بنگال کے’ جذباتی‘ مسلمان اور ممتا

Table of Contents

احمد جا وید
یہ غالباً۱۹۷۹کاو اقعہ ہے ۔ایمرجنسی کی ماری کانگریس اپنے آپ کو سنبھال رہی تھی، اس کے دست وبازو ازسرنو مجتمع ہورہے تھے اور جنتا پارٹی کے انتشار سے دل برداشتہ عوام نے ایکبار پھر اندر اگاندھی کی جانب دیکھنا شروع کردیا تھا۔ بہار میں کانگریس کے کرشمائی لیڈر ڈاکٹر جگن ناتھ مشرا نے پٹنہ کے رویندر بھون میںمسلمانوں کی ایک میٹنگ بلائی ، جلسہ گاہ میں ریاست کے سرکردہ سیاسی وسماجی رہنمائوں کا اچھا خاصا مجمع تھا ،اپنی خوبصورت گفتگو اور شاندار خطابت کے لئے مشہور ڈاکٹر مشرانے مسلمانوں سے بڑے ہی پرزور الفاظ میں کانگریس کا ساتھ دینے کی اپیل کی اوران کی شکایتوں کو پوری ایمانداری سے دور کرنے کا وعدہ کیا۔ حاضر ین میں جوش وخروش کی لہردوڑ گئی، نعرے بھی لگ رہے تھے، تالیوں کی گڑگراہٹ بھی گونج رہی تھی۔ڈاکٹر مشرا اپنی مدلل اور اعداد وشمار سے مزین تقریر ختم کرکے بیٹھے تو مجمع کے ایک کنارے،آخری صف میں بیٹھا ہوا بہت ہی معصوم وبے ضرر سا ایک شخص جس کی بے داغ سرمئی شیروانی ٹوپی لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرلینے کی بے پناہ صلاحیت رکھتی تھی، کھڑا ہوگیا ۔ ڈاکٹر مشرا عادت کے مطابق بڑی بے تکلفی سے اس کی جانب مخاطب ہوئے اور نام لے کرپوچھا’ آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں؟‘اور اس نے بلاتمہید یہ سوال داغ دیا’’مسلمان کا نگریس کا ساتھ تو دیں گے لیکن کانگریس ان کو کیا دے گی؟‘‘ مجمع پرسناٹا چھاگیا۔ لیڈران بغلیں جھانکنے لگے، پارٹی کے پرجوش کارکنان ایک دوسرے کا منھ تک رہے تھے۔ یہ غیر متوقع سوال اچھالنے والا کوئی اورنہیں اردو کے مشہور شاعر طنزومزاح اسرار جامعی تھے۔ یاروں نے سمجھا تھا کہ شاعر ہیں ، سننے سنانے کا چسکا ہے، کوئی تازہ نظم یا قطعات پیش کریں گے لیکن یہاںتو جلسے کا رنگ ہی بد ل چکا تھا۔ ڈاکٹر مشراایک ذہین اورموقع شناس لیڈر تھے ۔اس سے پہلے کہ خاموشی بوجھل بن جاتی ،مخاطب ہوئے’ اسرار صاحب!آپ خود سماج کے ایک جانے مانے دانشور ہیں ،مسائل کا ادراک رکھتے ہیں ۔آپ ہی کیوں نہیں بتاتے کہ کانگریس مسلمانوں کے لئے کیا کرے؟‘۔پورا مجمع اسرار جامعی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ جامعی نے ٹھہرٹھہر کر بڑے ہی پراعتماد لہجے میں کہا ’’اگر کانگریس واقعی مسلمانوں کو کچھ دینا چاہتی ہے تو اردو کو ریاست کی سرکاری زبان بناکردے سکتی ہے ۔‘‘جلسہ گاہ تالیوں کی گڑگراہٹ سے گونج اٹھا ۔یہ کانگریس کے اندرسے اٹھنے والی آوازتھی۔ کانگریس کے پاس کوئی چارہ نہیں رہ گیا تھا۔انکار یا ٹال مٹول سے کام لے کر وہ مسلمانوںکو ناراض نہیںکر سکتی تھی۔