حضورنظام،حضرت جامعی اورجناب بوعلی سینا

(قصہ اردو ٹائپ رائٹنگ کی مشق کے فارمولے کا)

Table of Contents

بوعلی سینا نے ایک مہتر کولیٹرین صاف کرتے دیکھا ۔وہ فارسی کا ایک شعر گنگنارہا تھا، جس کا مفہوم کچھ یوں تھا:’ ’اے میرے نفس! میں صرف تیرے احترام میں یہ سب کچھ کر رہا ہوںتاکہ تو آرام سے زندگی بسر کر سکے۔‘ ‘ مطلب یہ کہ لیٹرین کی صفائی بھی ایک شاندار پیشہ ہے اور میں نے یہ پیشہ اپنے نفس کے احترام میں اپنا رکھا ہے۔
ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا جب ہمارے گھروں میںایسے لیٹرین (بیت الخلا )ہوا کرتے تھے جس کو مہتریا جمعدار صاف کیا کرتے تھے۔ ہردن صبح کو مہتر انی یا مہتر آتے،بول و براز کو ٹوکری میں ڈالتے اور شہر سے باہر لے جاکر خالی کر دیتے۔شہروں میں جب گٹر اور سیپٹک ٹینک بننے لگے،اورنکاسی آب کا نظام(سیوریج سسٹم)متعارف ہوا تو بتدریج یہ سلسلہ ختم ہوا۔
بوعلی سینا وزیر تھے ۔وہ بہ حیثیت وزیر شہر کا دورہ کر رہے تھے ۔انہوں نے جمعدار کو دیکھا کہ وہ لیٹرین صاف کررہاہے اور شعر گنگنارہاہے کہ میں نے یہ پیشہ اپنے نفس کے احترام میں اپنا رکھا ہے۔بو علی سینا نے جمعدارکودیکھا ، لیٹرین کی طرف دیکھا اور قہقہہ لگا دیا۔ جمعدار نے مڑ کر بوعلی سینا کی طرف دیکھا۔وہ اس کی آنکھوں کا سوال سمجھ گئے۔بوعلی سینا نے اس سے کہا ’’تم اپنے نفس پر اچھا احسان جتا رہے ہو۔ تم اگر سونے چاندی کا کاروبار کرتے یا شہر کے سب سے بڑے تاجر ہوتے اور اس کے بعد نفس پر احسان جتاتے تو بات بھی ہوتی۔‘‘ جمعدار نے یہ سن کر قہقہہ لگایااوربولا :’’میں اپنے کام میں آزاد ہوں،اسی وقت یہ ٹوکری اسی جگہ چھوڑ کر جاسکتا ہوں۔ میں کسی بھی گھر کی نوکری چھوڑ سکتا ہوں۔کیا تم بھی ایسا کر سکتے ہو؟‘‘جمعدار نے اس کے بعد کہا’’ پیشہ چاہے کتنا ہی کمتر ہو، بادشاہوں کی غلامی سے بہرحال بہتر ہوتا ہے‘‘۔ جمعدار کے یہ الفاظ سن کربوعلی سینا کے ماتھے پر پسینہ آگیااور اس نے ندامت سے آنکھیں جھکالیں۔
پچھلے ہفتہ بزرگ شاعر اسرارجامعی نے اپنی ایک تازہ سرگزشت سنائی تو فارسی کی یہ حکایت اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ میری نگاہوں میں پھر گئی۔میں دیرتک اس خیال میں گم تھا کہ خدایا! غلاموں کا حوصلہ کتنا کم اور ان کے دل کیسے تنگ ہوتے ہیں۔غلامی سچ مچ بہت بری چیز ہے، یہ حوصلوں پر پہرے اور ذہنوں پر تالے ڈال دیتی ہے اوریہ کہ آزاد ہندوستان میںاردو زبان، ادب اور صحافت کوسب سے زیادہ نقصان جس نے پہنچایا وہ ہماری غلامانہ ذہنیت ہی ہے۔آزادی آئی تو اوروں کے لیے سلطانی جمہور کانیا عہد، نئے نواب ،نئے جاگیردار،نئے نظام اور نئے حکمراں لائی لیکن ہمارے حصے میں غلاموں کی فوج آئی۔
