احمد جاوید
یہ 1993کا واقعہ ہے ،جو لائی کی کوئی تاریخ تھی ،وہ جے این یو میں داخلہ کے لئے دہلی آیا تھا۔آج تقریباً 20سال بعد اس کی ڈائری کا یہ ورق میری یادداشت میں گردش کررہا ہے ۔اس نووارد لڑکے نے لکھا تھا ۔’آدھی رات کو ٹرین سے نئی دہلی جنکشن پر اترا۔باہر آیاتو ایک طرف کاروں کی قطار یں اور دوسری طرف تانگوں اور رکشوںکی آمدورفت نظر آئی۔ روشنی نگاہوں کو خیرہ کررہی تھی لیکن جوچیز سب سے زیادہ متوجہ کررہی تھی وہ شہرکے حکیموں کے بڑے بڑے ہورڈنگ تھے ،جد ھر نظر اٹھایئے ،قد آدم تصویروں سے مزین ہورڈنگز ،خاندانی شفاخانہ ،سب لوک فارمیسی ،حکیم ہرکشن لال وغیرہ ،ابھی ہمیں صبح کا انتظار کرنا تھا ۔صبح ذرا روشن ہوئی تو ایک بار پھر باہر آئے ،ابھی تک ہم فیصلہ نہیں کر پائے تھے کہ پہلے کہاں جائیں ،گومگو کے عالم میں کانوں میں پڑنے والی پہلی آواز پرانی دہلی ،چاندنی چوک ،فوارے نے اپنی جانب کھینچ لیا اور ہم ایک خوبصورت تانگے میں بیٹھ گئے جس کے کوچوان کی طرح اس کا گھوڑابھی جوان اور شہہ زور تھا ۔خیال تھا کہ صبح کی اس سہانی ساعت میں شہر کے دیوار ودر دیکھتے جائیں گے، وہ بھی دیکھا لیکن جدھر نظر اٹھائیے ادھر وہی ہورڈنگز یہاں تک کہ سڑکوں کے درمیان بجلی کے کھمبے بھی تاحدنگاہ سب لوک فارمیسی ،خاندانی شفاخانہ اور حکیم ہرکشن لال کے چھوٹے بڑے ہورڈنگز سے مزین۔اجمیری گیٹ ، نیابازار،پیلی کوٹھی ،موری گیٹ،پرانی دہلی ریلوے اسٹیشن اور پھر چاندنی چوک ،یہاں تو یہ نظارہ نگاہوں کو اور بھی خیرہ کررہا تھا ۔کئی کثیر منزلہ عمارتیں اوپر سے نیچے تک امراض مردانہ وزنانہ اور دوسری بیماریوں کاشرطیہ علاج کرنے والے حکیموں اور ویدوں کے ہورڈنگز سے مزین تھیں۔ذہن میں یہ خیال بڑی شدت سے ابھرا کہ یہ ہندوستان کی راجدھانی ہے یا ملک کا دارالشفا ،معاًایک اور سوال ذہن کے کینوس پر چھاگیا ‘آیا یہ ملک نامردوں ‘بے اولادوں اور امراض خبیثہ میں مبتلا لوگوں کا ہے ؟ ان حکیموں اور ویدوں کی تشہیرکا یہ انداز بتا رہا ہے کہ ان کے پاس کتنی دولت ہے یا ان کا کاروبار کتنا بڑا ہے۔ ‘‘
دہلی کے ایک نووارد نوجوان کی ڈائری کے اس ورق کو ایک بار پھر پڑھ جائیں اور کسی دن نئی دہلی ‘پرانی دہلی ‘کناٹ پیلس ،چاندی چوک اور شہر کے دوسرے کوچہ وبازار کی سیر کو نکلیں ،غور کریں کہ ان حکیموں اور ویدوں کے وہ بڑے بڑے ہورڈنگز اب کہاں چلے گئے ،کیا انہوں نے اپنی دکانیں سمیٹ لیں یا پھروہ سب کے سب صحت مند ہوگئے جو ان کے مریض تھے؟ نہ تو ان حکیموں ،ویدوں اور شعبدہ باز بابائوں نے اپنی دکانیں سمیٹی ہیں اور نہ ان کے مریضوں میں کمی آئی ہے،دونوں کی تعداد میں وقت کے ساتھ کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے لیکن آپ کو پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ پوسٹر اور ہورڈنگز کب شہر کی دیواروں سے اٹھ کرٹی وی کے پردوں تک پہنچ گئے،سٹیلائٹ چینلوں کی آمد کے ساتھ ان کا بزنس کتنا ہائی ٹیک ہوگیا،کب ہمارا چاندنی چوک چاند پر پہنچ گیا جہاں سے یہ نیم حکیم اور یہ شعبدے باز گھر گھر میں اتر رہے ہیں۔جو لوگ کل تک چاندنی چوک میں دوائیں بیچتے تھے وہ اب ٹی وی چینلوں پر شعبدے دکھارہے ہیں ،دوائیں بیچ رہے ہیں ،لوگوں کے اعتقاد اور توہمات کااستحصال کررہے ہیں۔
اس وقت بابا رام دیو کو بعض لوگ آر ایس ایس کا ایجنٹ کہہ رہے ہیں ،بعض مبصرین ان کی پیٹھ پر بی جے پی کی منصوبہ بندی بتارہے ہیں اور کچھ دوسرے لوگوں کا خیال ہے کہ وہ کانگریس کے آ لہ کارہیں۔وہ بھرشٹاچار کے خلاف دوسرے قدر آور سماجی کارکنوں کے ذریعہ چھیڑی گئی جنگ کی ہوا نکالناچاہتے ہیںجبکہ کچھ دوسرے مبصرین کا خیال ہے کہ پہلے تو بابا نے آر ایس ایس اور بی جے پی کے ساتھ مل کر حکومت کو گھیر نے کا کھیل شروع کیا لیکن جب کانگریس کے لیڈروں‘منموہن حکومت کے وزیروںاور اعلی افسران نے بابا کی خدمت میں دوڑ لگائی توپھر وہ کانگریس کی گود میں کھیلنے لگے ۔آپ جوچاہیںکہیںلیکن میرے ذہن میں بار بار ایک ہی بات گردش کررہی ہے ۔وہ چاہے کچھ بھی ہوں ،کسی کے بھی ایجنٹ اور آلہ کار ہوسکتے ہیں،حقیقت میں وہ ایک شعبدہ باز ہیں ۔ہر یانہ کے ایک گائوں کا رام دیو یادو یوگا کے کرتب اور شمشان کی بھبھوت کے ساتھ چاندنی چوک کے حکیموں کی طرح کب چاند پر پہنچ گیا ،اس کے قریبی ساتھیوں کو بھی اب یاد نہیں ہوگا۔یہ مصنوعی چاند (سیارچہ )کا جلوہ ہے جس نے چاندنی چوک کے حکیموں کی طرح شمشان کی بھبھوت بیچنے اور یوگا کی مارکیٹنگ کرنے والے شعبدہ بازوں کو راتوں رات کروڑوں میں کھیلنے کی صلاحیت بخش دی ہے ۔کل تک ان کے چاہنے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہوتی تھی آج لاکھوں کروڑوں میں ہے اور دنیا کے مختلف حصوں میں ہے ۔بدقسمتی سے ہندوستان کی سیاسی برادری ان کی سب سے بڑی خریدار ہے۔
بابا رام دیو جب دہلی ایئر پورٹ پر اترے تو ان کے استقبال میں مرکزی وزراء کھڑے تھے جنہوں نے ان کو منانے کی کوشش کی،اگلے دن ان کی ملاقات نئی دہلی کے ایک پانچ ستارہ ہوٹل میں ہوئی ۔بابا کے جملہ مطالبات مان لئے گئے اور وہ بھی مان گئے ۔کیوں نہ مان لیتے کہ ان کی خدمت میں حکومت ہند خود سرکے بل کھڑی تھی،مرکزی وزرا کپل سبل،سبودھ کانت سہائے ،اور پرنب مکھرجی تک ڈنڈوت تھے۔