احمدجاوید: اردوصحافت کا خورشید درخشاں

Table of Contents

ارشاد برکاتی(کے جی این گروپ آف ایجوکیشن، پنڈول ضلع مدھوبنی،بہار)
علامہ اقبال نے کہا تھا:
مرد مومن صورت خورشید جیتے ہیں# اُدھر ڈوبے اِدھرنکلے،اِدھر ڈوبے اُدھرنکلے
اور روسیم بریلوی کا شعر ہے:
کسی چراغ کا کوئی مکاں نہیں ہوتا # جہاں رہےگا وہیں روشنی لٹائےگا
مدھوبنی کےفرزنداورملک کے مشہور صحافی و مصنف احمد جاوید پر یہ دونوںاشعارصادق آتے ہیں۔وہ دہلی میںہیںتو ستاروں کی انجمن میں ماہ درخشاں کی صورت ہیں ، لکھنؤ میں ہوتےہیں تو اس شہرنگاراں کی شمعوں میں گنے جاتے ہیں، عظیم آباد میںتشریف رکھتے ہیں تو اس کی عظمتوں میں شمار ہوتے ہیں، شہرنشاط( کلکتہ) ان پر دل وجاں سے نثارہے،ممبئی اور حیدرآبادکےتو کیا کہنے، لاہور اور کراچی میں بھی ان کو جو توقیرحاصل ہے، ان کے معاصرین میں ہندوستان کے کسی اورصحافی کوشاید ہی حاصل ہوگی۔دنیا کے سب سے کثیر الاشاعت روزنامہ’جنگ ‘کے سابق ایڈیٹر اور شہرہ آفاق مصنف و کالم نگار محمودشام نے ان کی کتاب’ مبادیات صحافت و ادارت‘ کے حوالے سے لکھا کہ’ ’ایسے پرآشوب دور میں یہ کتاب تازہ ہوا کا ایک خوشبودار جھونکا ہےاور ایک نعمت غیرمترقبہ ہے‘جب ’اردو زبان اور اردو اخبارات ایک پیغمبری وقت سے دوچار ہیں ۔ پیشہ ور صحافی، عامل مدیران اور مالکان اخبارات سب اس تصنیف سےرہنمائی حاصل کرسکتے ہیں‘‘۔جولوگ محمود شام کو جانتے ہیںوہی سمجھ سکتے ہیں کہ جدیداردو صحافت کی تاریخ کے ایک اتنےبڑے ستون کا یہ خراج تحسین کیامعنی رکھتا ہے کہ ان کی ’نظر(مبادیات صحافت و ادارت کو دیکھتے وقت)موبائل کی اسکرین سے ہٹتی ہی نہیں تھی،ایک ہی نشست میں 144 صفحات پڑھ ڈالے ۔ ہاتھ کچھ کچھ شل ہوئے مگر دماغ تروتازہ ہوگیا‘۔کسی صحافی اور مصنف کے لیےا ن کےیہ جذبات ایک اتنابڑاایوارڈ اورایسی عظیم سندہے جس سے بڑا کوئی اور انعام و اکرام نہیں ہوسکتا۔
صحافت احمد جاوید کا کام اور پیشہ نہیں، عشق ہے اور وہ بھی بچپن کا پیار۔ اپنی کتاب’ فکرفردا‘کے پیش لفظ میں’ اعتراف جرم‘کے عنوان سے لکھتے ہیںکہ’’صحافت صرف پیشہ نہیں جنون ہے۔ اسے جب تک آپ اپنا عشق نہیں بنائیںگے، آپ اس میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔آپ اس پیشہ کو مشرقی خاتون کانکاح سمجھیں ، ایک بار اس میں آگئے ہیں تو جان لیں کہ اب یہاں سے آپ کی نعش ہی جانی چاہیے، ڈولی نہیں۔آپ اگر مستقل مزاج نہیں ہیں، ہمت ہار دیتے ہیں اور کام چھوڑنے کے عادی ہیں یا پھر تیزی سے ترقی کرنا چاہتے ہیں تو صحافت آپ کا پیشہ نہیں ہوسکتا‘‘۔ ان کے اس قول کا حرف حرف ان کی عملی زندگی پر صادق آتا ہے۔وہ ابھی ساتویں آٹھویں جماعت میں تھے کہ ان کی نگارشات ( خبر، مراسلے اور مضامین ) روزنامہ ’سنگم‘، صدائے عام اور’ساتھی‘ کے کالموں میںنمایاں جگہ پانے لگی تھیں۔ 