احمد جاوید
اس وقت شام میں جبرواستبدادکے خلاف سڑکوں پراترنے والوں کی پیاس گولیوں سے بجھائی جارہی ہے، یمن اور بحرین کے حالات دھماکہ خیز ہیں، لیبیا کے سرکاری تنصیبات پرناٹو کی بمباری تیز سے تیز ترکردی گئی ہے، اس کے 8بحری بیڑے سمندر میں غرق کردیئے گئے ،فوجی تنصیبات اوردفاترتباہ کیے جارہے ہیں اور امریکہ کہہ رہا ہے کہ قذافی کو ہرحال میں اقتدار چھوڑنا پڑے گا لیکن دوسری جانب ضد ہی ضد اور للکار ہی للکار ہے۔ کہاجارہا ہے کہ ابامہ ابھی تک وہم میں مبتلا ہیں اور یہ ان کی خام خیالی ہے کہ قذافی کی اقتدار سے معزولی نوشتہ دیوار بن چکی ہے۔ اپنے ہی بھائیوں کو بموں، بندوقوں اور میزائلوں کا نشانہ بنایاجارہا ہے۔ ایسے میں یہ سوال زیادہ اہم ہوجاتا ہے کہ کیا مشرق وسطیٰ کایہ انقلاب اسلام کے حق میں ہے؟
بریان ڈائی سن دنیا کی ایک سب سے بڑی مشروبات ساز کمپنی کا سربراہ (چیف ایگزیکٹیو) ہے۔ پچھلے دنوں اس نے اپنی کمپنی کے اہلکاروں سے خطاب کیا تھا جس کو دنیا کی مختصر ترین جامع تقریر قرار دیاگیا۔ ڈائی سن نے کہا تھا: کام، خاندان، صحت، دوست اور روح پانچ گیندیں ہیں جن کو ہم لوگ سرکس کے کھلاڑی کی طرح بیک وقت ہوا میں اچھالتے اور پکڑتے رہتے ہیں لیکن پھر زندگی کے ایک حصے میں جاکر معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے کام ربڑ کی گیند ہے جب کہ باقی چار گیندیں شیشے کی ہیں اور یہ اگر ایک بار گرجائیں تو ٹو ٹ جاتی ہیں یا ان میںدراڑ آجاتی ہے یا پھر کسی زاویہ سے دب جاتی ہیں۔
بہ غوردیکھیں تو مشرق وسطیٰ کی تاریخ اپنے آپ کوباربار دوہرارہی ہے۔ جن حکمرانوں کے خلاف اس وقت عرب اور افریقی ممالک میں عوامی انقلاب برپا ہے، یہ سب کے سب انقلاب کی پیداوار تھے۔ یہ چاہتے تو اپنی قوموں کے ہیرو بن جاتے، رہتی دنیا تک اچھے ناموں سے یاد کیے جاتے لیکن انہوںنے پانچ گیندوں میں سے ایک ربڑ کی گیند کو ہی سب کچھ سمجھ لیا، اسی پر اپنی گرفت مضبوط کرنے میں ساری توانائی لگادی، بقیہ چار گیندیں جو نازک بھی تھیں اور چکنی بھی ان پر کوئی توجہ نہیں دی بلکہ ان کے ساتھ بے دریغ کھلواڑ کرتے رہے۔ نہ یہ سمجھا کہ ملک وقوم حکمرانوں کے خاندان ہوتے ہیں، نہ افراداورقوم کی صحت پرتوجہ دی، نہ دوستوں کی قدرکی، نہ ان کے نیک مشورے مانے حتی کہ خود اپنے ضمیر کی آوازتک نہ سنی، اقتدار وحکومت کوہی سب کچھ سمجھ لیا۔ اس کا انجام جو ہونا تھا ، وہی ہورہا ہے۔ عالم اسلام کے ان ملکوں میں اس وقت جو بیداری دیکھنے کو مل رہی ہے، وہ وقت کاجبربھی ہے اور تاریخ کی کروٹ بھی جس کو یہ حکمراں سمجھنے سے قاصر ہیں۔ وقت کے ساتھ عوام کے اندر تعلیم آئی ہے، ان کا سیاسی شعور بیدار ہوا ہے، مواصلات کی ترقی نے دنیا کو ایک گائوں بنادیا ہے۔ اب جو ہوا دنیا کے کسی کونے میں چلتی ہے، دوسرے کونے تک پہنچتے دیر نہیں لگتی، ڈکٹیٹروں کے جبرو استبداد سے عاجز آچکے لوگوں پر ان کی گرفت وقت نے ڈھیلی کردی ہے، فوجی تانا شاہوں کی خاندانی حکومت کے خلاف عوام کے جذبات میں ابال کے لیے مہنگائی اور بیروزگاری نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔اسی کے ساتھ عوام کے مختلف طبقات میں جو روایتی دوریاں تھیں ان میں کمی آئی، غلط فہمیاں، تعصبات، تحفظات اور منافرتیں دور ہوئیں، مسلکی ومذہبی ٹکرائو میں تخفیف اور ایک دوسرے کے خلاف شکوک وشبہات، اندیشے اور خوف کے جذبات میں کمی نے اس طوفان کو جنم دیا جو تیونس سے مصر، لیبیا، شام، اردن، بحرین اور یمن تک پھیل گیا۔گویا کہ یہ بتوں کے ٹوٹنے کا موسم ہے۔
