By Azim Akhtar عظیم اختر
ملک کےمشہور صحافی، مصنف، مترجم اور کالم نگاراحمدجاویداپنے کالم ’فکرفردا‘کےلیے پوری اردو دنیا میںجانے جاتےہیں۔ہفت روزہ ’نئی دنیا‘(اردو)،نئی زمین (ہندی)،روزنامہ ’ہندوستان ایکسپریس‘ (نئی دہلی) اورروزنامہ ’ انقلاب‘(لکھنؤ اور پٹنہ)کے ایڈیٹرکی حیثیت سےان کی گرانقدرخدمات کا اعتراف بھی بڑے پیمانے پر کیاگیا۔ ’مبادیات صحافت و ادارت‘، ’ آسماں تہہ خاک‘، ’میرے حصے کی دلّی اورقصہ چھٹے درویش کا‘، ’فکر فردا‘،’تلخ نوائی ‘، اور’ مولانا عبدالوحیدصدیقی:مجاہدآزادی اور معمارصحافت‘ان کی غیرمعمولی اہمیت کی حامل کتابیں ہیں۔
احمدجاوید کا تعلق مدھوبنی ضلع میں پنڈول کے ایک چھوٹے سے گاؤںکوٹھیاسے ہے جہاں تعلیم کے فروغ اوراصلاح معاشرہ کے لیےانہوںنے1981میںایک انجمن قائم کی جوسوشل اینڈ ویلفیئر ایسوسی ایشن (SEWA؍خدمت)ٹرسٹ کےنام سے کام کرتی ہے،’انقلاب‘کےذریعےانہوں نے ریاست کے اسکول مدرسوں میں اردو کی تعلیم کے فروغ کی مہم چلائی، ’بزم انقلاب‘کےسربراہ کی حیثیت سےبہار میں نئی ادبی و ثقافتی بیداری کے محرک بنے اور آج کل اردو میڈیاایسوسی ایشن(یوایم اے) نئی دہلی کے قومی نائب صدر ہیں جو اردومیں صحافت کے فروغ کی تحریک چلا رہاہے۔
دہلی اردو اکادمی کے سابق سکریٹری اورملک کے مشہورومعروف ادیب و مصنف عظیم اختراردو کے ملک کےاردولسانی معاشرے میں رائج منافقت و مداہنت کے بڑے سخت ناقد ہیں۔ان کازیرنظر مضمون احمدجاوید کی شخصیت اور خدمات کاایک مختصر تعارف لیکن اس حقیقت کابڑاوالہانہ اعتراف ہے کہ مدھوبنی کے ایک فرزندنےاردوادب و صحافت میں کیسے انمٹ نقوش رقم کیے ہیں۔(ادارہ)
عظیم اختر
یہ ان دنوں کی بات ہے جب دہلی میں ’قومی آواز‘ بند ہورہاتھا اورہفت روزہ’ نئی دنیا‘ جیسے بڑے اورمستحکم ادارہ سے شائع ہونے والا روزنامہ ’عوام‘ اپنی اشاعت محدود کرچکا تھا ۔ ایک دن شام کے وقت فون کی گھنٹی بجی۔ رسمی سلام و دعا کے بعد ایک دھیما دھیمامگر پر اعتماد لہجہ سنائی دیا ’’ میں احمد جاوید ہوں اور ’ہندوستان ایکسپریس‘ سے بول رہا ہوں۔چند دن پہلے خالد انور نے آپ سے گفتگو کی تھی ۔میں اسی سلسلے میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں ۔ میری رہائش ذاکر نگر میں ہی ہے۔ اگر آپ گھر پر ہیں اور اجازت دیں تو حاضر ہوتا ہوں‘‘۔
ذاکر نگرنئی دہلی کے جامعہ نگر میں مسلمانوں کی ایک ایسی بستی ہے جہاںتعلیم یافتہ مسلمانوںکی کوئی کمی نہیں ہے لیکن اپنے اپنے خول میںبند رہنے والے ان لوگوںمیں اہل محلہ تو کجا پڑوسیوں سے بھی علیک سلیک کا رجحان بہت کم ہے۔بھیڑ میں اجنبیت ان کا مقدر ہے۔ احمد جاوید نے اپنا تعارف کرایا تو ہمیں خوشی ہوئی کہ ایک پڑھا لکھا مہذب شخص ہمارا ہم محلہ تو ہے ۔ ’ہندوستان ایکسپریس ‘میں ان کا کالم ’ فکرفردا‘ ہم نے اسی دن پڑھا تھا ۔