ڈاکٹر مشرا نے وعدہ کرلیا اوریہ وعدہ پھر کانگریس کے منشور میں شامل کرلیا گیا۔ اس کے بعد کی کہانی تو ساری دنیا جانتی ہے کہ آزاد ہندو ستان کی تاریخ میں کسی وزیر اعلی نے پہلی باروہ انقلابی فیصلہ لیا جس کیلئے ڈاکٹر جگن ناتھ مشرا میراردو اور محسن اردو جیسے خطابات سے نوازے گیے۔اس دن رویندربھون میں کانگریس کی قیادت کے سامنے رکھی گئی مسلمانوں کی اس مانگ کا ایک خاص پس منظرہے جس کے ذکر کا نہ یہ موقع ہے اور نہ یہاں اس کی گنجائش ۔صرف اتنا جان لینا کافی ہے کہ اس سے قبل وزیراعلیٰ کر پوری ٹھاکر کی جنتاپارٹی حکومت میں وزیرتعلیم غلام سرور (مرحوم) اقلیتی ہائی اسکولوں کی منظوری، مدارس کے اساتذہ وملازمین کی تنخواہوںکی ادائیگی ‘سہ لسانی فارمولہ کے تحت ریاست کے ہر اسکول میں اردو کی تعلیم کا انتظام، ہر بچے کو اس کی مادری زبان میں بنیادی تعلیم اورمدرسہ بورڈ کی اسناد کو مساوی درجہ جیسے مسائل حل کراچکے تھے ۔
مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس اورممتا بنرجی کی ہوا چلی تو مجھے یہ واقعہ بار بار یاد آتا رہا اور اب جبکہ بھاری اکثریت سے وہ اقتدار میں پہنچ گئی ہیں تو مجھے ایک بار پھر پوری شدت کے ساتھ اس واقعہ کی جزئیات،اس کے پس منظر اور اس کے نتائج واثرات نے اپنی گرفت میں لے لیا ہے ۔میرے ذہن میں یہ سوال مسلسل گرد ش کررہا ہے کہ آخر مغربی بنگال کے مسلمانوںنے ترنمول کانگریس اور ممتا بنرجی کو اپنی حمایت دینے سے پہلے ان سے یہ کیوں نہیں پوچھا کہ وہ تو ان کا ساتھ دیں گے ہی،یہ ان کی مجبوری ہے لیکن وہ مسلمانوںکوکیا دیں گی ؟کیا بنگال کے جذباتی مسلمانوں نے ایک بار پھر وہی غلطی دوہرائی ہے جو انہوں نے 35سال پہلے دوہرائی تھی ؟بے شک مسلمان ایک جذباتی قوم ہے اور اسکی اسی کمزوری کا فائدہ ملک کے ہر حصے اور تاریخ کے ہر دور میں سیاستدانوں نے اٹھایا ہے؟یہ رد عمل میں بہہ جاتے ہیں ،جس کو چاہتے ہیں ٹوٹ کرچاہتے ہیں،جس سے برگشتہ ہوتے ہیں اس سے نفرت کی حد تک دور ہوجاتے ہیں ۔یہ نہیں جانتے کہ سیاست میں جذبات کی کوئی جگہ نہیں ہوتی۔
یہ سچ آج اپنی پوری شدت کے ساتھ ہمارے سامنے ہے ۔تیس بتیس سال بعد ہی سہی مگر بایاں محاذ نے اقلیتوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے تعلق سے اپنی غلطی کا اعتراف کرلیاتھا، بدھا دیو حکومت سچر کمیٹی اور رنگناتھ مشرا کمیشن کی سفارشات پر عمل کرنے کا فیصلہ لے چکی تھی ،کیرل کی طرح مغربی بنگال میں بھی مسلمانوں کو تعلیم اورروزگار میں پسماندگی کی بنیاد پرریزرویشن دینے کا فیصلہ کوئی معمولی قدم نہیںتھا۔