تمہید:
کسی جمہوری معاشرے کی تعمیروترقی اوراس کے استحکام میںتعلیم اورنصاب تعلیم کی کیا اہمیت ہے یا ہندوستان جیسے جغرافیائی،نسلی اور ثقافتی رنگارنگی کے حامل وسیع وعریض کثیرالمذاہب و مختلف اللسان ملک میںیہ کتنانازک اور حساس موضوع ہے،کسی ذی شعورشخص سے مخفی نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ آزادی کے بعد ملک کے قومی رہنماؤ ں نے ہندوستان کو ایک ایسا آئین دیا جس میں حکومت کے نظام کے ساتھ ساتھ نظام تعلیم کو بھی سیکولراورریشنل( مبنی بر عقل و منطق )رکھنے کا التزام ہےاور بنیادی حقوق کی دفعات {۲۱(الف) اور۳۰(۱){میں جہاں سب کے لیے یکساں تعلیم اور یکساں معیار و مواقع کی ضمانت دی گئی وہیں اقلیتوںکوان کے مذہب، زبان اور پسندکی تعلیم کاحق دیاگیا۔ آئین کے رہنما اصولوں میں یہ صراحت موجود ہے کہ ہندوستان ایک سوشلسٹ سیکولر جمہوری فلاحی ریاست ہے جس کاکوئی مذہب نہیںاوراس کے ہرباشندے کو سماجی ،معاشی اور سیاسی انصاف کے ساتھ ساتھ بولنے ، سوچنے اوراپنی سوچ کا اظہارکرنے کی آزادی، عقائد اور عبادت کی آزادی اور مساوات عزت و مواقع کی ضمانت حاصل ہے۔یہ آئین اس کی اجازت نہیںدیتاکہ کسی مذہب کے ماننے والوں یاان کے عقائداور طریقہ عبادت کو کسی اور پرتھوپاجائے یاکسی بھی صورت میں کسی کو کسی پر ترجیح دی جائے۔آئین ہند کی اس روح کے تحفظ اورفروغ کے لیے ہی ریاستوں کی تشکیل لسانی و ثقافتی بنیادوں پرکی گئی اور تعلیم کو مرکزکے بجائے ریاستوں کے فرائض و اختیارات کی فہرست میں رکھاگیااوربلاشبہ وحدت میں کثرت کے اسی فلسفہ میں اس ملک و قوم کی جان اور اسی کے فرو غ میں اس کا مستقبل ہے۔
۲۰۰۲ء میں آئین کی دفعہ ۲۱میں ایک شق(الف) جوڑی گئی جس کی رو سےتعلیم ہندوستان کے ۶سے ۱۴ سال عمر کے ہربچے کا بنیادی حق ہے۔اس کو مزید مؤکدو مشخص کرنے اور اس پر عمل درآمد یقینی بنانے کی غرض سے حق تعلیم (بچوں کی مفت اور لازمی تعلیم) ایکٹ ۲۰۰۹ لایا گیا جو یکم اپریل ۲۰۱۰ء سےپورے ملک میں نافذہے۔اب کسی بچے کو کسی بھی صورت میں مروجہ مسلمہ معیاری تعلیم (Universal Elementry Education) سے محروم نہیں رکھا جاسکتا۔ قانون کی رو سے ہر بچے کومروجہ مسلمہ معیاری تعلیم مہیا کرانا ریاست کی ذمہ داری ہے۔اگر اس عمر کاکوئی بچہ درسگاہ سے باہر ہے یا اس کو ایسی تعلیم نہیں دی جارہی ہے جو حق تعلیم ایکٹ کے التزامات کے مطابق ہے تو اس میںذمہ دار سرکاری حکام ، بچوں کےوالدین وسرپرست اور اس عمل میں شریک دوسرے افراد پرقانونی کارروائی کانظم ہے۔ ہندوستان ایسا کوئی پہلا ملک نہیں ہے، دنیا کا ۱۳۵؍واں ملک ہے جہاں تعلیم کو ہربچے کا بنیادی حق بنایا گیا ہے۔نئے عالمی نظام میںاب ہندوستان جیسے ملک کے لیے آسان بھی نہیں ہے کہ وہ بچوں کی صحت اور تعلیم میں سنجیدگی سے کام نہ لے۔
حق تعلیم ایکٹ بنیادی تعلیم کا کم ازکم معیار بتاتا ،حکومت کو معیار متعین کرنے اور معیار کی نگرانی کرنےکی ذمہ داری دیتا ،غیرمنظور شدہ اسکول مدرسے چلانے سے روکتااور بچوں کے داخلے میں کسی بھی قسم کی رکاوٹ یا ان سےفیس اور عطیات وغیرہ وصول کرنے کو غیرقانونی قرار دیتا ہے۔یہ قانون حکومت اور مقامی انتظامیہ کو بچوں کے گھر کے پڑوس میں اسکول مدرسہ مہیا کرانےکا پابند کرتا ہے۔پڑوس کا یہ دائرہ عام حالات میںپرائمری درجات کے لیے ایک کلومیٹر اور اپرپرائمری(۶تا۸) درجات کے لیے تین کلومیٹر ہے۔یہ قانون ہر علاقہ میں پابندی کے ساتھ سروے کرانے اور ایسے بچوں کی نشاندہی کرنے کی ذمہ داری عاید کرتا ہے جو تعلیم لینے کے اہل ہیں لیکن ان کومعقول تعلیم نہیں مل رہی ہے۔ اس ایکٹ کی دفعہ ۷(۶) نصاب تعلیم کا ایک قومی لائحہ عمل(National Curriculam Framework) بنانے کی ذمہ داری عاید کرتی ہے اور حکومت ہند نے این سی ای آرٹی(قومی کونسل برائے تعلیمی تحقیق و تربیت) کو اس مقصد کے لیے مجازادارہ مقرر کیا ہے۔بچوں کو اسکول مدرسے میں داخل کرانا ، ان کو حق تعلیم سے محروم نہ رکھنا اور ان کی بنیادی تعلیم کی تکمیل کرانا ، اس کی نگرانی کرنا اور ریکارڈ رکھنا (ایکٹ کی دفعہ۹) جس طرح حکومت و انتظامیہ کے فرائض میں شامل ہیںاسی طرح ان کودرسگاہ میں داخل کرانا اور حق تعلیم سےمحروم نہ رکھنا ان کے والدین کی ذمہ داری بھی ہے۔ایکٹ کی دفعہ ۱۰ خلاف ورزی پر والدین کے خلاف تعزیراتی کارروائی کرنے کا اختیار بھی دیتی ہے۔یہ قانون (دفعہ ۲۹) بنیادی اسکول مدرسوںمیں نصاب اور امتحانات کو لازمی بناتا ہے اور تعلیمی ادارے کو درجات ۵اور ۸ میں امتحان لے کر اسناد جاری کرنے کا پابند بھی کرتا ہے۔ایکٹ کی دفعہ ۳۰کی رو سے بنیادی تعلیم کی تکمیل کے بغیر بورڈکے امتحانات دلانا بھی غیرقانونی ہے۔ایکٹ کی دفعہ ۳۶ مجازحکام کو خلاف ورزی کے ارتکاب پر قانونی کارروائی کرنے کا اختیار دیتی ہےجبکہ ریاستی اور قومی حقوق اطفال کمیشن (الف)گھر کے پڑوس میں اسکول مدرسے،(ب)ان میںبچوں کی رسائی،(ج)داخلہ ،(د) تعلیمی وسائل کی فراہمی،(ہ) کلاس روم کا معقول انتظام اور(و) اسکول انتظامیہ کمیٹی جیسے امور کی نگرانی کا مجازوذمہ دارہے(دفعہ ۳۱ )۔آرٹی ای فورم کی ایک رپورٹ کے مطابق ابھی تک ملک کے اسکولوں کی ۱۰فیصد سے بھی کم تعداد حق تعلیم ایکٹ کے معیاراور شرائط کو پورے کرتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ کسی کو اس قانون سے کوئی استثنا حاصل ہے کیونکہ بنیادی حقوق کے تعلق سے یہ مسلمہ اصول ہے کہ اس سے کسی بھی صورت میں کسی کو محروم نہیں کیا جاسکتا، یہاں تک کہ آئین و قانون کسی کو خود اپنے کسی بنیادی حق سے دست بردار ہونے کی اجازت نہیں دیتا۔ دوسرے تعلیمی اداروں کی طرح ملک کے دینی مدارس کا جائزہ بھی اسی قانون کی روشنی میں لیا جانا چاہیےاور اسی کی روشنی میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ان کا وجود کتنا قانونی اور کتنا غیر قانونی ہے۔ حق تعلیم ایکٹ کے نفاذ کے بعد بعض علمائے دین اور ملی تنظیموں نے اس وقت کے مرکزی وزیر انسانی وسائل جناب کپل سبل سے ایک سرکاری حکمنامہ جاری کرایا تھا کہ ملک کے مختلف حصوں میں رائج روایتی درسگاہیں مثلاً پاٹھ شالا ، مدرسہ، گوروکل وغیرہ بھی تعلیمی ادارے تسلیم کیے جاتے ہیں اور ان میں پڑھ رہے بچوں کو اسکول سے باہر نہیں سمجھاجائےگا، نئی قومی تعلیمی پالیسی میں بھی ان روایتی اور غیر رسمی درسگاہوں سے تعلیم کے فروغ میں کام لینے کی بات کہی گئی ہےلیکن یہ نوٹیفکیشن کسی بھی تعلیمی ادارے کو حق تعلیم ایکٹ کے التزامات سے استثنا نہیں دیتاجیسا کہ دینی حلقوں میں مشتہر کیا گیا کیونکہ کسی بھی حکومت یا اتھارٹی کے پاس یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ کسی کے بنیادی حق میں کوئی مداخلت، تخفیف یا سمجھوتہ کرے۔ اسی طرح آئین کی دفعہ ۲۱ ؍اور دفعہ ۳۰؍ ایک دوسرے کی معاون و متکمل ہے نہ کہ متباین و متناقض۔اقلیتوں کے اپنی پسند کی تعلیم لینے اور اپنا تعلیمی ادارہ چلانے کے حقوق کی آڑ میں کوئی کسی کو بنیادی تعلیم کے حق سے محروم نہیں رکھ سکتا۔