ہم ورکنگ جرنلسٹ کبھی نہیں رہے لیکن صحافت سے میراگہراتعلق رہا ہے۔ گزشتہ صدی کے ساتویںدہے میں جب ہم دہلی سرکار میں اسٹیٹ پریس آفیسر کے عہدے پر فائز تھے اور یہاں سے شائع ہونے والے ہر زبان کے اخبارات و رسائل اورکتابوں پر مختلف پہلوؤں سے نگرانی رکھنا ہمارے فرائضِ منصبی میں شامل تھا اس وقت دہلی ایسے شہر سے اردو کے صرف پانچ روزنامے باقاعدگی کے ساتھ چھپتے تھے اور اخبار فروشوں کے یہاںنظر آتے تھے۔ گرچہ اس وقت اکثریتی طبقے میں بھی اردو اخبارات پڑھنے والوںکا ایک معدوم ہوتا ہوا حلقہ موجود تھالیکن اس کے باوجود ان پانچوں اخبارات کی سرکولیشن دہلی اور اس کے قرب و جوار کے چھوٹے بڑے علاقوں میںاخبار بینی کے شوقین اور عادی مسلمانوںتک محدود تھی ۔مسلمانوں کو اپنی مادری زبان کے تحفظ و بقا کا نہ اس وقت ہوش تھا اور نہ آج تک کوئی شعور ہے۔ ہم سرکاری نوکری سےسبکدوش ہوئے تو ہمارے دور کے بہت سے اخبارات و رسائل گرتی ہوئی سرکولیشن کی تاب نہ لا کر ماضی کا حصہ بن چکے تھے۔ روز نامہ ’الجمعیۃ ‘ جمعیۃ علماکے ذمہ داروں کی مفادپرستی کی نذر ہوگیا۔شمع، بانو، شبستان، کھلونا اور بیسویں صدی جیسے مقبول جریدے مسلسل گھاٹے کے پیشِ نظر بند کر دیے گئے لیکن اسی کے ساتھ آراین آئی( رجسٹرار آف نیوز پیپرزان انڈیا) کے ریکارڈ میں دہلی سے اردو کے لگ بھگ ستر اسّی روزنامے شائع ہو رہے تھے۔ ہم حیران تھے کہ جس شہر میں اردو لکھنے پڑھنے والوں کی کم ہوتی ہوئی تعداد اور گھٹتی ہوئی سرکولیشن کی وجہ سے پُرانے مقبول عام اور خاصے مشہور اخبار ات و رسائل بند ہو گئے وہاں روزانہ ساٹھ ستر اخبارات کہاں کھپتے ہوںگے؟ انکشاف ہوا کہ ان میں بہ مشکل آٹھ نو اخبارات ہی باضابطہ چھپتے ہیں، باقی سرکاری اشتہارات حاصل کرنے،فائلوںکا پیٹ بھرنے، بلوں کی ادائیگی اور اسی قسم کی اور دوسری خانہ پُری کرنے کے لیے روزانہ صرف چالیس پچاس کی تعداد میں ہی چھاپے جاتے ہیں۔ایسے وقت میں ایک نئے اخبار کی اشاعت محل نظر تھی اور ذہن کئی سوالوں سے الجھ رہا تھا۔
گھرکے دروازےپر دستک ہوئی اور ہم نے دروازہ کھولا تو احمد جاوید صاحب موجودتھے جن سے یہ ہماری پہلی ملاقات تھی لیکن گفتگو میں شخصیت کی پرتیں کھلیں تواحساس ہواکہ یہ شخص وسیع المطالعہ ہے ،ملک و ملت کے چھوٹے بڑے مسائل پر گہری نگاہ رکھتا ہےاور زبان و بیان پربھی اس کی بھرپور دسترس ہے۔ ہم نے مولانا ابوالکلام آزاد،مولانا حسرت موہانی، مولانا ظفر علی خاں، آغا شورش کاشمیری، مولانا عبدالماجد دریا بادی اور مولانا عبد الرزاق ملیح آبادی جیسے اردو صحافت کے اہم ستونوں کو تو نہیں دیکھا لیکن اس پہلی ملاقات میں ہمیں احمد جاوید کی شکل میں آج کی اردو صحافت کا ایک ایسا مخلص،درویش صفت اور وسیع المطالعہ صحافی نظر آیا جسے آنے والی نسلیں یاد رکھیں گی اور صحافیوں کے جمِ غفیر میںآسانی سے نظر انداز نہیں کیا جا سکے گا۔ فون پر اخبارکے منیجنگ ایڈیٹر کو ہم نے ٹال دیا تھا لیکن چونکہ ہم حرمتِ قلم کے قائل ہیں اوراحمد جاوید کے یہاں اس کی پاسداری کی جھلک نظر آئی، اس لیے ان سے کہا کہ’’ہم اپنا قلمی تعاون صرف آپ کی وجہ سے آپ کے اخبار کو دیںگے‘‘۔ اس طرح ہم نے’ ہندوستان ایکسپریس‘ میں ’’حرف نیم کش ‘‘کا سلسلہ شروع کیا جو بلا ناغہ ہر اتوار کو پانچ برسوں تک جاری رہا اور اس وقت بند ہوا جب احمد جاوید نے’ہندوستان ایکسپریس‘ کو چھوڑا۔گرچہ ’ہندوستان ایکسپریس‘ کے ذمہ داران چاہتے تھے کہ ہم یہ کالم بدستور جاری رکھیں لیکن ہم ان حضرات کی صحافتی صلاحیتوں سے مطمئن نہیں تھے، اس لیے اس کوچے کا رخ دوبارہ نہیں کیا۔
’ہندوستان ایکسپریس‘ میں کالم نویسی کا یہ فائدہ ہوا کہ احمد جاوید جیسے ذہین اور درویش صفت صحافی سے قربت بڑھ گئی اور ہم محلہ ہونے کی وجہ سے اکثر و بیشتر ملاقاتیں اور بے تکلف گفتگو ہونے لگی۔ ان ملاقاتوں اور بے تکلف گفتگو میں طنز و مزاح کے مشہور شاعر اسرار جامعی بھی شریک ہوتے جو اپنی ادبی اور سماجی زندگی کے دلچسپ واقعات سناتے اور ہم لوگ لطف اندوز ہوتے۔ ان ملاقاتوں نے ہمارے اوپر احمد جاوید کی شخصیت کے بھی کئی پہلو کھولے۔ پتہ چلا کہ تاریخ ، فلسفہ، نفسیات اور شعرو ادب پر ان کی گہری نظر ہے۔ یونیسکوکے سفیرخیرسگالی ’مدن جیت سنگھ ‘ کی دستاویزی کتاب ’ساشیا کی کہانی‘ کا ترجمہ دیکھنے سےاندازہ ہوا کہ وہ جتنے کامیاب صحافی ہیں، اتنے ہی بہترین مترجم بھی ہیں۔ان کی کتاب ’ آسماں تہہ خاک‘ اور ’میرے حصے کی دہلی ‘ظاہر کرتی ہےکہ وہ اپنی طرزکے منفرد خاکہ نگار ہیں اور ’مبادیات صحافت و ادارت‘ کے دیکھنے سےاندازہ ہوتا تھا کہ صحافت کے فن پر عملی گرفت کی طرح اس کی علمی باریکیوں پر بھی ان کی گہری نظر ہے اور اس فن شریف کی درس و تدریس کا بھی غیرمعمولی ملکہ رکھتے ہیں۔ اس کتاب کے تعلق سے اردو کے عہدساز صحافی، مصنف اور کالم نگار محمود شام(سابق مدیرروزنامہ جنگ اور چیف ایڈیٹر ’اطراف‘،کراچی) لکھتے ہیں کہ ’’اردو زبان اور اردو اخبارات ان دنوں ایک پیغمبری وقت سے دوچار ہیں۔ ایسے پرآشوب دور میں احمد جاوید کی ’مبادیات صحافت و ادارت‘ تازہ ہوا کا ایک خوشبودار جھونکا ہےاور ایک نعمت غیر مترقبہ سے کسی طور کم نہیں ہے۔پیشہ ور صحافی، عامل مدیران اور مالکان اخبارات سب اس تصنیف سے رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں‘‘۔ وہ لکھتے ہیں کہ’’ اس کی زبان اتنی سادہ مگر دلکش،موضوعات اتنے اہم اور حساس ، اصطلاحات میں جدت اور جامعیت ایسی کہ نظر موبائل کے سکرین سے ہٹتی ہی نہیں تھی ، ایک ہی نشست میں 144صفحات پڑھ ڈالے ۔ ہاتھ کچھ کچھ شل ہوئے مگر دماغ ترو تازہ ہوگیا‘‘۔ یہ تاثیر اور تازگی ادب و صحافت میں احمد جاویدکا خاصہ ہے اوران کے منہج فکر و نظرسے آئی ہے۔ وہ میڈیا کااوروں سے مختلف اور منفرد تصور رکھتے ہیں۔
