موضوع پرگفتگو سے پہلے یہ چند باتیں عرض کردینا ضروری معلوم ہوتی ہیں۔
۱۔یہ ناچیز صحافت کا عالم اورسکالر یا اسکی تحقیق و تنقید کا آدمی نہیں صرف ایک کارکن صحافی ہے۔اس لیے اس کی اس گفتگو میںبراہ کرم رسمی مقالے کی جز ئیات وخصوصیات نہ تلاش کریں۔ورنہ مایوسی ہوگی ۔ یہ صرف ایک صحافی کے مشاہدات وتجر بات اور اس کے منتشر مطالعے کانچوڑہیںجن کو کسی قدرترتیب کے ساتھ یہاں پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
۲۔کسی شعبے میں کام کرنااوراس کے مختلف پہلووں کا عالمانہ ادراک رکھنا الگ الگ باتیںہیں۔اور ہمارے یہاں تویہ دوری کچھ زیادہ ہی ہے۔کیوںکہ اردو میںسنجیدگی کے ساتھ اس پیشے میںآنیوالوں کی بڑی کمی رہی ہے۔میرے لیے یہ بڑی خوش قسمتی کی بات ہے کہ اس وقت ہمارے درمیان ایسے عالم اور محقق بھی موجود ہیںجو صحافت اور بالخصوص اردو صحافت پر گہری نظررکھتے ہیں،اس کی درس وتدریس سے وابستہ ہیںیاداد تحقیق وتنقید دے رہے ہیں۔صحافت کا وسیع عملی تجربہ رکھنے اور اس شعبے میں گرانقدرخدمات انجام دینے والے افراد بھی یہاں تشریف فرماہیں۔اور وہ بھی جو صحافت کے عالم اور سکالر ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا عملی تجربہ بھی رکھتے ہیں۔میںان سب کی موجودگی میںلب کشائی کی جسارت کررہا ہوں۔یہ میرے لیے آزمائش بھی ہے اوراعزاز بھی کہ آپ نے ان عالموںاور محققوں کی موجودگی میںایک ادنی صحافی کواس موضوع پر گفتگو کرنے کی اجاز ت دی بلکہ حکم فرمایا۔میں اس حوصلہ افزائی کے لیے خاص طور پرجناب اشفاق احمد عارفی کا شکر گزار ہوں۔
۳۔میرے نزدیک صحافت نہ تو ادب عالیہ ہے نہ منجملہ تخلیقی اصناف کسی سیارے کا ذیلی سیارہ یا ذیلی صنف۔اس کی اپنی الگ، مستقل اور متوازی حیثیت ہے اور اس کی اپنی اصناف ہیں۔
۴۔تنقیدوتبصرہ کے لیے تخلیقی ادب کی ہمسری کا دعوی باطل اچھالا گیا اور احساس کمتری کی تسکین کے لیے تخلیقی تنقید جیسی اصطلاح وضع کی گئی اسی طرح ادھر ایک عرصہ سے صحافتی نگارشات کے تعلق سے بھی کوشش کی جارہی ہے کہ جس طرح بھی ممکن ہو، ان پر ادب عالیہ کا کوئی لیبل چسپاں کیا جاسکے۔ہمیں چاہیے کہ اصحاب صحافت کو دی جانے والی اس خوراک کی توڑ کریں اور اس گمراہ کن رجحان پر قدغن لگائیںنہ کہ اسے فروغ دیں ورنہ صارفیت کے اس دور میںسستی اور غیرمعیاری چیزوں کی غیر معمولی پذیرائی کو اعلی اور معیاری اشیاء کی ناقدری بنتے دیر نہیںلگتی۔ہم لوگ معیار کی بات کرتے ہیںاورغیر معیاری چیزوںاورسستی شہرت ومقبولیت کے بھوکے عناصرکوسروں پر بٹھاتے ہیںتومنافقت کی بڑی مضحکہ خیز صورت پیدا ہوتی ہے۔جس پر ہنستے بنتی ہے نہ روتے بنتی ہے۔
۵۔میں آپ کے سامنے جو گفتگو پیش کرنے جارہا ہوں اس کے دو حصے ہیں۔پہلے حصے میںہم اداریہ اوراس کی تاریخ وروایت پراختصار سے روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے جبکہ دوسرے حصے میںاس کے فنی تقاضوںپر بات کریںگے۔ ان دونوں کے ذیل میںجہاںتک ممکن ہوسکے گا معاصررجحانات کاجائزہ لیتے جائیںگے۔ایک بار پھرعرض کر دیںکہ یہ ایک کارکن صحافی کے تجربات ومشاہدات اور اسکے منتشر مطالعے کے اجزاء ہیںاوربس۔