1983 میں جن نوجوانوں کے مراسلات اوررپورٹوں پر غلام سرور مرحوم کا ’ سنیاس‘ ٹوٹا اور ایک طویل وقفہ کے بعدوہ بہار ریاستی انجمن ترقی اردو کی صدارت ایک بار پھر سنبھالنے کو تیار ہوئے، ان میں جنوبی بہارکے عین الدین چشتی (سہسرام) اورشمال کے جاوید پنڈولوی (احمد جاوید ان دنوں اسی نام سے لکھتے تھے)کا نام زیادہ نمایا ںتھا حالانکہ یہ اس وقت بہ مشکل چودہ پندرہ سال کے تھے۔
جن لوگوں نےرام جنم بھومی آندولن کی شلانیاس یاتراؤں اور 1989کے عام انتخابات سے قبل و بعدکے حالات و واقعات کا سامناکیا تھا، ان میں سے بہت سے لوگوں کو اب بھی یاد ہے کہ جاوید پنڈولوی کی رپورٹوں نے خطہ میںفرقہ پرستوں کی سازشوں کا پردہ کس طرح فاش کیا ۔پنڈول کے کوآپریٹوا سپیننگ مل میں پھیلی بدعنوانیوںیا بہیڑہ اور راجوکے فسادات پرایک طالب علم اور فری لانس جرنلسٹ کی تواتر کے ساتھ ’ قومی آواز اورپھر ’قومی تنظیم ‘کے پہلے صفحے کی خبریں بننے والی رپورٹیں اور ان جیسے کئی دوسرے واقعات ان کی صحافتی زندگی کے وہ کارنامے ہیں جو اپنے اندر آج کے نوجوانوں کے لئے بہت سے سبق رکھتے ہیں۔ جو کام کثیرالاشاعت اخباروں کے نمائندوں اور ان کے نیٹورک سے نہیں ہوسکا، وہ ایک آزاد صحافی نے کیا اور ان کی اسی کامیابی نے ان کوآگے چل کر صحافت کے پیشے میں کھینچ لیا۔
لڑکپن کا یہ شوق کب ان کا ہنر بن گیا، یہ تو شاید وہ خود بھی نہ بتاسکیں لیکن دہلی کےتعلیمی سفرنے1993 میںان کو پہلی بار ایک مختصر مدت کے لیے اورپھر 1999 میں مستقل طور پراس کام سے وابستہ کردیا۔ وہ کہتے ہیں ’ ہندوستان میں اردو صحافت کی سب سے بڑی کمزوری’ گڈھے کی نفسیات ‘ہے۔اکثر لوگ اس پیشے میںاس طرح آتے ہیں کہ جیسے کسی نے ان کو دھکا دے دیا ہے۔ وہ زندگی بھر اس سے نکلنا چاہتے ہیں لیکن پھسل پھسل کر اسی میں گرتے رہتے ہیںاورکبھی نکل نہیں پاتے۔ ایسےہی لوگوں کے باعث اردو صحافت بدنام بھی ہے اور اس کو نقصان بھی زیادہ انہیں سے پہنچایا ہے‘‘۔ یہ جون 1999 تھا جب احمد جاوید نے ملک کے سب سے کثیر الاشاعت ہفت روزہ’نئی دنیا‘ کے ادارے سے نکلنے والے ہندی ہفت روزہ’ نئی زمین‘ سے اپنی باضابطہ صحافتی زندگی کا آغاز کیا۔ پھر انہوں نے مڑکر پیچھے نہیں دیکھا۔ چند ہی ماہ بعد ’نئی دنیا‘ کی ادارتی ذمہ داریاں ان کے پاس آگئیں۔پھر روزنامہ ہندوستان ایکسپریس (اردو) کے نیوز ایڈیٹر اور ایڈیٹر کی حیثیت سے ان کے حصے میں جو صحافتی کارنامے آئے وہ اردو صحافت کی تاریخ کا ایک بڑا روشن باب ہیں۔ اس اخبار نے شمالی ہند میں اردو میڈیا کو نئی سمت و رفتار دی۔ یہ شمال کا پہلا اور ہندوستان میں حیدر آباد کے ’سیاست‘ اور’ منصف‘؛ اور ممبئی کے’ انقلاب‘ اور’ اردو ٹائمز‘ کے بعد اردو کا پانچواں اخبار تھا جو ویب سائٹ پر آیا۔ اسی اخبار نے نئی دہلی کے بٹلہ ہاؤس (جامعہ نگر) میں رونما ہونے والے فرضی انکاؤنٹر کی اصلیت کو اپنے دو زیرتربیت نامہ نگاروں محمدعلم اللہ اور مالک اشتر کی مدد سے بےنقاب کیا تھا اور بعد میں ملک و بیرون ملک کے ذرائع ابلاغ نے اس واردات پر وہی موقف اختیار کیا جو اس اخبار نے اپنی اس واردات کی پہلی خبر میں اور بہ حیثیت ایڈیٹر احمد جاوید نے اخبار کے اداریہ میں روز اول اختیار کیا تھا۔
’ہندستان ایکسپریس‘ کے فکرانگیز اداریے اوراحمد جاوید کا مستقبل کالم ’فکرفردا‘ ہندوستان میں اردو صحافت کا ایک سنگ میل ہیں جن کے تعلق سے دہلی کے مشہور ادیب عظیم اختراپنی کتاب’دلّی والے نئے پرانے چہرے‘ میں لکھتے ہیں:’’ ہندوستان ایکسپریس‘ کے اداریوںنے ماضی کی یادیں تازہ کردی تھیں۔ احمد جاویدنے اداریہ نویسی کو اسی سنجیدگی سے لیا اور ماضی کی ان صالح قدروں کو اپنایا جن کے لیے مولانا عثمان فارقلیط، مولانا محمد مسلم، مولوی عبد الباقی بی اے اور ناز انصاری کے نام آج تک ہمارے ذہنوں میںمحفوظ ہیں۔یہ اداریے صحیح معنوںمیں ساکت پانی میں اچھالے گئے پتھر ثابت ہوئے، دوسرے معاصر کو بھی مجبور کیا کہ وہ غزل میں بھرتی کے شعروں کی طرف اداریے نہ لکھیں بلکہ تازہ موضوعات اورملک و ملت کے اہم مسائل پر بامعنی و پر مغز اداریے سپرد قرطاس کریں تاکہ نہ صرف حرمتِ قلم باقی رہے بلکہ ان کا وزن بھی محسوس کیا جائے۔ان کی ادارت میںاس اخبارنے بارہااپنی خبروں سے بھی حکومت اور سماج کو اپنے وجود کا احساس دلایا‘‘۔
’فکرفردا‘گزشتہ پندرہ برسوں سے ہراتوار کو شائع ہوتا اور قارئین کے حلقوں میں غیرمعمولی مقبولیت رکھتاہے۔ مئی 2006ء سے جون ۲۰۱۱ء تک یہ کالم روزنامہ ’ہندوستان ایکسپریس‘( نئی دہلی)، پھر’آزادہند‘ ،کلکتہ (جنوری۲۰۱۳ تک) اور اس کے بعدروزنامہ’انقلاب‘ میں شائع ہوااور اب یہ ’ثقافت ‘انٹرنیشنل (نیوزاینڈ ویوزپورٹل) کی زینت بنتا ہے۔ملک کےکثیرالاشاعت اخباروں کی زینت بنتے چلے آئےاپنی طرز کےاس منفرد کالم نے لکھاریوں کے سنجیدہ طبقہ کو بھی بڑے پیمانے پر متأثر کیا اور ان کالموں کے انتخاب نےکتابی صورت میں بھی اہل نظر کی توجہ حاصل کی۔
روزنامہ’ انقلاب‘ کی لکھنؤ اور پھرپٹنہ کی اشاعتوں کےریزیڈنٹ ایڈیٹر کی حیثیت سےاحمدجاوید نے شمالی ہندوستان میںاردوصحافت کونئی جہت دینے میں گرانقدر کردار ادا کیا۔ اس اخبارنے بہت ہی مختصرمدت میں اپنی صاف ستھری،ذمہ دارانہ اورتحقیقاتی صحافت سے کئی دیرینہ مسائل کے حل اور کئی اداروں کی اصلاح میں حکومت اور سماج کی مددکی۔اس نے اپنے دوسرے معاصرین کو بھی متأثر کیااوران پر اس کے دیرپا اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔ یہ خطے کا پہلا اردواخبارتھاجس نےاحمد جاوید کی قیادت میں شہرکے اسکولوں میںجاکر وہاں اردو کی تعلیمی صورت حال کا جائزہ لیا، جس سے اسکولوں کی انتظامیہ، اساتذہ ، طلبااورسرپرستوں کی قابل ذکررہنمائی ہوئی۔ ’بزم انقلاب‘ کے تحت اس کی ادبی سرگرمیوں بالخصوص طرحی مشاعروں نے(جوجنوری 2015 سے 2020میں کورونا کی وباپھیلنےتک ہرماہ کے پہلے اتوارکومنعقدہوتاتھا) پوری ریاست میں ایک نئی لسانی اورادبی بیداری پیداکی اورکئی نئی ذہانتیں دریافت کیں۔ کسی اخبار نےریاست میں پہلی بار اردو معاشرے کی خواتین کومادری زبان کی تعلیم کے تعلق سے ذمہ داری کااحساس دلانے اوران میں سماجی معاشی و تعلیمی بیداری لانے کے لیے ’اوڑھنی کلب‘ قائم کیا اورخواتین کے مسائل پران ہی کے درمیان جاکرمذاکرات کا سلسلہ چلایا۔’خاص ملاقات‘ کے تحت زندگی کے مختلف شعبوں کی نامی گرامی تجربہ کارومعمرشخصیات کی حیات و خدمات کے اہم گوشوں کو محفوظ کرنے کی مہم بھی چلائی اوریہ سارے سلسلے احمدجاوید کےزرخیز ذہن کی اپج تھے ،’ انقلاب ‘میںبہارکی اشاعتوں تک محدود تھےاور ان کے دور ادارت تک ہی جاری رہے۔ اردومیں صحافت کے معیار کو بہتربنانے کے لیے احمدجاوید نے2014میں مولانامظہرالحق اردووفارسی یونیورسٹی،پٹنہ اورقومی اردوکونسل،نئی دہلی کے تعاون سے صحافیوں کےلیےتربیتی ورکشاپ منظم کیاجو ریاست میں اپنی نوعیت کا پہلا ورکشاپ تھا؛ اور اسی طرح آگے چل کر اس کام میں بہار اردو اکادمی اوراردو ڈائریکٹوریٹ(محکمہ راج بھاشا،حکومت بہار ) کابھی عملی تعاون کیا ۔ اردومیں صحافت کے معیار اورکاروبار کے فروغ کے لیے وہ ایک عرصہ سے تحریک چلارہے ہیںاور اردومیڈیاایسوسی ایشن(یوایم اے) انڈیا، نئی دہلی کےبانیوں میں شامل اور اس کی مرکزی مجلس عاملہ کے کارگذارصدر ہیں جس کی تاسیس ۱۷؍مارچ ۲۰۲۱ء کو کولکاتہ میں ان ہی کی تحریک پر عمل میں آئی تھی۔
جیسا کہ سطور بالا سے ظاہر ہے احمد جاوید نے اردو صحافت میں اپنی خدمات کو فرائض منصبی تک ہی محدود نہیں رکھا ۔ وہ متعدد ادبی و علمی کتابوںکے مصنف ہیں۔ ان کی درسی کتاب’مبادیات صحافت و ادارت‘ وطن عزیز میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان(این سی پی یو ایل) نئی دہلی اور پاکستان میں ورلڈویوپبلشرز، لاہور نے شائع کیا ہے۔’فکرفردا‘ اور ’ تلخ نوائی‘ کالم نگاری اور اداریہ نویسی کے فن پر ان کی گرانقدر تصانیف ہیں۔ ان کے سوانحی خاکوں کا مجموعہ’آسماں تہہ خاک‘ ۲۰۱۵ ء میں منظرعام پر آیا اوراس کے اسلوب نگارش کی انفرادیت نے قارئین کومتأثر کیا۔۲۰۲۱ءمیں ’میرےحصےکی دلّی اور قصہ چھٹے درویش کا‘ شائع ہوئی جو یادداشت اورخاکوں کی ایک بڑی دلچسپ و منفرد کتاب ہے۔ان کے مقالات ’شیخ المشائخ محی الدین عبدالقادر جیلانی :سیاسی، سماجی اور معاشی تناظر‘،’محبوب الٰہی خواجہ نظام الدین: سیاسی ، سماجی اورتاریخی حوالے سے‘،’ امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد فاروقی سر ہندی‘ ، ’علامہ فضل حق خیرآبادی اور ان کا عہد‘ اور’بارہ ماسہ محبیّٰ: اردومیں بارہ ماسہ کی روایت کا ایک گمشدہ باب ‘کوبرصغیر کےدینی ، علمی اور ادبی حلقوں میں غیر معمولی پذیرائی حاصل ہے۔ حال ہی میںمنظر عام پر آنے والی ان کی کتاب ’ مولانا عبدالوحیدصدیقی: مجاہدآزادی اور معمارصحافت‘ ہندوستان میں صحافت کی تاریخ اور جمہوریت کی جدوجہد کے ایک بڑے دشوارباب کی دریافت کا درجہ رکھتی ہے ۔
احمد جاوید کا تعلق متھلا کی مردم خیز سرزمین کے قلب میں مدھوبنی شہر سے کوئی سات کلو میٹر جنوب اورپنڈول سے تین کلومیٹر شمال مغرب ایک چھوٹے سے گاؤں کوٹھیا سے ہے جہاں وہ ایک متوسط کاشتکار کے گھر 1970میں پیدا ہوئے۔ان کے والدین، شیخ محمد عیسیٰ (ہیرابابو) مرحوم اور ام الخیر اسلام النساء مرحومہ کی گاؤں میں تعلیم کے فروغ میں غیر معمولی دلچسپی تھی۔ وہ اپنے دالان میں بچوں کی درسگاہ چلاتے تھے۔ اسی درسگاہ میںحافظ محمد سلطان مرحوم (ساکن سشوا ) نےجو ایک بڑے باکرامت معلم اور ولی صفات انسان تھے،احمدجاوید کی باضابطہ رسم بسم اللہ کرائی ۔ گاؤں کے گورنمنٹ اردو مکتب میں ماسٹر عبد المجید مرحوم اور محترمہ زبیدہ خاتون سے چوتھی جماعت تک پڑھا۔پھروہ مدرسہ اسلامیہ امانیہ لوام ضلع دربھنگہ میں داخل کرائے گئے جہاں سےوسطانیہ ،فوقانیہ اور مولوی اول درجے میں امتیازی نمبرات کے ساتھ کیا۔ اسی کے ساتھ بہار انٹرمیڈیٹ کونسل پٹنہ سےانگریزی ، فارسی، نفسیات ، تاریخ اورعمرانیات کے ساتھ انٹرمیڈیٹ (IA)اورپھرمتھلا یونیورسٹی کے سی ایم کالج( دربھنگہ) سے تاریخ، نفسیات،اردو اورفارسی میں امتیازی نمبرات کے ساتھ بی اے اورپھر آنرزکیا۔ آنرز کے سارے پرچوں میں امتیازی نمبرات کے ساتھ پہلے درجے میں کامیاب ہوئے اور یونیورسٹی میں پہلا مقام حاصل کیا۔ بہار مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے فاضل فارسی میں بھی وہ پہلے درجے میں کامیاب ہوئے۔فارسی کی اعلی تعلیم کے لیے1993ء میں انہوں نے جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) نئی دہلی کا سفر کیا لیکن والد کی علالت کے باعث ان کو جلد ہی گھر واپس لوٹنا پڑا اوران کے انتقال کے بعدخاندان کی ذمہ داریاں کندھوں پر آگئیں۔وہ اپنی طالب علمی کے دور سے ہی گاؤں میں تعلیم کے فروغ اور اصلاح معاشرہ کے لیے سرگرم عمل تھےاور اس کام میں ان کے خاص دوستوں اور ہم عمرنوجوانوں کے علاوہ ان کی ان کی اہلیہ محترمہ روحی جاوید کا تعاون حاصل تھاجو چھ سات سال تک گاؤں کے بچوں کو تعلیم دیتی تھیں اور اس وقت اس گاؤں کے تعلیم یافتہ نوجوانوں میں بڑی تعداد ان کی فیض یافتہ ہیں۔احمد جاوید گاؤں کی فلاحی انجمن’ سوشل اینڈ ویلفیئر ایسوسی ایشن‘(SEWA؍خدمت) ٹرسٹ کے بانی ہیں ، پہلے اس کے ناظم اعلیٰ ہوا کرتے تھے اور اب اس کی صدارت و سرپرستی کرتے ہیں۔