ملک کی نئی قومی تعلیمی پالیسی بچوں کی لازمی بنیادی تعلیم کے لیے عمرکی حدمیں توسیع (۳سے ۱۸سال) کرنے کا ارادہ ظاہر کرتی ہےجو ایکٹ میں ترمیم لاکر کسی بھی دن کی جاسکتی ہے۔ظاہر ہے کہ اس قانون کی زد میں ملک کے وہ سارے کے سارےتعلیمی ادارے آتے ہیں جو کسی قانون اور محکمہ کے تحت ریاست کے تسلیم شدہ تعلیمی ادارے نہیں ہیں یا جومنظورشدہ نصاب تعلیم اور معیار کی پابندی نہیں کرتے یا جنھوں نے کسی مجاز محکمہ یا بورڈ سے منظوری نہیں لی ہےلیکن ان میں اس عمر کے بچے رکھے گئے ہیں۔
پس منظر:
ملک کی قومی تعلیمی پالیسی کے فروغ میں مہاتما گاندھی کی قیادت میں منعقدہ قومی تعلیمی کانفرنس(وردھا،۱۹۳۷ء) کوایک سنگ میل کا درجہ حاصل ہے، جس کی روح کو آگے بڑھانے کے لیے ڈاکٹر ذاکر حسین کی صدارت میں مقررکی گئی کمیٹی نے قومی تعلیمی منصوبہ پیش کیا تھا جو تعلیم کی وردھا اسکیم کے نام سے مشہور ہے۔ اس تاریخی دستاویز میں یہ واضح صراحت موجود ہے کہ تعلیم کا کوئی خاص رنگ نہیں ہوگا، سرکاری ایجنسیوں یا اس کے ذریعے دی جانے والی تعلیم میں مذہب کو موضوع نہیں بنایا جائےگالیکن اس ملک میں ایک طبقہ ابتداہی سے اس کے برعکس سوچ رکھتا ہے۔ وہ آئین وقانون کی حکمرانی کے بجائے ’اکثریت کی حکمرانی‘ بلکہ اس کے پردے میںاپنااور ایک نسل خاص کا راج چاہتاہے ۔ اس نسل پرست گروہ کی سوچ دوسروں کو اپنی پسند اور اپنی خواہش کے ڈنڈوں سے ہانکنے کی ہے۔ وہ ہندوستانیت یاقوم پرستی کے نام پر اس ملک کو ایک مخصوص ثقافتی رنگ میں رنگنا بلکہ لوگوںپر ایک خاص مذہب اور اس کے رسومات و عقائد کو تھوپنا چاہتا ہے اور اسی میں اس ملک کی بقا اور ترقی دیکھتا ہے۔بنیادی طور پر یہ اسلام اور مسلمانوں کی ضد کی نفسیات میں مبتلا طبقہ ہے جس کوملک کی اکثریت کے مذہب و عقائدکو اقلیتوں پرتھوپنے، اقلیتی فرقوں اوران کی شناختوں یاتشخص کو مٹانے میں ملک و قوم کی مضبوطی اورترقی نظر آتی ہے۔یہ دنیاکامقابلہ سائنسی ترقی ،معاشی خوشحالی اورتہذیب وثقافت کی اعلی قدروں سے کرنے کے بجائے ملک کو ہزاروں سال پیچھے ان اساطیری کہانیوں میں لے جاکر افسانوی شان و شوکت سے ملکوں اورقوموں کو مات دیناچاہتاہے جن کی کوئی اصل نہیں ہے اور آج کل یہی طبقہ اقتدارمیں ہے۔ملک کے نظام تعلیم اور نصاب تعلیم میں پوری تندہی کے ساتھ وہ ایسے تصرفات کررہاہے جو ملک کے باشعور عوام و خواص کو بے چین کررہے ہیں۔صورت حال کی سنگینی کا اندازہ آپ ۲۰۱۴ء کے بعدرونما ہونے والےان واقعات سے لگاسکتے ہیںجن میں ایسے دانشوروں،ادیبوں، صحافیوں اورسائنسدانوں کو قتل کیاگیاجنھوں نے اس سوچ کی مخالفت کی یا ان تعلیمی اداروں کوجو عالمی شناخت رکھتے تھے ، ایسے ہاتھوں میں سونپاگیا جو کسی بھی طرح اس کے اہل نہ تھے یا ان باوقارتعلیمی اداروں کے داخلے اور فنڈ میںکٹوتی کی گئی جہاںترقی پسندی اورروشن خیالی کا غلبہ تھا۔ یہ عقل کے دشمن ماکھن لال چترویدی یونیورسیٹی آف جرنلزم میں گئوشالےبناتے ہیں، سائنس اورصنعتی تحقیقات کی قومی کونسل(سی ایس آئی آر)کو گائے کے پیشاب اور اس کے اجزاپر ریسرچ کرنے اورایک جانورکے فضلے کوحیات بخش ’نعمت‘ ثابت کرنے کو مجبور کرتے ہیں، جے این یوکی عالمی شناخت اوراس کے ترقی پسندانہ کردار کو ختم کرکے اسے دقیانوسی افکارو خیالات کی تبلیغ و اشاعت کا مرکزبنانا چاہتے ہیں؛ سرکار کے خزانے میں سرمایے کی کمی کا رونا روکر یہ جے این یو میں طلبہ کی فیس میں دو سوفیصد تک اضافے کرتے ہیں لیکن عین اسی وقت اسی کیمپس میں کروڑوں کی لاگت سے ایک مورتی تعمیر کرائی جاتی ہے جس میںسرمایے کی کوئی کمی نہیں آتی؛ انڈین اسٹیٹسٹکل انسٹی ٹیوٹ، ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز، نیشنل میوزیم اور مینجمنٹ کی تعلیم کے مرکزی ادارے (IIMs)ان کو ایک آنکھ نہیں بھاتے حتی کہ یہ یوجی سی کو ختم کردیناچاہتے ہیں۔ان کی ضدہے کہ اسکولوں اور کالجوں میں جیوتش،نجوم اور کرم کانڈکی تعلیم دی جائےاوربچوں کاذہن اس سانچے میں ڈھالا جائے کہ وہ مشرکانہ روایات اور احمقانہ رسومات وخرافات پرسوال اٹھانے والوں کو ملک و قوم کا دشمن تصور کریں۔وہ راماین اور مہابھارت کی کہانیوں کو تاریخ ثابت کر نے کے لیے کروڑوں روپے خرچ کررہے ہیں،ان پر معصوم بچوں کو یہ پڑھانے کا بھوت سوارہے کہ پلاسٹک سرجری اور اسٹیم سیل تھریپی جدید سائنس کی ایجاد نہیں ، ہزاروں سال پہلے ان کاموں میں ہمارے رشی منیوں کو مہارت حاصل تھی۔وہ لوگوں کویہ باورکرانا اوربچوں کویہی پڑھاناچاہتے ہیںکہ قطب مینار قطب الدین ایبک نے نہیں راجاسمدرگپت نے بنوایا اور اس کا اصل نام وشنوستنبھ ہے، لال قلعہ ایک ہنومان مندراور تاج محل ایک شیومندر ہے تاکہ سادہ لو ح ذہنوں سے ان کے بنانے والوں کی عظمتوں کے نقوش مٹ جائیںاور اس کے بجائے ان سے اور ان کے ہم مذہبوں سے نفرت و عداوت کے جذبات پیداہوں۔ ان پر شیواجی اور افضل خاں، اکبر اور رانا پرتاپ، گوبندسنگھ اوراورنگ زیب کی جنگوں کو مخصوص رنگ میں دیکھنے دکھانے اورمذہبی منافرت پھیلانے کا خبط سوار ہے۔ یہ سب کچھ اپنی جگہ لیکن اس کے بالمقابل ہم کیا کررہے ہیں یا ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ جن لوگوں پر اس ذہن اور اس خبط سے لڑنے کی ذمہ داری تھی،کیاوہ حقیقی معنوں میںایسا کررہے ہیں یا اپنی روش سے ان کے ایجنڈے کو تقویت پہنچا رہے ہیں؟میری اس گفتگو کا مرکزی نکتہ یہی سوال ہے ۔ کیا ہم یہ نہیں پاتے کہ ملک کی دوسری سب سے بڑی مذہبی آبادی بھی ردعمل اورعدم تحفظ کی نفسیات میں مبتلا، عہدغلامی کے تحفظات سے نکلنے سے گریزاں اور یہ سمجھنے سے قاصرہے کہ ان حالات میں اقلیتوں کواپنےزیادہ جامع و معیاری تعلیمی اداروں کی ضرورت ہمیشہ سے زیاہ ہے، ہم ایک جمہوری ریاست ہیں جہاں آپ کی درسگاہیں ہی طے کرتی ہیں کہ آپ اس ریاست کا مقتدرحصہ ہیں یامقدورو محکوم محض؟ یا یہ کہ ملک کے اقتدار اور معیشت میں آپ کی جتنی حصہ داری ہوگی، وہی آپ کی حیثیت متعین کرےگی اور اپنے حصے کی معیشت اور اقتدار پر آپ کا اپنا کنٹرول کیسے قائم اور برقرار رہے گا،کیایہی فکر ملک وملت کی حقیقی خدمت اور آزادی کی بقاکی بنیاد نہیں ہے؟