اداریہ نویسی کے فنی تقاضے
انیسویںصدی کے ایک عہد ساز صحافی نے آج سے تقریبا سواسوسال پہلے ،جب جدید صحافت اپنے پر پرزے نکال رہی تھی،اپنے ایک رفیق کار سے کہا تھا:
’’ینگ مین!یاد رکھوصحافی کا کام منصف سے کم نہیں۔عدالتیں صرف اورصرف شواہد کی بنیاد پرمقدمات کا فیصلہ کرتی ہیں۔ججوں کے فیصلے میں تعصب کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔جج کسی کو خواہ کسی قدر ناپسند کرتا ہو،اگر اس کے خلاف ٹھوس ثبوت نہیں پیش کیے گیے توفیصلہ اسی کے حق میں ہوگا ۔اسی طرح صحافی کو بھی اپنی پسند ناپسنداور تعصبات سے بالاتر ہوکر خبردینی ہوگی۔خواہ وہ بزنس مین ہو یا سیاست داں،جرنیل ہو یا کو ئی ٹریڈیونین لیڈر،کسی کے خلاف بھی بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے قلم نہیں اٹھانا چاہیے۔یہ صحافت کابنیادی اور سب سے اہم اصول ہے‘‘۔ہنری ڈیمارسٹ لائڈ(۱)
حال ہی میں امریکہ کی ایک عدالت میں کاپی رائٹ کا ایک مقدمہ پیش ہوا۔یہ مقدمہ لاس ویگاس کی ایک کمپنی رائٹ ھیون نے کیا تھا۔فریقین کے دلائل اورگواہوں (جو بیشترمصنفین وماہرین تھے )کے بیانات سننے کے بعد عدالت نے جو فیصلہ سنایا وہ یہ ہے کہ’’ اداریے تخلیق نہیں ہوتے‘‘۔جج فلپ پرو نے حکم دیاکہ ’لاس ویگاس ریویو جرنل‘اپنے انیس پیراگراف پر مشتمل اداریہ کوآزادانہ طور پر اپنے ویب سائٹ میں دو بارہ استعمال کرنے کا حق رکھتا ہے کیو ںکہ یہ تحریر معروف معنوں میںاداریہ نویس کی تخلیق نہیںہے۔(نیشنل کانفرنس آف ایڈیٹوریل رائٹرز،امریکہ)(۲)
۱۰ جولائی۲۰۱۱ء کوبرطانیہ کے ایک کثیر الاشاعت اخبار’ نیوز آف دی ورلڈ‘ کو بند کر دیا گیا۔تقریبا تیس لاکھ تعداداشاعت والے اس اخبارنے اپنی آخری اشاعت میںایک پورے صفحہ پر نشتمل اداریہ شائع کیا جس میں اپنے قارئین سے غیر اخلاقی صحافتی طریقے اختیار کرنے پر معذرت کی۔اس کے صفحہ اول پر جلی حروف میں سرخی تھی:تھینک یو اینڈ گڈبائی۔ شکریہ اورالوداع کے ان الفاظ کے ساتھ ایک ۱۶۸سال پرانے اخبار کی کہانی تمام ہو گئی۔(۳)
جدیدصحافت(modern journalism) کی تاریخ کے یہ تین واقعات جن نکات کی طرف ہماری رہنمائی کرتے ہیںوہ ہیں:
(۱) صحافت ایک انتہائی ذمہ دارانہ پیشہ ہے۔صحافی کسی جج یا منصف سے کم ذمہ دار نہیں ہوتاجس کی ایک جنبش قلم کسی کو موت کے پھندے پر لٹکادیتی ہے یا زندگی بخش دیتی ہے۔
(۲)
وہ محض اپنی پسند ناپسند کی بنا پر کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا۔اسکے اخذ کردہ نتائج کی بنیاد ٹھوس دلائل اور پختہ شواہدپر ہونی چاہیے۔
(۳)اس کا اسلوب نگارش بھی حسب حال ،منطقی اوراستدلالی ہونا چاہیے لیکن اگر وہ بغیر کسی ٹھوس جواز کے کوئی دعوی کرتا ہے،مفروضات پر کہانی کھڑی کرتاہے یا صرف لفاظی سے کام لیتا ہے تووہ اپنے منصب سے گر جاتاہے۔
(۴)اسی طرح صحافت میںغیر اخلاقی طور طریقوں کے استعمال کی کو گنجائش نہیںکیوں کہ اس کی اصل پونجی اس کی ساکھ اور اس پر قارئین کا اعتماد ہے(زندگی کے دوسرے شعبوںمیں یہ باتیں اخلاقی ہیںلیکن صحافت میں یہ اس کے فنی تقاضے ہیں)اور