احمدجاوید کی گرانقدر ادبی،علمی اور صحافتی خدمات کا اعتراف ملک کےباوقار سرکاری و غیر سرکاری اداروں نے کیا ہے۔ وہ اردو میڈیا گلڈ آف انڈیا (لکھنؤ) کے پرائیڈ آف جرنلسٹس ایوارڈ (2013)، بیٹرورلڈ مشن کے آبروئے صحافت ایوارڈ (2014)،بہار اردو اکادمی کے قومی ایوارڈ برائے صحافت غلام سرور ایوارڈ(2014)اور مغربی بنگال اردو اکادمی (کلکتہ)کے مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی قومی ایوارڈ (2017) سے سرفراز کیےگئے؛اورادب و صحافت دونوں میں اپنے منفرد اسلوب سے پہچانے جاتے ہیں۔

احمد جاوید پرایک نظر
نام: احمدجاوید
پیدائش: ۱۰؍جنوری ۱۹۷۰ء
مقام پیدائش : کوٹھیا،ڈاکخانہ پنڈول، ضلع مدھوبنی (بہار)
تعلیم : بی اے (آنرس)، فاضل( فارسی)، پی جی ڈپلوما (جرنلزم)
موجودہ ذمہ داریاں:
(۱)ایڈیٹر انچیف: ’ثقافت ‘انٹرنیشنل( saqafat.in)نیوز اینڈ ویوز پورٹل، نئی دہلی
(۲)کنسلٹنٹ ایڈیٹر: اسکائی لائن پبلی کیشنز، نئی دہلی
(۳) نائب صدر، اردو میڈیا ایسوسی ایشن(یوایم اے)انڈیا، نئی دہلی

کتابیں:
(ا)میرے حصے کی دلی اور قصہ چھٹے درویش کا؍ ۲۰۲۱؍ عرشیہ پبلی کیشنز، نئی دہلی(یادداشت اورسوانحی خاکے)
(۲)مبادیات صحافت و ادارت ؍۲۰۲۰؍ قومی اردو کونسل، نئی دہلی(درسی کتاب)۔
(۳)تلخ نوائی؍ ۲۰۲۰؍ عرشیہ پبلی کیشنز، نئی دہلی (ہندوستان ایکسپریس کے منتخب اداریے)
(۴) فکرفردا؍۲۰۱۸؍ 101 پبلشرز اینڈ کمیونکیٹرز، نئی دہلی(کالموں کا انتخاب)
(۵) آسماں تہہ خاک؍۲۰۱۶؍ 101پبلشرزاینڈکمیونکیٹرز، نئی دہلی(سوانحی خاکے)
(۶) صحرابھی گلزار لگے؍ ۲۰۰۶؍شبنم اکیڈمی، پٹنہ؍ ترتیب و تقدیم (علامہ شبنم کمالی کی حمدوں، نعتوں اور غزلوں کا مجموعہ)
(۷) شاسیا کی کہانی؍ ۲۰۰۵؍ ساؤتھ ایشیا فاؤنڈیشن، نئی دہلی؍ انگریزی سے ترجمہ (یونیسکو کےسفیرخیرسگالی مدن جیت سنگھ کی دستاویزی کتاب)
(۸) بارہ ماسہ محباّ: اردومیں بارہ ماسہ کی روایت کا ایک گمشدہ باب؍ ۲۰۲۲؍ناشرومرتب:ریحان انجم مصباحی ،حضرت محبےّٰ اکیڈمی، مدھوبنی؍ (تحقیق و تدوین)
(۹) ہندوستان: ایک ہزار سال، ایک نقطہ نظر (عہد وسطی کے برعظیم میں اسلام اور مسلمانوں کی سیاست اور ہندوستان کی تاریخ و ثقافت کا جائزہ)
(۱۰) ’۰۰۰آگے حد پرواز سے‘(نوجوانوں کےشخصی کامیابی پر مبنی ایک ترغیبی دستاویز)؍۲۰۲۲؍ کریٹیو اسٹار، نئی دہلی
(۱۱) مولانا عبدالوحیدصدیقی: مجاہدآزادی اور معمار صحافت(تاریخ و سوانح)؍۲۰۲۳؍ اسکائی لائن پبلی کیشنز، نئی دہلی
رابطے کا پتہ:تیسری منزل ١٠٠٦؍ ایچ بلاک، اشوکا پارک روڈ،ذاکر نگر، جامعہ نگر، نئی دہلی ۱۱۰۰۲۵

مصنف کے بارے میں

احمد جاوید

احمد جاوید اردو کے ممتاز صحافی، مصنف، مترجم اور کالم نگار ہیں۔ تاریخ و تمدن پر گہری نظر اور ادب و صحافت میں اپنے منفرد اسلوب سے پہچانے جاتے ہیں۔

مزید