ہم یہاں پہلے تو اس نئی تعلیمی پالیسی کا جائزہ لیںگے جو حکومت ہند نے ایک بڑے لمبے چوڑےاکسرسائز کے بعد جولائی ۲۰۲۰ء میںجاری کی۔پھر اس سیاق و سباق میںجس کا ذکرابھی یہاں کیا گیا،اس کے عملی پہلوؤں کو سمجھنےکی کوشش کریںگے اورآخرمیںان دونوں (حکومت کی تحریری پالیسی اورعملی رجحانات) کی روشنی میںدیکھیںگے کہ ملت اسلامیہ کو درپیش مسائل اور امکانات کیا ہیں اورہمارے دینی مدارس نئے ہندوستان کے تعلیمی نقشے پر کہاں کھڑے ہیں؟
قومی تعلیمی پالیسی وضع کرنے یا اس پر نظرثانی کرنے کا تصورہندوستان میں کوئی نئی چیز نہیں ہے۔یہ پہلی بار۱۹۶۸ء میں لائی گئی تھی۔پھر ۱۹۸۶ء میں لائی گئی۔بنیادی طور پراس کا مقصد ملک میں تعلیم اور اس کے معیار کا فروغ رہاہے۔حکومت ہندنے آزادی کے بعد ہی ملک سے ناخواندگی دور کرنے اورتعلیم کوفرو غ دینے کی متعدد اسکیمیں شروع کردی تھیں۔ہمارے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابو الکلام آزاداس موقف کے حامی تھے کہ نظام تعلیم پرپورے ملک میں مرکزکا کنٹرول ہو ،نصاب تعلیم ونظام تعلیم میں یکساں معیار کوفروغ دیا جائے اور کسی بھی سطح پرمعیار سے سمجھوتہ نہ کیاجائے ۔اسی غرض سے یونیورسٹی ایجوکیشن کمیشن (۱۹۴۸ء)، ثانوی تعلیم کمیشن(۱۹۵۲ء )،اور پھر نظام تعلیم کی جدید کاری کے لیے کوٹھاری کمیشن(۱۹۶۴ء) قائم کیے گئے ۔سائنس کی معیاری اعلی تعلیم کے لیے آئی آئی ٹی قائم کیے گئے ۔ تعلیمی تحقیق و تربیت کی قومی کونسل(این سی ای آرٹی؍۱۹۶۱ء ) بنائی گئی جو ایک خودمختار ادارہ ہے تاکہ تعلیم کے معیار اور اس کے فروغ کو سیاسی مداخلت سے دور رکھا جائے ۔ وزیراعظم اندرا گاندھی نے ۶۶۔ ۱۹۶۴ء کے تعلیمی کمیشن کی سفارشات کی روشنی میںقومی تعلیمی پالیسی لانے کا اعلان کیا تھا اوراسی میں پہلی بار ۱۴سال تک کے بچوں کے لیے تعلیم کو لازمی بنانے کے عزم کا اظہار کیاگیا تھا ، اساتذہ کی ضروری لیاقت و تربیت کو یقینی بنانے کی ضمانت دی گئی تھی اور سہ لسانی فارمولہ کے تحت مقامی زبانوں، سرکاری زبان اور انگریزی کی تعلیم پرزور دیا گیا تھا۔اس میں سنسکرت کو فروغ دینے پر بھی زورتھا کہ یہ ہندوستان کی تہذیب کا ایک اہم حصہ رہی ہے۔ ۱۹۸۵ء میں وزیر اعظم راجیوگاندھی نے نئی تعلیمی پالیسی بنانے کااعلان کیا اور مئی۱۹۸۶ء میں نئی قومی تعلیمی پالیسی متعارف کرائی گئی۔اس نئی پالیسی میں خاص طور پرمعیار اور مواقع میں مساوات و یکسانیت اور اطفال مرکوز نصاب تعلیم بنانے پر زور دیا گیا۔ د ونوں بار لوگوں نے خدشات و اعتراضات کا اظہار کیا، سہ لسانی فارمولہ پر یہ اعتراض تھا کہ اس سے زبانوں کے سیکھنے پڑھنے کی آزادی سلب کی جارہی ہے یا یہ کہ یہ تعلیم کو قومیانے کی شروعات ہے۔ لسانی اقلیتوں کو اندیشہ تھا کہ یہ ان کے خلاف سازش ہے، قومی زبان ہندی کی لازمی تعلیم اورسنسکرت تھوپنے کے خلاف ملک کے مختلف حصوں میں احتجاج کئے گئے، جنوب میں توآئین کی کاپیاں تک جلائی گئیں۔وزیراعظم منموہن سنگھ کی یوپی اے حکومت نے اپنے کم ازکم مشترکہ پروگرام کے تحت۲۰۰۴ء میں اس راہ میں ایک قدم اور آگے بڑھایاجب پیشہ وارانہ تعلیم کے داخلہ امتحانات کو یکساں اور قومی سطح پرایک ساتھ کرانے کا فیصلہ لیا۔ اس راہ کا ایک اور سنگ میل حق تعلیم ایکٹ(۲۰۰۹ء) تھا جس کے تحت ۶سے ۱۴سال تک کے بچوں کو مفت تعلیم دینے کی قانونی ضمانت دی گئی اوران کو اسکول سے باہر رکھنے کو قابل مواخذہ جرم قرار دیا گیا۔ اس قانون پر بھی احتجاج کے بعد ترامیم و اصلاحات لائی گئیں۔ غرضیکہ اقلیتوں کو اس سفر کے ہرموڑ پرکچھ نہ کچھ تردد، تأمل اورپر یشانی کا سامنا رہاہے جن کی تفصیلات میں جانے کا نہ یہ موقع ہے اور نہ ہماراموضوع لیکن اس بار قومی تعلیمی پالیسی کے نئے ڈرافٹ سےزیادہ اس کی تیاری کی لمبی چوڑی قواعدنے لوگوںمیںبےچینی پیدا کی اوراس پالیسی کے حتمی شکل میں آجانے کے بعد بھی وہ اس کا پیچھا کررہی ہے۔
قومی تعلیمی پالیسی کا زیربحث دستاویز ایک بہت ہی مختصر اور جامع دستاویز ہے۔اس کی خاص بات یہ ہے کہ آپ اسے ملک کے آئین و قانون کی روشنی میں دیکھیں تو اس میں خوبیاں ہی خوبیاں نظرآتی ہیں ، بہ صورت دیگر ابہامات و اشکالات ہیں کہ ابل ابل کرآتے ہیں۔یہ دستاویزملک کو ہندوستانی اقدار میں پیوست ایک ایسا بہترین عالمی نظام تعلیم دینے کے دعوے کے ساتھ کہ جس سے ہندوستان ایک’ گلوبل نالج سپرپاور‘(دنیائے علم کی سب سے بڑی طاقت) بن جائے، ملک کے نظام تعلیم اوردرس و تدریس کے مزاج اور ڈھانچے میں بڑی جوہری تبدیلیاں تجویز کرتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنایا جاسکا تویہاں سچ مچ ایک انقلاب آرہاہےلیکن صرف ۶۰صفحات کے اس قرطاس منصوبہ کوجوایک ابتدائیہ،۴؍ ابواب اور ۲۶؍شقوں پر مشتمل ہے، سمجھنے کے لیے ہمیں ۴۸۴صفحات کے اس ضخیم مسودہ کو سامنے رکھنا چاہیے جو ۱۵؍دسمبر ۲۰۱۸ء کو نئی قومی تعلیمی پالیسی کی ڈرافٹ کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹر کرشناسوامی کستوری رنگن (اسرو کے سابق چیئرمین) نےپیش کیا تھا اور ان دستاویزات کو بھی سامنے رکھناچاہیےجو اس سے قبل پیش کیے گئے تھے۔ان سب کو سامنے رکھے بغیر نہ تو اس ذہن کوسمجھا جاسکتا ہے جو اس نئی تعلیمی پالیسی کے پیچھے کارفرما ہےاور نہ اس ذہنی کیفیت کوجس سے آجکل ہماری حکومت گزررہی ہے۔یہ ایک ذہنی و فکری تضاد ہےجو دو منتہاؤں کے بیچ جھول رہی ہےجس کے ایک سرے پر مشرکانہ قدامت پرستی کاجذبہ اورضد ہے تو دوسرےسرے پرسائنس اور ٹکنالوجی کی ترقی کامقابلہ کرنے کی خواہش۔ اسی طرح یہ ۶۰صفحات ہزاروں صفحات پر پھیلے ہوئے دستاویزات کا نچوڑ اور ’سمندرمنتھن‘ کےاس اساطیری تصور کی ایک جدیدترین مثال ہے جس میں سارے سمندرکا زہر ایک کوزےمیں آجاتا ہےاورپھریہ’ نیل کنٹھ‘ کےگلے میں سماجاتاہے ۔