واقعہ یہ ہے کہ اردو زبان کے فروغ کے لیے قائم ایک قومی ادارہ کے مدیرنے اردو ٹائپ رائٹنگ کی مشق کے فارمولہ کو اپنی کسی اشاعت میں جگہ دینے سے صرف اس لیے معذرت کرلی اور مضمون مہینوں اپنے پاس رکھنے کے بعدوا پس کردیا کہ اس میں ان کا نام تھا اور جناب مدیر کو ان کے نام کی تشہیر منظور نہ تھی ۔اب بے چارے جامعی افسردہ ہیں کہ’ جس کام کے لیے حضورنظام دکن میر عثمان علی خاںنے گرانقدرانعامات کا اعلان کیا تھا،اس کام کی آج اتنی بھی قدر نہیں ہے کہ اس کی خاطر خواہ تشہیر ہوسکے اوریہ لوگوں تک اسی طرح پہنچ سکے جس طرح انگریزی زبان کے وہ مختصر فقرے جن میںاس کے تمام حروف تہجی موجود ہیں اور ٹائپ رائٹنگ سیکھنے والے ہر کس وناکس کے کام آتے ہیں‘۔انہیں کون سمجھائے کہ یہ شاہوں کا نہیں غلاموں کا عہد ہے۔
ایک امریکی سائنس داںکرسٹو فرائل شولز(Christo Friyl Sholes) نے لکھنے پڑھنے میںیکسانیت اور رفتار میں تیزی لانے کے لیے۲۰- ۱۸۱۹ء میںٹائپ رائٹنگ مشین ایجاد کی تھی۔اس کے بعد مختلف سائنسداںاور متعدد کمپنیاں مختلف برانڈاور الگ الگ ناموں سے انگریزی ٹائپ رائٹر کوبہتر سے بہتر بناتے رہے۔ اس طرح مینول والیکٹرونک ٹائپ رائٹراور کمپیوٹر کی ایجاد ہوئی۔ٹائپ رائٹر ساز کمپنی اولی ویٹی(OLLIVITTTEE) نے محسوس کیا کہ ٹائپ رائٹنگ مشین کے لیے ایک ایسا مختصر ترین جملہ ہونا چاہیے جس میںتمام حروف تہجی موجود ہوںتاکہ ایک ہی جملہ میں ٹائپ کرنے والے کی ہر انگلی حروف پر چلی جائے۔جب وہ خود ایسا نہ کر سکے تو اخبارات کے ذریعہ اعلان کیاکہ جو کوئی ایسا جملہ تخلیق کرے گا،سب سے اچھے کو پہلا،اس کے بعد والے کو دوسرا اورپھر تیسرا انعام دیا جائیگا۔مگر باوجود کوششوں کے صرف دو ہی افراد ایسے جملے بنا سکے۔کوئی تیسرا جملہ شاید آج تک وجود میں نہ آسکا۔ وہی دونوں فقرے اب تک دنیا میںرائج ہیں اور ان میںبھی ایک(The quick brown fox jumps right over the lazy dog) زیادہ مستعمل ہے۔انگریزی کی ٹائپنگ سیکھنے اور مشین کی مرمت کرنے والااسی جملہ کو یاد رکھتاہے۔اپنی رفتار کو تیز رکھنے کے لیے اسی سے مشق کرتا اورمشین یا کی بورڈ کا ٹیسٹ بھی اسی سے کرتا ہے ۔
