گجرات میں انصاف پر ہندوتو کاپہرہ

Table of Contents

سوال صرف مودی کی خود سری کا نہیں،مسئلہ ملک کے آئین وقانون کی بے بسی کا ہے

یہ اپریل ۲۰۰۲ء کی بات ہے جب ملک کے وزیر اعظم نے تاریخ کے ہولناک ترین فسادات کی آگ میںسلگتے گجرات کا دورہ کیا تھا۔اس وقت تک ریاست کے طول وعرض میںبھڑکتے وحشت و بربریت کے شعلے بہ ظاہر خاموش ہو چکے تھے۔لیکن ان کی تباہ کاریوں کے مناظر اب بھی اتنے بھیانک تھے کہ ہندوستان کا وزیر اعظم اندر سے کانپ گیاتھا۔اس نے کہا تھا:’ہندوستان کے ماتھے پر اس کلنک کے ساتھ ہم دنیا کو کیا منھ دکھائیں گے‘۔گجرات کے مقتلوں سے گزرتے ہوئے وزیراعظم ہندنے جو دوسری بات کہی تھی ،وہ وزیر اعلی نریندر مودی کوراج دھرم نبھانے کی نصیحت تھی۔وہ دن ہے اور آج کا دن، دس سال کا عرصہ بیت گیا۔اس مدت میں پلوں کے نیچے سے نہ جانے کتنا پانی بہہ چکا ہے لیکن اگر کچھ نہیں بدلا تووہ ہے نریندر مودی اور مظلومین گجرات کی حالت زار۔دنیا کا ہر کلنک وقت کے ساتھ ہلکا پڑ جاتاہے لیکن ہندوستان کے ماتھے کا یہ کلنک ہر دن گہرا ہی ہوتاجارہا ہے۔ مودی نے اپنا راج دھرم کیسانبھایاوہ اب ان اعلی افسروں پر حکومت کے عتاب کی شکل میںسامنے آرہاہے جوقانون کی مدد کرنا چاہتے ہیںاور سپریم کورٹ کی مقرر کردہ خصوصی تفتیشی ٹیم(ایس آئی ٹی)یا ناناوتی کمیشن کے سامنے منھ کھول رہے ہیں۔
اس وقت ہندوستان کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپیئی تھے اور آج اس کرسی پر منموہن سنگھ ہیں۔دونوں میںاگر کوئی فرق ہے تووہ یہ ہے کہ وہ مودی کو راج دھرم نبھانے کی ذومعنی نصیحت ہی سہی کچھ کر تو سکتے تھے لیکن یہ تو وہ بھی نہیں کرسکتے۔ملک کے آئین و قانون کی بے بسی واجپیئی کے الفاظ میںبھی رورہی تھی ، منموہن کی خاموشی میں بھی چیخ رہی ہے۔ آئی پی ایس افسرسنجیو بھٹ یاراہل شرما کے خلاف حکومت گجرات کی انتقامی کارروائی کیا صرف مودی کی خودسری ہے یاملک کے آئین وقانون کی بے بسی؟وزیر داخلہ پی چدمبرم کے یہ الفاظ کہ’ اگر وہ افسران چاہیں تومرکز اس معاملے میں مداخلت کر سکتا ہے‘کیا اس بے بسی کا صرف ایک اور اشتہار نہیںہے؟کوئی ان سے پوچھے کہ کیا مرکز کو اس کی ان ذمہ داریوں کابھی کچھ احساس ہے جواس پر آئین کی دفعہ۳۵۵اور ۳۵۶عاید کرتی ہیں؟کیا ان اختیارات کا استعمال صرف سیاسی مقاصد کے لیے ہی کیا جاتا رہے گایاصحیح معنوں میںملک کے آئین وقانون کی حفاظت کے لیے بھی کبھی کیا جائے گا؟بہار میں نکسلیوں کے ہاتھوں ایک گائوں کے درجن بھر لوگ مارے جائیںتو آپ دفعہ ۳۵۶ لے آئیں،جھارکھنڈمیںممبران اسمبلی کی خریدوفروخت کے اندیشہ محض پر صدر راج لگادیں،کشمیر کو علاحدگی پسندوں کی بیخ کنی کے لیے فوج کے حوالے کردیں،شمال مشرق کے انتہا پسندوںکو ٹھکانے لگانے کے لیے مرکزی دستوں کوخصوصی اختیارات دے دئے جائیںلیکن گجرات میںہزاروں انسانوں کے بہیمانہ قتل اورآئین وقانون کی کھلی پامالی پر آپ کے ہاتھ شل ہوجائیں۔واجپیئی کے ذہن وضمیرپر بے شک ہندوتوکا پردہ پڑاتھا وہ ہندو راشٹرکے علمبردارتھے، ان سے کسی کو بھی یہ امید نہیںتھی کہ و ہ مودی کی حکومت کوبرخاست کرکے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے ماتھے کا کلنک دھو دیںگے لیکن آپ توجمہوریت اورسیکولرزم کی علمبرداری کے بلند بانگ دعویدارہیں۔ آپ ہی کہہ رہے ہیں کہ گجرات میںقانون کی دھجیاں اڑائی جائی رہی ہیں،آئین کی روح پامال کی جارہی ہے،سچ بولنے والے افسروں کو کچلا جارہاہے اور آپ ہی سے جب پوچھا جاتاہے کہ آپ کی سرکار کیا کر رہی ہے توبڑی آسانی سے کہہ دیتے ہیںکہ مرکزی سرکا رمداخلت کرسکتی ہے مگر اسکے لیے ان افسران کو مرکز کی مدد کرنی ہوگی ۔وہ وعدالتوں میںگواہی دے رہے ہیں،حلف نامے پیش کر رہے ہیں،سرکاری دستاویزات، ٹیلی فون کالزاورای میل پیغامات کے ریکارڈزکی شکل میں پختہ ثبوت مہیاکرا رہے ہیں۔بھلا آپ کو اور کون سی مدد چاہیے ،آئین وقانون کے اس باغی کے خلاف ابھی اور کتنے ثبوت در کارہیں، آخر آپ کس کو بے وقوف بناناچاہتے ہیں؟
کیا یہ جھوٹ ہے کہ گجرات میںآئین کی حکمرانی ختم ہو چکی ہے، عدالتیں مظلوموں کو انصاف دینے سے قاصر ہیں،بے گناہوں کوتوپھانسی چڑھایا جا رہا ہے لیکن مجرموں کو رہائی دی جارہی ہے،کیونکہ حکومت خود مجرموں کی پشت پناہی میں لگی ہوئی ہے؟کیا سنجیو بھٹ ، سری کمار،راہل شرما،رجنیش رائے جیسے ا علی افسران کے حلفیہ بیانات وانکشافات یہ ثابت نہیں کرتے کہ گجرات میں انصاف پر ہندوتو کا پہرہ ہے،سپریم کورٹ کی مقررکردہ ایس آئی ٹی کے اندر تک آرایس ایس کے ایجنٹ بیٹھے ہیں۔گجرات کا محکمہء قانون اور وزیر اعلی کا دفتران مجرموں کو بچانے میں لگا ہے جن کے خلاف عدالت عظمی نے ازسرنوتحقیقات کا حکم دیاتھا۔سابق وزیر اعظم واجپیئی نے جب مودی کوراج دھرم نبھانے کی نصیحت کی تھی توشاید ان کے بھی وہم وگمان میں نہ رہا ہوگاکہ مودی حکومت ایسا راج دھرم نبھائے گی۔ابھی واجپیئی کی سواری گجرات سے نکلی بھی نہ ہوگی کہ اس شخص کو پھانسی چڑھانے کی تیاری شروع کردی گئی تھی جس نے گودھرا میں وزیر اعظم سے گجرات کا درد بانٹنے کی گزارش کرنے کی جرأت کی تھی۔مولانا حسین عمرجی گودھرا کی ایک سب سے محترم شخصیت کانام تھا۔وہ گجرات میں۱۹۶۵ء،۱۹۶۹ء،۱۹۸۰ء،اور ۱۹۸۹ء کے فسادات کے دوران ضلع انتظامیہ کی امن کمیٹیوں کے رکن رہے تھے ۔ریاست میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے قیام،امن وشانتی کی بحالی اورمتأثرین کی راحت رسانی وباز آباد کاری میں بڑھ چڑھکرحصہ لیتے آئے تھے۔گودھرا کانڈ کے بعد بھی وہ ریلیف کیمپ چلارہے تھے جن میں ہزاروں خانماں برباد متأثرین فسادات مہینوں رکھا۔ اس دوران کانگریس کی صدر سونیاگاندھی،سابق وزیراعظم دیو گوڑااوراس وقت کے وزیر دفاع جارج فر نانڈیز جیسے رہنمائوں سے ملنے والے وفود کی قیادت کی ۔۴اپریل کو جب وزیر اعلی نریندر مودی کے ہمراہ وزیراعظم واجپیئی گودھرا گئے توعمرجی نے ایک وفد کے ساتھ ان سے بھی ملاقات کی اور میمورنڈم پیش کیالیکن انہوں نے نہ تو وزیر اعلی مودی سے ہاتھ ملایااورنہ ان کو میمورنڈم کی کاپی دی۔دنیا نے دیکھا کہ پھر کس طرح سابر متی ایکسپریس کو آگ لگانے کی منصوبہ بند سازش کی ایک نئی کہانی سامنے آئی اور مولوی عمرجی کو اس کا ماسٹر مائنڈ قرار دے کرسلاخوں کے پیچھے پہنچا دیا گیا۔چن چن کر گودھرا کے ذی حیثیت مسلمانوںکوپوٹا کے تحت گرفتارکرلیاگیا۔ وہ توکہیے کہ مودی کی پولس عدالت میں ان کا جرم ثابت نہ کرسکی ورنہ ان کو پھانسی چڑھادینے میں کون سی کسر اٹھارکھی گئی تھی۔