حکومت نے نئی قومی تعلیمی پالیسی بنانے کے لیےپہلے سابق کابینہ سکریٹری ٹی آر ایس سبرامنیم کی قیادت میں ایک پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی۔جس کے لیے بنیادی دستاویز اس مسودہ کو بنایا گیا تھاجوآرایس ایس سے وابستہ دیناناتھ بترانے تیار کیا تھا۔دینا ناتھ بترا دہلی میں ’شکشا سنسکرتی اتھان نیاس‘ چلاتے ہیں،انھوں نے مشہور مصور ایف ایم حسین کے خلاف مہم چلائی تھی ،یہ اس شکشابچاؤ ابھیان سمیتی کے سربراہ بھی ہیں جو تعلیم کو سنسکرتی کےفروغ کاوسیلہ بنانے کی وکالت کرتی ہے اور اس کے سیکولر کردار کی شدیدمخالف ہے۔آں موصوف نے مرکزمیں مودی حکومت کے اقتدارمیں آتے ہی ملک کی تعلیمی پالیسی کواپنی سوچ کے سانچے میں ڈھالنے کی مہم تیز کردی تھی اور پھر انہوں نے تعلیم کا’ پروجیکٹ بھارتیہ کرن‘ پیش کیا تھا۔ٹی آر ایس سبرامنیم کی۰ ۹ سفارشات کومحیط جہازی سائز کی رپورٹ کے ساتھ اس پروجیکٹ کوبھی شامل کر لیں توسمجھنے میں آسانی ہو گی کہ یہ لو گ کتنی ڈھٹائی سے ہندوستان کو ماقبل عہدوسطی بلکہ ظلمت کے زمانے میں گھسیٹ لیناچاہتے ہیں۔ کسی سے کچھ بھی ڈھکا چھپا نہیںہے کہ آرایس ایس کے شکشا سنسکرتی اتھان نیاس کا منصوبہ اوردیناناتھ بتراکا ارادہ کیا ہے یا وہ تعلیم و ثقافت کو کس رنگ اور کس سانچے میں ڈھالنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ بتراکی ۹؍ کتابیں پہلے ہی گجرات کے ۲۴ہزاراسکولوںمیں داخل نصاب ہیں۔ان کتابوں میں بتایاگیا ہے کہ ایک مخصوص نظریہ کے لوگ ہی اس ملک کے اصل باشندے ہیں،دوسرے لو گ’ بھارت ماتا‘ کے وفادار نہیں ہیں۔ان میں موہنجوداڑو اور ہڑپا کی تاریخ کو مسخ کیاگیاہے، راماین اور مہابھارت کی کہانیوں کو تاریخ بتایاگیا ہے جبکہ دنیا جانتی ہے کہ یہ بالمیکی اورویاس کی تخلیقات ہیں۔شکشاسنسکرتی اتھان نیاس، شکشابچاؤ ابھیان سمیتی اور دیناناتھ بترا کادباؤ دنیا کے سب سے بڑے ناشرین کتب’پینگوئن‘ سے ’دی ہندو: این الٹرنیٹوہسٹری (ہندو: ایک متبادل تاریخ) شائع کرانے میں کامیاب رہاہے جس کی روشنی میں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ ان کو این سی ای آرٹی کی سوشل سائنس کی معیاری کتابوں پرسخت اعتراض کیوں ہے؟
ٹی آر ایس سبرامنیم کمیٹی نے مئی ۲۰۱۷ء میں حکومت کو رپورٹ سونپی تھی۔۲۰۰صفحات پر پھیلی ہوئی اس رپورٹ میں تقریباً ۹۰سفارشات تھیں۔ان میں جن نکات پر زور دیا گیاتھا، وہ نہ صرف مذہبی اقلیتوں کے لیے سخت قابل اعتراض تھے،خود اکثریتی طبقہ کے ان باشعورلوگوں کے گلے سے بھی نہیں اترسکتےتھے جو عقل و منطق پر بھروسہ کرتے ، ملک کے ہرمذہب اور جملہ طبقات کے ساتھ عدل ومساوات میں یقین رکھتے اورتاریخ کے پہیے کو الٹا گھمانے کے خیال کو بدترین حماقت سمجھتے ہیں۔ اس رپورٹ میں بظاہربعض بڑی خوبصورت تجاویز میں لپیٹ کر تعلیم کے ’ بھگواکرن‘ کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا ایکشن پلان پیش کیا گیاتھا۔مثلاً آئی اے ایس ؍آئی پی ایس کی طرز پرتعلیم کے شعبے میں بھی ایک آل انڈیاسروس یعنی انڈین ایجوکیشن سروس(آئی ای ایس) کی تخلیق، غیرملکی یونیورسیٹیوں کو ہندوستان میں اپناکیمپس کھولنے کی اجازت اور ایجوکیشنل ریگولیٹریز کی اصلاح اوران کی ازسرنوتشکیل جن میں یوجی سی کو ختم کرنا سرفہرست ہے۔پھر اسی مسودہ کو تھوڑی ترمیم اور اضافہ کے ساتھ زیادہ شیریں الفاظ میں لپیٹ کرایک اور کمیٹی نے۴۸۰صفحات میں پیش کیا ۔ خلائی سائنسداں کرشناسوامی کستوری رنگن کی پیش کردہ اس رپورٹ پرسخت اعتراضات کیے گئےاور اسے تعلیم کو تجارت بنانے کا ایکشن پلان کہا گیا۔اس رپورٹ میں اخلاقی تعلیم بنام بھارتی اقدارکی تعلیم (Value Education) پر بہت زوردیاگیاتھا۔ نئی تعلیمی پالیسی کایہ ڈرافٹ اسکولوں میں ’’بھارتی اقدار کی تعلیم‘‘ دینے کی بات کرتاتھا جو ابھی تک نہیں دی جارہی ہے‘‘۔ اسی طرح اسکولوں میں ورزش اور کھیل کود کے بجائے اس کی ایک خاص مذہبی شکل (یوگا) پر اس کا بہت زیادہ زور ہے۔ یہ رپورٹ ایک طرف تو ملک میں سائنس اور سائنسی مزاج کے فروغ کی بات کرتی ہے لیکن دوسری طرف اس میں جیوتش جیسےعلوم و فنون کی غیر معمولی وکالت کی گئی ہے۔ چوطرفہ احتجاج کے بعد اس پر لوگوں سے اعتراضات ، مشورے اور تجاویز طلب کیے گئے اور اس کے بعد اس رپورٹ کو بھی داخل دفتر کرکے وزارت نے ایک اور مسودہ تیار کیا جس کو مرکزی کا بینہ نے ۲۹جولائی ۲۰۲۰ء کو منظوری دی۔ اس دستاویز کی روح تو وہی ہے لیکن اس کے ڈھانچے کواتناتبدیل اور الفاظ کو اتنا کم کردیا گیا ہےکہ یقین نہیں آتا کہ یہ اسی ڈرافٹ کو دی گئی نئی شکل ہے یا ازسرنو لکھاگیا دستاویز۔ مثال کے طورپراس رپورٹ کےایک مقام (ص ۴۶)پر ارلی چائلڈ ہوڈ کیئراینڈ ایجوکیشن کے مجوزہ نظام کے تعلق سے کہا گیا تھا کہ اس سے ایک روپے کی لاگت سے دس روپے کی واپسی کی امید کی جاسکتی ہے۔یہ مثال سرکار کو کارپوریٹ کی طرح چلانے کی سوچ کی چغلی کھاتی تھی جو ہندوستان کے آئین کے فلاحی ریاست کے تصور سے متصادم ہے۔ اب یہ اور اس طرح کے الفاظ حذف کردیے گئے ہیں اور ان کی جگہ تعلیم کو تجارت نہ بننے دینے پر بہت زور دیا گیا ہے۔اگر حکومت سچ مچ اپنے ایجنڈے سے (خواہ اصولی طورپرہی سہی)ہٹ گئی ہے تو یہ ایک اچھی علامت ہے۔ اسی طرح کستوری رنگن ڈرافٹ میںاسکول سے باہر کے بچوں کو رضاکاروں کی مدد سے اسکول لانے کی بات کہی گئی تھی۔بچوں کو صد فیصد اسکول لانے کے ہدف پر تو زور اب بھی دیا گیا ہے لیکن اس قسم کی وضاحت حذف کردی گئی ہے۔’ انڈین اینڈ لوکل ٹریڈیشن اینڈ ایتھکس‘ پر زیربحث ڈرافٹ میں بھی بہت زیادہ زور دیا گیا تھا، اب بھی اس دستاویز میں اتنا ہی زور دیا گیاہے لیکن اسی کے ساتھ اخلاقی، انسانی اور آئینی اقدار کے الفاظ جوڑ دئے گئے ہیں اور اس کی وضاحت میں تحمل ،دردمندی،اوروں کااحترام، صفائی ، حسن سلوک، ایمانداری، جمہوری مزاج، جذبۂ خدمت، سائنسی سوچ، آزادی، رواداری، ذمہ داری، تکثیریت، مساوات اور انصاف درج کردیے گئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ ناقدین کے اعتراضات کورفع کرنے کی کوشش ہےلیکن اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کے آئین میں مستعمل سیکولر جمہوری اقداروروایات جیسی اصطلاحات سے بچنے کی شعوری کوشش کی گئی ہے۔ پورے دستاویز میں کہیں بھی مشترکہ تہذیب و ثقافت یا گنگا جمنی تہذیب کے الفاظ ایک بار بھی نہیں لائے گئے ہیں۔ اسی طرح یہ دستاویز کثیرلسانیت پر زور دیتا ہےلیکن کسی پر کوئی زبان تھوپنےکی نفی کرتا ہے۔سہ لسانی فارمولہ (بشمول مادری زبان) کے ساتھ ثانوی اسکول کی سطح پر ایک اورزبان کی تعلیم کا انتظام کر نے کی بات کہی گئی ہے جبکہ اعلیٰ ثانوی کی سطح پرایک غیرملکی زبان سکھانے کا انتظام کرنے کا ہدف دیا گیا ہے۔ پہلے ڈرافٹ میں غیرملکی زبانوں میں فرنچ ،جرمن ،چینی، جاپانی وغیرہ کی وضاحت کی گئی تھی لیکن اب اس وضاحت کو حذف کردیا گیاہےکیونکہ اس میں عربی ،فارسی وغیرہ کو شامل نہ کرنے پر اعتراض کیا گیا تھا۔ اس دستاویزکی سب سےاچھی بات یہ ہے کہ اس میں زبانوں کے انتخاب کوطالب علم کی پسند پر موقوف اور اختیاری رکھا گیا ہےجبکہ ہرسطح پر سنسکرت کی تعلیم کا انتظام کرنے اور آٹھویں جماعت(کم ازکم پانچویں) تک مادری؍ مقامی ؍ علاقائی زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے پر زور دیا گیا ہے۔صاف صاف لکھا گیا ہے کہ کوئی زبان کسی پر تھوپی نہیں جائےگی۔ پہلے ڈرافٹ میں بھی یوجی سی کو ختم کرنے پر زور دیا گیا تھا، اب اس دستاویز میں بھی ایک اعلیٰ تعلیم کمیشن (HECI)بنانے کی تجویز ہےجو ایک چھتری( امبریلا باڈی) ہوگی اوراس کے نیچے چار خود مختار ادارےکام کریںگے(ا) نیشنل ہائر ایجوکیشن ریگولیٹری کونسل NHERC (۲) جنرل ایجوکیشن کونسلGEC (۳)ہائرایجوکیشن گرانٹ کونسل HEGC (۴) نیشنل اکریڈیشن کونسلNAC۔
پالیسی دستاویز کا خلاصہ:
نئی قومی تعلیمی پالیسی کاتعارف 14نکات پر مشتمل ہے جن میں کہا گیا ہے کہ تعلیم انسان کی صلاحیتوں کے مکمل حصول، ایک اہل اور منصفانہ معاشرہ کے فروغ اور قومی ترقی کو آگے بڑھانے کی بنیاد ہے۔آئندہ عشرے میں ہندوستان میں دنیا کی سب سے بڑی نوجوان آبادی ہوگی اور نوجوانوں کو اعلیٰ معیاری تعلیم دینے کی ہماری صلاحیت ہی ملک کے مستقبل کی روپ ریکھا طے کرےگی۔اس نیک مقصد کے حصول کے لیے جن اصولوں کو اپنانے پر زور دیا گیا ہےاس کے بنیادی نکات ہیں(۱) تعلیم و تربیت کی ہرسطح پر سب کی رسائی (Univesal Access) ، (۲)ابتدائی لڑکپن کی دیکھ ریکھ اور تعلیم (Early Childhood Care & Education)،(۳)اساسی پڑھائی لکھائی اور ہندسہ آموزی( Foundational Literacy & Numeracy) (۴)سکول کے نصاب اور درس و تدریس میں اصلاحات (۵) کثیر لسانیت(آٹھویں تک مادری زبان میں تعلیم اورپھردیگر چار زبانیں سکھانے کا انتظام)۔ (۶)امتحانات کے نظام میں تبدیلی۔اب درجات ۳، ۸، ۱۰؍ اور ۱۲کے امتحانات لیے جائیںگے اور یہ امتحانات طالب علم کی مجموعی استعداد پر مبنی ہوںگے اور اس کے لیے ایک قومی اسسمنٹ سنٹر-پرکھ (PRAKH-permomence Assessment and Analysis of Knowledge for Holistic-Development)قائم کیا جائےگا۔ (۷) یکساں اور جامع تعلیم (۸) اساتذہ کی لیاقت پر مبنی تقرری اور ترقی(۹) معیار بندی اور اکریڈیشن کا نیا نظام اور (۱۰) تعلیم کے بجٹ میں اضافہ( جس کو کم ازکم ملک کی مجموعی پیداوار کا 6%فیصدکرنے پر زور دیا گیا ہے)۔اسی طرح اعلی تعلیم میں(۱)متناسب تعلیمی مکانات وعمارات یعنی ضروری آلات سے مزین کشادہ عمارتیں اور احاطے(۱۵برسوں میں کالجوں کے الحاق کا نظام ختم کیا جاےگا ۔ یاتوان کو گرانٹید آٹونومی دی جائےگی یا پھر وہ یونیورسٹی کی مستقل اکائیاں ہوںگے) ، (۲) باصلاحیت ،پرعزم اور اہل اساتذہ(۳) نگرانی کے نظام کی ازسرنو تشکیل (۴) مانیٹرنگ مشن کا قیام (۵) طلبہ کی مالی امداد کے نظام میں تبدیلی (۶) ہندوستانی زبانوں کے فروغ (ہرعلاقہ کے بچوں کو ملک کے دوسرے علاقے؍صوبے کی کم ازکم ایک زبان کی تعلیم)اور(۷) پروفیشنل ایجوکیشن پر زور دیا گیا ہے۔
اس پالیسی کے اہداف کے طورپر یہ نکات سامنے آتے ہیں(۱)بچوں کی ابتدائی دیکھ ریکھ سے اعلیٰ ثانوی درجات تک (۳تا۱۸سال کی عمرتک) ملک کے ہر بچے کو مفت یکساں معیاری تعلیم دینا۔( اس کےلیے حقوق تعلیم ایکٹ ۲۰۰۹ء میں عمر کی حد میں توسیع کی جائےگی اوراس ہدف کو ۲۰۳۰ء تک پورا کرنے کانشانہ طے کیا گیا ہے۔ (۲) ۲۰۲۵ تک نیشنل مشن کے تحت ہر شخص کو خواندہ بنانا (۳)۲۰۳۰تک پری اسکول سے سکنڈری تک صدفی صد داخلہ کو یقینی بنانا۔(۴) اسکول سے باہر رہ گئے دو کروڑ بچوں کو واپس اسکول لانا(۵) امتحانات میں اصلاحات متعارف کرانے کے لیے ۲۰۲۳تک اساتذہ کو اس کے لیےتیار کرنا(۶) ۲۰۳۰تک جامع اور مساوی تعلیمی نظام کا حصول (۷) بورڈ کے امتحانات میں کور کنسپٹ اینڈ اپلی کیشن آف نالج (علوم کےبنیادی تصورات اور ان کا عملی انطباق )کی جانچ کے نظام کا نفاذ(۸) ہر بچے کا اسکول سے کسی ہنر کے ساتھ نکلنے کانظم (۹) اور پبلک پرائیویٹ ہر تعلیمی ادارے میں یکساں معیار کا نفاذ۔
دینی مدارس اور خدشات و امکانات :
حق تعلیم ایکٹ اور نئی قومی تعلیمی پالیسی (۲۰۲۰)کے اہداف کی روشنی میں دینی مدارس کے تعلیمی نظام، ان کے وسائل، نصاب تعلیم اور درس و تدریس کے معیار کا جائزہ لیں تو ایک طرف اگر جابجا امید کی کرنیں نظرآتی ہیںتو دوسری طرف دور دور تک مایوسی کی تاریکیاں گھیر لیتی ہیں۔ ہندوستان میںدینی مدراس کی صحیح تعداد کا کوئی معتبرجائزہ ابھی تک کسی کے پاس نہیں ہے۔۲۰۱۹ء میں مرکزی وزارت اقلیتی امور کےپیش کردہ اعداد وشمار کے مطابق ہندوستان مدرسوں کی تعداد۲۴۰۱۰ہے جن میں سے ۴۸۷۸غیرمنظورشدہ مدارس ہیں۔اس میںکہا گیا ہے کہ یہ مدرسےیوپی، بہار، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، بنگال اور آسام میں زیادہ تعداد میں ہیں جبکہ غیرسرکاری دعووں کے مطابق یہ تعداد کم وبیش ایک لاکھ ہوتی ہےاورہرمدرسے میں اوسطاً سوبچے بھی زیرتعلیم مان لیں تو ان کی مجموعی تعدادایک کڑور ہوگی جبکہ ان میں ایسے مدارس بھی شامل ہیں جن میں بچوں کی تعدادپانچ سو سے سے پانچ ہزار تک تک ہوتی ہے۔اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ ملک کی ایک ایسی بیس کروڑ آبادی میں جہاں شرح خواندگی ابھی تک صرف ۶۵ فیصد کے آس پاس ہے ،یہ تعداد کتنی بڑی ہے۔ ان میں تین طرح کے مدارس ہیں۔ایک وہ جو کسی مجازمحکمے یا بورڈ سے باضابطہ منظور ہیں اور کسی حکومت کی مالی امداد بھی ان کو حاصل ہے۔دوسرے وہ ہیں جومنظوری تو رکھتے ہیں لیکن ان کو کسی حکومت کی کوئی مالی امداد حاصل نہیں ہے۔