(۵)اداریے تخلیقی نہیں ہوتے۔ یہ فرد کی نہیں ادارے کی آواز ہوتے ہیں۔
یہ محض اتفاق ہے کہ جس وقت ہم اس پرغور کر رہے ہیںکہ اداریہ نویسی کے فنی تقاضے کیا ہیں’نیوز آف دی ورلڈ ‘ کا افسوسناک واقعہ پیش آچکا ہے ۔ساکھ گئی تو ایک ۱۶۸ سال کی سر بفلک عمارت گھڑی بھر میں زمین پر آگئی،اخلاقی دیوالیہ پن کا بوجھ یہ عمارت(صحافت)برداشت نہیںکرسکتی۔اور ساکھ صرف آپ کی باتوں کی صداقت اور معلومات کے حصول کے طورطریقوںمیں ہی نہیں ہوتی، اس کی طرز پیشکش میں بھی ہوتی ہے، اسلوب نگارش،طرز بیان،زبان کے معیار،الفاظ کے انتخاب،جملوں کی
ساخت،حتی کہ ان کے بین السطورمیں بھی ہوتی ہے ۔
صحافت چاہے جس قسم کی بھی ہو،بنیادی طور پر اس کی ذمہ داری اپنے معاشرے کے افراد کوبا خبر رکھنے کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیم وتفریح ہے۔وہ ہماری ثقافتی وراثتیںایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل کرنے کا فریضہ انجام دیتی ہے۔اس لحاظ سے یہ اطلاعات و معلومات یا خبروں کی تجارت بھی ہے اورآپ میںایک ادارہ بھی ۔ جس دن کسی اخبار،رسالہ ، جریدہ یا ابلاغ عامہ کے کسی اورذریعہ کا قیام عمل میںآتاہے،چاہے وہ کسی کی ذاتی ملکیت ہویااس کا کل عملہ فرد واحدہی کیوں نہ ہو،ادارہ وجود میں آجاتاہے ۔ایڈیٹر یا مدیر فرد نہیں ادارہ ہوتا ہے،یہ تصور وقت کے ساتھ کمزور سے کمزور تر ہوتا چلا گیا ہے اور ہمارے یہاں تو اوربھی زیادہ جس کا صحیح اندازہ اداریوں سے ہی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کل کیا ہوتے تھے اور آ ج کیا ہوتے ہیں۔آج اداریہ اخباروں کا سب سے کم پڑھاجانے والا حصہ ہے کیوں کہ اس کے بنیادی تصور،اعلی روایات اورفنی تقاضوںکو بھلادیا گیا ہے۔اس صورت حال کادوسرا پہلو یہ ہے کہ کبھی اداریہ اپنی مخصوص اور محدود جگہ لیتا تھالیکن اب یہ اتنا پھیل چکا ہے کہ یہ بتانا مشکل ہے کہ یہ کہاں
کہاںہے یا کہاںنہیںہے۔
اداریہ کسی بھی موضوع پر ادارے کی آواز(corporate voice)یااس کاموقف(position of the mediaorgenization on issue)ہوتا ہے۔بلفظ دیگر یہ ایڈیٹریا ناشر کا وہ بیان ہے جو خبروں کے بین السطور کی تفہیم یا قارئین کی رہنمائی کے لیے ضبط تحریر میںلایاجاتاہے۔یعنی یہ وہ تبصرہ یابحث ہے جومخصوص پالیسی،عمل یا آئیڈیا کی تائیدمیں تحریر کی جاتی ہے۔ہوف مین کے الفاظ میں:
statement of opinion from an editor or publisher about you and your business,media coverage generated by news staff.(4)
ڈاکٹر شفیق جالندھری کے مطابق:
’’اداریہ کو کسی جریدے کی روح اور پالیسی کا عکاس سمجھا جاتاہے۔اس کے انگریزی مرادفات ایڈیٹوریل،لیڈنگ آرٹکل یا لیڈر ہیں۔یہ ایک لمبا مضمون ہوتا ہے یا اسکے تحت
چھوٹے بڑے ایک سے زائدمضامین بھی شامل ہوتے ہیں‘‘۔(۵)
گویا اداریہ وہ تحریر ہے جس میں مدیر یاناشرقارئین کو
(ا)باخبر کرنے یاتشریح و توضیح
(ب)سمجھانے یا قائل کرنے
