت زار لکھتے اور اہل اقتدار کو آئینہ دکھاتے جبکہ حکمراں جماعت ان کے خون کی پیاسی تھی۔پولیس نے ان کی گرفتاری کے لیے اخبار مشرق کے دفتر میں چھاپہ مارا۔مگر وہ اپنے بعض قدر دانوں کی مہربانی سے اس کی گرفت میں نہ آسکے تھے۔ انہوں نے اسی طرح میرٹھ کے فسادات کے بعدشہرمظلوماں کا سفرکیا،متاثرین سے ملاقاتیں کیں، مسلمانوں کے منصوبہ بند قتل عام پر متعدد مضامین اور اداریے لکھے اور ’’ ہاتھ میں آنسو کا قلم‘‘ کے تحت رپورٹیں تحریرکیںجو قسطوں میںشائع ہوئیں۔وہ اداریے میں ’اپنے راست تخاطب‘ کے لیے یاد کیے جاتے ہیں ۔ جو لوگ اداریہ کے بندھے ٹکے اسلوب اورفارمیٹ کے قائل ہیں اور سمجھتے ہیںکہ اس کا ذاتی اور انفرادی لب و لہجہ اور راست تخاطب اس کی صنفی ساخت کو مجروح کرتا ہے ، یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آسکتی کہ صحافت کوئی بند گلی نہیں ہے، یہ بند گلی سے آگے بھی بہت کچھ ہے اور اداریہ بنیادی طور پر ایڈیٹر کا مراسلہ اور ایک آبگینہ امتزاج(Melting Pot) ہے جس میں تحقیقی ، تنقیدی ، تفہیمی، توضیحی ، احتجاجی ہرقسم کی نرم گرم نگارشات کی گنجائش ہوتی ہے۔اردو کے ایڈیٹروں نے کم و بیش ہر دور میں قلم سے شمشیر کا کام لیا ہے اور احسن مفتاحی شاید اس قبیلہ کے آخری سپاہی تھے۔
ایک صحافی یا مبصر اور بالخصوص اداریہ نگار ؍مجلس ادارت کی چند صلاحیتیں دیکھی جاتی ہیں:(ا)دانشوارانہ سنجیدگی(۲) تجزیہ کارانہ ذہن (۳) زبان و بیان پر قدرت(۴) موضوع کی تفصیلات و جزئیات کا علم (۵) قارئین کی دلچسپی، ان کے ذہن و فکر کی سطح اور ان کی نفسیات پر گرفت (۶) پیشہ ورانہ مہارت(۷) تحقیقی مزاج (۸) منطقی استدلال (۹) خبروں پر گہری نظر(۱۰) مضبوط قوت ارادی اور (۱۱) تیز قوت فیصلہ ۔ یہ وہ عناصر ترکیبی ہیں جن سےکسی ایڈیٹر کی شخصیت بنتی ہے اور احسن مفتاحی کو بھی انہیں بنیادوںپر دیکھاپرکھا جانا چاہیے۔تیز قوت فیصلہ ایڈیٹر کے خون کا گیارہواں عنصر ہے۔جو لوگ مڈیکل سائنس یا کم ازکم علم الحیات کی کچھ شد بد رکھتے ہیں۔ وہ سمجھ سکتے ہیں کہ جس کے خون میں یہ عنصر نہیں ہوتا، کیا کیا خرابیاں پیدا کرتا ہے؟اس سلسلے میںڈاکٹر بی این آہوجہ جیسے مصنفین و ماہرین صحافت کی رائے ہے کہ ایڈیٹر کی ایک سب سے بڑی خوبی اس کا ایک ایسا ہمہ داں دانشور ہونا ہے جوبوقت ضرورت ہاں یا نہ کہنے کی پوری ہمت رکھتا ہو۔
انگریزی کے مشہور شاعرو ناقد میتھیو آرنلڈ(Matthew Arnold) کا یہ قول بہت مشہور ہے ، ہم لوگ بار بار اس کو دوہراتے ہیں کہ’صحافت ایک ادب معجل ہے‘(Jounalism is the literatue in hurry)۔ آرنلڈ ادب و صحافت کے ساتھ ساتھ تہذیب و ثقافت کا بھی جو ہر شناس تھا۔ثقافتی تنقید اس کی پہچان بن گئی تھی۔ آج کی ’نیو میڈیا ‘کی طرح انیسویں صدی میں ’نیو جرنلزم‘ کی اصطلاح اسی نے وضع کی تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ صحافت کے ساتھ وقتی کارگذاری یا دفتری روزنامچہ نگاری جیسا برتاؤ روا نہ رکھا جائے۔احس مفتاحی کی صحافت کو دیکھنے کا ایک میزان یہ بھی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ مطالعہ کی وسعت، قلم کی دیانت داری، تاریخ اور احوال زمانہ کا ادراک اور ذہن کی قوت ممیزہ ہی کسی کو احسن مفتاحی بناتی ہے۔ان میں سے کوئی ایک عنصر بھی کم ہواتو سمجھیں گیارہویں عنصر سے خالی انسان اور ایسا لکھاری یا صحافی کس کام کا؟
جی چاہتا ہے کہ ان حوالوں سے مرحوم کی صحافت پر مثالوں کے ساتھ گفتگو کروں۔ان کی شعری و ادبی خدمات، تراجم اور اردوکے حقوق کی جدوجہد میں ان کے قائدانہ کردار پربھی بات کروں لیکن مناسب یہی ہے کہ اپنی ان معروضات کوآئندہ کسی وقت کے لیے اٹھا رکھوں کیونکہ نہ وقت اس کی اجازت دیتانہ یہ حسب حال ہوگا ۔یہاں ہم سے زیادہ اہل افراد موجود ہیں جو اُن کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر گہری نظر رکھتے ہیں، ان کے صحبت یافتہ اور فیض یافتہ افراد ہیں۔وہ زیادہ اہل ہیں کہ بات کریں اور میں آپ کی خدمت میں اسی لیے حاضر آیا کہ یہاں حاصل کرنے کوہر بار علم و ادب کے گہر ہائے گرانمایہ ملتے ہیں اور شہر نشاط نے ہردور میںملک و قوم اور دنیائے علم و ادب کو بہت کچھ دیا ہے۔ اس آرزو، اس گذارش اور اسی دعا کے ساتھ آپ سب کا ایک بار پھر شکریہ کہ اردو میڈیاکو اس کے زوال سے نکالناہے تو آج اس کو بہت سے احسن مفتاحی کی ضرورت ہے۔

(۱)شانتی رنجن بھٹاچاریہ ؍بنگال میں اردو صحافت کی تاریخ؍۲۶۱
(۲)رضوان اللہ ؍کلکتہ کی اردو صحافت اور میں؍ص ۱۸۳
(۳)ایضاً
(۴) نوشاد مومن ؍احسن مفتاحی (مونوگراف)؍ص ۱۲

احمد جاوید
پہلی منزل، ۱۰۱؍ مین روڈ،ذاکر نگر، نئی دہلی۲۵
ایڈیٹوریل ڈائریریکٹر، ’ثقافت‘ نیوز اینڈویوز (انٹرنیشنل) saqafat.org
کارگذار صدر، اردو میڈیا ایسوسی ایشن(انڈیا) نئی دہلی umaindia.in

مصنف کے بارے میں

احمد جاوید

احمد جاوید اردو کے ممتاز صحافی، مصنف، مترجم اور کالم نگار ہیں۔ تاریخ و تمدن پر گہری نظر اور ادب و صحافت میں اپنے منفرد اسلوب سے پہچانے جاتے ہیں۔

مزید