دوسری طرف گجرات کے طول وعرض میںقتل عام کے وہ تمام مقدمات داخل دفتر کر دئے گیے جو دن کے اجالے میں انجام دیئے گئے تھے اور جن کو خود واجپیئی نے ہندوستان کے ماتھے کا کلنک کہا تھا۔شہری حقوق کی علمبردارتیستا شیتلواڑاوران کے ساتھی سماجی کارکنوںکی طویل قانونی جد وجہدکے بعدسپریم کورٹ نے قتل عام کے ۹ بڑے مقدمات کی از سر نو تحقیقات کا حکم دیااور اس کے لیے خصوصی تفتیشی ٹیم تشکیل دی۔مظلوموں کی آنکھوں میںامید کی کرنیںجاگیںلیکن پتہ چلا کہ اس میں بھی مودی کے ایجنٹ موجود ہیں،ایس آئی ٹی کی کی رپورٹیں بھی وزیر اعلی کے دفتر اور آرایس ایس کو پہنچائی جارہی ہیںتاکہ وہ ان کی روشنی میںملزمین کو بچانے کی تیاری کریں ۔سنجیو بھٹ نے اپنے حلف نامہ میں صرف زبانی دعوے نہیں کئے ہیںانہوں نے ہیک کردہ ای میل پیغامات کی ایک لمبی فہرست منسلک کی ہے جو بتاتی ہے کہ ایس آئی ٹی کی رپورٹیں ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل تشار مہتا کو بھیجی گئیں جنہوںنے انڈر سیکریٹری ہوم وجے بڈیکھا کو بھیجا اور بڈیکھا نے یہ رپورٹیں آر ایس ایس کے گرو گھنٹال سوامی ناتھن گرو مورتھی کو مہیا کرائیں۔گرو مورتی سے نریندر مودی بھی مشورے لے رہے تھے اور گلبرگ سوسائٹی قتل عام کے ملزمین کے وکیل مہیش جیٹھ ملانی بھی ہدایات حاحل کررہے تھے۔۲۷و۲۸مارچ کو ایس آئی ٹی نے مودی سے تفتیش کی تھی ۔۳۰ مارچ کو گرو مورتی نے ایک میمورنڈم وزیر اعلی کے دفتر کو بھیجا جوتشار مہتا نے ڈرافٹ کیا تھا۔یہ میمورنڈم لال کرشن اڈوانی،ارون جیٹلی ،سشماسوراج، اور نتن گڈکری نے وزیر اعظم اور صدرجمہوریہ کو پیش کیا جس میں تیستاشیتلواڑاور ان کی تنظیم کے خلاف تحقیقات کرانے کی مانگ کی گئی تھی۔ جن پرمظلوموں کو انصاف دلانے کی ذمہ داری تھی وہی تشارمہتا احسان جعفری کے قاتلوں کے جوابی حلف نامے ڈرافٹ کرکے گرو مورتی اور مہیش جیٹھ ملانی کو ای میل کررہے تھے۔
سنجیو بھٹ انٹلی جنس کے ایک اعلی افسر ہیں۔ای میل ہیک کرنا ان کی منصبی ذمہ داری تھی۔یہ درست ہے کہ وہ برسوں خاموش رہے لیکن اب جبکہ عدالت عظمی میں ثبوتوں کے ساتھ وہ اس حقیقت کوبے نقاب کر چکے ہیں کہ گجرات میں انصاف پر آرایس ایس کا پہرہ ہے،مودی کے اقتدار میں رہتے ہوئے مظلوموں کو انصاف ملناممکن نہیں توان کو اور ان تمام افسران کو علی الاعلان ہراساںکیاجارہا ہے جو مودی کے خلاف زبان کھول رہے ہیں۔ان کو معطل کیا جارہاہے ، ان کے خلاف مراعات شکنی کی کارروائی کی جارہی ہے،اور ان کوسنگین مقدمات میں پھنسایا جارہا ہے۔پہلے سری کمار کو ہراساں کیا گیا،پھر سنجیو بھٹ کا معاملہ سامنے آیا،اس کے بعد راہل شرما کونوٹس دے دیا گیاکہ انہوںنے حکومت کی اجازت کے بغیر ایس آئی ٹی کوٹیلی فون کے ریکارڈز کیوں دئے؟جس حکومت اور جس ریاست میں قانون کے پاسبانوںکی یہ حالت ہے،پولس اور انٹلیجنس کے اعلی افسران پناہ ڈھونڈ رہے ہیں اور اقتدار پر قابض عناصر مجرموں کو بچانے میں لگے ہوئے ہیںکیا اس حکومت کے ا قتدار میں رہنے کا جواز باقی ہے؟کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ آئین کے رکھوالے حرکت میںآئیں؟

مصنف کے بارے میں

احمد جاوید

احمد جاوید اردو کے ممتاز صحافی، مصنف، مترجم اور کالم نگار ہیں۔ تاریخ و تمدن پر گہری نظر اور ادب و صحافت میں اپنے منفرد اسلوب سے پہچانے جاتے ہیں۔

مزید