احمدجاوید
ایڈیٹر،ہندوستان ایکسپریس،نئی دہلی
۱۰۱۔مین روڈ،ذاکرنگر،نئی دہلی۔۲۵
بہار کی پرانی کانگریس حکومت کایہ دستور تھاکہ جب جب الیکشن کا موسم آتا،ریاست کے وزیراعلی اردو اخبارات کے مدیروں کوخصوصی دعوت نامہ بھیج کر بلاتے اورتفصیلی گفتگو کرنے کے بعدان سے کہتے کہ آپ لوگ اپنے اخباروں کے ذریعہ مسلمانوں کو سمجھائیںکہ وہ جن سنگھ(اس وقت بھارتیہ جنتا پارٹی کا یہی نام تھا)کے مقابلے کانگریس کو ہی اپناقیمتی ووٹ دے کرکامیاب بنائیں۔پھرہر اخبارکے مدیر کو حسب مراتب ایک موٹی رقم دی جاتی۔صرف غلام سرور(مرحوم)مدیر ’سنگم‘اس شرط کو قبول نہیںکرتے اس لیے وہ اس عنایت سے ہمیشہ ہی محروم رہے۔
وزیر اعلی شری کرشن سنہا کے زمانے سے چلی آرہی اس روایت کے دوسرے مرحلے میںکسی بڑے ہال میں ایک جلسہ منعقد کیاجاتاجس میںکانگریسی لیڈروںاوراردو اخبارات کے مدیروں کی دھواں دھار تقریریں ہوتیں۔جمہوریت اور اقلیتوں کو درپیش خطرات کا احساس جگایا جاتا،فرقہ پرستی سے لڑنے کاعزم دوہرایاجاتااور اپیل کی جاتی کہ مسلمان جن سنگھ کے مقابلے میں کانگریس کو ہی کامیاب بنائیںاور مسلمانوں کے ووٹوں سے کانگریس جیت بھی جاتی۔
اسی پس منظر میںاسرار جامعی کا یہ شعر بہت مشہور ہوا:
بک جاتاہے دو پیسے میںکردار صحافت اردو تری تقدیر خوش انجام نہیں ہے
۱۹۷۸ء میںالکشن کا وقت آیاتو ڈاکٹر جگن ناتھ مشرا نے بھی یہی طریقہ کار اپنایا۔ایمر جنسی کی ماری ہوئی کانگریس پھر سے کھڑی ہونے کی کوشش کررہی تھی ۔پٹنہ کے رابندربھون ہال میںڈاکٹر مشرا نے ایک بہت بڑا جلسہ کیا،جس میںکانگریسی لیڈروں ،مسلم دانشوروںاوراردو اخبارات کے مدیروں کے علاوہ عام مسلمانوں کوبھی فردا فردا مدعو کیا گیا تھا۔
جلسہ گاہ میںریاست کے سرکردہ سیاسی سماجی رہنمائوں،مسلم دانشوروںاور اخبارات کے مدیروں کا ایک جم غفیر تھا۔مقررین نے اپنی تقریروں میں یہ فیصلہ صادر کر دیاکہ موجودہ حالات میںمسلمانوں کو کانگریس اور صرف کانگریس کو ہی کامیاب بنانا ہے۔اپنی خوبصورت گفتگو اورشاندار خطابت کے لیے مشہور ڈاکٹر مشرا نے مسلمانوں کے سوجھ بوجھ کی تعریف کرتے ہوئے کانگریس کا ساتھ دینے کی اپیل کی اور ان کی شکایتوں کو پوری ایمانداری سے دور کرنے کاوعدہ کیا۔حاضرین میں جوش وخروش کی لہر دوڑ گئی،نعرے بھی لگ رہے تھے،تالیوں کی گڑگڑاہٹ بھی گونج رہی تھی۔ڈاکٹرمشرا اپنی مدلل اور اعدادوشمار سے مزین تقریر کے بعد بیٹھے تومجمع کے ایک کنارے آخری صف میںموجود معصوم وبے ضرر سا ایک شخص جس کی بے داغ سرمئی شیروانی ٹوپی لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کی بے پناہ صلاحیت رکھتی تھی،کھڑا ہوگیا۔
ڈاکٹر مشراعادت کے مطابق بڑی بے تکلفی سے اس کی جانب مخاطب ہوئے اورنام لے کر پوچھا ’آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں؟‘اوراس نے بلاتمہید یہ سوال داغ دیا’مسلمان کانگریس کا ساتھ تو دیںگے ہی لیکن کانگریس اس کو کیا دے گی؟‘مجمع میں سناٹا چھا گیا۔لیڈران بغلیںجھانکنے لگے۔پارٹی کے پرجوش کارکنان ایک دوسرے کا منھ دیکھ رہے تھے۔یہ غیر متوقع سوال داغنے والا کوئی اور نہیں،اردو کے مشہور شاعر طنزومزاح جناب اسرار جامعی تھے۔یاروں نے سمجھا تھاکہ شاعر ہیں،سننے سنانے کا چسکاہے۔کوئی تازہ نظم یا قطعات پیش کریںگے مگر یہاں تو جلسے کا رنگ ہی بدل چکا تھا۔