لیکن اس کی مشکل یہ تھی کہ وہ اس تماشہ پر کروڑوں روپے لگا چکے تھے ۔بھرشٹا چار سے لڑنے کے نام پرکروڑوں روپے کی سرمایہ کار ی کی تھی۔ 30کروڑ روپئے کی لاگت سے تو صرف رام لیلا میدان کو سجایا گیا تھا تاکہ ملک وبیرون ملک کا میڈیا چوبیسوں گھنٹے بابا کی ستیہ گرہ دنیا کے گوشے گوشے میں دکھائے ۔دو کروڑ کے واٹر پروف پنڈال ، 9بڑے بڑے اسکرین ،800پنکھے ،100کولر،سوا دو کروڑ کے ٹینٹ ،ستیہ گرہ میں شریک ہزاروں افراد کے لئے رات کو آرام کی خاطر گدے ،80کروڑ کی لاگت سے پانی کا آر اوسسٹم،سائونڈ کا بہترین انتظام ،جلسہ گاہ کے الگ الگ بلاکوں میں 750ٹونٹیاں اور دن رات روشنی کا خصوصی بندوبست ،500سے زائد بیت الخلا،1000غسل خانے،ملک بھر میں اس ستیہ گرہ کے پرچار ،جھنڈے،ڈنڈے اور بینروں پر 18کروڑ روپے کا صرفہ دوسو مزدوروں نے دو ہفتے دن رات ایک کرکے رام لیلا میدان میں اتنا بڑا انفراسٹکچر تیار کیا تھا۔کیا اتنی دولت پانی کی طرح صرف اس لئے بہائی جارہی تھی کہ بابا جی رام لیلا میدان میں اتریں،شنکھ بجاکر ستیہ گرہ کا آغاز کریں اور پھرمنموہن حکومت کے منانے پر اٹھ کر اپنے آشرم کو چلے جائیں ۔آپ حیران ہوں گے کہ ان بابائوں کے پاس اتنی دولت کہاں سے آرہی ہے اور ان کاکاروبار دن دونی رات چوگنی ترقی کیوں کررہا ہے؟
کام چاہے کتنا ہی اچھا ہو، اس کی کامیابی وناکامی کا اصل دارومدار نیت پر ہوتاہے، ویسے تو نیتوں کا حال خدا ہی جانتاہے، بدگمانی اچھی چیز نہیں لیکن آپ کی زبان، آپ کی آنکھیں اور آپ کی پیشانیاں وہ آئینہ ہیں جو اکثر آپ کی نیتوں کو طشت از بام کردیتی ہیں، بابا رام دیو کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ اس وقت وہ منموہن حکومت اور وزیر فروغ انسانی وسائل کپل سبل کو برابھلا کہہ رہے ہیں، کہہ رہے ہیں کہ ان کے خط کومشتہر کرکے حکومت نے ان کے ساتھ دھوکا کیا ہے لیکن عام آدمی چاہے اپنی سادہ لوحی کے باعث مبہوت ہو، تو ہمات کے شکار افراد خواہ ان کے بلند آہنگ دعوئوں پر دل وجان سے فدا ہوں ، سیاسی کھلاڑیوں نے تو ان کی نیت روز اول ہی بھانپ لی تھی۔ اور ان میں باباجی کے کندھے پر سیاست کی سواری کرنے کی دوڑ شروع ہوگئی تھی۔
بی جے پی اور آرایس ایس جن کی جانب باباجی کا فطری جھکائو تھا، سب پر سبقت لے جانا چاہتی تھی، سنگھ نے اپنے لاکھوں سویم سیوکوں کو بابا کی تحریک میں کود پڑنے کا حکم دے دیا، بی جے پی پوری طاقت کے ساتھ ان کی پیٹھ پر کھڑی ہوگئی تاکہ حکومت کے خلاف ماحول بنایا جاسکے۔