یہ سب کے سب ایک ہی زمانے اور ایک سی فکر کے بنائے ہوئے بت ہیں جو اس وقت عوامی بیداری کے سامنے لرزرہے ہیں، ٹوٹ رہے ہیں، بکھر رہے ہیں۔ مسلم معاشروں کی زوال پذیری اور فکری جمود کے دور میں بیرونی طاقتوں کی مدد سے ان کو اپنے پیر جمانے اور قد اونچا کرنے کا موقع ملا لیکن اب جو ان بتوں کا گرنا شروع ہوا تو وہ اسی رفتار سے تابڑ توڑ گررہے ہیں جس رفتار سے اور جس انداز میں یہ کھڑے ہوئے تھے۔ ویسے تو یہ سلسلہ تیونس سے شروع ہوا جب صدر زین العابدین بن علی کو ملک چھوڑ کر بھاگنا پڑا، پھر مصر اور اب لیبیا، یمن ،شام ،اردن اور بحرین میں بت ٹوٹ رہے ہیں لیکن میرا ّخیال ہے کہ یہ سلسلہ بغداد کے فردوس اسکوائر سے شروع ہوا۔دوسرا بت اس وقت ٹوٹا جب بغداد میں ایک عراقی صحافی منتظر زیدی نے صدر امریکہ بش پر جوتا پھینکا، تیسرا بت اس وقت ٹوٹا جب وہائٹ ہائوس میں ایک سیاہ فام صدر آگیا۔
حال کے برسوں میں مسلمانوں کی آپسی دوریاں دور ہوئی ہیں، مسلک اور فرقوں، نظریات وعقائد کی دیواریں نیچی ہوئی ہیں۔ بہت سی گرہیں ڈھیلی پڑی ہیں۔ پچھلے دنوں مشہور مصری عالم دین علامہ یوسف القرضاوی نے ریاض (سعودی عرب) میں ایک سمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’میری خواہش ہے کہ سارے سلفی صوفی ہوجائیں اور سارے صوفی سلفی ہوجائیں۔‘‘کسی کو کیا معلوم تھا کہ ابھی ان کے اس قول کی باز گشت بھی ختم نہ ہوئی ہوگی کہ مصر کے لوگ سیلاب کی طرح سڑکوں پر اترآئیں گے اور مسلک ومذہب کی سرحدیں ان کو ایک ہونے سے روک نہ سکیں گی۔ یہاں تک کہ حسنی مبارک اور اس کے صیہونی آقائوں کی مصر میں عیسائی مخالف فسادات اور فرقہ وارانہ تشدد پھیلانے کی سازشیں بھی کام نہ آئیں گی۔
دنیائے عرب کو سیاسی، سماجی اور جغرافیائی طور پر تین حصوں میں بانٹ کردیکھا جاسکتا ہے:
1-جزیرۃ العرب کا وہ علاقہ جہاں سعودی عرب، عراق، کویت، یمن اور امارات واقع ہیں، اس خطے میں انقلاب کی لہریں زیادہ طاقتور نظر نہیں آتیں لیکن اضطراب سب سے زیادہ یہیں ہے۔ القاعدہ اسی خطے میں زیادہ مضبوط و متحرک ہے۔ تیل کی دولت اور سیاسی ودینی قیادتوں کے مضبوط گٹھ جوڑنے یہاں جمہوریت پسند قوتوں کو دبارکھا ہے لیکن جہاں بھی اس کی گرفت ڈھیلی پڑرہی ہے، وہ ابھر کر سامنے آرہی ہیں، بحرین، یمن اورسعودی عرب کے بعض علاقوں کی صورت حال اسی حقیقت کی غماز ہے۔
2- دوسرا حصہ وہ ہے جہاں دنیائے عرب کے قدیم تہذیبی وثقافتی مراکز واقع ہیں مصر، شام، فلسطین اور اردن۔ اسی خطے میںعالم اسلام کا ناسور اسرائیل واقع ہے۔ یہی علاقہ عرب قومیت کی تحریکوں کا میدان عمل رہا ہے۔ یہاں کے لوگ سیاسی اعتبار سے نسبتاً بیدار ہیں۔
3-تیسرا حصہ مغرب کا ہے جو مراقش، لیبیا، تیونس، موریطانیہ اور شمالی افریقہ کے دوسرے عرب ممالک پر مشتمل ہے۔ اس خطے میں جمہوریت کی لہر سب سے زیادہ مضبوط اور تیز ہے کیونکہ یہاں مسلکی منافرت اور بٹوارے کم ہیں۔ یہ ممالک یوروپ سے قریب ہیں اور یہاں صوفیا کے اثرات زیادہ ہیں۔
