فکر فردا
قتل و غارت کا بازار گرم ہے، بم دھماکے ہورہے ہیں، دہشت گردی برپا ہے اور حکمراں بٹیر لڑا رہے ہیں، پورے پورے گاؤں اور شہر جلادئے جائیں لیکن مجرم نہیں پکڑے جائیںگے، پکڑے جائیں تو گواہی اور ثبوت کے فقدان میں چھوٹ جائیں گے۔اسلیے کہ آج اس ملک میں ہرجگہ چوروں کی رکھوالی ہے، سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد۔ مگر اصل سوال یہ ہے کہ اس صورت حال کو کون بدلے، اس قوم کی قسمت بدلنے کی ذمہ داری کس کی ہے؟
احمد جاوید
آپ نے جنگل میں کی کہاوت سنی ہے، مختلف مواقع پر استعمال بھی کیا ہوگا لیکن میں نے دیکھی ہے، شایدوطن عزیز میں آج ایک ہی ایسا مقام ہے جس کو دیکھ کر آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے جنگل میں منگل دیکھا ہے۔جی ہاں ! اناہزارے کا گاؤں رالیگان سدھی جہاں شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پیتے ہیں، ترقی اور خوشحالی کا تو پوچھیے ہی مت جس گاؤں محض ۲۰ برس پہلے سائیکل تک نہیں تھی، آج مرسڈیز موجود ہے، مغربی مہاراشٹر کے اس گاؤں میں پہنچ کر اور اس کے ماضی اور حال کو دیکھ سن کر آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیںاور جب ہم اس کا موازنہ اپنے گاؤں اور شمالی ہندوستان کے دوسرے گاؤوں اورشہروں سے کرتے ہیں تویہ خوشگوار حیرت شدید غصہ میں تبدیل ہوجاتی ہے۔پھر شعور کی رو پکار اٹھتی ہے کہ آج کا یہ دور دورِ ترقی ہے یا جنگل کازمانہ، عہدروشن خیالی ہے یا جاہلیت جدیدہ، اس میں کلام ممکن ہے لیکن اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ اس وقت جن حالات سے ہم دو چار ہیں اور جس ماحول میںہماری نسلیں سانسیں لے رہی ہیں، وہ قدم قدم پر یہ احساس دلاتاہے کہ وہ اندھیرا ہی بھلا تھا کہ قدم راہ پرتھے۔
اس سے قطع نظر کہ وہ چمتکار کیونکر ہوا جس کو رالیگان سدھی کہتے ہیں اور اس راہ پر ملک کے دوسرے گاؤں اور شہروں کو لے جانا کیونکر ممکن ہے،ہم لوگ بات بات میں زمانہ کو برا کہتے ہیں،نہ تو اپنے اعمال جائزہ لیتے ہیں،نہ یہ سوچنے کی زحمت اٹھاتے ہیںکہ زمانہ اپنے آپ سے نہیں ہے،رالیگان کو دیکھیے تو بے ساختہ زبان سے نکل جائے گازمانہ ہم سے ہے زمانے سے ہم نہیں۔کیا یہ سچ نہیںکہ زمانہ کو برابھلا کہنے والے دراصل تقدیر کو کوستے اور قدرت کو برا بھلا کہنے کے مرتکب ہوتے ہیں ورنہ اچھے برے تو انسان ہوتے ہیں ،معاشرے اور قومیں اچھی بری ہوتی ہیں اور لوگوں کے حصہ میں ہمیشہ وہی آتا ہے جس کی وہ سعی و کوشش کرتے ہیں ۔ لیکن اگر اس ایمان و یقین کے باوجود حال کے واقعات آپ کو ماضی کے صحرا میں لے جائیں اورسورج کی کرنیںاگررات کی تاریکیوں کی یاد دلائیں تو آپ اس کو کیا نام دیںگے۔کس کو مجرم تصور کریںگے ، سورج کو یا اس کی کرنوں کویا اپنے مقدر کو ،کس کو روئیں گے ؟میرا کیا ہے میں تو ویسے بھی ماضی پرست ہوں اور پتہ نہیں کب کس بات پرتاریخ کے ریگستانوں میں نخلستان کی تلاش کر نے نکل پڑوں۔ لیکن اس میںکس کا قصور ہے، میرے دل و دماغ کا یا اس عہد کے ناخداؤں کا، یہ تو وہی بتا سکتے ہیںجن کے ناخنوں کی تدابیر پر بھروسہ کرکے ہم نے اپنا مقدر ان کے سپرد کردیا ہے۔