دوسری جانب کانگریس بھی تھوڑے سے ٹکرائو کے بعد بابا پر ڈورے ڈالنے میں مصروف تھی ، پہلے انفورسمنٹ کے افسران ان کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ پھر وزیروں نے حاضری دی، دبائو بنانے کی کوشش کی، ڈرایا، لالچ دیا، سمجھایا بجھایا اور آخر کار شیشہ میں اتارلیا۔ وہ رام لیلا میدان میں ستیہ گرہ پر بیٹھنے کے ارادے سے دہلی پہنچے تو ایئر پورٹ پر ان کے خیر مقدم میں مرکزی وزیر کپل سبل، سبودھ کانت سہائے اور پرنب مکھرجی یوں ہی نہیں کھڑے تھے۔ اگلے دن نئی دہلی کے ایک پانچ ستارہ ہوٹل میں ان کی خفیہ ملاقات ہوئی ، معاہدہ ہوا اور طے پاگیا کہ اب وہ ’یوگا‘ووگا کرکے جلد ہی اس تماشے کو ختم کردیں گے۔ لیکن وہ جو کہتے ہیں چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے، وہ بھول گئے کہ جن سے ان کو پالا پڑا ہے وہ ان سے بھی بڑے شعبدہ باز ہیں۔ رام لیلا میدان میں ان کا دھرنا شروع ہوا تو ایک طرف تو وہ اپنے چاہنے والوں کو دھرنے پر چھوڑ کر اپنے آرام دہ خیمہ کے پچھلے دروازے سے وزیر اعظم اور ان کے نمائندوں سے مل رہے تھے اور دوسری جانب حکومت کے خلاف نعرے بھی بلند کررہے تھے۔ شاستری بھون میں اپنے دفتر کے ٹی وی سیٹ پر کپل سبل اور سبودھ کانت سہائے کے لئے باباکا یہ کھیل دیکھنا ناقابل برداشت تھا، ان کے دوسرے ساتھی ان سے پوچھ رہے تھے کہ جب سودا طے ہوگیا تو یہ کیاتماشہ ہے؟ پھر بابا کی چٹھی میڈیا میں آگئی ۔ جس میں لکھا تھا کہ حکومت کی تحریری یقین دہانی پر راضی ہونے کے بعد اب بابا بھوک ہڑتال نہیں بلکہ 4سے 6جون تک رام لیلا میدان میں تپ کریںگے ۔ دھرنا شروع کرنے سے دودن پہلے جمعہ کو لکھی گئی اس چٹھی میں یہ بھی تھا کہ حکومت کے ساتھ اتفاق ہوجانے کا اعلان خود بابا رام دیو سنیچر تک کردیں گے۔ اب بابا بھی بوکھلا چکے تھے اور ان کی پیٹھ پر کھڑی بی جے پی بھی بوکھلاہٹ میں اپنا سرنوچ رہی تھی۔ حکومت کو چیلج کررہی تھی کہ اس میں ہمت ہے تو بابا رام دیو کوگرفتار کرکے دکھائے۔ دہلی پولس نے آدھی رات کو رام لیلا میدان میں ان کی خواب گاہ پر چھاپہ مار کر انہیں ان کا وعدہ یاد دلایا، رام لیلا میدان میں اجتماع کی اجازت رد کردی اور صبح ہونے سے پہلے ہری دوار پہنچادیا۔ بھرشٹاچار کے خلاف تیس کروڑ کی ہائی ٹیک ستیاگرہ کا یہ انجام کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں رہا ہوگا۔
بہ غور دیکھیں تو یہ اس ملک کی ایک ٹریجڈی ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں ہم شعبدہ بازوں کے شکار ہیں۔ مذہب اور سیاست میں تو اور بھی زیادہ ۔ بے چارہ عام آدمی کیا کرے جو چاندنی چوک میں اس نووارد لڑکے کی طرح کھڑا ہے جو حیران تھا کہ ان نیم حکیموں اور شعبدہ بازوں کے پاس اتنی دولت کہاںسے آتی ہے۔