(ج) کسی بات پر اندر سے ابھارنے کی کوشش کرتا ہے۔
سپنسر
(۶) کے الفاظ میں’’حقائق یارائے کی یہ تائید یا وکالت ٹھوس،مختصر،منطقی اور ایسی خوشگوارہونی چاہیے کہ اس اہم اور خاص خبر کی توضیح یا تفریح سے ایک اوسط قاری پربھی اس کی اہمیت واضح ہو جائے‘‘۔
(۷)
اداریہ نویسی کی ابتدأ۱۸۳۰ء کے عشرے میں ہوئی۔یہی زمانہ تھا جب ایڈیٹر کی رائے پر مبنی مخصوص تحریر کے لیے لفظ اداریہ یا ایڈیٹوریل کا استعمال شروع ہوا۔لیکن جو اہمیت اسے اب حاصل ہے اس کی ابتدابیسویں صدی کے آغاز میںہوئی جب دنیا بھر میںاخبارات نے اداریے اور مدیر کے نام خطوط کے لیے علاحدہ صفحہ مختص کیا۔جہاںتک اردو صحافت کا تعلق ہے تواس کی ابتدأ۱۸۲۲ء میں ’جام جہاں نما ‘سے ہوئی اور۵۰۔۱۸۴۰ء کے عشرے تک اردو کے قلمی اور مطبوعہ اخبارات اپنے وجود کا احساس دلا چکے تھے لیکن ابھی تک اخبارات میںاداریے نہیں ہوتے تھے۔ اخباروں کے بارے میں۱۸۵۲ء کی ایک سرکاری رپورٹ میں’ دہلی اردو اخبار‘ کے سلسلے میں درج ہے کہ’’ اس میںخبروںکے علاوہ کچھ ہوتاہی نہیں‘‘۔دراصل ’’اس زمانے میںاداریہ لکھنے کا رواج ہی نہیں تھا ۔بس خبروںکے اندر یاآخر میںحسب موقع تبصرہ کردیا جاتا تھا۔‘‘(۸)
ہندوستان میں اداریہ نویسی کی باضابطہ ابتداانیسویں صدی کے اواخر میںہوئی لیکن ہوئی تو اس روایت نے مڑ کر پیچھے نہیں دیکھا ۔اردو کے ایڈیٹروںنے قلم سے شمشیر کا کام لیا۔سرسید احمدخاں،مولاناشبلی نعمانی،مولانا حسرت موہانی،مولاناظفر علی خاں، مولانامحمد علی جوہر، مولاناابوالکلام آزاد،شورش کاشمیری، چراغ حسن حسرت اورمعاصرین کے اداریوں کے ذکر کے بغیرہندوستان کی تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی، متاخرین میںحیات اللہ انصاری، مہدی نظمی، عثمان فارقلیط، محمدمسلم ، ظ انصاری، عبدالباقی ، ناز انصاری،غلام سرور،سلامت علی مہدی،پروانہ ردولوی ،عشرت علی صدیقی وغیرہ کے اداریے بھی اردو کا سرمایہ افتخار ہیں۔کچھ اداریے تو ادبی شاہکار کادرجہ رکھتے ہیں اور آج بھی بعض اخباروں میںاچھے اداریے لکھے جارہے ہیںلیکن اردو میں اداریہ نویسی کی روایت کا مطالعہ دو منتہائوں کاسفر ہے ۔ہماری صحافت بیک وقت بڑے عالم فاضل اورجہل مرکب قسم کے لوگوں کی جولانگاہ رہی ہے۔اس واقعہ کا دوسراپہلو یہ ہے کہ یہاں ہردورمیںادارے کا تصورہی بہت کمزور رہاہے۔ کبھی اس کو خاطرخواہ فروغ حاصل نہیں ہوا۔سب کچھ شخصی رہاہے۔ان میں سے ہر آفتاب کی دھوپ ان کے ساتھ ہی رخصت ہوگئی۔وہ اداریے بھی اکثروبیشتر شخصی ہیں ،ان کالب ولہجہ تک ذاتی اور انفرادی ہے۔ہم ان اداریوں کی بات نہیں کر رہے ہیںجو اداریے کے علاوہ سب کچھ ہوتے ہیں۔یہ ان اداریوں کا ذکر ہے جن میںاداریہ کی جملہ خصوصیات کے ساتھ ساتھ شخصیت کی شان بھی
جلوہ ساماںہے۔ وہ شخصیتیں بجائے خودادارہ کا درجہ رکھتی تھیںیا پھر ادارہ ان کی شخصیت کے سامنے دب گیا تھا۔
