احمد جاوید اردو کے ممتاز صحافی، مصنف، مترجم اور کالم نگار ہیں۔ تاریخ و تمدن پر گہری نظر اور ادب و صحافت میں اپنے منفرد اسلوب سے پہچانے جاتے ہیں۔ آسماں تہہ خاک(سوانحی خاکے)، فکرفردا (کالموں کا انتخاب)، تلخ نوائی(منتخب اداریے)، میرے حصے کی دلّی اور قصہ چھٹے درویش کا (یادداشت اور خاکے) اور مبادیات صحافت و ادارت(درسی کتاب) ان کی مقبول و معروف کتابیں ہیں۔ احمد جاوید تاریخ و سوانح میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ صحافت میں پروفیشنلزم کے محرکین میں شامل ہیں اورصحافیوں کی تربیت میں اپنے گرانقدر تعاون کے لیے جانے جاتے ہیں۔ صحافت اور ادب میں نمایاں خدمات کے لیے ان کو باوقار سرکاری اور غیر سرکاری اداروں نے انعامات و اعزازات سے بھی سرفراز کیا ہے اور ان کے کام نے غیرمعمولی پذیرائی حاصل کی ہیں۔
Mr. Ahmad Jawed is a well-known journalist, poet, columnist and author of many books. His column FIKR-e-FARDA appears every Sunday since May 2006; up to June 2012 on editorial page of the Hindustan Express daily, New Delhi, after then the Azad Hind, Kolkata for year and the INUILAB (all 15 editions in north India). His excellence and contribution of more than 30 years in the field of Urdu/ Hindi journalism is substantial and significant.
من کہ احمد جاوید
(باغ شیرین اورشاہجہان آباد)
من کہ احمد جاوید بیسویں صدی کی ساتویں دہائی میں شمالی بہارکے میتھلی خطہ کے ایک متوسط کاشتکار کے گھرپیداہوا۔وہیں پلا بڑھا جوان ہوا،جتنی دنیا دیکھی وہیں سے دیکھی،وہیں سے دیکھ رہاہے اورالحمدللہ ،اس کے اس عمل میں اب آپ بھی شریک ہیں۔
مِتھلا جو کبھی پورب کا یونان تھا،جوعہدعتیق کےشہرہ آفاق رشی(عالم و شارع) گوتم کی دھرتی ہے، جہاں سیتاپیدا ہوتی ہیں،جہاں پہنچ کر ویدانت کے مہاپنڈت شنکر کی عقل و منطق گم ہوجاتی ہے، جس کی پہچان مچھلی، جہاں کا پکوان مکھانا اور جس کا پرساد پان ہے۔ آم کے باغوں، جل تھل تالابوں، لہراتی ابلتی سرکش ندیوں، سرسبزو شاداب کھیتوں، اُرہل کے پھول اور تلسی کے پودوں سے گلزار ومعطراس باغ شیرین(مدھوبنی) سے بھلا کوئی کب نکلتا ہے۔کسی نے بالکل سچ کہا ہےکہ انسان کا اصل وطن اس کی زبان ہے اور وہ زندگی بھر وہیں رہتا ہے جہاں اس کا بچپن بیتا ہے۔
