کیا پیغمبراسلام ﷺنے بچوں کے حقوق کی تعلیم نہیں دی یا ان کے حقوق پر بہت زیادہ زور نہیںدیا؟
فکر فردا
ہم اس جلسہ گاہ سے نکلے تو دردو کرب ، ندامت، مایوسی اورامید کی ملی جلی کیفیات و احساسات سے دوچار تھے۔ہمارے لیے یہ مناظر نہ تو نئے تھے نہ ان سے ہم پہلی بار دوچار ہوئے تھے ۔ سچ پوچھئے تو ایسے دردناک مناظر کے درمیان جیتے جیتے ہم لوگ بے حس ہوچکے ہیں، غریبی اور جہالت ہردن ہمارے ضمیروں پر ہتھوڑے برساتی ہے لیکن ان دستاویزات نے ان کیفیات کو ایک دم اور ایک ساتھ تازہ کر دیا جن کو ہم لمحے بھر کو بجلی کی آتی جاتی لہروں کی طرح محسوس کرتے اور بھول جاتے ہیں۔
احمدجاوید
اس دن ہم نئی دہلی کے انڈیا ہیبٹاٹ سینٹر میںیونیسیف کی ایک تقریب میں شریک تھے۔اقوام متحدہ کا یہ ادارہ جس کا پورانام یواین چلڈرن فنڈ ہے ، دنیا کے بچوں کی حالت کے عنوان سے ہر سال فروری میں ایک رپورٹ جاری کرتاہے، جو بلا تفریق ملک و ملت دنیا بھر کے بچوں کو ان کی قوموں اور معاشروں میں درپیش مسائل و مشکلات پر اقوام عالم کی توجہ مبذول کراتی ہے۔عموماً یہ رپورٹ کسی خاص موضوع پر مرکوز ہوتی ہے۔’ ’دنیا کے بچوں کی حالت۲۰۱۲ء ‘‘کا موضوع ’’ ایک شہری دنیا میں بچے ‘‘تھا۔رسم اجراء کی یہ تقریب ایک مختصر دستاویزی فلم کی نمائش سے شروع ہوئی۔ آنکھوں کے سامنے مرادآباد کی ایک گھنی مسلم آبادی کے لرزہ خیز مناظر تھے ، نہایت غلیظ اور ناگفتہ حالات میں بڑے ہوتے بچے،کچی گلیوں میںکھلے نالوں کے ابلتے کناروں کے ساتھ دوڑتے بھاگتے بچوں کے درمیان لاٹھی کی مدد سے دوڑتابھاگتاایک بارہ تیرہ سال کالڑکااورہوامیں جھولتی اس کی دوسری ٹانگ، تنگ و تاریک گلیوں میں چھوٹے چھوٹے کمروں کے اندر ظروف سازی کے کارخانے،دھاتوں کو پگھلائی جانے والی بھٹیوں کے پاس کالک ، دھوئیںاور پسینے میں شرابور مزدوراور ان کے ساتھ جانوروں کی طرح محنت کرتے ننھے ننھے آٹھ آٹھ دس دس سال کے معصوم ہاتھ، چیتھڑوں سے تعمیر کردہ دربہ نما کمروں میں پورا پورا خاندان،لگتا تھاکلیجہ ابل کر منھ کو آجائے گا۔پھر ایک گیارہ سال کا ہنستا کھیلتا خوبصورت لڑکا سامنے آیا،وہ اسکول یونیفارم اور کتابوں کے بستہ کے ساتھ اپنی دو بہنوں کے ہمراہ اپنے گھر میں داخل ہورہا تھا ۔انس نے ۸سال سے ۱۰سال کی عمر تک ہر دن دس گھنٹے ، ہفتے میں۶ دن مرادآباد کی اسی بستی میں بھٹی کی آگ کے پاس ایک دھوئیں سے بھرے کارخانے میں گزارا تھا جہاں پیتل اوردوسری دھاتوں کے برتنوں کی صنعت میں استعمال کی جانے والی دھاتیں پگھلائی اورڈھالی جاتی تھیں۔ اس سے وہ یومیہ دس پندرہ روپے کماتا تھا۔انس کا باپ ایک رکشہ ٹھیلہ کھینچنے والامزدور ہے جو یومیہ ستراسی روپے کماتاہے اور اس کمائی سے پانچ افراد پر مشتمل خاندان کی ضروریات مشکل سے ہی پوری ہوتی ہیں۔ انس اسکول سے آنے کے بعد اپنے بیماردادا کے سرہانے بیٹھ گیا،ان کی نورانی داڑھی سے کھیل رہا ہے، جن کو مہنگی دواؤں کی ضرورت تھی اور خاندان یہ بوجھ مشکل سے ہی برداشت کر سکتا تھااور اسی لیے انس دھاتوں کے اس خطرناک کام میں جانے کو تیار ہوگیاتھا۔ اس کی خطرناکی کا ایک واضح نشان وہ اپنے پیر پر رکھتا ہے جو پگھلی ہوئی دھات سے جل گیا تھا۔ اب گیارہ سالہ انس کارخانے سے نکل کر اسکول میں ہے اور پڑھنے لکھنے میںبہت اچھا ہے۔ یونیسیف کے امداد یافتہ حقوق اطفال پروجیکٹ نے اس کی زندگی بدل دی ہے جوآئکیا فاؤنڈیشن کی مالی مدد سے چلایا جارہاہے۔ یہ پروجیکٹ مرادآباد کی ۱۰۱ بستیوں میں انس جیسے غریب بچوں کے لیے حق تعلیم کے خواب کو شرمندۂ تعبیرکرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ پروجیکٹ نے منصوبہ کے مطابق مرادآباد کی بستیوں میں سروے کر کے ۱۴۰۰۰ سے زائد لڑکے لڑکیوں کی شناخت کی ہے جو اسکول مدرسہ سے باہر رہے ہیں۔ پروجیکٹ تربیت یافتہ رضاکاران چلارہے ہیں، تقریباً ۷۰۰۰۰ غریب خاندانوں اور۵۵۰۰۰ بچوں تک پہنچنا ہے۔
میڈیا کے نمائندوں کو اس کے علاوہ جو دستاویزات دیے گیے تھے ان میں چار دوسری کہانیاں بھی شامل تھیں، ایک میں مراد آباد کی ہی ایک ۲۱ سالہ خاتون جو اب ایک بیٹی کی ماں ہے ، اپنی دردناک کہانی سنا رہی ہے کہ کس طرح صرف ۱۵ سال کی عمر میں اس کی شادی کر دی گئی تھی اور اس کے نتیجے میں اسے کن مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسری کہانی ممبئی کے مضافات کرلا کی ایک جھگی بستی کی ننھی بچی ناز کی ہے جو اب یونیسیف کے اسکول اکسی لینس پروگرام کے تحت مقامی میونسپل اسکول میں زیر تعلیم ہے۔ اسکول میں تقریباً۶۰۰ طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں، اسکول کی پرنسپل چاند سلطانہ بتاتی ہیں کہ ان بچوں کو اسکول چھوڑنے سے باز رکھنا بہت ہی مشکل کام ہے کیونکہ ان کو چھوٹے موٹے کام کر کے اپنے خاندان کی مدد بھی کرنی پڑتی ہے اور اگر ماں بیمار پڑجائے تو اپنے چھوٹے بھائی بہنوں کی دیکھ ریکھ بھی ان ہی کو کرنی ہے۔ اسکول سے محض بیس منٹ کے فاصلہ پرجھگی بستی ہے جہاں ناز اپنے والدین اورپانچ بھائی بہنوں کے ساتھ رہتی ہے۔ درجہ تین کی طالبہ ناز تنگ گلیوں سے ہوتی ہوئی جن کی دونوں طرف ڈبہ جیسے گھروں میں پورے پورے خاندان رہتے ہیں،بستی کے ایک دوسری طرف لے جاتی ہے۔ گلیوں کر پار کرتے جائیے ،بالکل آخر میں جہاں ایک کھلا نالا ایک گندے تالاب میں تبدیل ہوجاتا ہے، یہی وہ جگہ ہے جہاں ناز کا گھر ہے۔ جھگیوں کے معیار پر بھی دیکھیں تو یہ دل دہلا دینے والا منظر ہے۔ پلائی کی دیواریں جن کے آرپار سب کچھ نظر آتا ہے ،اندر ایک ہی ننگا بلب دو کمروں کو روشنی دیتا ہے۔ پھربھی ان بچوں کو معمولی قیمت کی اسکولی چیزیں جو ان کو مفت ملتی ہیں، جوتے لنچ بکس، جیومیٹری سیٹ، مڈ ڈے میل اور فری تعلیم اسکول لے جاتی ہے۔ ناز کی ماں شہناز بیگم ناخواندہ ہے اور اپنی عمر تیس بتیس سال بتاتی ہے۔ اس کا آخری بچہ صرف ایک ماہ کا ہے اور اسے فلیریا ہوگیا ہے جو ان جھگیوں میں عام ہے جہاں ٹروپیکل پیراسائٹس کی افزائش ہوتی ہے۔اس کا شوہر یومیہ مزدور ہے۔ اس پر مستزاد اسے پینے کی عادت ہے جو اسے اس خاندان کی فکر سے ہٹادیا کرتی ہے جواکثر دو وقت کے کھانے کے لیے ترستا ہے۔ننھی سی ناز کے ساتھ اپنی ہتھیلیوں پر احتیاط سے اس کی بہن تبسم کو سنبھالے ہوئے، شہناز بیگم کہتی ہے’’ علم رہے تو اچھا رہے، آجکل کے زمانے میں تو ضروری ہے‘‘ ناز اس کی بات میںاپنی معصوم خواہش جوڑدیتی ہے’’ میں بڑی ہوکر ڈاکٹر بننا چاہتی ہوں‘‘۔
تیسری کہانی کولکاتہ کے سیالدہ کی ہے جس میں ایک گھریلو ملازمہ کی بیٹی رخشندہ اپنی سرگزشت سنا رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ اس کا سپنا فضاؤں میں پرواز کر نے کا ہے ۔یہ مقامی اسکول لوریٹوڈے کے رینبوچلڈرن (قوس قزح بچے)پروگرام کی بدلت ممکن ہوسکا ہے کہ ایک غریب خاتون جس کے لیے دو وقت کی روٹی جٹا پانا ممکن نہیں تھااس کی بیٹی شہر کے ایک سب سے اچھے پرائیویٹ اسکول کی ساتویں جماعت میں پڑھتی ہے۔رخشندہ بتاتی ہے’ میری ماں لوگوں کے گھروں میں کام کرتی تھی۔ میں اپنے حال پر چھوڑ دی گئی تھی۔ دو سال پہلے کسی نے ان کو رینبو اسکول کے بارے میں بتایا اور پھر میری زندگی دو بارہ کبھی ویسی نہیں ہوئی۔ پیئر ٹیوٹرنگ کے چند ماہ کے اندر ہی میں کولکاتہ کے ایک سب سے اچھے پرائیویٹ اسکول لوریٹو ایلیٹ روڈ کے مین اسٹریم ( عام دھارے) میں آگئی۔ آج میں ایئر ہوسٹس بننے کا خواب دیکھ رہی ہوں۔ کیونکہ ایک رینبو چائلڈ ( طفل قوس قزح) کی حیثیت سے جانتی ہوں کہ (تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا ترے سامنے) آسماں اور بھی ہیں۔