اردو پردکن اور نظام دکن کے بے شمار احسانات ہیں ۔اس کو ایک باوقار علمی اور کار آمد زبان بنانے میںنظام حیدرآباد کی کوششوں کا جو کردار ہے وہ اس زبان کی تاریخ پر نظر رکھنے والے کسی اہل علم کی نگاہوں سے مخفی نہیں ہو سکتا۔لیکن یہ تفصیلات بہت کم لوگوں کے علم میںہوںگی کہ میر عثمان علی خاں نظام حیدرآباد نے جامعہ عثمانیہ کے کچھ طلبہ کووظیفہ دے کر انگلینڈ بھیجا تھا کہ وہ انگریزی ٹائپ رائٹر کی طرز پراردو ٹائپ رائٹر بنائیں۔ اردو ٹائپ رائٹر کی ایجاد کے بعد ان طلبہ اورخود حضور نظام نے بھی کافی کوشش کی کہ انگریزی کی طرح اردو میں بھی کوئی مختصر جملہ ہوجس سے ٹائپ رائٹنگ سیکھنے والوں کو سہولت ہو۔ اسکے لیے انعامات کابھی اعلان کیا لیکن اردو میں حروف تہجی زیادہ ہوتے ہیں اس لیے کوئی ایسا جملہ تخلیق نہ کر سکا۔
یہ ۱۹۶۴ء کی بات ہے۔اسرار جامعی زندہ دلان حیدرآباد کے مشاعرے میں شرکت کے لیے حیدرآباد گئے۔وہیںسے اردو ٹائپ رائٹر خرید کر پٹنہ لائے اوراپنے ادارہ اقبال اکیڈمی میںاردو ٹائپ رائٹنگ سکھانے کا نظم کیا۔ اخباروں میں اس کا اشتہار بھی دیا۔حیدرآبادمیں ہی لوگوں نے ان کو بتایا کہ انگریزی کی طرح اردو میں کوئی ایسا جملہ نہیں ہے جس کی مدد سے تمام حروف تہجی کا احاطہ کرکے ٹائپ سکھایا جا سکے۔پھر کیا تھا ؟وہ اس کوشش میں لگ گئے۔وہ ٹھہرے شاعر اور وہ بھی طنزومزاح کے۔ ایک دن ان کی رگ ظرافت پھڑک اٹھی۔ شاعرانہ تعلّی سے بھرپور ایک ایسا فقرہ حاضرتھا جس میںسوائے ژ کے اردو کے تمام حروف تہجی موجود ہیں۔کل ۲۵ الفاظ پر مبنی اس جملہ میں۲۷ حروف(ب پ ت ث ج چ ح خ دڈذڑزس ش ص ض ط ظ ع غ ف ق ہ ھ ء)صرف ایک مرتبہ آئے ہیں۔جو حروف دو مرتبہ آئے ہیں وہ جز اور کل دونوںہی صورتوں میں الگ الگ آئے ہیں۔کسی بھی لفظ کو نکال دیں توایک یا کئی حروف غائب ہو جاتے ہیں۔گویا کوئی بھی لفظ بھرتی کا نہیں ہے ۔جملہ با معنی و مختصر ہے اور بہ آسانی یاد ہو جاتا ہے۔جملہ ہے:’’اردو ٹائپنگ کوڈ کے الفاظ کی یہ تخلیق شاعر طنزو مزاح اسررا جامعی کی غضب کی ذہانت اور خلوص کی بڑی اچھی مثال ہے۔‘‘بہ غور دیکھیںتواس جملہ میں اصل الفاظ صرف ۱۶ ہیں،۹حروف (کے ، کی ، و، اور،ہے ) ایسے ہیںجولفظوں کو ملانے کے کام آتے ہیں۔