بدھادیو بھٹاچاریہ ہندوستان کے پہلے وزیر اعلی تھے جس نے سچر کمیٹی رپورٹ کی روشنی میں ٹھوس قدم اٹھایا لیکن مسلمانوں پر اس کا کچھ اثر نہیں پڑا۔آخر ریاست کی جن 125 سیٹوں پر مسلم آبادی فیصلہ کن موقف میں ہے ان میں سے 90سیٹوں پر ممتا کی جیت کا پیغام کیا ہے؟ وہ جذبات میں ایسے بہے کہ ممتا دیدی سے یہ بھی نہیں پوچھا کہ ہم تو آپ کا ساتھ دیں گے لیکن آپ ہمیں کیا دیں گی ؟اب یہ ان کے رحم وکرم اور ان کی صوابدیدپر منحصر ہے کہ وہ کیا کرتی ہیں ؟
مغربی بنگال میں مسلم ووٹ کا تناسب ملک کی کسی بھی ریاست سے زیادہ ہے۔لیکن ہندوستان کی جس ریاست میں مسلمانوں کی سماجی ،سیاسی اور معاشی حالت سب سے قابل رحم ہے وہ بھی یہی ہے ۔دیہاتوں کو تو جانے دیجئے کلکتہ ،بردوان مالدہ، مرشدآباداور دارجلنگ جیسے شہروں میں بھی اقلیتی اداروں کا کوئی پر سان حال نہیں ۔حکومت نے جن اداروں کو مالی امداد دینا منظور کیا،کمیونسٹوں کی سیکولر انتہا پسندی نے ان کی اقلیتی شناخت تقریبا مٹادی ۔آئینی اداروں سے لے کر روز گار کے میدانوں تک ان کی نمائندگی ہر دن گھٹتی چلی گئی ۔پچیس تیس برسوں میں وہ ہر شعبہ میں حاشیہ پر پہنچ گئے لیکن بے چارے بنگالی مسلمان جیوتی دا کی پیٹھ پر ڈٹے رہے ۔سیکولرزم کے نام پر انہوں نے ہر قسم کی قربانیاں دیں،ان کا مزدور طبقہ لال پرچم کے نیچے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنارہا اور کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہی طبقہ بایاں محاذ کی سب سے بڑی طاقت تھا۔ان کی آنکھیں اس وقت کھلیں جب تیس سال کا لمبا عرصہ گزر چکا تھا اور کمیونسٹوں کے غیر حقیقت پسندانہ طرز عمل کے باعث غریبی اور بے روز گاری ان کو اپنے مضبوط بازوئوں میں جکڑچکی تھی،صنعتیں جو روز گار کا زیادہ بڑا ذریعہ تھیں بنگال سے ایک ایک کرکے اپنی بساطیں سمیٹ چکی تھیں۔دھماکہ اس وقت ہوا جب ملک کے مسلمانوں کی تعلیمی سماجی ومعاشی حالت کا جائزہ لینے کے لئے مقرر کی گئی جسٹس سچر کمیٹی کی رپورٹ منظر عام پر آئی ۔پتہ چلا کہ مغربی بنگال کے مسلمانوں کی حالت ملک میں سب سے بد تر ہے سرکاری ملازمتوں میں ان کی نمائندگی انتہائی کم ہے ۔یہاں تک کہ پڑوسی ریاست بہار میں جہاں مسلم آبادی کا تناسب پندرہ سولہ فیصد ہے سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کی نمائندگی تو سات آٹھ فیصد ہے لیکن مغربی بنگال جہاں مسلم آبادی 25فیصد سے زائد ہے سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کی نمائندگی بہ مشکل چار فیصد بھی نہیں۔یہ وہ دھماکہ تھا جس نے بنگال کے مسلمانوں کے دلوں میں آگ لگادی ۔اسی اثنا میں نندی گرام اور سنگور کے واقعات بھی رونما ہوئے جہاں کسانوں کی زمینیں اونے پونے داموں سرکاری تحویل میں لے کر صنعتی گھرانوں کو دی گئی تھیں۔ ان واقعات نے جلتی پر تیل کا کام کیا ۔وزیر اعلی بدھادیو بھٹا چاریہ اور بایاں محاذ کی مرکزی قیادت کو جب تک اپنی غلطی کااحساس ہوتا پانی سر سے اونچا ہوچکاتھا۔حکومت نے مسلمانوں کی پسماندہ برادریوں کو تعلیم وروزگار میں دس فیصد ریزرویشن دینے کا فیصلہ کیا ،بے شک یہ اس ملک میں ایک تاریخی قدم تھا،بایاں محاذ کی قیادت کا خیال تھا کہ وہ اس سے اپنے جناد ھار کو کھسکنے سے بچالیں گے لیکن مسلمانوں کو تو اب اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنا ہی نہیں تھا،اس فیصلے کی وجہ سے کچھ دوسرے رائے دہندگان بھی برگشتہ ہوگئے۔
ممتا بنرجی ایک بہت طویل اور بڑی سخت جدو جہد کے بعد اس مقام پر پہنچی ہیں جب وہ دعوی کرسکتی ہیں کہ آج سے بیس سال پہلے انہوں نے جو قسم کھائی تھی پورا کرکے رہیں ۔ان کی سیاسی زندگی کا باضابطہ آغاز 1960کے عشرے میں ہوا۔وہ 1970میں مہلا کانگریس(آئی)کی جنرل سکریٹری تھیں،1978میں ضلع کانگریس (آئی)کلکتہ جنوب کی سکریٹری مقرر کی گئیں۔1984میں جادو پور سے سی پی ایم کے قدآور رہنما سومناتھ چٹرجی کو شکست دے کر لوک سبھا کے لئے منتخب ہوئیں۔1991میں وہ دو بارہ لوک سبھا کے لئے منتخب ہوئیں اور وزیر مملکت برائے فروغ انسانی وسائل بنائی گئیںلیکن پھر جلد ہی کانگریس قیادت سے ان کا نباہ ممکن نہ رہا اور وہ 1997میں کانگریس سے الگ ہوگئیں۔آل انڈیا ترنمول کانگریس بنایا جس کی بلا مقابلہ صدر منتخب ہوئیں۔1998میں وہ ایک بارپھر لوک سبھا کے لئے منتخب ہوئیں اور 1999میں واجپئی کی این ڈی اے حکومت کی وزیر ریل بنائی گئیں۔2004کے انتخاب میں بھی وہ منتخب ہوئیںاور اس وقت ترنمول کانگریس این ڈی اے میں تھی۔ لیکن 2009کے عام انتخابات سے پہلے انہوں نے این ڈی اے سے ناطہ توڑ لیا اس بار وہ کانگریس کے ساتھ میدان انتخاب میں اتریں اور کمیونسٹ مخالف ووٹ کے بٹوارے سے بایاں محاذ کو جو فائدہ پہنچناتھا اس کو روکنے میں کامیاب ہوئیں۔نندی گرام اور سنگور کے بعد ہونے والے اس انتخاب میں بدھادیو بھٹا چاریہ حکومت کے خلاف عوامی ناراضگی کی شدید لہر چل رہی تھی۔کانگریس،ترنمول کانگریس اور سوشلسٹ یونٹی سنٹر (ایس یو سی آئی)کے اتحاد نے ریاست کی 42میں سے 27سیٹیں جیت لیں جن میں سے 19سیٹیں تنہا ترنمول کانگریس کے کھاتے میں آئیں۔اب یہی قصہ 2011کے اسمبلی انتخابات میں دوہرایا گیا جب 294میں سے 223سیٹیں ترنمول اتحاد کو مل گئیں جبکہ بایاں محاذ صرف 66سیٹوں پر سمٹ گیا اگر چہ اس کے ووٹ کا تناسب اب بھی 42فیصد ہے ۔