یہ حقیر کوئی البیرونی ،ابن بطوطہ یا کولمبس نہ تھا جو دہلی کی دریافت میں نکلتا لیکن ہندوستان کے متوسط طبقات کے عام تعلیم یافتہ نوجوانوں کی طرح اس کی زندگی بھی کسی کولمبس کی بادبانی کشتی تھی جو اسے موجوں کے سہارے اور ہواؤں کے رخ پر لیے لیے پھرتی ہے ، پھرکہیں ڈوب جاتی ہے یاکسی ایسے کنارے جا لگتی ہے جو اس کے خواب و خیال میں بھی نہیں ہوتامگر اس کا ہرسوارکولمبس نہیں ہوتا جس کی خوش قسمتی اس کے قدموں میں کوئی نئی دنیاڈال دیتی ہے۔جہاں تک میرا تعلق ہے، کسی نئی دنیا کی کوئی طلب تھی نہ جستجو،فارسی پڑھنا، میتھلی بولنا، سنسکرت سیکھنا، کاشتکاری کرنا اور گاؤں کی تعلیم وترقی کے لیے وقت لگاناچاہتا تھالیکن اردو نے ،جوماں کی لوریوں کے ساتھ وجود کا حصہ بن گئی تھی ،لاکر دہلی اور صحافت میں رکھ دیا،دونوںتضادات کی دنیا تھی، فلک شگاف عمارتوں کے سایے میں کچی گندی بستیوں کی دنیا۔
دہلی دکن کی طرح کبھی ترہت گئی نہ کسی برہان الملک نے اودھ کی طرح اس کو سینچا سنوارا، پھربھی زندگی کے قدرتی رنگوں سے مالامال اس سرسبزو شاداب سرزمیں پر گنگا جمنا کے دھارے کی صورت میتھلی اور اردو کی بستیاں اپنی اپنی بہاریں دکھاتی ہیں۔ اس کی فضا ودیاپتی، دنکر اورناگارجن کے نغموں سے سرشار ہےتو یہاں کی بزمیںحافظ و سعدی، رومی و جامی، خسرووبیدل،جائسی و جوہری، کبیرونظیر،میرو غالب، داغ و شاد ، اقبال و جگر،جمیل و پرویز ، فیض و فراق اور مہرومظہر کے زمزموں سےمشک بار۔ گاؤں کاشتکاروں کا تھا جہاں گڑ اور مکھانےکی گھریلو صنعتیں اوراطراف میں واقع شکر کی ملیں لوگوں کی زندگی میں مٹھاس گھولتی تھیںلیکن کئی خاندانوں میں پڑھنے لکھنے کی روایت بھی چلی آتی تھی۔ شیخ محمد عیسیٰ فریدی اور ام الخیر اسلام النسا کی خواہش تھی کہ وہ اپنے بچوں کو فارسی پڑھائیں اوروہ بڑے ہوکر اپنے نانا مولوی محمدمیاں نورحسنؒ کی طرح مثنوی کے اشعار و حکایات سنائیں،حافظ و جامی کےاشعار پڑھیں،وعظ کہیںاور عشق و عرفان میں ڈوبی ہوئی باتیں کریں۔ گاؤںکے گورنمنٹ اردو مکتب(کوٹھیا) میں دوٹیچر تھےماسٹرعبدالمجید(مرحوم) اور محترمہ زبیدہ خاتون ۔ اباجی نےحافظ محمد سلطان کی خدمات الگ حاصل کیں جو بڑے باکرامت معلم اورایک ولی صفات انسان تھے۔ ابھی پڑھنا لکھنا آیانہ تھا کہ فارسی سیکھنےکو مدھوبنی کے محلہ مصری گنج (کوتوالی چوک)بھیجنےلگے جہاں حافظ ذاکر حسین رہتے تھے،پرائمری اسکول کے ٹیچر مگر پرانے فارسی داں ۔ یہی فارسی اسےمتھلا یونیورسٹی سے گریجویشن کے بعدعمر کی چوبیسویں بہار میں دہلی کھینچ لائی۔