جامعی کی مانیںتواردو کے تمام حروف تہجی کا احاطہ کرنے والا اس سے مختصر اور آسان وبامعنی جملہ بنناممکن نہیںمعلوم ہوتا۔خودانہوں نے بہت کوشش کی کہ کوئی دوسرا جملہ بن جا ئے مگر کامیاب نہ ہو سکے۔اردو ٹائپ رائٹنگ کے موضوع پرہندوستان اور پاکستان کی تمام کتابیںچھان ڈالیںمگر کسی میں بھی کوئی ایسا جملہ نہ ملا ۔ تصورکیاجا سکتا ہے کہ اردو ٹائپ رائٹنگ کی مشق کے اس فقرہ کی تخلیق پرمیر عثمان علی خاں نظام حیدرآباد کتنا خوش ہوتے لیکن بد قسمتی سے جامعی نے یہ کام اس وقت کیا جب ہمارے یہاں حکمرانوں کی نہیں ،ان کے غلاموں کی حکمرانی ہے۔
۱۹۷۹ء میں جب حکومت بہا ر نے آزادہندوستان میں پہلی بار کسی ریاست میںاردو کو سرکاری زبان کا درجہ دینے کا فیصلہ کیا تولوگوں نے کہا کہ اردو کا ٹائپ رائٹر نہیں ہوتا،اس لیے کام میں دشواری ہوگی۔اس وقت تک کسی کے وہم و گمان میں کہاں تھا کہ ایک دن ٹائپ رائٹر بھی تاریخ کا حصہ بن جائے گااوراس کی جگہ کمپیوٹر لے لیگا۔پھر اس کی زیارت میوزیموں میں ہوا کرے گی۔اس وقت جامعی کا شایع کردہ اشتہار کام آیا۔ وزیراعلی ڈاکٹر جگن ناتھ مشر اسے کہا گیا کہ نہ صرف یہ کہ اردو کا ٹائپ رائٹر ہوتا ہے بلکہ پٹنہ میں ٹائپ کرنا سکھایا بھی جاتا ہے ۔ڈاکٹر مشرا مشاہدہ کرنے کے لیے خوداقبال اکیڈمی آئے۔ان کی آمد کی اطلاع چونکہ پہلے ہی ہو گئی تھی اس لیے جامعی نے انتظامات درست کرلیے تھے۔وزیراعلی کے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ اب تک سینکڑوں طلبہ و طالبات کو اردو ٹائپ رائٹنگ سکھائی جا چکی ہے اور اب بھی سینکڑوں لوگ سیکھ رہے ہیں۔پھرحکومت نے ۱۷۶ ٹائپسٹ کی تقرری کا اشتہار دیا تو جامعی نے اخباروں میںاعلان شایع کرایا کہ جن لوگوں نے اقبال اکیڈمی پٹنہ سے ٹائپنگ سیکھی ہے ،وہ اپنی سرٹیفکیٹ لے جائیں کیونکہ بہار سرکار اردو ٹائپسٹ کی تقرری کے لیے جگہیں نکال رہی ہے۔اب لوگ آئے توانہوں نے ان سے تین تین ماہ کی فیس پیشگی لے کر ان کی سرٹیفکیٹ بنادی اورفوٹو کاپی دے کر۲۰۰ سے زائد لڑکے لڑکیوں سے درخواستیں دلوادیں۔ درخواست دینے اور انٹرویو میں تین ماہ کا وقفہ تھا،اس مدت میں دن رات محنت کرکے ان لڑکے لڑکیوںکوٹائپنگ سکھائی اور انٹرویو سے پہلے ان کو اوریجنل سرٹیفکیٹ دے دی۔ اس طرح تاریخ میں پہلی بار ایک ساتھ اردوکے ۱۷۶ٹائپسٹون کی تقرری عمل میں آئی۔اس کامیابی میں بھی جامعی کے اس جملہ کابہت اہم رول تھا جس کی وجہ سے اتنی کم مدت میں ان لوگوں نے اردو ٹائپنگ سیکھ لی تھی۔