اداریہ دراصل ہر قسم کی صحافتی تحریرکا میلٹنگ پوٹ(melting pot) ہے۔اداریہ میںجریدے کی نوعیت کے لحاظ سے تحقیقی ، تنقیدی، تفہیمی، ہرقسم کی نرم وگرم نگارشات جگہ پالیتی ہیںاور اس میں کوئی برائی بھی نہیں ہے(اوریہی آسانی اس کی سب سے بڑی کمزوری بھی ہے)۔اس کے مواداور اجزادوسری صحافتی نگارشات سے مختلف نہیںہوتے،صرف اس کا اسلوب اور لب ولہجہ اسے دوسری صحافتی نگارشات سے مختلف ومنفرد بناتاہے۔جن دوسری نگارشات میںصحافی اپنی آرأپیش کرتا ہے مثلا مضمون، تبصرہ، تجزیہ اورکالم اس کا سہرا یاذمہ داری کسی فرد یا مشترکہ طورپرافرادکے سرجاتی ہے جب کہ اداریہ کا سہرا ایک اخباریا جریدہ کے سربہ حیثیت ادارہ ہوتا ہے ۔ اسی
لئے اداریہ میں بجا ئے کسی کے نام یا میںکے متکلم کے لئے ہم یا پھر اخبارکانام استعمال ہو تا ہے ۔
جب اداریہ کادوسری اصناف ادب کی طرح کوئی مقررہ فارم نہیںہے۔ یہ نثریا نظم کسی بھی فارم میں ہوسکتاہے۔ اس میلٹنگ پو ٹ میںہر قسم کی صحافتی تحر یر کھپ سکتی ہے۔ بشرطیکہ اسے موقع ومحل کے لحاظ سے خوبصورتی اور ہنرمندی کے ساتھ استعمال کیاجائے اور اداریہ کے موضوعات بھی طے نہیں ہیں،یہ مدیرکی صوابدیداور اس کے قا رئین کی ضر ورت اور ذوق پرمنحصرہے توپھرظاہرہے کہ مسئلہ موضوعاتی (subjective)ہے نہ کہ معروضی(objectiev)۔
اداریہ بے شک صحافت کی دوسری اصنا ف کی طرح ایک صنف ہے اور اداریہ نویسی ایک فن لیکن مدیر کی ذمہ دار یوںکی طرح اس فن کے تقا ضے بھی گوناگوںاور متنوع ہیں۔ آپ چاہے کسی خاص میدان کے ما ہراور اسکالر نہ ہوں لیکن اس پچ پر ٹکے رہنے کے لئے ہر میدان کا کھلا ڑی ہو نا ضرو ری ہے۔اور فی ز مانہ یہ آسان نہیںاسی لئے اب
اکثر بڑے اخباروںمیںاداریہ نویسی کے لئے صحافیوں کا بورڈ ہو تا ہے ۔
ہم یہاں چند نکات پربالترتیب روشنی ڈالنے کی کو شش کر رہے ہیںتا کہ یہ گفتگو مزید واضح ہو جائے:
۱۔اداریہ نویس کے لیے پہلا مرحلہ موضوع کے انتخاب کاہوتاہے۔اس وقت یہ بنیادی سوال سامنے ہونا چاہیے کہ آپ اس موضوع پر آج اور اسی وقت کیوں قلم اٹھارہے ہیں؟قارئین بنیادی طور پر خریدار ہیں، وہ نہ تو آپ کے شاگرد ہیںاور نہ ارادت مندجن کو آ پ اپنی مرضی سے جب اور جو چاہیںپڑھاسکتے ہیں، اس کے بر عکس قاری کو آ پ کی ہر تحریر کاٹھوس اور واضح جواز چاہیے۔ صحافتی نقطہ نظر سے انسان ایک ایساجانور ہے جو وجہ ڈھونڈتاہے( man is a reason seeking animal )اور خبروں کے سارے کاروبارکامحورانسان کی یہی نفسیات ہے۔لیکن یہ مرحلہ بے حد نازک ہوتاہے۔ اس پل صراط سے کامیابی سے گذرجانا جوبال سے باریک ہے،اداریہ نویس کی اصل آزمائش ہوتی ہے۔اگر قاری کو یہ محسوس ہو گیا کہ آپ اپنی تحریر یا تقریر کا جواز پیش کررہے ہیںتو پھر اس کے ذہن میں یہ شک سر ابھارے گا کہ آخر آپ جواز کیوںپیش کر رہے ہیںاور یہی شک صحافت کی ناکامی ہے۔
۲۔اداریہ لکھتے وقت یہ خیال رکھنا لازمی ہے کہ ہم ایک ادارے کی حیثیت سے بات کررہے ہیںنہ کہ ذاتی اور انفرادی حیثیت میں۔اداریہ کا ذاتی اور انفرادی لب و لہجہ یا اس کا ذاتی استعمال اس کو محدود اور یک طرفہ بنادیتا ہے جبکہ اداریہ میںبہرحال یہ تأثرقائم رہناچاہیے کہ یہ ایک آرگنائزیشن کی آواز ہے جس میں قارئین بھی شامل ہیں۔