میتھلی زبان و ثقافت کی مٹھاس میں رچی بسی اردو کے اس فرزند کی نشوونما دادی کے قصے کہانیوں کی فضا میں ہوئی تھی۔ اس پر مستزاد تاریخ ونفسیات اور فارسی کا طالب علم ٹھہرا۔ سو، اب بات بات میں قصے سناتا،حکایات لے بیٹھتا اور ہرواقعہ میں کوئی کہانی ڈھونڈ لیتا ہے۔ دلّی جو آتاہے جانا کہاںچاہتا ، عالم میں انتخاب اس شہرکو اسی روش نے اتنا گنجان اور ناقابل رہائش بنادیا ہےکہ سانس لینا تک دشوار ہے۔یہاں کے پشتینی باشندوں میں جس کو دیکھیے وہی اس دکھ میں مبتلا ملےگا کہ میاں دہلی اب دہلی کہاں رہی، جانے کہاں کہاں سے آجاتے ہیں اور میروغالب کےاس شہر کو خراب کرتے ہیں ’رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے‘ حالانکہ یہ دونوں منتخب روزگار بھی اکبرآباد سے یہاں آبسے تھے۔ یہاں کے ادبا و شعرا تو دہلی کی بربادی کا ماتم اور اس کے بننے بگڑنے کا رونا ایسا روتے ہیںکہ جیسے یہ دہلی کے ساتھ کچھ خاص ہے، دنیا کے کسی اور شہر میں شاید ایسا کبھی نہیں ہوا، بغداد و شیراز کبھی نہیں لٹے، لندن اور پیرس کو انقلابات نے کچھ بھی خراب نہیں کیا لیکن میرے حصے میںجو دہلی آئی ، اس میںبہ مشکل ہی کوئی رہ گیا تھا جو شاہجہان آباد کی فصیل کے اندر پیدا ہونے پر فخر یا اس کی درگورخوبیوں اور درکتاب عظمتوں کو یاد کرتا۔ اب تو اچھے خاصے دہلی والے جنوبی دہلی کی نئی کالونیوں کو للچائی نظروں سے دیکھتے، پرانی دلّی نہ چھوڑنے پر پچھتاتےاور خدا نے نوازا ہےتو یہاں سے منتقل ہوجاتے اور رٹارٹایاجملہ زبانوں پر ہوتا ’میاں! میرے سارے دوست اور پڑوسی پہلے ہی ادھر آگئے تھے، میںنے بھی سوچا کیوں نہ نیو فرینڈس کالونی یا مہارانی باغ آبسوں‘۔ اب کوئی استاد رساؔ تھوڑی تھےجو دہلی کےتاریخی دروازوں سے باہرکے لوگوں کو ’فارن کنٹری کا‘(بدیسی) کہتے اور باہر والا کہلانے کے خوف سے یہ یہاں سے نہ نکلتے ۔
دلّی والوں کے روزمرہ میں کسی کو اب باہر والا کہہ دیناکوئی حقارت سی حقارت نہیں رہ گئی تھی، ان کے محاورے میں باہری کی جگہ اب بہاری نے لے لی تھی لیکن وہ اندر ہی اندر ان بہاریوں اورپوربیوں سے شرمندہ شرمندہ سے رہتےتھے جو دھلی دھلائی اردو بولتے۔یہ بےچارے اپنی جھینپ ان سے یہ کہہ کر مٹاتے تھے ’نہیں تم بہاری نہیں ہوسکتے، لکھنؤ کے ہوگے‘۔یاد آتا ہے کہ اردوکے ایک بڑے صحافی،ادیب اورایک ہفت روزہ اخبار کے ایڈیٹر کو ان کے ایک رفیق کار نےدوسرے رفیق کارکےتعلق سے باخبرکیا’ بہاری ہے‘،یہی بات جب اس نے ان سے دوچار بار کہی تووہ ایک دن ابل پڑے ’سنیے! میں بھی بہاری ہوں، میراباپ بھی بہار ی ہے، میرا دادا بھی بہاری تھا ‘ اور اب وہ ان سےکہہ رہا تھا ’ نہیں نہیں، خداکی قسم، آپ بہاری نہیں ہوسکتے‘۔