اسی پس منظرمیں۱۸/اگست ۱۹۸۹ء کو اردکادمی دہلی نے اسرار جامعی کو اردو ٹائپ رائٹنگ پر لکچر دینے کے لیے مدعو کیا تھااورانہوں نے اپنے اس لکچر میں اس فقرہ کی افادیت پربھی روشنی ڈالی تھی۔ اس وقت سے اردو اکادمی دہلی کے ٹائپ رائٹنگ سیکشن کے انچارج جناب نجم السلام اپنے طلبہ کو اسی جملہ سے مشق کرواتے آرہے ہیں۔اسرار جامعی جب پہلی بار پٹنہ میں اس جملہ سے مشق کروارہے تھے، اس وقت بھی لوگوں نے اعتراض کیا تھا کہ یہ توآپ اپنے نام کی مشق کروارہے ہیںلیکن وہ ٹھہرے طنزو مزاح کے ایک ایسے شاعرجس کی برجستہ گوئی و حاضرجوابی مشہورہے۔بھلا ایسے موقع پروہ کب خاموش رہنے والے تھے،کہنے والوں سے کہا کہ آپ اپنے یا اپنے دادا جان کے نام سے کوئی جملہ بنادیں تو میں اسی کی مشق کراؤں۔لیکن المیہ یہی نہیں ہے کہ اردو پر حکمرانوں کی نہیں، غلاموں کی حکمرانی ہے،سانحہ تو یہ بھی ہے کہ ہمارے عہد کے بوعلی سینا کے ماتھے پر پسینہ تو کیا آتا ،ان کی آنکھیں بھی نہیں جھکتیں۔

اردوٹائپ رائٹریاکمپیوٹر سے ٹائپ کرنے کی مشق کافارمولہ
اسرار جامعی
ہرآدمی کی تحریر چونکہ واضح اور یکساں نہیں ہوتی،اس لیے پڑھنے لکھنے میں یکسانیت اور رفتار میں تیزی لانے کے لیے ایک امریکی سائنس داںکرسٹو فرائل شولز(Christo Friyl Sholes) نے۲۰- ۱۸۱۹ء میںٹائپ رائٹنگ مشین ایجاد کی ۔اس کے بعد مختلف سائنسداںاور متعدد کمپنیاں مختلف برانڈاور الگ الگ ناموں سے انگریزی ٹائپ رائٹر کوبہتر سے بہتر بناتے رہے۔ اس طرح مینول والیکٹرونک ٹائپ رائٹراور کمپیوٹر کی ایجاد ہوئی۔ ٹائپ رائٹر کمپنی اولی ویٹی(OLLIVITTTEE) نے محسوس کیا کہ ٹائپ رائٹنگ مشین کے لیے ایک ایسا مختصر ترین جملہ ہونا چاہیے جس میںانگریزی کے تمام حروف تہجی(Alphabets ) موجود ہوںتاکہ ایک ہی جملہ میں ٹائپ کرنے والے کی ہر انگلی حروف پر چلی جائے۔جب وہ خود ایسا نہ کر سکے تو اخبارات کے ذریعہ اعلان کیاکہ جو کوئی ایسا جملہ تخلیق کرے گا،ان میںسب سے اچھے کو پہلا،اس کے بعد والے کو دوسرا اورپھر تیسرا انعام دیا جائیگا۔مگر باوجود کوششوں کے صرف دو ہی افراد ایسے جملے بنا سکے۔کوئی تیسرا جملہ شاید آج تک ایجاد نہیںہوسکا۔ وہ دونوں جملے ہیں:
1.The quick brown fox jumps right over the lazy dog.

  1. pack my box with five dozen of liquor jars.