ڈاکٹر مشرا ایک ذہین لیڈر تھے،بے پناہ مردم شناس وحاضر جواب۔اس سے پہلے کہ خاموشی بوجھل بن جاتی ،مخاطب ہوئے’اسرارجامعی صاحب!آپ خود سماج کے ایک جانے مانے دانشور ہیں،مسائل کا ادراک رکھتے ہیں،آپ ہی کیوں نہیں بتاتے کہ کانگریس مسلمانوں کے لیے کیا کرے؟‘ پورا مجمع اسرار جامعی کی طرف دیکھ رہا تھا۔جامعی نے ٹھہرٹھہرکربڑے پر اعتماد لہجے میں کہا’اگر کانگریس واقعی مسلمانوں کو کچھ دینا چاہتی ہے تو اردو کو بہار کی سرکاری زبان بناکر دے سکتی ہے‘۔جلسہ گاہ تالیوں کی گڑگڑہٹ سے گونج اٹھا۔
یہ پارٹی کے اندر اٹھنے والی پہلی آواز تھی لیکن اتنی بروقت اور پرزور تھی کہ ان کے پاس کوئی چارہ نہیں رہ گیا تھا ۔وہ انکار یا ٹال مٹول سے کام لے کرمسلمانوں کو ناراض نہیں کر سکتے تھے۔ڈاکٹر مشرا نے وعدہ کر لیا۔تالیاں بج گئیں۔پھر اسرار جامعی نے یہ بھی کہا کہ یہ وعدہ پارٹی کے منشور میںشامل کرلیا جائے۔ ڈاکٹر مشرا کو اس کا بھی وعدہ کرنا پڑا۔اس کے بعد کی کہانی بظاہر ساری دنیا جانتی ہے کہ آزاد ہندوستان کی تاریخ میںپہلی بار کسی وزیر اعلی نے وہ انقلابی فیصلہ لیاجس کے لیے ڈاکٹرجگن ناتھ مشرامیراردواورمحسن اردوجیسے خطابات سے نوازے گئے۔بے شک اس دن رویندر بھون میں کانگریس کی قیادت کے سامنے رکھی گئی اس مانگ کاایک خاص پس منظر تھا جس کی تفصیلات میںجانے کا نہ یہ موقع ہے نہ یہاںاس کی گنجائش،صرف اتنا جان لیناکافی ہے کہ اس سے قبل کرپوری ٹھاکر کی جنتا پارٹی حکومت میں وزیر تعلیم غلام سرور (مرحوم)اقلیتی اسکولوں کی منظوری،مدارس کے اساتذہ وملازمین کی تنخواہوں کی ادایگی،مدرسہ بورڈ کی اسناد کو مساوی درجہ اورسہ لسانی فارمولہ کے تحت ریاست کے ہر اسکول میںاردو کی تعلیم کا انتظام یعنی ہر بچے کو ا س کی مادری زبان میںتعلیم جیسے بنیادی مسائل حل کراچکے تھے۔لیکن اس جدوجہد کی جو کہانی بہت کم لوگوں کومعلوم ہے وہ کانگریس کے اندر کی کہانی ہے۔
رابندربھون کے اس جلسے کے بعدمشہور کانگریسی رہنما شمائل نبی نے جو ڈاکٹر مشرا سے بہت قریب تھے،ان سے کہا کہ آپ نے وعدہ کرلیا ہے تواس کو پارٹی کے انتخابی منشور میں شامل کرا ہی لیںورنہ ریاست کے مسلمانوں پر اس کا بہت خراب اثر پڑے گا۔انہوں نے بہت کوشش کی اورڈاکٹر مشرا کو اس کی اہمیت باربار سمجھاتے رہے،یہاں تک کہ ڈاکٹرمشرا نے حالات وواقعات کی تفصیلات کے ساتھ پارٹی کی صدر اندرا گاندھی کے سامنے یہ مسئلہ پیش کیااور انہوں نے اسے بہار کے انتخابی منشور میںشامل کرنے کی اجازت دے دی مگر اس شرط کے ساتھ کہ بہار کے جن اضلاع میںمسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے وہیں اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دیا جائے گا۔
مسلمانوں نے کانگریس کو جی کھول کر ووٹ دیا اوروہ کامیاب بھی ہوگئی۔ڈاکٹرجگن ناتھ مشراوزیر اعلی بنے توجناب شمائل نبی نے جو ڈا کٹر مشرا کی کا بینہ میں وزیر بھی تھے، اسرار جامعی کے ساتھ وزیر اعلی کی رہائشگاہ پر جاکر ڈاکٹرمشراکو انتخابی منشورمیںدرج وعدہ یاد دلایا۔ ڈاکٹر مشرانے اسے کابینہ کی منظوری کے بعد بہار کے پند رہ اضلاع میں جہاں مسلمانوں کی آ بادی ز یادہ تھی اردوکو دوسری سر کاری زبان کادرجہ دلوادیا مگر اس میںبہار کا صدرمقام پٹنہ ضلع اور کئی دوسرے اضلاع جہاں مسلمانو ںکی قابل لحاظ آبادی ہے،شامل نہیںتھے۔