دلّی والےاب بھی اپنی رفتارو گفتار سے پہچانے جاتے تھے لیکن کسی سے کوئی ایسی ویسی حرکت سرزد ہوجائے تو چونکتے تھےنہ کہتے تھے ’ جانے دو، باہر والے ہیں‘، اب تو خود ان کو سننا پڑتا تھا ’دلی چھ کا ہے‘۔ جامعہ نگرکے بساطی تک ان سے کہتے تھے ’بی بی! پرانی دلّی سے آئی ہو،یہ ساؤتھ دلّی ہے ساؤتھ دلّی، یہاں چیزیں اتنی سستی نہیں ہیں‘۔ شاہجہان آبادکے گلی کوچے اب اور باتوں سے زیادہ روایتی اشیا اور سستے مصنوعات و ملبوسات کے لیےکشش رکھتے تھے۔لال قلعہ کے پیچھے پرانی چیزوں کا بازار، لال قلعہ کے سامنے چاندنی چوک اور جامع مسجدکی سیڑھیوںتک نئےپرانے کپڑے جوتے اور دریاگنج کے صراط معلق (ہینگنگ بریج) سے دلّی گیٹ تک پرانی کتابوں کی پٹریاں اب یہاں کی پہچان تھیں۔ ہر اتوارکو اورچھٹی کے دوسرے دنوں میں اوکھلا ،سیلم پور اور شہرکے دور دراز علاقوں سے لوگوں کی بھیڑ جامع مسجد، چاندنی چوک اور صدر کے بازاروں میں امنڈ پڑتی تھی اور یہاں کے دکاندار، کاریگر اور بساطی اس کے لیے پورب کے باشندوں کے جامع مسجد لال قلعہ سے عقیدت مندانہ جذباتی لگاؤکےگرانبارِ احسان تھے ۔سید ضمیر حسن دہلوی نے لکھا اوربالکل سچ لکھاکہ’وہ دِلّی والے جو خاک نشینی میں کج کلاہی اور فقیری میں شاہی کیا کرتے تھے یا تواللہ کو پیارے ہوگئے یا بٹوارے کی افرا تفری میں دیس چھوڑ بدیس جابسے‘‘ اور ’’ اب دلّی والوں کی خوبیاں درگور و در کتاب ہیں، جس کے دیدے روشن ہیں وہ دیکھتا سمجھتا اور تسلیم کرتا ہے، جس کے پھوٹ گئے وہ بھلا کیوں ان دیکھی باتوں پر ایمان لائےگا‘۔
دہلی آیا تویہاں رہنے کا معقول ٹھکانہ بھی تھا اورمضبوط جواز بھی لیکن اس دیہاتی کو دہلی راس نہ آئی۔ چار پانچ ماہ کی مختصرمدت میں اس لمبے چوڑے دور دور تک پھیلےشہر اور اس کی شیطان کی آنت جیسی گلیوں کو کتنا دیکھا سمجھا جاسکتاتھا مگر بعض اتفاقات نے دلّی کی دریافت میں اس اجنبی کی مدد کی، جس کا شکریہ ادا نہ کرنا اس کی ناسپاسی ہوگی۔ دوسری دفعہ کوئی پانچ سال بعد دوبارہ آیا تویہ ایک تاجر تھا اورپندرہ بیس دن کے سفر پر آیا تھامگر ایک اتفاق نےاسی مدت میںاس کی آنکھوں پر دہلی کی دریافت کے کئی دریچے کھولے اوراگریہ نہ ہوا ہوتا تو یہاں برسوں رہ کر بھی یہ شاید دہلی کو دریافت نہ کرپاتا۔ ادب و صحافت سےاس کا طویل شوقیہ لگاؤاسے تیسری بار یہاں کھینچ لایا اور اب اس کا اور دہلی کاکل ملاکر تیس بتیس سال کا ساتھ ہے۔ وہ دہلی کو چھوڑنا چاہتا تھا، ایک سال لکھنؤ جاکر رہا اور شکرہے کہ ایک ہی سال رہا،رہ جاتا تومیر کی طرح اجنبی مرتا یا یگانہ کی طرح خوار ہوتا،کئی سال سے پٹنہ میں ہے، آیا تھا تو یہیں بس جانے کا ارادہ رکھتا تھا لیکن دہلی اس سے چھوڑی نہ گئی، اس میں بس جو گئی ہے۔ دل والوں کی اس بستی کی جوبائیس خواجہ اوربے شمار درویشوں کی بستی ہے، کئی باتیں اس کےلیے پسندیدہ ہیںاور کئی سخت نا پسند لیکن دہلی تو پھر دہلی ہے۔یہاں کے روڑے مشہور ہیں، یہ اپنے روڑےپر ناز کرتی ہے،مزاج کااکھڑپن اسے خوب راس آتا ہے، جس کسی کو اپنا لیتی ہے آسانی سے کہاں چھوڑتی ۔ لکھنؤ جارہا تھا تو پروفیسر عبدالحق نے کہاتھا ’آپ کو جہاں جانا ہے، جائیں لیکن جو بچے یہیں پلے بڑھے ہیں ان کووہاں لے جانے کی غلطی ہرگز نہ کیجیےگا‘۔ لکھنؤ اور پھر پٹنہ میں رہ کر سمجھ آئی کہ بات کیاتھی۔