    یہی دونوںجملے اب تک ساری دنیا میںرائج ہیں اور ان میںبھی پہلا زیادہ مستعمل ہے۔انگریزی کی ٹائپنگ سیکھنے اور مشین کی مرمت کرنے والااسی جملہ کو یاد رکھتاہے۔اپنی رفتار کو تیز رکھنے کے لیے اسی سے مشق کرتا اورمشین یا کی بورڈ کا ٹیسٹ بھی اسی سے کرتا ہے ۔
    اردوٹائپ رائٹر کی ایجاد کا سہرا میر عثمان علی خاں نظام حیدرآباد کے سر ہے جنہوںنے جامعہ عثمانیہ کے کچھ طلبہ کووظیفہ دے کر انگلینڈ بھیجا تھا کہ وہ انگریزی ٹائپ رائٹر کی طرز پراردو ٹائپ رائٹر بنائیں۔اس طرح اردو ٹائپ رائٹر کی ایجاد عمل میں آئی ۔ ان طلبہ اورخود حضور نظام نے بھی کافی کوشش کی کہ انگریزی کی طرح اردو میں بھی کوئی مختصر جملہ ہوجس سے ٹائپ رائٹنگ سیکھنے والوں کو سہولت ہو۔ اسکے لیے انعامات کابھی اعلان کیا لیکن چونکہ اردو میں حروف تہجی زیادہ ہوتے ہیں اس لیے کوئی ایسا جملہ تخلیق نہ کر سکا۔
    یہ ۱۹۶۴ء کی بات ہے۔ہم حیدرآباد سے اردو ٹائپ رائٹر خرید کر پٹنہ لائے اوراپنے ادارہ اقبال اکیڈمی میںاردو ٹائپ رائٹنگ سکھانے کا نظم کیا۔ حیدرآبادمیں ہی لوگوں نے بتایا کہ انگریزی کی طرح اردو میں کوئی ایسا جملہ نہیں ہے جس کی مدد سے تمام حروف تہجی کا احاطہ کرکے ٹائپ سکھایا جا سکے۔اسی دن سے ہم اس کوشش میں لگ گئے تھے۔ہمارے پیش نظر یہ بات بھی تھی کہ انگریزی کی طرح یہ جملہ مہمل نہ ہو۔لہذا میرے لگاتار غور وفکر کے نتیجے میں یہ جملہ وجود میںآیا۔۱۹۷۹ء میںان طلبہ کو کم سے کم وقت میں ٹائپنگ سکھانے میں بھی اس مختصر ترین جملے یا فارمولے کا بہت بڑارول تھا جن میں سے ۱۷۶ کی تقرری حکومت بہار کے مختلف دفاتر میںہوئی تھی۔اسی جملہ کی مشق سے تین ماہ سے بھی کم مدت میںاتنے لوگوں نے اردو ٹائپنگ سیکھ لی اور مستقل سرکاری ملازم ہو گئے۔میں نے بہت کوشش کی کہ کوئی دوسرا جملہ بن جا ئے مگر کامیاب نہ ہو سکا۔حد تو یہ ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کی اردو ٹائپ رائٹنگ کی تمام کتابیںچھان ڈالیںمگر کسی میں بھی کوئی ایسا جملہ نہ ملا۔اس جملہ سے اردوٹائپ رائٹنگ سکھانے اور ٹیسٹ کرنے میںبہت مدد ملتی ہے،اس لیے اسے رائج کیا جائے اور بہتر کی تلاش جاری رکھی جائے۔
    اس جملہ میں(۱)سوائے ژ کے اردو کے تمام حروف تہجی موجود ہیں۔(۲)اس میںکل ۲۵ الفاظ ہیںجس میں۲۷ حروف(ب پ ت ث ج چ ح خ دڈذڑزس ش ص ض ط ظ ع غ ف ق ہ ھ ء)صرف ایک مرتبہ آئے ہیں۔(۳)جو حروف دو مرتبہ آئے ہیں، وہ جز اور کل دونوںہی صورتوں میں الگ الگ آئے ہیں۔(۴)کسی بھی لفظ کو نکال دیں توایک یا کئی حروف غائب ہو جاتے ہیں۔گویا کوئی بھی لفظ بھرتی کا نہیں ہے۔ (۵)انگریزی کے حروف تہجی صرف ۲۶ ہیںجبکہ اردو میں۳۸ حروف ہیں،اس کے باوجود انگریزی فارمولے میں آٹھ حروف دویا دو سے زیادہ بار آتے ہیں۔ا(۶)جملہ با معنی و مختصر ہے اور بہ آسانی یاد ہو جاتا ہے۔انگریزی کے جملہ کی طرح یہ جملہ مہمل نہیں ہے۔(۷)اس میں کل ۲۵ الفاظ ہیں اس لیے اس کو ایک منٹ میں ٹائپ کرنے والے کی رفتار۲۵ ہوجاتی ہے۔بار بار ٹائپ کرنے سے سیصحیح صحیح ٹائپ کرنا آجاتا ہے اورآہستہ آہستہ اسپیڈ خود ہی بڑھ جاتی ہے۔