پچھلی صدی میںعالم اسلام میں فوجی انقلابات کا سلسلہ مصر کے انقلاب کے بعد تیز ہوا تھا۔ پہلے جمال عبدالناصر آئے، پھر بغداد، شام ، لیبیا اور یہاں تک کہ پاکستان میں فوجی جرنیلوں نے حکومتوں کے تختے پلٹے۔ یہی جرنیل اس وقت مسلم قوموں کے ہیرو تھے۔ میرا خیال ہے کہ یہ ہوا ترکی سے چلی تھی جہاں ایک فوجی انقلاب نے خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کرکے ترکی کو جدید سیکولر ملک بنادیا تھا۔اس کے بیس پچیس سال بعد ایک ایک کرکے مختلف ملکوں کی فوجوں نے حکومت کے تختے پلٹ دیے۔یہ محض اتفاق ہے کہ جمہوریت کی یہ تازہ ہوا بھی عالم اسلام میں ترکی سے چلی ہے۔ جہاں پچھلے عشرہ میں اسلام پسندوں کی حکومت اقتدار میں آئی اور ایک طویل جدوجہد کے بعد اقتدار پر فوج کی گرفت ڈھیلی پڑی۔ اس وقت وہاں آئینی اصلاحات روبہ عمل ہیں اور ترکی میں 12جون (2011) کو ہونے والا عام انتخاب ’نئے جمہوری آئین‘ کے موضوع پر ہوا ہے۔ اسلام پسندوں کی جماعت انصاف و ترقی پارٹی (اے کے پی) بھاری اکثریت سے منتخب ہوکرتیسری بار اقتدار میںآچکی ہے۔آئین میںترمیم گرانڈاسمبلی میں۲۶۷سیٹیںدرکارتھیں۔اے کے پی اس ہدف کو تو نہ پاسکی لیکن ملک کے ۸۱میںسے۶۶صوبے میںکامیاب ہوئی ہے اور۵۵۰کے ایوان میں۳۲۷نشستیںحاصل کی ہیں۔ یہ وہی ترکی ہے جہاں کل تک کمال اتاترک کے نافذ کردہ آئین کے خلاف زبان پرکوئی حرف لانا بھی ناقابل معافی جرم تھا۔ ترکی کی اس تبدیلی نے مشرق وسطیٰ کے اسلام پسندوں کو بھی متاثر کیا ہے اور وہ اب جمہوری طریقے سے تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔ ایران میں اسلامی جمہوریت کی کامیابیوں نے بھی عرب نوجوانوں کو متاثر کیا ہے۔ وہ جب ان عجمی حکمرانوں کو مغربی طاقتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کربات کرتے دیکھتے ہیں تو اپنے حکمرانوں پر ان کا غصہ اور بھی شدید ہوجاتا ہے۔
اس وقت یہ فیصلہ کرنا مشکل اورقبل ازوقت ہوگا کہ یہ انقلاب عالم اسلام کو مستحکم کرے گا یا اسے مزید توڑ دے گا۔کسی بھی عوامی انقلاب کی کامیابی اور ناکامی کو بہت سے عوامل متاثر کرتے ہیں اور اس کا انحصار اس قیادت کی دانشمندی پر ہوتا ہے جو اس انقلاب کی کوکھ سے ابھرتی ہے۔اس کی بڑی واضح مثال برصغیر کی آزادی اور ہماری آزادی کے باسٹھ سال ہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایک ہی سرزمین کے دو حصے (ہندوستان اور پاکستان) ایک دوسرے سے کتنے مختلف ہیں۔ سازشیں کہاں نہیں ہوتیں اور بیرونی طاقتیں ملکوں اور قوموں کے اندرونی انتشار سے فائدہ اٹھانے کی کوششیں کہاں نہیں کرتی ہیں۔ آج ان ملکوں میں بھی کررہی ہیں لیکن ہماری نگاہیں اس عوامی بیداری میں ایک بہتر مستقبل کے بیج دیکھ رہی ہیں۔ جن کی کونپلیں نکلنے میں دیر تو لگ سکتی ہے لیکن یہ بیج آسانی سے مرنے والے نہیں ہیں۔ اس طوفان سے نسبتاً جمہوری اور مستحکم عالم اسلام کے ابھرنے کی امیدیں کی جاسکتی ہیں بشرطیکہ ان ملکوں کے عوام اسلام دشمن عناصر کے فریب میں نہ آئیں اور بیرونی طاقتوں کے کھلونے نہ بنیں۔