یہ غالبا جنوری 1988کی بات ہے جب آبروریزی کی شکار ایک غریب عورت کو لے کر کانگریس کی ممبر پارلیمنٹ ممتا بنرجی رائٹر زبلڈنگ میں اس وقت کے وزیر اعلی جیوتی بسو سے انصاف مانگنے گئی تھیں لیکن پولس نے ان کو گھسیٹ کر اپنے ہیڈکوارٹر (لال بازار )کی ایک حاجت گاہ میں بند کردیا تھا ۔بعد میں آدھی رات کو ہیڈ کوارٹر کے مین گیٹ کے باہر چھوڑ دیا گیا تھا۔اس رات ممتا نے عہد کیا تھا کہ جب تک وہ اس حکومت کو اکھار نہیں پھینکتیں ،اپنے بال نہیں باندھیں گی۔تب سے وہ ایک دن بھی چین سے نہیں بیٹھیں ۔اس بے چینی نے کئی رنگ اختیار کئے ،کئی کروٹیں لیں حتی کہ فرقہ پرست بی جے پی سے ہاتھ ملایا لیکن بایاں محاذ کے اقتدار کو ہلانہ سکیں۔شاید یہ کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ سنگور ان کی سیاسی زندگی کا بہت ہی اہم موڑ تھا۔2006میں وہ پہلی بار ٹاٹا کو نینو پلانٹ کے لئے کسانوں کی زمینیں دینے کے خلاف 26دن کی بھوک ہڑتال پر بیٹھی تھیں۔بھٹاچاریہ حکومت وانتظامیہ کی جابرانہ کارروائیوں نے دیکھتے ہی دیکھتے غریبوں اور مزدوروں کی حکومت کو صنعتکاروں اور سرمایہ داروں کے ایجنٹوں کی صف میں کھڑا کردیا۔وہ جب دو بارہ سنگور آئیں،اس وقت تک ان کے ساتھ30سے زائد تنظیمیں اس تحریک میں شامل ہوچکی تھیں۔سنگور کی دو ہفتے طویل ناکہ بندی کے دوران ان کے ساتھ بائیں بازو کی کئی سخت گیر تنظیمیں بھی مورچہ سنبھالے ہوئی تھیں ۔گویا بایاں بازو کو اپنی نظر یاتی اساس سے ہٹنا مہنگا پڑا۔جن کو برسوں سرمایہ داری کے خلاف اشتراکیت کی گھٹی پلائی گئی تھی،وہ بھٹاچاریہ حکومت کا صنعتی گھرانوں کی جانب جھکائو برداشت نہ کرسکے۔یہی وہ زمانہ تھا جب سچر رپورٹ منظر عام پر آئی تھی اور اس نے بھی جلتی پر تیل کا کام کیا (آپ چاہیں تو اس کو سچر رپورٹ کی اب تک کی سب سے بڑی حصولیابی کہہ سکتے ہیں)۔سنجیدگی سے دیکھیں تو مغربی بنگال میں اقتدار کی تبدیلی بایاں محاذ مخالف ووٹوں کا اتحاداورش بائیں بازو کی سیاسی وسماجی طاقتوں کے نظریاتی بکھرائو کا دھماکہ ہے جس کو سہولت پسند مبصرین ممتا کی آندھی کہہ رہے ہیں۔
آزاد ہندوستان کی تاریخ میں کسی ریاست میں پہلی بار 1967میں بہار میں غیر کانگریسی حکومت اقتدار میں آئی تھی جس میںاردو تحریک، مجاہدینِ اردو اور مسلم ووٹ کا کلیدی کردار تھا۔لیکن اس کی پڑوسی ریاست مغربی بنگال میں تبدیلی کی ہوا دس سال بعد 1977میں چلی جب پورے ملک میں ایمرجنسی کے باعث کانگریس مخالف ہوا چل رہی تھی کیونکہ ریاست کے مسلمان اس وقت تک کانگریس کی پیٹھ پر ڈٹے ہوئے تھے ، ہرزبان پر سدھار تھ شنکر رے اور غنی خاں چودھری کے نام ہوا کرتے تھے لیکن پھر جیوتی بابوآئے اور ان کا نام ان کی زبانوں پر چڑھا تو چڑھارہا ۔وہ کچھ سننے سمجھنے کے لئے تیار نہیں تھے ۔