ایک دن ایک ایسی ہی بے تکلف مجلس میں جس کا ذکرابھی کیاگیا،دوران گفتگو ہم نے احمد جاوید سے پوچھ لیا کہ ’’ میاں جاوید صاحب! آپ’’نئی دنیا‘‘ جیسے مستحکم اور کثیر الاشاعت اخبار سے وابستہ تھےجہاں آپ کو لکھنے لکھانے کی کھلی چھوٹ تھی تو پھر ایک نیا اخبار نکالنے کا شوق کیوں پیدا ہوا اور پھر جب وہ اخبار اپنے پیروں پر کھڑا ہونے لگا تو اس سے علیحدگی کی کیا وجہ ہے ؟‘‘انہوں نے ان ہی دنوں ’ ہندوستان ایکسپریس‘ سے علیحدگی اختیار کی تھی۔ احمد جاوید نے جو جواب دیا وہ صحافت کی اعلیٰ و ارفع قدروں میں یقین اور اس کی فنی باریکیوں پر گہری نظر رکھنے والا شخص ہی دے سکتا ہے ۔ انھوں نے کہا:’’اکیسویں صدی کے پہلے عشرے کے وسط میں جب ہمارے یہاں اردو کی صحافت نے اپنی خود اعتمادی کھو دی تھی، اس کا بزنس بالخصوص شمالی ہندوستان میں تیزی سے سمٹ رہا تھا، بہت سے اخبارات اپنی اشاعت مسدودو محدودچکے تھے۔ قومی آواز جیسا اخبارآخری سانسیں لے رہا تھا تو روزنامہ ’ہندوستان ایکسپریس‘ کی شکل میں یہاں روشنی کی ایک کرن نمودار ہوئی۔ اس اخبار کی اشاعت بنیادی طورپر ایک اتفاقی حادثہ تھی جس کو بعض حضرات اردو صحافت کی ایک سوچی سمجھی پیش قدمی بنانے کی کوشش کر رہے تھے اور ان کی اسی کوشش نے مجھ کو اس گروپ میں شامل کر لیا تھا۔یہ بھی ایک اتفاق ہی تھا کہ اس میں شروع سے ہی قائدانہ کردار میرے حصے میں آگئی۔ اس نومولود اخبار نے خودکو اپنے اداریوں، خبروں اور دوسرے مشمولات سے اخبار بینوں کی توجہ کا مرکز بنا یااور سرکولیشن اٹھنے لگی تو منیجنگ ایڈیٹر اور پرنٹر و پبلشرمیںمفادات کا ٹکراؤ پیداہوگیا۔یہاں تک کہ اس نے جلد ہی ان دونوں کو جدا کر دیا لیکن احمدجاویداردو کو ایک بااثر اخبار دینےکے مشن سے اب بھی پیچھے نہیں ہٹے ، انہوں نے پانچ سال تک اس اخبار کی ادارتی ذمہ داریاں سنبھالیں اوراخبار نے اس مدت میں صحافت کے کئی سنگ میل رقم کیے۔وہ اس پر زوردیتے ہیں کہ’’ اردو صحافت کبھی بازار میں ہوتی تھی لیکن آزادی کے بعد یہ دھیرے دھیرے سرکاری اشتہارات اور متمول سیاستدانوں کی خاموش اور اعلانیہ امداد پر منحصر ہو کر رہ گئی اورہندوستان میں اردوصحافت کی سب سے بڑی ٹریجڈی یہی ہے کہ یہ بازار سے باہر ہوتی چلی گئی ہے‘‘۔وہ اس باوقار پیشہ کو اس ٹریپ سے نکالنا چاہتے تھے۔ اس اخبار کو ایک کمرشیل کمیونٹی نیوز پیپر کا روپ دینا چاہتے تھے۔دنیا کے دوسرے حصوں میں کمیونٹی نیوز پیپر کا بھی اچھا خاصا کاروبار ہے لیکن ہمارے یہاں صحافیوں اور ناشرین کو صحافت کی دنیاکے اس پہلو کا نہ کوئی شعور ہے اور نہ ادراک۔اور کمیونٹی بھی اس کا شعور نہیں رکھتی۔ ’ہندوستان ایکسپریس‘ نے اس کی شعوری کوشش کی لیکن ابتدائی حوصلہ افزا کامیابی کے بعدٹیم بکھرگئی، اس کے ہررکن کو یہ خیال ستانے لگا کہ جب کامیابی اتنی آسان ہے تووہ کسی اور کے لیے کیوں کام کرے اور یہ اخبار بھی اردو صحافت کی پُرانی روش پر لوٹ گیا جہاں اخبارات اس مواد کو ذوق و شوق سے خبروں کے کالم میں چھاپتے ہیں جو اشتہار کا موضوع ہوتے ہیںجبکہ کارپوریٹ کے شعبے سے اردو اخبارات کو اس لیے اشتہارات نہیں ملتے کیونکہ ان کا سرکولیشن محدود اور کاغذی ہوتاہے۔احمد جاوید خاموش تھے اور ہم دل ہی دل میں ان سے مخاطب تھے کہ میاں! تم نے اس دور میں صحافت کو اپنا میدان عمل کیوں بنایا جب اس کی اعلیٰ اور ارفع قدروں کی دھجیاں اڑ رہی ہیں، کاسہ لیسی اور کشکول برداری صحافیوں کا عام مزاج بن چکا ہے۔ معاً یہ خیال بھی ذہن میںآیا کہ آج اس شعبے میں ملک و ملت کو ایک دو نہیں بہت سے احمدجاوید کی ضرورت ہے۔
احمدجاوید کا تعلق شمالی بہار کے مدھوبنی ضلع سے ہےجہاں وہ ایک متوسط کاشتکار کے گھر پیدا ہوئے۔دہلی آئے تو تھے جواہر لال یونیورسٹی میں فارسی کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے لیکن قسمت صحافت کی دنیا میں لے آئی اور وہ بھی اردو کی صحافت جو صلاحیتوں کے لیے کسی نمک کی کان سے کم نہیں ہے مگر آپ ان سے ملیں تو احساس ہوتاہے کہ کوئلے کی اس کان نے پورب کے اس نوجوان کا کچھ نہیں بگاڑا۔اس پیشہ میں ان کی باضابطہ خدمات کا آغاز ہفت روزہ ’ نئی زمین ‘(ہندی) سے ہوا،پھر کئی برسوں تک انہوں نےہفت روزہ ’ نئی دنیا‘ کو اپنی خدمات دیں،2006سے 2012تک’ہندوستان ایکسپریس‘ کے ایڈیٹر رہے اور پھرپورے دس سال روزنامہ ’انقلاب‘ میںلکھنؤ اور پٹنہ کی اشاعتوں کے ایڈیٹر کی کرسی سنبھالی ۔ یہ جہاں بھی رہے،حریت قلم کی پاسداری کی، اپنے نام اور کام سے سماج اور سیاست پر اثر انداز رہےاور ادب و صحافت دونوں میدانوں میں اپنے منفرد اسلوب سے پہچانے جاتے ہیں۔
اردو زبان کی طرح آج کے اردو اخبارات بھی سیاسی ، سماجی اور کاروباری سطح پر بے اثر اوربے وزن سمجھے جاتے ہیں لیکن آج سے دو تین دہے پہلے صورت حال مختلف تھی ۔قارئین کا اعتبار بھی ان کو حاصل تھا اور سیاسی و انتظامی حلقوں میںبھی ان کا وزن محسوس کیا جاتا تھا بالخصوص ان کے اداریوں پر نظر رکھی جاتی تھی جس کی وجہ ان کے اداریوں کی غیر معمولی عوامی مقبولیت تھی۔ہمارے بچپن میں مولانا محمد عثمان فارقلیط،مولانا محمد مسلم،مولانا عبد الوحید صدیقی اور مولانا عبد الباقی بی اے جیسے صحافیوں کے اداریوں کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ دہلی کے گلی کوچوں کے چائے خانوں میں با جماعت پڑھے اور سنے جاتے تھے۔ ایک بہ آواز بلند پڑھتا اور باقی لوگ بہ غور سنتے اور ردعمل کا اظہار کرتے، داد و تحسین کے ڈونگرے برساتے۔ اسی طرح تازہ اور سلگتے ہوئے موضوع پر لکھے گئے اداریوںکا موازنہ کیا جاتا اور یہ عام قارئین ہی نہیں کرتے، صحافت سے منسلک حضرات بھی کیا کرتے تھے کہ دیکھیں آج اس موضوع پر کس اخبار نے کیا لکھا ہے اور پھر وہ دن بھی آئے جب صحت مند خطوط پر لوگوں کی ذہن سازی کرنے اور ارباب اقتدار و انتظامہ کو آئینہ دکھانے والے اداریے خواب و خیال بن گئے بلکہ اردو کے اخباروںمیں اس نےغزل میںبھرتی کے اشعار کی شکل اختیار کر لیں۔ ’ ہندوستان ایکسپریس‘ دہلی کے اداریوںنے اپنے ابتدائی پانچ برسوں میں ماضی کی یادیں تازہ کردی تھیں۔ احمد جاویدکے اداریے اور ہراتوار کوان کا مستقل کالم ’فکر فردا‘بڑے پیمانے پرلوگوں کی توجہ کھینچنے لگا۔جاوید نے اداریہ نویسی کو اسی سنجیدگی سے لیا اور ماضی کی ان صالح قدروں کو اپنایا جن کے لیے مولانا عثمان فارقلیط، مولانا محمد مسلم، مولوی عبد الباقی بی اے اور ناز انصاری کے نام آج تک ہمارے ذہنوں میںمحفوظ ہیں۔یہ اداریے صحیح معنوںمیں ساکت پانی میں اچھالے گئے پتھر ثابت ہوئے، دوسرے معاصر کو بھی مجبور کیا کہ وہ غزل میں بھرتی کے شعروں کی طرف اداریے نہ لکھیں بلکہ تازہ موضوعات اورملک و ملت کے اہم مسائل پر بامعنی و پر مغز اداریے سپرد قرطاس کریں تاکہ نہ صرف حرمتِ قلم باقی رہے بلکہ ان کا وزن بھی محسوس کیا جائے۔ان کی ادارت میںاس اخبارنے بارہااپنی خبروں سے بھی حکومت اور سماج کو اپنے وجود کا احساس دلایا۔ اسی طرح 2012میں انہوں نے’ انقلاب‘ کو اپنی خدمات پیش کیں تولکھنؤ اور پٹنہ میںان کی ادارت میں اس اخبارنے اردوصحافت کو نئی زندگی دی اوروہ پورے شمالی ہند میں اس کی پہچان بن گئے۔اردومیڈیاگلڈ(لکھنؤ)نے ان کو فخرصحافت ایوارڈ (2013)پیش کیا، بیٹرولڈمشن نے صحافت میں ان کی نمایاں تخلیقی خدمات کے لیےآبروئے صحافت ایوارڈ (2013)سے سرفراز کیاتو بہار اردو اکادمی( 2014) اور مغربی بنگال اردو اکادمی (2017)نے ان کو اپنےقومی اعزازات پیش کرکےادب و صحافت میں ان کی غیرمعمولی خدمات کا اعتراف کیا۔
احمد جاوید نے صحافت کے وقار اور معیار کی بازیافت کی کوششوں کو اپنے آپ تک محدود نہیں رکھا، دوسروںکو تحریک دینے کی جدوجہد بھی کی جس کا ثبوت صحافت کے فن پر لکھی ہوئی ان کی کتابیں’ مبادیات صحافت و ادارت‘ ، ’ تلخ نوائی‘، ’اردوصحافیوں کی کارگاہ صلاحیت سازی‘(پاور پوائنٹ پرزنٹیشن) اور ان کے کالموں کامجموعہ ’فکرفردا‘ بھی ہیںاور ان کی وہ سرگرمیاں بھی جن کو نوجوان صحافیوں کی تربیت اور اردو میں پروفیشنل جرنلزم کے فروغ کی تحریک کی بنیاد کا پتھر کہا جاسکتا ہے۔ کاش!ملک کی اردو آبادی اس شعورسے عاری نہ ہوتی اور یہ فکر ہمارے نوجوانوں کا درد مشترک بن جاتی جو احمد جاوید کو بے چین رکھتی ہے۔
Azim Akhtar
Mughal Apartments, 22, Zakir Nagar
Jamia Nagar, New Delhi 110025