انسان کی یہ کمزوری بہت عام ہے۔وہ اپنے گردوپیش کےحسن اور اس کی قدرو منزلت آسانی سےمحسوس نہیں کرتا،یہاں تک کہ خود اپنےاندر کے جوہر کو دریافت کرنے میں بھی اکثر دیر کردیتا ہے۔آپ جہاں اور جس ماحول میں رچ بس جائیں وہاں یاتو آپ کوخوبیاں ہی خوبیاں نظرآتی ہیں یا پھر برائی ہی برائی دکھائی دیتی ہے۔ میرامسئلہ یہ ہے کہ اشیا ہوں یا اشخاص،جہاں تک ممکن ہوتاہے، ان سے لمحہ موجود میںبقدر ہمت حظ اٹھانا چاہتاہوں،اگلے وقتوں کے لیے اٹھا نہیں رکھتا۔ جو ہوگیاوہ ہوگیا،اس کا غم نہیں کھاتا، جو نہیں ہوااس کا بوجھ نہیں لیتا۔ خیام کا مرید سمجھ لیں، ٹالسٹائی کاچیلا کہہ لیں،کہنا ہوتوابی قوریونی کہیں ، شراب نہیں پیتا، حرام نہیں کھاتا اور دلوں کو نہیں دکھاتا۔جو، جیسااورجہاں ہے، اس کو اسی مقام اور اسی وقت میں حسن و قبح سب کے ساتھ قبول کرنےکاحوصلہ اپنے اندرپاتا ہوں۔ میں نے اس شہرمیں کیا دیکھا کیا پایا ، محفوظ کرنے کی اپنی سی کوشش کررہا ہوں۔یہ کام میں نےدہلی کی زندگی کے کچھ منتخب کرداروں کے سہارے کیا ہےاوراس کے علاوہ اپنی زندگی میں اور تھاہی کیا۔ یہ کردار اپنے اپنے دائرے کی معروف و مشہورشخصیتیں ہیں ، اردو لسانی معاشرے کے کردار ہیں،تاہم آپ اگر ادیب و دانشور ہیں اور علم و ادب کاوہی ذوق رکھتے ہیں جو آجکل ہمارے درمیان عام ہے تو آپ کو مایوسی ہوگی کیونکہ یہ بڑے ادیبوں، نامورسیاستدانوں اور دانشوروں کی زندگی میں جھانکنے اور ان کے اردگرد دلّی دیکھنےیا لال قلعہ اور قطب مینار دیکھنے دکھانے سے زیادہ میرےاپنے حصے کی دلّی ہے، ایک بڑاخاص لیکن بالکل عام سا،ہرلمحہ بنتابگڑتا،ایک بہت بکھرا بکھرالق و دق شہر۔
(’ میرے حصے کی دلّی اورقصہ چھٹے درویش کا‘ کے پیش لفظ سے اقتباس)
Mr. Ahmad Jawed is a well-known journalist, poet, columnist and author of many books. His column FIKR-e-FARDA appears every Sunday since May 2006; up to June 2012 on editorial page of the Hindustan Express daily, New Delhi, after then the Azad Hind, Kolkata for year and the INUILAB (all 15 editions in north India). His excellence and contribution of more than 30 years in the field of Urdu/ Hindi journalism is substantial and significant.