حیدر آباد میں بم دھماکے ہوئے اور ہماری سیکوریٹی ایجنسیوں نے اندھیرے میں تیر چلانا شروع کیا تو میں عہد وسطی کے ہندوستان میں چلا گیا اورابھی شعور کی رو تاریخ کی وادیوں میں ہی سرگرداں تھی کہ اسے ایک جھٹکا اور لگا۔ہمارے وزیر خزانہ نے پارلیمنٹ میں ملک کی اقتصادی ترقی کا جائزہ پیش کیاجس میں کہا گیا کہ ملک میں گوشت، مچھلی اور انڈے کی کھپت میں اضافہ ہوا ہے، لوگ کھان پان پر پہلے سے زیادہ خرچ کر رہے ہیںگویا اشیائے خوردنی کی کمرتوڑ مہنگائی جو ہے وہ اس لیے بڑھی ہے کہ لوگ گوشت مچھلی، دودھ دہی ، گھی، انڈے وغیرہ ز یادہ کھا رہے ہیں جس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ لوگوں کا معیار زندگی نسبتاً بہتر ہوا ہے۔میں پہلے سے بھی زیادہ دور ماضی میں چلاگیا اور دیر تک تاریخ کے اوراق ذہن میں پھڑ پھڑاتے رہے۔حیران و ششدر کہ تیرہوں صدی عیسوی کے سلطان علاء الدین خلجی ( متوفی ۱۳۱۶ء )کو تو یہ معلوم تھا کہ جب سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں بے تحاشہ اضافہ کیا جاتاہے تو عام لوگوں کی زندگی مہنگائی کی مار سے اجیرن ہوجاتی ہے اور قیمتوں پر کنٹرول کے لیے سخت اقدامات کرنے پڑتے ہیں، بصورت دیگر سارے مرغ و ماہی مراعات یافتہ اشرافیہ( جاگیرداران و منصب داران) ہڑپ کرجاتی ہے اور عام آدمی فاقے کی مار جھیلتے ہیںلیکن ہمارے آج کے حکمراں اتنے بھولے ہیں کہ ان کو یہ پتہ ہی نہیں کہ گوشت مچھلی اور انڈے کون کھارہا ہے، مرغ بریانی کون اڑارہے ہیں اوران کی عیاشیوں کی قیمت کون لوگ چکا رہے ہیں؟ کن لوگوںکو دال روٹی کے لالے پڑرہے ہیں؟
آج ہی خبر آئی ہے کہ حیدر آباد کے دہشت گردانہ بم دھماکوں کی گتھی ابھی تک سلجھتی نظر نہیں آتی، دہشت گردوں نے اس بار کوئی سراغ نہیں چھوڑا ہے جس کے سہارے پولیس ان تک پہنچ سکے، حتی کہ انہوں نے بم نصب کر نے کے لیے جو سائکلیں استعمال کی تھیں وہ بھی خودہی بنائی تھیں۔میں پھر ترقی اور جدیدیت کے ساتویں آسمان سے پوری شدت کے ساتھ دھڑام سے عہد وسطی کی سنگلاخ زمین پر گرا۔سونیا منموہن ،پی چدمبرم یا سشیل کمار شندے کے زمانے کاہندوستان نہیں تھا، نہ اس دور میں ڈجیٹل کمیونکیشن تھی، نہ موبائیل فون، انٹرنیٹ،سٹلائٹ فون، ویڈیو کانفرنسنگ اور فیکس۔ برق رفتار جیٹ بھی نہیں تھے۔ ملک کے مختلف علاقے ابھی چھوٹے چھوٹے انتظامی خطوں میں بھی نہیں تقسیم تھے اور ہر انتظامی خطہ دوسرے خطہ سے منسلک بھی نہیں تھا۔بس، ٹرین اور کار بھی نہیں تھی، فریادیوں کو حکومت تک پہنچنے میں کئی سال لگ جاتے تھے۔اور سرکاری احکامات پر عمل درآمد میں اکثر اس سے بھی زیادہ وقت لگتے تھے۔لیکن بڑھیا اس کے باوجود شیر شاہ سوری کے دربار تک پہنچ گئی۔ اس کا اکلوتا جوان بیٹا لکڑیاں کاٹنے کے لیے جنگل میں گیااور اسے کسی نے قتل کردیاتھا ۔وہ مقامی ناظم کے پاس گئی لیکن اس نے گواہوں کی غیر موجودگی کا رونا روکر معذرت کرلی، صوبیدار کے پاس گئی اس نے بھی مقدمہ داخل دفتر کردیا۔ظلم اور ناانصافی انسان کو یکسو بھی کردیتا ہے اور جرأت مند بھی بنا دیتا ہے۔ بڑھیا جہلم سے نکلی اور مہینوں کا سفر کرکے دارلحکومت پہنچ گئی۔ شیرشاہ سوری ہفتے میں ایک دن دربار عام لگاتاتھا۔اس دن کوئی بھی فریادی اس کے سامنے پیش ہوسکتا تھا۔ بڑھیا اپنی باری پر کھڑی ہوگئی۔ بادشاہ نے ماجرا پوچھا تو اس کے سارے دکھ آنسوؤںمیں بہنے لگے۔ وہ روتی رہی ، چیختی رہی اور بادشاہ سنتا رہا۔پتہ چلا کہ بڑھیا کے بیٹے کو کسی نے جنگل میں ماردیا اور پولیس و انتظامیہ پتہ نہیں لگا سکی۔ بادشاہ نے اس سے وعدہ کیا ’میں ایک ہفتے میں تمہارے مجرم تمہارے سامنے پیش کردوںگا۔‘مدعیہ کو شاہی مہمان خانہ میں ٹھہرادیا گیا۔دو دن گزرے تو جہلم کے ناظم اور کوتوال کو اطلاع ملی چند لوگ جنگل میں درخت کاٹ رہے ہیں۔یہ فوراً فورس لے کر جنگل پہنچ گئے۔فورس نے جنگل کاٹنے والوںگرفتار کرلیا۔ چند لمحے بعدشیر شاہ کی فوج جہلم پہنچی اوراس نے ناظم اور کوتوال کو گرفتار کرلیا۔جنگل کاٹنے والے لوگ بادشاہ کے آدمی تھے۔ برق رفتار گھوڑوں سے دونوں کو دربار تک پہنچایاگیا۔بادشاہ نے ان سے صرف ایک سوال پوچھا’جنگل میں لکڑی کاٹی جارہی تھی توتمہیں ایک پہر میں اطلاع مل گئی لیکن انسان قتل ہوا تو آج تک گواہ نہیں ملا؟‘دونوں نے بادشاہ سے تین دن کی مہلت مانگی اور بادشاہ نے حکم لکھوایا کہ یہ اگر تین دن میں مجرم نہ پیش کریں تو ان کی گردنیں ماردی جائیں۔پولیس چیف اور ناظم بھاگا، مجرم کی تلاش کی اور قاتل کو پیش کردیا جس نے اعتراف جرم کرلیا۔بادشاہ نے حسب وعدہ مجرم کو بڑھیا کے حوالے کردیااور اس کے ساتھ ہی حکم جاری کیا کہ ہماری سلطنت میں قتل کا مجرم ایک ہفتے کے اندر گرفتار ہونا چاہیے۔اگر مقامی انتظامیہ ایسا نہیں کرتی ہے تو بادشاہ کے حکم کے مطابق ذمہ دار افسران کا سر اتار دیا جائے اور نعش اس وقت تک کے لیے شہر میں لٹکا دی جائے جب تک مجرم گرفتار نہیں ہوتا۔کہتے ہیں کہ اس کے بعد شیر شاہ سوری کے دور کے ہندوستان میں کوئی قتل نہیں ہوااور اگر ہوا تو مجرم دوسرے دن عدالت کے کٹہرے میں تھا۔یہ آج سے ۴۷۲ سال پرانی اس دور کی مثال ے جب دنیا نے اتنی ترقی نہیں کی تھی، نہ ٹرین تھی نہ برق رفتار جہاز، نہ اطلاعات کے وہ ذرائع جو پلک جھپکتے میں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں خبر پہنچادیتے ہیں، نہ فنگر پرنٹس، ڈی این اے، اور ٹرانزٹ سسٹم، دنیا میں ابھی انٹر پول اورریڈ وارنٹ کا تصور بھی وجود میںنہیں آیاتھا۔شہروں میں سی سی ٹی وی کیمرے بھی نہیں لگے تھے۔اس کے باوجود مجرموں کی کیا مجال تھی کہ وہ اتنی آسانی سے جرم کریں اور سزا سے بچ جائیںجتنی بے خوفی سے وہ آج جو چاہتے ہیں کر رہے ہیں۔ اس دور کی صرف ایک خوبی تھی۔ اس دور میں کوئی منموہن سنگھاور سشیل شندے یا اکھلیش یادو اور راجا بھیا جیسے لوگ حکمراں نہیں تھے۔اس دور میں اس ملک کی حکومت شیرشاہ جیسے وژنری، انصاف پسنداور ایماندارشخص کے ہاتھوں میں تھی جس نے صرف پانچ سال کی مدت میں نہ صرف پورے ملک کی پیمائش کرادی تھی، ملک کے ایک کونے کو دوسرے کونے سے جوڑدیاتھا اور مالیہ کا ایسا نظام وضع کیا جو آج تک اس خطے میں قائم و رائج ہے۔اس نے خود کو بھی ملک کے عوام کے تئیں جوابدہ بنایا اورمقامی ناظموں، کوتوالوں اور دوسرے سرکاری منصب داروں کو بھی جوابدہ بنایا۔یہ نہیں کہ قتل و غارت کا بازار گرم ہے، بم دھماکے ہورہے ہیں، دہشت گردی برپا ہے اور حکمراں بٹیر لڑا رہے ہیں، پولیس اور انتظامیہ بے گناہوں پر مظالم ڈھارہی ہے اور ارباب اقتدار پڑے سورہے ہیں۔