ان دونوں طرح کے مدرسوں کی تعداد بہار میں ۳۵۰۰کے قریب ، اترپردیش میں ۲۵۰۰، مغربی بنگال میں تقریباً ۵۰۰ اور آسام میں ۸۰۰ہے۔ملک کی کوئی چھ اور ریاستوں میں بھی مدرسوں کے بورڈ ہیںاور ان کے مدرسوں کی تعداد بھی دوڈھائی ہزار کے قریب ہوگی۔ان سب کے معیار میں تفاوت ہے، بہار مدرسہ بورڈ کا نصاب ریاست اور مرکز کےاسکولوں اور درس نظامی کے مضامین کو محیط ہے، مجازمحکموں سے تسلیم شدہ ہےاوراس کی اسناد کوریاست ہی نہیں ، مرکزکا سینٹرل بورڈ آف اسکول ایجوکیشن( سی بی ایس ای) بھی مساوی تسلیم کرتاہے۔مغربی بنگال مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے نصاب اور اسناد کوبھی ریاست میں مساوی درجہ حاصل ہے، یوپی میں اب مدرسہ بورڈ کے نصاب کو مساوی کیا جارہا ہے جبکہ ملک کے تعلیمی نقشے پر کیرل ایک ایسا جزیرہ ہےجہاں سی بی ایس اور این سی ای آرٹی کےمعیارکے دینی مدارس کے تین بورڈ ہیں(۱) سمستھ کیرل اسلام متھا ودیابھیاسا، (۲)سمستھ کیرل سنی ودیا بھیاسا اور(۳) کیرل اسلام متھا ودیا بھیاسا ؛اور یہ کسی سرکاری مالی امداد کے بغیرچلایا جانے والاریاست کے مسلمانوں کا خود مختارو خود مکتفی نظام تعلیم ہے ۔ ان کے مدرسوں کی تعداد ۱۲۵۰۰کے قریب ہےجن میںپرائمری سے بارہویں جماعت تک کے مدرسے شامل ہیں۔اسی طرح حیدرآباد میں جامعہ نظامیہ اور اس کی شاخیں ہیں ۔ان سب کی مجموعی تعداد۳۰؍ہزارکے قریب ہوتی ہے۔یہ وہ مدرسے ہیں جن کو قانوناً تعلیمی اداروں کا درجہ حاصل ہے۔سرکاری اسکولوں کی طرح ان میں بعض بڑے اعلی معیارکے اور بعض بڑے ناقص ہیں لیکن موجودہ صورت حال میں مدرسوں کا سخت سے سخت ناقد ومخالف بھی ان کو غیر قانونی نہیں کہہ سکتا۔اب بچتے ہیں تیسری قسم کے مدرسے جو آزادیا درس نظامی کے مدرسے کہلاتے ہیں۔ جن کی تعداد یقیناً ان سےکم نہ ہوگی، بعض دعووں میں ان کی تعداد دوگنی سے زائد بتائی جاتی ہے لیکن اس کا کوئی معتبر تخمینہ کسی کے پاس نہیں ہے۔دیوبند کے رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ میں شامل مدارس کی کل تعداد ۳۰۳۴ ؍بتائی جاتی ہےجن کا تعلق اترپردیش ، بہار، اڑیسہ، دہلی، ہریانہ ، پنجاب، ہماچل، راجستھان، مدھیہ پردیش، آندھراپردیش، کرناٹک، تمل ناڈو، کیرالہ اور گجرات سے ہے۔ دیوبندی مشرب کےان مدارس کی تعداد بھی اس سے کم نہ ہوگی جو اس تنظیم میں شامل نہیں ہیں۔ندوہ اور اس کی شاخیں،عمرآبادکا مشہور مدرسہ عربیہ ، اعظم گڑھ (یوپی)کامدرسۃالفلاح اور مدرسۃ الاصلاح اور ان دونوں کی شاخیں ،جامعہ الھدایہ جےپور اور اس طرح کےبہت سے دوسرے بڑے مدرسے یقیناً اس میں شامل نہیں ہیں۔اسی طرح بریلوی، اہل حدیث اورشیعہ مدارس ہیں جن کی تعدادکا کوئی جزوی تخمینہ بھی ابھی تک ہمارے سامنے نہیں ہےلیکن اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کتنےہوںگے۔ دیوبنداور ندوہ جیسے بڑے بڑے مدارس تیسری قسم کے اسی زمرے میں آتے ہیں ، جن کی تاریخی اور علمی حیثیت تو مسلم ہے لیکن ان کی تعلیم اور اسناد کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے کیونکہ یہ مدارس کسی تسلیم شدہ نصاب، درس و تدریس اور امتحانات کے ضوابط کے پابند نہیں ہیں۔ان میں سے بیشتر اپنے طلبہ کودرمیان میں کوئی سند نہیں دیتے، ایک ہی بار فراغت کے بعد سند جاری کرتے ہیں یا اس کے بعد تخصص اور تکمیل کا کورس کرنے والوں کو اس منشا کی اسناد دیتے ہیں۔ ملک میں ایسے مدارس کی بھی ایک بڑی تعداد ہے جو بورڈ سے منظور ہیں، حکومت کے خزانے سے مدرسین کی تنخواہ وصول کرتے ہیں لیکن وہ نہ تو اس کو ظاہر کرتے ہیں نہ اپنی درسگاہوں میں بورڈ کا نصاب چلاتے ہیں اور نہ بورڈ کے امتحانات کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، صرف خانہ پری کے لیے خواہش مند امیدواروں کے امتحانات کے فارم بھرواتے ہیںاور بورڈ کی جاری کردہ اسناد ان کو موصول کرادیتے ہیں ۔گویا یہ ایک اوپن اسکولنگ ایجنسی ہیں۔ان کا بھی سارا زور درس نظامی پر ہوتا ہے اور وہ ہرسال درس نظامی کے فارغین کی دستار بندی کا جلسہ کرتے یا اسناد جاری کرتے ہیںکیونکہ سماج میں اسی سے ان کی ساکھ بڑھتی ہے اور کاغذ کے اسی ٹکرے کوہمارے دینی حلقوں میں مقدس مانا جاتا ہے جس کی کہیں کوئی قانونی حیثیت نہیں تسلیم کی جاتی۔ ہاں !جب سے یونیورسٹیوں کو عربی، فارسی، دینیات وغیرہ مضامین میں داخلہ لینے والے طلبہ ملنے بہت کم ہوگئے ہیں، ان مدارس کے فارغین کو ان مضامین کے بی اے میں داخلہ دیا جانے لگا ہے حالانکہ ایسے فارغین مدارس کو بی اے، ایم اے اور پی ایچ ڈی کرلینے کے بعد دسویں کی اسناد کی کمی قدم قدم پریشان کرتی ہےاور وہ پچھلے دسیوں سال سے دیوبند اور ندوہ جیسے مدارس سے اس کا مطالبہ کررہے ہیںکہ یہ کم ازکم دسویں اور بارہویں کی الگ الگ اسناد جاری کرنے کا نظم کریں لیکن کون سنتا ہے فغان درویش۔ وہ ابھی تک اس پر غور کرنے کے بھی روادار نہیں ہیں، چہ جائے کہ ضروری شرائط و معیار پورے کرکےخود کو تعلیمی ادارے کے طور پر تسلیم کروالیتے۔ وہ اس کے لیے یہ دلیل دیتے ہیں کہ ان کا مقصد روزگار یا دنیاوی مناصب کا حصول نہیں ہے، صرف دین کی تعلیم دینا مقصود ہے تو پھر وہ یہ زحمت کیوں کریںجبکہ ملک کا آئین و قانون کہتا ہے کہ پانچویں، آٹھویں اور دسویں کاامتحان لینا اور اسناد جاری کرنا ہرتعلیمی اداے کا فرض اور بچوں کا بنیادی حق ہے۔ان مدرسوںسے مختلف مواقع پر جامعہ ملیہ اسلامیہ(نئی دہلی)، مولانا مظہرالحق یونیورسٹی(پٹنہ)، یونیورسٹی گرانٹ کمیشن (یوجی سی )، مڈیکل کونسل آف انڈیا(ایم سی آئی)اورحال ہی میںبہار پبلک سروس کمیشن نے خطوط لکھ کراس منشا کی گزارش کی لیکن کسی کے کان پر کوئی جوں نہیں رینگی حتی کہ ان مدارس کی اسناد کے ناموں میں بھی یکسانیت نہیں ہے۔ندوہ کی عالمیت کوعربی فارسی کی بارہویں مانا جاتا ہےجبکہ دیوبندکے فاضل کو یہ درجہ دیا جاتا ہےکیونکہ دارالعلوم عالمیت کی سند جاری نہیں کرتا۔ اسی طرح مختلف ریاستوں کے مدرسہ بورڈ کی اسناد میں بھی ناموں کا تفاوت عام لوگوں اور سرکاری اداروں کو مشکل میںڈال دیتا ہے کہ وہ مدرسے کی کس سند کو کس درجے میں رکھیں۔ طبیہ کالجوں میں مدارس کے فارغین کے لیے پری طب میں داخلے کا نظم چلا آتا ہے، اس میں بارہویں کے مساوی اسناد (عالیہ کے مولوی، نظامیہ کی فضیلت اورجدیدنظامیہ یعنی ندوہ وغیرہ کی عالمیت)پر داخلہ دیا جایا کرتا تھا لیکن اب ایک عرصہ سےیہ ممکن نہیں ہے۔ مڈیکل کونسل آف انڈیا(MCI) نے اس کے لیے فاضل کی سند لازمی کردی کیونکہ کونسل یہ فیصلہ نہیں کرسکی کہ بورڈ کامولوی بارہویں کے مساوی ہے، ندوہ ، فلاح ، اصلاح ،مغربی بنگال مدرسہ بورڈاور کئی دوسرے مدرسوں کاعالم یا دیوبند اور اس قبیل کےمدرسوںکا فاضل؟۔جن مدرسوں میں فاضل کی سندبارہویں کے بعد تین سال کے عالم (گرجویشن)اور پھردو سال کےفاضل (پی جی) تکمیل کے بعد دی جاتی ہے ، ان کے فارغین کے ساتھ ان بےضابطہ مدرسوں کے باعث یہ کتنی بڑی زیادتی ہے، وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جن کو نصاب اور سال بہ سال درجہ بہ درجہ تعلیم کی اہمیت کا کچھ احساس ہے۔