۳۔زبان آسان ، سلیس اور عام فہم ہونی چاہیے۔اسکامقصدکسی کومرعوب کرنا نہیںبلکہ کنونس اور قائل کرناہوتاہے۔ آپ کو قارئین کی ذہنی سطح اور معیارو استعداد کونگاہ میں
رکھ کرگفتگوکرنی ہوگی۔
۴۔موضوع پر آپ کا کنسپٹ بالکل واضح ہونا چاہیے۔آپ جوکچھ کہنا چاہتے ہیںبغیر کسی الجھن کے کہہ سکیں۔
۵۔جس موضوع سے لوگوں کی دلچسپی ہو اسی پرقلم اٹھائیں۔
۶۔اداریہ کاموضوع،مواد،زبان اور اسلوب نگارش کمزور نہ ہو۔
۷۔کسی اخبار یا جریدے کی کامیابی اس میں ہے کہ اس کا ہر اداریہ لہجہ اورمواددونوں اعتبار سے اوریجنل ہو۔کسی دوسرے اخبارکے لب ولہجہ یا مواد کی نقل نہ ہو ۔کسی اداریے میں یہ جھلک نظر آگئی تو پھر اصل پونجی آ پ کے ہاتھ سے گئی جس کا نام قارئین کا اعتمادہے جو بعض اوقات اعتقاد کی صورت اختیار کر جاتاہے اور ٹوٹتاہے تونفرت اورغصے کی شکل میںسامنے آتا ہے۔
۸۔اداریہ کا موادخوب تحقیقی( well researched)ہونا چاہیے۔حقائق اوردعووںکوباربارجانچ لینااورخوب چھان پھٹک کرپیش کرنا لازمی ہے۔
۹۔اداریہ ٹھوس حقائق پر مبنی ہونہ کہ مفروضات پر۔نری تقریر یاوعظ نہ ہو۔ضرورت کے مطابق اعدادوشمار سے مزین ہو لیکن اعدادوشمار کی کھتونی نہ ہو۔فکرانگیزہو،فکری انتشارمیںمبتلاکرنے والانہ ہو۔
۱۰۔کیفیت وکمیت ہر دواعتبارسے اداریہ کواخبار کا شاہکار(ماسٹرپیس)ہوناچاہیے۔
اور یہ تب ہی ممکن ہے جب اداریہ نویس یا مجلس ادارت میںیہ چند خوبیاں پائی جائیں:
(۱)دانشورانہ سنجیدگی(۲)تجزیہ کارانہ ذہن(۳)زبان وبیان پرقدرت(۴)موضوع کی تفصیلات وجزئیات سے آگاہی(۵)قارئین کی دلچسپی ، ان کے ذہن وفکر کی سطح اور انکی نفسیات کاعلم (۶) پیشہ وارانہ مہارت (۷)منطقی استدلال (۸)تحقیقی مزاج (۹)خبروں پر گہری نظر (۱۰)مضبوط قوت ارادی اور (۱۱)تیز قوت فیصلہ۔
ڈاکٹربی این آہو جہ نے لکھا ہے:
He must be a all rounder intelectual.
(ا سے ایک ہمہ داں دانشورہونا چاہیے)(۹)
وہ اس کے اتنے جرأتمندہونے پر بھی زور دیتے ہیں’’جوبوقت ضرورت ہاں یانہ کہنے کی پوری ہمت رکھتاہو‘‘۔(۱۰)
پروفیسر مسکین علی حجازی نے اپنے ایک مضمون میںمدیر کی چندخصوصیات کا ذکرکیاہے جن میںکچھ یہ ہیں:
۱۔مسلسل غوروفکرکی صلاحیت ۲۔رہنمائی کاجذبہ ۳۔مختلف اقوام، ممالک، اور شخصیات کے تہذیبی، ثقافتی، جغرافیائی، سیاسی اور اخلاقی پس منظر سے بخوبی واقفیت ۴۔انسانی ہمدردی اور فلاح وبہبود کے جذ بہ سے سرشار ۵۔دلکش اسلوب نگارش پر دسترس (۱۱)
یہاں فن صحافت کے جن رموزشناسوں کا حوالہ دیاگیا،پروفیسرسپنسر،ڈاکٹرآہوجااور پروفیسرحجازی تینوں نے قارئین کی نفسیات ،ان کے ذہن و فکر کی سطح اور دلچسپی پر گرفت کو اداریہ نویس کی کامیابی کی کلید قرار دیا ہے۔آ پ کے مطلوبہ قارئین(Target readership) کا طبقہ کوئی بھی ہوسکتاہے،یہ آپ کو خودطے کرناہے اور اس طبقہ کی ضرورت، دلچسپی، ذوق اورمعیارکے لحاظ سے آپ کو اپنامعیارطے کرنا ہے۔ مثال کے طورپرایک درزی کسی عام جگہ کپڑے سیتاہے،دوسرا کسی بڑے ٹیلرنگ ہائوس میں کام کرتا ہے اورتیسراکسی بوتیک یا فیشن سینٹر میں داد ہنر دے رہاہے اورڈیزائنرکہلاتاہے۔