ڈاکٹر جگن ناتھ مشراکو حکو مت بہار کے اس جرأت مندانہ قدم کے لیے جہاںریاست اور ملک بھرکے انصاف پسند حلقوںمیںبے پناہ پذیرائی حاصل ہوئی(ایسی غیر معمولی پذیرائی کہ مجاہداردو غلام سرور(مرحوم )چڑکرکہاکرتے تھے ’نقلی مجنوں حلوہ کھائے اصلی مجنوں خون تھوکے‘اور بڑی حدتک ان کی یہ شکایت درست بھی تھی)وہیں ان کواس اردو نوازی کی قیمت بھی چکانی پڑی۔ کانگر یس کے اندر اور باہر ان کے خلا ف مورچے کھول دیئے گئے۔ یہ بغض وعداوت اس وقت غیض و غضب میں تبد یل ہو گئی جب ان کی قیادت میں ایک بار پھر کانگریس اقتدار میں آئی اور وہ پہلے سے زیادہ طاقت کے سا تھ وزیر اعلی بنے ۔بیرونی مخالفین توشایدان کاکچھ نہیںبگاڑسکتے تھے کیوں کہ ان کے ساتھ زبردست عوامی طاقت تھی لیکن کانگریس کی اندرونی سازشوںاورمرکزی قیادت کی نادانی کے نتیجے میںان کی دوسری میعادکے آخری تین سال میںچار وزیراعلی بدلے گئے۔ان ہی دنوں ستندر نراین سنہا بہار کے وزیر اعلی بنے توجناب ہارون رشید نے گورنمنٹ اردو لائبریری،پٹنہ کے میدان میںان کو ایک شانداراستقبالیہ دیااور اسرار جامعی سے فر مائش کی کہ وہ ستندربابو کی شان میں ایک استقبا لیہ نظم لکھیںاور ان کے سامنے پڑھیں ۔ گر چہ اسرار جامعی عام طورپر استقبالیہ نظم نہیں پڑھتے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ:
بندہ خوشامدوںکا ہر گز نہیں رہامیں سیکھے ہیں گر چہ میں نے آداب بندگی کے
کرنی پڑے خوشامدتوجان لے یہ دنیا مکھن بھی ہوں لگاتا توکاٹ کر چھری سے
لیکن وہ کوئی موقع خالی جانے نہیں دیتے،موقع کے استعمال کا ہنر کوئی ان سے سیکھے:
ادب میں یا سیاست میں جہاں بھی کج روی ہوگی جو دیکھیںگے وہ کہہ دیںگے،نہیں اس میں کمی ہوگی
ہماری آنکھ لڑجائے اگرتم سے بھی محفل میں تمہارا دل لگا ہوگا،ہماری دل لگی ہوگی
چونکہ اسرارجامعی کو اپنے مطلب کی بات کہنی تھی کہی اوروزیر اعلی کے سامنے پڑھی بھی، جس میں ان کی تعر یف کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر مشرانے اردو کو بہارکے پندرہ اضلاع میں دوسری سرکاری زبان کا در جہ دے کرمیراردوکاخطاب پایا ہے ۔آپ پورے بہار میں اردوکو سرکاری زبان کا درجہ دے کراردو والوں کادل جیت لیں یعنی چھوٹی لکیر کے مقا بل ایک بڑی لکیر کھینچ دیں ۔اس نظم کا ایک شعر اب بھی لوگوں کو یاد ہے:
ڈاکٹرمشرانے پایامیر اردو کا خطاب سب رفیق اردو کہیںگے آپ کو عالی جناب
ستندر نراین سنہانے اسی وقت سارے بہارمیں اردو کودوسری سرکاری ز بان کا درجہ دینے کا اعلان کردیااور کا بینہ سے بھی پاس کروادیا۔ یوںتوبہار میںاردوکو دوسری سرکاری زبان بنانے کا دعوی بہت لوگ کرتے ہیں اورکرتے رہیں گے ۔ مگریہ کوئی نری خودستائی نہیں جس حقیقت کا اظہار اسرار جا معی نے اپنے اعزازمیں دیئے گئے ایک استقبالیہ جلسے میں اپنے ایک قطعہ کے ذ ریعہ کیا ہے بلکہ اس قطعیت کے ساتھ یہ کہنے کاحق وہی رکھتے ہیںکہ:
سرکاری اک زبا ن ہے اردو بہار کی کیسے بنی ہے جان لیں یہ سا رے اردوداں
بے شک شما ئل نبی تھے میرے ہم نوا جس سے بنی بہار میں سر کاری یہ زباں
اردو کی اس عظیم خدمت کے لئے تاریخ ان محبا ن اردو کو کبھی فرا موش نہیں کر سکتی ۔بلاشبہ ایسے ہی بے لوث خادموں کے دم سے یہ زبا ن زندہ وتابندہ ہے۔
اردو زبان زندہ باد، محبان اردوپائندہ باد