اور چوتھی کہانی پولیو کی تھی جس کی بیخ کنی میں ہندوستان کو ایک تاریخی کامیابی ملی ہے اور ابھی ۱۲ فروری کو ہی ہندوستان میں پولیو سے پاک ایک سال پورا ہوا ہے۔رپورٹ میں بتایا گیاتھا کہ یہ کامیابی اس خطرناک مرض کی بیخ کنی میں ہندوستان کی ایک بہت بڑی چھلانگ ضرور ہے ،نا امیدی کفر ہے لیکن اس کے باوجود خطرہ ابھی ٹلانہیں ہے۔ ہندوستان میں پولیو کا وائرس اس کے پڑوسی ممالک سے درآمد نہ ہوجائے کیونکہ دینا کے جن تین ممالک میںپولیو وبا ئی صورت میں اب بھی برقرار ہے،وہ نائیجیریا، افغانستان اورپاکستان ہیں اور۲۰۱۱ء میں پاکستان اور افغانسان میں پولیوکے معاملوں میں تشویشناک حد تک اضافہ دیکھا گیا ہے اور پولیو کا وائرس پاکستان سے دوبارہ چین پہنچ گیا ہے جو۱۹۹۹ء سے پولیو سے پاک تھا۔
ہم اس تقریب سے نکلے تو دردو کرب ، ندامت، مایوسی اورامید کی ملی جلی کیفیات و احساسات سے دوچار تھے۔ہمارے لیے یہ مناظر نہ تو نئے تھے نہ ان سے ہم پہلی بار دوچار ہوئے تھے ۔ سچ پوچھئے تو ایسے دردناک مناظر کے درمیان جیتے ہوئے ہم لوگ بے حس ہوچکے ہیں، غریبی اور جہالت ہردن ہمارے ضمیروں پر ہتھوڑے برساتی ہے لیکن ان دستاویزات نے ان کیفیات کو ایک دم اور ایک ساتھ تازہ کر دیا جن کو ہم لمحے بھر کو بجلی کی آتی جاتی لہروں کی طرح محسوس کرتے اور بھول جاتے ہیں لیکن اصل واقعہ یہ نہیں ہے، واقعہ تو یہ ہے کہ ہم جلسہ گاہ سے باہر آئے تو ایک صحافی دوست نے جو خیر سے عالم دین بھی ہیں،بڑے رازدارانہ انداز میں مخاطب کیا:’ جاوید صاحب!یہ لوگ ہمارے گھروں میں گھس گھس کر یونہی دوائیں پلاتے پھرتے ہیں کیا‘۔ میری سماعتیں جھنجھنا اٹھیں،ایک شاک سا لگااور کانوں میں سائیں سائیں کے شور کے ساتھ یہ باز گشت گونجنے لگی’ مذہب افیون کی گولی ہے ‘۔ پاس ہی موجود ایک صحافی کہہ رہا تھا’اور یہ تو بتائیے کہ مسلم ممالک اور مسلم تنظیمیں مسجد اور مدرسے بنانے اور مسلکی اختلافات کوفروغ دینے کے سوا بھی کچھ کرتی ہیں۔اور کیا اسلام کے پیغمبر ﷺنے بچوں کے حقوق کی تعلیم نہیں دی تھی یا اس پر کوئی زور نہیں دیا تھا؟‘ میرے لیے اس بحث میں پڑنا قابل برداشت نہ تھا۔ہم ہیبٹاٹ سینٹر سے باہر آئے تو اردو کے کچھ دوسرصحافی ملے جو دنیا کے بچوں کی حالت ۲۰۱۲کے اجرا میں دیر سے آنے کی وجہ کانسی ٹیوشن کلب میں ایک پریس کانفرنس کو بتا رہے تھے جوامام مسجدالحرام شیخ سعود الشریم کی آمدکے سلسلے میں بلائی گئی تھی جو اگلے دن نئی دہلی پہنچ رہے تھے۔