سب کے اپنے اپنے گاہک اورمعیارہیں۔ ان کی کامیابی یہ ہے کہ وہ اپنے معیار اورگاہکوں کے ذوق اور ان کی مانگ میں خوش اسلوبی، اپنائیت، اورایمانداری سے تال میل قائم کریں،وہ اپنے معیار اورقدردانوںکے ذوق کسی سے بھی سمجھوتہ نہیں کرسکتے۔ہم نے یہاں درزی کی مثال یوں ہی نہیںدی ہے۔دراصل صحافت بھی ایک صنعت اورکاریگری (craftmanship)ہے تخلیق یاایجاد(creation)ہرگز نہیں۔آپ کو جوکپڑے دستیاب ہیں،اسی سے ملبوسات تیار کریں،دستیاب موادیامعلوم حقائق سے ہی آپ کو کام لیناہے ،جتنی ایمانداری ایک درزی کے لیے اس کے کام میں لازمی ہے اتنی ہی ایمانداری کا تقاضہ صحافت بھی کرتی ہے۔آج کے اس دور مادیت میں کوئی آپ سے اس ایثار کا تقاضہ نہیں کر سکتاجو ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔
یادرکھیے’’ادب کسی کارخانے کا مال یا کسی کاریگر کی اختراع ہرگز نہیں،ایک خالص تخلیقی عمل کے نتیجے میں جو چیزوجود میںآتی ہے، اچھی بری ہوسکتی ہے لیکن پسند ناپسند،ضرورت ، مانگ اور قوت خرید کے اصول یہاںکام نہیںکرتے۔ادیب اور قاری کا رشتہ اس سے بلندہوتا ہے‘‘(۱۲)لیکن صحافت اور اظہاروابلاغ کے دوسرے وسیلے اپنے اندر ادب کی دوسری خصوصیات رکھتے ہوئے بازارکے اصولوںپرکام کرتے ہیںاور ان دونوں میں توازن قائم کرناہی فن صحافت ہے۔
’نیوز آف دی ورلڈ ‘کی تازہ مثال ہمارے سامنے ہے۔اس کی اشاعت۱۸۴۳ء میںشروع ہوئی تھی۔یہ ملک کے محنت کش طبقات کا پسندیدہ اخبار تھا۔آسان زبان،ہلکے پھلکے مضامین،مزیدار قصے،قہقہے،پھلجھڑیاںاور چٹکلے،نہ مشکل مسائل نہ دقیق فلسفے،اپنے اسی طرز صحافت کے لیے یہ عوام میں مقبول تھا۔۱۸۹۱ء میںبرطانیہ کی ایک بڑی تجارتی فرم پاپولر پریس نے اسے لاکھوں پونڈمیں خریدا۔اس وقت بی بی سی کابجٹ اسکی قیمت کے دسویں حصے سے بھی کم تھا۔ایک وقت آیا جب جرمنی اوراس کے مدد گاروں کیخلاف مہم چلانے میںحکومت برطانیہ نے بھی اس کی مدد لی۔پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے دوران اوراس کے بعد بھی دنیا بھر کے لیڈروں کی شبیہ مسخ کرنے میں اس نے بڑارول اداکیا۔۱۹۵۰ء تک اس کی اشاعت ۹۰لاکھ کو تجاوز کرگئی تھی۔۱۹۵۹ء میں اسے روپرٹ مردوخ (۱۳)نے خریدا۔اس نے سنسنی خیزی،اشتعال انگیزی،اور مفروضات کی گرم بازاری کی تمام حدیںتوڑ دیں۔نظریہ دیاکہ اب نیوزنہیں ویوز کازمانہ ہے۔پہلے اخبارات زور دیتے تھے کہ رپورٹنگ صرف خبر کی ہونی چاہیے تاکہ قاری یاناظرین ازخود اپنی رائے قائم کریں۔مردوخ نے یہ رجحان بدل دیا۔یہ اداریہ(ایڈیٹر یاناشر کی رائے یاپالیسی )کاپھیلائو تھا جو پھیلتے پھیلتے کینسر کی طرح پورے جسم میں پھیل گیاجس کی موت یقینی تھی اورآج ہم اس کا انجام دیکھ رہے ہیں۔ غیر اخلاقی طور طریقوں کے استعمال کا انکشاف تو اس کی آخری ہچکی تھی جس نے اس کی رہی سہی جان (ساکھ) بھی نکال دی۔صحافت اور سب کچھ برداشت کر سکتی ہے اخلاقی دیوالیہ پن برداشت نہیںکرسکتی۔ اداریہ اگر جریدے یا اخبار کا مغز ہوتا ہے تواس کی روح وہ اخلاقی جرأت ہے جو آپ کے قلم پر بولتی ہے۔