Mr. Jawed worked for weekly NAI DUNIA (Urdu), NAI ZAMEEN (Hindi), Daily Aajka Akhbar (Hindi), Hindustan Express (Urdu) and the New Age Vision (News magazine) as Editor In-charge, Joint Editor, News Editor, Editor and Editorial Adviser; and gained extra-ordinary popularity as Editor of Hindustan Express, New Delhi. He joined the INQUILAB in April 2012 as a Resident Editor and worked for its Lucknow & five adjoining editions and he had been giving his services for its Patna and adjoining editions. His Sunday Column Firk-e-Farda (thinking into the future) for edit page of INQUILAB was a great attraction of its readership.
As an editor, he gained the success of giving Urdu journalism a new shape and dimension in Bihar. And the INQUILAB helped society and government to solve many issues and to force many boards/departments to work right with its impartial and investigative journalism. Its counterparts are also gained impacts by it. INQUILAB is the first Urdu daily which went to schools of city (Inquilab Aapke School/Madrase mein) under leadership of Mr. Jawed and reviewed here state of Urdu in education. Bazm-e-Inquilab’s activities infused a new enthusiasm in literary circles of the state and first of all in India a newspaper organized Orhani Club, a series of discussions on issues of Urdu spoken women by women.
Urdu Media Guild of India awarded him PRIDE OF JOURNALISTS on occasion of World Labor Day 2013 at IMA-Lucknow and presented him the award by Justice Pradeep Kapoor and Mr. Sayeed Naqvi, the Better World Mission presented him Aabru-e-Sahafat 2014 for his outstanding contribution in the field of creative journalism by Dr. Jagannath Mishra (Ex-CM) & Mr. Brishna Patel, Education Minister, Bihar. Bihar Urdu Academy (Govt. of Bihar) awarded him its National Ghulam Sarwar Award for Journalism (2014) for excellence in Urdu journalism and he is honored by West Bengal Urdu Academy’s ARM National Award for his excellent contributions in Urdu literature and Journalism.
Mr. Jawed born in a village of Madhubani district of Bihar started career in this field in 1982 as a special Correspondent for Sangam Daily under Editorship of Mr. Ghulam Sarwar, an outstanding journalist and stalwart Socialist leader. He Contributed the Qaumi Awaz (Patna) and Qaumi Tanzim, Patna for years as a special correspondent and Nai Zameen Hindi Weekly and Nai Dunya Urdu Weekly (1999-04) as an Editor (in-charge). He translated the UNESCO profile book the Sasia story by H E MADANJEET SINGH, Goodwill Ambassador of UNESCO in Hindi named SASHIA KI KAHANI and edited SAHRA BHI GULZAR LAGE a selection of poetry by SHABNAM KAMALI. He contributes NAI DUNYA Weekly as a sociopolitical analyst regularly since 1999 up to June 2013 and written several articles every week for this national Urdu weekly.
A group of youth Urdu journalists established the Hindustan Express daily in 2006 and he joined the group. This new generation newspaper created history in the world of investigative journalism and journalism of courage and fact finding in Urdu under editorship of Mr. Ahmad Jawed. Hindustan Express provided equal coverage to all sections of social and political philosophy and gives lead in making the mind of Urdu knowing minorities, especially the Muslims of north India. That is why Hindustan Express was the most quoted Urdu daily in India and abroad. It has the pride of being the first Urdu daily of North India on net with the URL www.hindustanexpress.com.
He contributed UNICEF as a Consultant Editor for years and translated UNICEF annual reports of 2011, 2012 and 2013 i.e. State of World’s Children in Urdu. In April 2012, he joined INQUILAB Urdu daily as Editor (in-charge) of all 5 editions published from Lucknow, Kanpur, Allahabad, Varanasi and Gorakhpur. Now, He is Resident Editor of INQUILAB, Patna, Muzaffarpur and Bhagalpur since the day one of publication i.e. 27 May 2013. Publication of INQUILAB in Bihar is a turning point of Urdu Journalism in the state and the region. And credit of to bring INQUILAB here with the effective manner goes to Mr. Ahmad Jawed with the publisher and staff members of the newspaper having a success history 75 years in Urdu journalism. Now, He is ready to begin a new journey with Urdu journalism.