    ٹائپ رائٹر یا کمپیوٹر پرٹائپ کرنا سیکھتے وقت ہر شخص کو چاہیے کہ(۱) وہ کی بورڈ کی نیچے سے اوپر والی قطارپر سلسلہ وار انگلیاں رکھے اور اللہ کا نام لے کر شروع کرے۔ (۲)دل و دماغ کو سکون میں رکھ کراسکرین یا کی بورڈ پر دیکھے بغیر ٹائپ کرے اور صرف میٹر پرنظر رکھے۔((۳)شروع میں بہت آہستہ آہستہ خوب دل و دماغ لگاکراس جملہ کوبار بار ٹائپ کرے۔ (۴)جو لفظ غلط ہو جائے ،دوبارہ ٹائپ کرنے میں اس کا خاص خیال رکھے۔ (۵)دھیان رکھے کہ فارمولے کا پورا جملہ صحیح صحیح ٹائپ ہو جائے۔ گھبراکر کم سے کم وقت میںجملہ کو ٹائپ کرنے کی کوشش ہر گز نہ کرے۔ (۶)یاد رکھیںکہ ٹائپ کرنا دماغ کا کام ہے جبکہ ہتھوڑے چلاناہاتھ کا کام ہے۔ (۷)آپ میٹر پر جو دیکھتے ہیں وہ آنکھ سے ہوکر دماغ کے راستے انگلیوں تک جاتا ہے اورانگلی حرکت کر کے مطلوبہ حرف پر چلی جاتی ہے جو اس نے میٹر پر دیکھا ہے یعنی انگلیوں میں آنکھ ہو جاتی ہے۔ (۸)کسی بھی فارمولے کا یہی کمال ہونا چاہیے کہ وہ انگلیوں کو فطری طور پر تمام حروف تہجی پر لے جائے اور انگلیاں جلد از جلدہر حرف پریکساں اور بلاتکلف جانے کی عادی ہو جائیں۔
    اردو ٹائپ رائٹنگ یا کمپیوٹر کمپوزنگ کی مشق کا یہ فارمولہ ہے: ’’اردو ٹائپنگ کوڈ کے الفاظ کی یہ تخلیق شاعر طنزو مزاح اسررا جامعی کی غضب کی ذہانت اور خلوص کی بڑی اچھی مثال ہے۔‘‘(۲۵الفاظ)
    بہ غور دیکھیںتو(۱)اس جملہ یا فارمولے میں اصل الفاظ صرف ۱۶ ہیں(اردو، ٹائپنگ، کوڈ، الفاظ، تخلیق، شاعر، طنز، مزاح، اسرار ، جامعی، غضب، ذہانت، خلوص، بڑی،اچھی، مثال)۔(۲) ۹حروف (کے ، کی ، و، اور،ہے ) ایسے ہیںجولفظوں کو ملانے کے کام آتے ہیں (۳) ان ۱۶ الفاظ میں کسی ایک لفظ کو بھی جملہ سے نکال دیںیا بدل دیں تو ایک یا کئی حروف تہجی جملہ سے غائب ہو جائیںگے اور(۴) اس جملہ میں زیادہ تر الفاظ صرف ایک مرتبہ آتے ہیں اور ایک یاکئی حروف کی نمائند گی کرتے ہیں۔ ذیل کے جدول کی مدد سے اس کو زیادہ بہتر طریقہ سے سمجھا جاسکتا ہے:
    (الف ) فارمولہ کے حروف اور ان کے الفاظ (ب)فارمولہ کے الفاظ اور ان کے حروف
مصنف کے بارے میں

احمد جاوید

احمد جاوید اردو کے ممتاز صحافی، مصنف، مترجم اور کالم نگار ہیں۔ تاریخ و تمدن پر گہری نظر اور ادب و صحافت میں اپنے منفرد اسلوب سے پہچانے جاتے ہیں۔

مزید