ملک کے سب سے بڑے دینی اور مسلکی مدارس و مراکزمیںسے ایک میں باریابی کااتفاق ہوا۔ یہ مدرسہ اپنے نام کے ساتھ جامعہ لکھتا ہے، مقامی لوگ اس کو یونیورسٹی پکارتے ہیں۔ اس کے بانیوں نے اس تاریخی مدرسےکی توسیع کے وقت بار بار اس کو عربی یونیورسٹی بنانے کا اعلان کیاتھااور لوگوں میں جوش و خروش ایسا تھا کہ صرف ڈیڑھ سال میں اس کی وسیع و عریض عالیشان عمارت بن کر تیار ہوگئی تھی۔ میں نے اس کی مجلس شوریٰ کے ایک رکن سے جو خیر سے ایک گورنمنٹ کالج کے پرنسپل رہ چکے تھے اور میری بات سمجھ سکتے تھے، سوال کیا کہ بانیان جامعہ کے خوابوں کی عربی یونیورسٹی آج تک مدرسہ کا مدرسہ ہی کیوں ہے؟ آپ کے پاس معقول اراضی، اورانفراسٹکچر وغیرہ موجود ہیںاور اب جبکہ پرائیویٹ یونیورسٹی آسانی سے منظور کرائی جاسکتی ہےتو آپ جامعہ کو سچ مچ کی جامعہ کیوں نہیں بنالیتے،ایک سے زائد انٹرکالج تو آپ کے پاس پہلے ہی موجود ہیں؟ایک معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ انہوں نے میری طرف دیکھا اور بولے’’ ابھی ناظم صاحب سے ہماری ملاقات ہوگی۔ان کے سامنے اپنی بات رکھیے‘‘۔ ملاقات کے دوران ناظم صاحب سے بات کی توان کایہ جواب سن کر میرا منھ کھلا کا کھلا رہ گیاکہ ’’ ہم جامعہ کو سرکار کو دینا نہیں چاہتے‘‘۔ یہ اس ناظم کاجواب تھاجس کے دستخط سےاترپردیش مدرسہ ایجوکیشن بورڈسےاس مدرسہ میں اساتذہ کی تقرری ہوتی ہےاوراساتذہ حکومت سےہرماہ تنخواہ وصول کرتے ہیں ۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ ناظم صاحب ایک سینٹرل یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ اور پیشہ سے انجینئر ہیں۔ میں اب ان سے کیا کہہ سکتا تھا۔ حالت یہ تھی کہ حیراںہوں دل کوروؤں کہ پیٹوں جگر کو میں۔پھربھی حوصلہ جٹاکر عرض کہ کیاکہ یونیورسٹی بنالینے سے تو آپ اس سے کہیں زیادہ آزاد و خودمختار ہوںگے جتنے آج ہیں۔ سرکار یا کسی اورکو مدرسہ دے دینے کا مشورہ آپ کو کب کسی نے دیا۔ ان کی شوریٰ کے رکن موصوف و مرحوم نے بھی بات کو کچھ سنبھالے کی کوشش کی۔ اب ناظم صاحب نے اپنے دفتر کے ایک کلرک کو چائے کی میز پربلوایا جو کچھ زیادہ جہاندیدہ سا لگ رہاتھا، ہم نے ان کو تفصیل سے سمجھایا کہ کس طرح اس ادارے کو سچ مچ ایک عربی یونیورسٹی بنایا جاسکتا ہے۔ملک کی ایک مشہور پرائیویٹ یونیورسٹی کے وائس چانسلر کا نام لے کر میںنے ان سے کہا کہ وہ اس کارروائی میں آپ کی مدد اور رہنمائی کرسکتے ہیں۔انہوں نے یہ تأثر دیا کہ وہ سمجھ گئے ہیںاور تجویز ان کو اچھی لگی ہے۔ ناظم صاحب موصوف نے یہ بھی کہا کہ وہ جلد ہی حضرت سربراہ اعلیٰ کی خدمت میں تجویز رکھیںگے اور شوری کی آئندہ میٹنگ میں اس پر غور کیا جائےگا۔اب دو سال ہونے کوآئے۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ اس مسئلے میں سنجیدہ بھی تھے یا نہیں اور انہوں نےپھرکیا پیش قدمی کی لیکن میں سمجھتا ہوں کہ دیوبند اور ندوہ کے ذمہ داروں سےبھی بات کی جاتی تو کم وبیش یہی جواب ملتااور اسی طرح کی خاموشی پیش آتی۔ حالانکہ یہ وہ ادارے ہیں جو جب چاہیں یونیورسٹی اور ڈیمڈ ٹوبی یونیورسٹی بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
دینی مدارس کا ایک منفرد ماڈل:
جیسا کہ ابھی ذکر آیا کہ برعظیم ہندوستان کے تعلیمی نقشے پرکیرل ایک سرسبزوشاداب جزیرہ ہے جس کے دینی مدارس کا نظام اور دینی مدارس بھی اپنی مثال آپ ہیں۔یہ ایک ایسا معیاری، آزادو خود مختار اور مستحکم نظام ہے جس کو اپنا کر جنوبی ایشیا کے مسلمان وقت کے تقاضوں کا مقابلہ بھی کرسکتے تھے اوردین کے تحفظ کی جانب سےذہنوں میں پلتے گوناگوںخدشات سے بھی نکل سکتے تھے لیکن شمالی ہند (جہاں اس خطہ کے مسلمانوں کی اکثریت بستی ہے)کے ’اردولسانی فصحاوبلغا ‘نےکب کسی کو درخور اعتنا سمجھا کہ اس ماڈل کو سنجیدگی سے لیتے۔اس سے بہت پہلے مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ (پٹنہ؍۱۹۱۲ء)کے بانیان نےاس ملک کو ایک ایسا ہی ماڈل دیا تھاجس کی کامیابی کا ڈنکا دور دور تک بجنے لگا تھا لیکن پھراس کوحاصل سرکاری امداد اس کے لیے ایک دوہری مار بن گئی۔ عصری علوم کی تعلیم سے وحشت زدہ ،حکومت مخالف جذبات کے خوگر اور ’محصلانہ رقابت‘میں مبتلاطبقات علما نے اسے بدنام کیا تو سرکاری فنڈ کی لوٹ نےاس کے معیار اور ماحول کو گھن طرح کھانا شروع کردیا۔کاش! ہم نے اس کی قدر کی ہوتی اور مدرسہ بورڈ کے مدارس کے معلمین کو دی جانے والی سرکاری تنخواہ کو لوٹ کا مال تصور نہ کیا ہوتا اور ملت کی تعلیمی پسماندگی دور کرنے کے لیے ایمانداری سے اس کا استعمال کرتےتو آج ہم نہ ان مسائل سے دوچار ہوتے جن کاسامنا قانونی محاذ پر کررہے ہیں اورنہ ان خطرات کا شکار ہوتےجو اندرونی امور میں ملت کودرپیش ہیں۔یہ بات کسی باشعور انسان کی سمجھ میں نہیں آسکتی کہ آدھی روٹی پر گزربسر کرنے والے مدرسین کی خدمات پر منحصر مدارس کا معیار بہت اچھا ہوگا اور ان کوپوری تنخواہ دینے سے ان کا معیار ناقص ہوجائےگالیکن عالیہ مدارس کو بدنام کرنے کے لیےیہی بات نہایت ڈھٹائی سے بار بار دوہرائی جاتی رہی ہےحالانکہ ان میں اسی طرح بہت سےمعیاری مدرسے بھی ہیں اور بہت سے ناقص بھی جس طرح درس نظامی کے ہرمدرسہ میں اچھی تعلیم نہیں ہوتی اوراس نوع کے ہزاروں مدرسوں میںندوہ، دیوبندیا اشرفیہ کے معیارکے مدرسےانگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔
کیرل میں اس وقت دینی مدارس کے تین بورڈ ہیں۔سمستھ کیرل اسلام متھا ودیا بھیاسا(ملاپورم)کے مدرسوں کی تعداد ۱۰۲۹۸ ہے جن میں زیر تعلیم بچوں کی تعداد۲۰۲۱ءمیں ۱۱لاکھ۱۸ہزار ۵۳۴؍ اور اساتذہ کی تعداد ۹۵۸۷۴تھی۔اس بورڈ کے مدرسوں کےبچے ہرسال سینکڑوں کی تعداد میں نیٹ(NEET) میں بیٹھتے اور کامیاب ہوتے ہیںجن میں لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے کیونکہ سائنس کی تعلیم کے لیے لڑکوں کی اکثریت عام اسکولوں کا رخ کرتی ہے لیکن لڑکیوں کے لیے مدرسے زیادہ مناسب وموافق مانے جاتے ہیں ۔ اس کی پانچویں، آٹھویں، دسویں اور بارہویں جماعت کے بورڈامتحانات شرکاکی تعداد اور جغرافیائی حدود کے لحاظ سےدنیا میں اپنی نوعیت کا سب سے بڑانظم ہے ۔یہ امتحانات ہندوستان کے سات صوبوں (کیرل، جزائرانڈمان نکوبار،تمل ناڈو، پانڈیچری، کرناٹک، مہاراشٹر اور لکشدیپ )اور دنیا کے سات ملکوں( متحدہ عرب امارات، بحرین، کویت، سعودی عرب، عمان ، قطر اورملیشیا)میں اس کےمراکزامتحانات پرایک ساتھ ہوتے ہیں۔
آل کیرل مدرسہ ایجوکیشن بورڈ(ملاپورم)کے حزب(Primery)، تحتانیہ(Lower)، فوقانیہ (Higher)اور اعلیٰ فوقانیہ(Higher Secondary) کے لیے اساتذہ کی تربیت اور صلاحیت سازی کا الگ الگ انتظام ہےاور ان کی کلاسز جدید آلات سے لیس ہیں۔اس بورڈ کے انسپکٹر ایک ایک مدرسے میں جاکر اس کے معیار کی جانچ کرتے ہیںاور ان کی رپورٹ پر کارروائی کی جاتی ہے۔اس وقت اس کےانسپکٹرز کی تعداد۱۰۷ہے۔۷؍معلم المعلمین ہیں جو اساتذہ کو تربیت دیتے ہیں اور چھ قراو مجودین ہیں جو حزب کے معلمین کی کلاس لیتے ہیں تاکہ اس کے سارے مدرسوں کے اساتذہ صحیح تلفظ اورصحیح مخارج کے ساتھ قرآن پڑھیں پڑھائیں ۔ اس کے اساتذہ کی تنظیم سمستھ کیرل جمعیۃ المعلمین سینٹرل کونسل (SKJMCC) جو سمستھ کیرل جمعیۃ علما کی ذیلی تنظیم ہے، اساتذہ اور طلبہ کے لیے۶؍ طرح کے ویلفیئر فنڈاور۱۴؍ قسم کی سروس بنیفٹ اسکیم چلاتی ہے۔اس انجمن کی ۱۹؍ضلعی شاخیں اور ۵۲۴مقامی کمیٹیاں ہیں۔ ۲۰۰۱ءمیں اس نےاساتذہ کی تربیت کا ادارہ(Teachers Training Institute) قائم کیا جو ان فارغین مدارس اور دوسرے امیدواروں کی تربیت کے لیےبھی ایک سال کاکورس چلاتاہے جو درس وتدریس کے پیشے میں آنا چاہتے ہیں۔ لڑکیوں کی اعلیٰ دینی تعلیم کے لیےاس نے شرعیہ کالج بھی قائم کیا ہے جو ان کے لیے سینئر سیکنڈری کے بعدپانچ سالہ (3+2)پی جی کورس چلاتا ہے۔ ’المعلم‘، ’سنتھوشٹھ کدمبم ‘اور ’کورنّوکل‘ اس کے کثیرالاشاعت میگزین ہیں۔سمتھ کیرل سنی متھا ودیا بھیاسا (کالیکٹ)اور کیرل اسلام متھا ودیا بھیاسا (کوزیکوڑ)بھی کم و بیش اسی طرز پر کام کرتا ہےجن کے مدرسوں کی تعدادبالترتیب ۲۵۰۰؍ اور ۳۰۰؍ ہیں۔ سنی سمستھا بورڈمرکزثقافۃ السنیہ (کالیکٹ)اور سمستھ کیرل سنی جمعیۃ علماکے زیر انتظام ہے جس کے مراکز ، مدارس اور تنظیمیں شمالی ہند کے دوردراز علاقوں میںبھی کام کرتے ہیں ۔یہ مدرسےبچوں کو سینئر سیکنڈری کے ساتھ ساتھ درس نظامی کی تکمیل کرادیتے ہیں۔اس کا ایک دفتر دہلی میں بھی ہے اور سمستھ کیرل سنی جمعیۃکی طلبہ تنظیم ایس ایس ایف (سنی اسٹوڈینٹس فیڈریشن ) جنوب کی طرح شمال کے نوجوانوں میں بھی فعال ہے۔ اس بورڈ کے سرپرست اعلی اور مرکزیونیورسٹی (کالیکٹ ) کے چانسلر شیخ ابوبکر مسلیارکوشمالی ہندمیںبھی جانا پہچانا اور احترام کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے کیونکہ وہ شمالی ہند کے مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی پر دہائیوں سے فکرمند اور سرگرم عمل ہیں ، یہاں کا دورہ کرکے تدابیر تلاش کرنے کی کوشش اور عملی اقدامات کرتے ہیں۔
آخری بات:
ہندوستان کے دینی مدارس دنیا کا ایک ایساسب سے بڑا غیرسرکاری نظام(این جی او ؍نیٹ ورک) ہیں جوعام لوگوںکے تعاون سے عام لوگوں کے لیےچلایا جاتا ہےاور اس کے منتظمین بھی عام لوگ ہی ہوتے ہیں۔اس کے منتظمین بھی امروارؤسانہیں ہوتے، ان اکثریت غریب علما کی ہے۔یہ سماج کےنادار بچوں کی فری تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ ان کی کفالت بھی کرتا ہے ۔اگر یہ مدارس نہ ہوں تو ملت کےلاکھوں بچے ناخواندہ رہ جائیں اورافلاس وتنگ دستی کے جہنم میں جینے کےتباہ کن چکر(Vicious Sycle) سے وہ اور ان کی نسلیں کبھی نہ نکل سکیں۔ یہ دنیا کا واحدادارہ ہے جو مفلس و ناداربچوں کوسماج کی سب سے پچھلی صف سے اٹھا کر پہلی صف میں بلکہ قیادت و امامت کے مقام پر پہنچا دیتا ہے مگرآج اس ملک کےبہت کم لوگوں کے دلوں میںاس کی قدر وقیمت کا احساس ہے۔ستم تو یہ ہے کہ ان مدارس کو اندرونی اور بیرونی دونوں محاذ پر سنگین خطرات درپیش ہیں جن سے ان کی حفاظت نہ کی گئی تو ملک وملت کو دین اور دنیادونوںکے ناقابل تلافی نقصانات کا سامنا کرنا پڑےگا۔
حق تعلیم ایکٹ اورنئی قومی تعلیمی پالیسی کی روشنی میں ملک کےان مدارس کے سامنےاب کوئی چارہ ہے تو یہ ہے کہ ہم اپنی درسگاہوں میں (۱) دینی علوم کے ساتھ مروجہ مسلمہ معیار اور تسلیم شدہ نصاب کے مساوی تعلیم کا نظم کریں (۲)جو مدارس منظورشدہ نہیں ہیں، ان کو حق تعلیم ایکٹ کی صراحت کے بموجب معیارو شرایط پورے کرکے ریاست کے مجاز محکمہ سے تعلیمی ادارے کے طور پر منظور کرائیں اور (۳) پانچویں، آٹھویں، دسویں اور بارہویں کے امتحانات کرائیں اور اسناد جاری کریں۔جولوگ اوپن اسکولنگ یا کسی اورطریقہ سے مدارس کے بچوں کو دسویں پاس کرانے کی بات کررہے ہیںوہ بھی خطا پر ہیں، حق تعلیم ایکٹ اس کی اجازت نہیں دیتا کہ آپ دس سال کے نصاب کی سال بہ سال درجہ بہ درجہ تکمیل کرائے بغیر ایسا کریں۔ آپ اس کام میں سرکار سے امداد لیں یا نہ لیں ، آپ کو بچوں کی مروجہ مسلمہ بنیادی تعلیم(Universal Elementry Education) کا انتظام کرنا ہی ہے ۔دوسری صورت یہ ہے کہ آپ اپنے مدرسوں کو بند کردیں اور سرکار کو ان بچوں کی تعلیم کا بندوبست کرنے دیں۔ ایک تیسری صورت بھی ہے کہ ان مدارس کو غیررسمی تعلیم کے مراکز اور دارالاقامہ میں بدل دیں اور ان میں قیام کرنے والے بچوں کو اجازت دیں کہ تعلیم کے اوقات میں وہ منظور شدہ اسکول مدرسے اور کالج میں پڑھا کریں۔
(یہ مقالہ فقہ اکیڈمی(انڈیا) نئی دہلی کے دو روزہ سیمینار’’بدلتے حالات کے تقاضے اور ہندوستانی مسلمان‘‘ بتاریخ ۲۹۔۳۰؍جون ۲۰۲۲ء کے لیے لکھااور اس کے دوسرے اجلاس میں پڑھاگیاتھا)
احمد جاوید