انہوں نے اس حقیقت کی جانب سے آنکھیں پھیر لیں کہ روٹی تب ہی اچھی پکتی ہے جب اسے توے پر پلٹتے رہئے، دیر تک چھوڑ دو تو جل جاتی ہے ۔ وہ دیکھ سکتے تھے کہ جن ریاستوں میں الگ الگ پارٹیوں کی حکومتیں بدل بدل کر آرہی ہیں وہاں مسلمانوں کی حالت قد رے بہتر اور مختلف ہے لیکن وہ تو ایک بارجس کے ہوگئے، ہوگئے۔آزادی کے بعد مسلسل پچیس برسوں تک مغربی بنگال میں ایک ہی پارٹی کی حکومت تھی،پھر بائیں بازو کی حکومت اقتدار میں آئی تو مسلسل34برسوں تک رہی ۔اس حکومت نے اصلاحات اراضی کا قانون لاگو کرکے لاکھوں بے زمینوں کابھلا کیا لیکن پھر دھیرے دھیرے کمیونسٹوں کی سیاست ’بھدرلوک‘ کی یرغمال بن گئی۔ اب اس کے مقابلے پر ایک اتنی ہی مضبوط متحرک نئی قیادت ابھر ی ہے ،ممتا بنرجی ایک بہت ہی جفاکش، بے باک اور پرعزم لیڈر ہیں لیکن ان کا غصہ اور ان کی ضدبہت مشہور ہے،بے شک وہ وقت کی دھوپ میں تپی تپائی آہنی عزم کی آزمودہ کارہنما ہیں لیکن نہ تو ریاست کے مسلمانوں کے مسائل پر ان کا موقف واضح رہا ہے اور نہ مسلمانوں نے ان کو مشروط حمایت دی ہے ۔یہ ایک اچھی بات ہے کہ ملک کی کئی دوسری ریاست کے مسلمانوں کے برعکس مغربی بنگال کے مسلمان سیاست کے عام دھارے میں ہیں انہوں نے کبھی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ نہیں بنائی۔یہی وجہ ہے کہ وہ آج دونوں محاذ کے ٹکٹ پر بڑی تعدادمیں اسمبلی پہنچے ہیں(مسلم ممبران کی تعداد اب 57ہے جبکہ پچھلی اسمبلی میں 42تھی۔آبادی کے تناسب میں یہ تعداد 84ہونا چاہئے) لیکن سیاسی پارٹیوں کو ان کی جس قسم کی غیر مشروط حمایت حاصل رہی ہے ،وہ ان کی پسماندگی کے اہم اسباب میں سے ایک ہے۔ یہ نہ تو ریاست کیلئے بہتر ہے اور نہ جمہوریت کیلئے صحت مند علامت۔ جذبات اور مایوسی کی کوکھ سے ہی تشدد کے رجحانات پیدا ہوتے ہیں۔ کامتا پور، گورکھالینڈ اور نکسلزم کی شکل میں مغربی بنگال اس کی قیمتیں پہلے ہی چکارہا ہے۔ ہمیں ڈر ہے کہ ریاست کے مسلمان ایک بار پھر وہی غلطی نہ دوہرائیں جو ماضی میں دوہرا چکے ہیں ۔اپنے حکمرانوں کے اعمال کا جائزہ لینا اور ان کو صحیح راہ دکھاتے رہنا رائے دہندگان کی ذمہ داری ہوتی ہے ورنہ وہی ہوتا ہے جو مغربی بنگال میں مسلمانوں کے ساتھ ہوا کہ جب تک بایاں محاذ حکومت کو اپنی غلطی کا احساس ہوتا تیس بتیس سال کا طویل عرصہ گزر چکا تھا ،کئی نسلیں جوان اوربوڑھی ہوچکی تھیں۔
(مضمون نگار’ ہندوستان ایکسپریس ‘نئی دہلی کے ایڈیٹر ہیں)

مصنف کے بارے میں

احمد جاوید

احمد جاوید اردو کے ممتاز صحافی، مصنف، مترجم اور کالم نگار ہیں۔ تاریخ و تمدن پر گہری نظر اور ادب و صحافت میں اپنے منفرد اسلوب سے پہچانے جاتے ہیں۔

مزید