احمد جاوید
101‘پہلی منزل ‘ مین روڈ‘ ذاکر نگر‘نئی دہلی110025-
+91 9818844546 +9111 26982457
ای میل:[email protected]
حواشی
(۱) ہنری ڈیمارسٹ لائڈ(یکم مئی۱۸۴۷ء۔۲۸ستمبر۱۹۰۳ء) کا شمارتحقیقاتی صحافت کے بانیوں میں ہوتاہے۔اس نے ۱۸۷۲ء سے۱۸۸۵ء تک ’شکاگو ٹربیون‘کے لیے خدمات انجام دیں۔اسے ۱۸۷۵ء میں اس اخبار کے چیف ایڈیٹوریل رائٹر کی حیثیت حاصل ہوگئی تھی۔اس نے ’اطلانتک ‘ میں امریکی ارب پتی جان راک فیلر کے سٹنڈر آئل ٹرسٹ کے خلاف سلسلہ وارتحقیقاتی رپورٹ (مارچ ۱۸۸۱ء)لکھ کرامریکہ بھر میںتہلکہ مچا دیا تھاجو بعد میں زیادہ بہتر انداز میںwealth against commanwealth’ویلتھ اگینسٹ کامن ویلتھ ‘(۱۸۹۴ء)کے نام سے کتابی صورت میں شایع ہوئی۔لائڈ نے تحقیقاتی رپورٹوں ،تجزیوںاوراداریوںکا جو ٹرینڈشروع کیااس نے بعد میں مستقل حیثیت اختیار کرلی اورآج دنیا بھر میںاسی طرز صحافت کا دور ہے۔
(۲)http://www.firstamendmentcenter.org/in-judge%e2%80%99-(بحوالہ نیشنل کانفرنس آف ایڈیٹوریل رائٹرwww.ncew.org /بدھ ۲۲جون۲۰۱۱ء کو پوسٹ کیاگیا۔
(۳)۲۰۰۷ء میں برطانیہ میں ایک بڑا فون اسکینڈل سامنے آیا۔نیوز آف دی ورلڈ کے رپوٹروں نے ہزاروں اہم اور نامور لوگوںکے فون ہیک کر کے ان میں موجود اطلاعات چوری کرلیں۔وہ خبریں بعد میں اخبار میںشایع ہوئیں۔الزام ثابت ہونے پر دو صحافیوں کوچند مہینوں کی قید کی سزا سنائی گئی۔ معاملہ سرد خانے میں چلا گیا ۔ بعدمیں پتہ چلا کہ اخبار کے اکائونٹ سے لندن کی میٹرو پولس کوہزاروں پونڈ کی ادائیگی ہوئی تھی۔گویا نیوز آف دی ورلڈ کی فون ہیکنگ میںلندن کی پولس تک ملوث تھی۔
(۴)ایڈیٹوریل رائٹنگ(انگریزی)ص۲(نیشنل اوپن یونیور سیٹی آف نائجیریا،ابوجہ) ISBN:978-058-748-9
)۵)صحافت اور ابلاغ(ڈاکٹر شفیق جالندھری)ص۹۳( اے ون پبلیشرلاہور)
(۶)میتھیو لائل سپنسرMathew Lyle Spencer (۷ جولائی ۱۸۸۱ء۔۱۰فروری۱۹۶۹ء)امریکی وزیر، مصنف اور پروفیسر،امریکہ میں صحافت کی تعلیم کو الگ درجہ اور مستقل مضمون کی حیثیت دلانے والوںمیں سے ایک ہے۔اسے ستمبر ۱۹۱۹ء میںواشنگٹن یونیور سیٹی میں اسکول آف جرنلزم کاڈائرکٹر مقرر کیا گیا ۔۱۹۲۶ء میں وہ جرنلزم کے ڈین اورایک سال بعدیونیورسیٹی کے صدر کے عہدے پر فائز ہوا۔
(۷)ایڈیٹوریل رائٹنگ(انگریزی)ص۲(نیشنل اوپن یونیور سیٹی آف نائیجیریا،ابوجہ) ISBN:978-058-748-9
(۸)اردوصحافت(مرتب:انورعلی دہلوی)ص۸۸(اردو اکادمی،دہلی)
(۹)،(۱۰)تھیوری اینڈ پریکٹس آف جرنلزم(ڈاکٹر بی این آہوجا)ص۳۸(سرجیت پرکاشن،دہلی)
(۱۱)اداریہ نویسی(پروفیسرمسکین علی حجازی)ص۵۹-۷۵(مرکزی اردو بورڈ،لاہور)
(۱۲)ادب ،ادیب اورقاری(احمد جاوید)،ماہنامہ’کتاب نما‘دہلی ،جنوری ۲۰۰۴ء ص۳(مکتبہ جامعہ لمٹیڈ،نئی دہلی)
(۱۳)آسٹریلیائی تاجر جس کی ملکیت میںنیوز آف دی ورلڈ کے علاوہ دنیا کے کئی بڑے اخبار اورنیوز چینلز ہیںمثلا دی سن، ٹائمز اور سنڈے ٹائمز(لندن)؛آسٹریلین،ڈیلی ٹیلی گراف،سنڈے ٹائم،سڈنی مارننگ ہیرالڈ(آسٹریلیا)ـ؛فاکس نیوز نیٹ ورک اوراسٹار نیوز۔