۔۔۔اور جب برج شاہی بولے گا

Table of Contents

احمدجاوید
دبئی میںدنیا کی بلند ترین عمارت برج الخلیفہ کی تعمیر کے ابھی چند ماہ بھی نہیں ہوئے تھے کہ جدہ سے خبر آئی کہ سعودی شاہی خاندان یہاں برج شاہی (کنگڈم ٹاور/برج المملکۃ) کی تعمیر کرانے جارہا ہے جو برج الخلیفہ سے تقریباً دوگنا بلندو بالا ہوگا تو میرے ذہن میں ایک مشہور حدیث کا مفہوم گردش کرنے لگا۔ جی ہاں! آپ نے بالکل درست سمجھا۔قیامت سے پہلے ننگے پیر ننگے بدن رہنے والے چرواہوںکو دیکھوگے کہ بلند وبالا عمارتوں میں ان میں بازی لگی ہوئی ہے۔صادق ومصدوق نبیؐ پر ہمارا ایمان اور بھی تازہ ہوگیا۔ شاید آپ کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ آج دنیائے عرب میں دولت و اقتدار جن ہاتھوں میں ہیں ان میں اکثریت کل کے چرواہوں( بدوئوں) کی ہے۔ مثل مشہور ہے کہ جس وقت روم جل رہا تھا اس کا بادشاہ نیرو بانسری بجارہا تھا۔ آج دنیائے عرب کی جو حالت ہے وہ کسی سے مخفی نہیں، آپ چاہیں تو اس صورت حال کا موازنہ روم اور نیرو سے بھی کرسکتے ہیں لیکن میرے نزدیک مشرق وسطیٰ کی حالت دوسری تیسری صدی عیسوی کے روم سے کہیں زیادہ سنگین اور دھماکہ خیز ہے۔ یہ اور بات ہے کہ دنیا جس وقت قیامت کی چالیں چل رہی ہے، سلاطین عرب میں فلک شگاف عمارتوں کی بازی لگی ہوئی ہے۔
بلند وبالا عمارتیں بنوانے کی روایت دنیا میں نئی نہیں ہے۔ اس کی تاریخ دنیا کی قدیم ترین تہذیب انسانی میں اہرام مصر کی شکل میں ملتی ہے لیکن یہ سلسلہ پچھلی صدی میں نئی شکل میں سامنے آیا جب امریکہ میں امپائر اسٹیٹ بلڈنگ، سیئرس ٹاور اور ورلڈ ٹریڈ ٹاور کی عمارتیں وجود میں آئیں۔ موخر الذکر کو تو امریکی فخر سے جنت کی سیڑھی کہا کرتے تھے جو نائن الیون کے سانحہ کے ساتھ دنیا کی تاریخ کا ایک المناک ترین باب بن چکا ہے۔ مشرقی ممالک میں یہ رجحان دبئی کے برج العرب اور کوالا لمپور کے پیٹرو ناس ٹاور کی تعمیر سے شروع ہوا۔پچھلے سال برج الخلیفہ نے اب تک کی تمام فلک شگاف عمارتوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ جس کی اونچائی 828میٹر ہے۔ اس کے بعد تائیوان کے تائپے 101(508میٹر)،پھر شنگھائی (چین) کے ورلڈ فنانشیل ٹاور (492میٹر)، اور اس کے بعد ہانگ کانگ کے انٹرنیشنل کامرس سینٹر کی باری آتی ہے جب کہ چند سال پیشتر تک کوالا لمپور (ملیشیا) کا پیٹروناس ٹاور(452میٹر) دنیا کی بلند ترین عمارت تھا۔ یہ تفصیلات بتارہی ہیں کہ آج فلک شگاف عمارتیں کس رفتار سے بن رہی ہیں اور مشرقی اقوام میں اس کی کیسی بازی لگی ہوئی ہے۔ جس دنیا میں ہرشب کروڑوں انسان بھوکے سوتے ہوں وہاں یہ عالیشان عمارتیں کیا بتارہی ہیں، کس کی عظمتوں کا خطبہ پڑھ رہی ہیں، کس حقیقت کی آئینہ دار ہیں؟؟ یہ تو وہی بتاسکتے ہیں جو یہ عمارتیں بنوا رہے ہیں، ہم تو صرف اتنا جانتے ہیں کہ ان بلندیوں سے زمین پر رینگنے والے انسان یا تو چیونٹیوں سے بھی چھوٹے نظر آتے ہیں یا پھر نظر آتے ہی نہیں۔
دبئی کے شاہی خاندان نے 828میٹر بلند برج الخلیفہ کی تعمیر کرائی تو اس بلندی کو مات دینے کے لیے سعودی شاہی خاندان اس سے دوگنا بلند وبالا برج شاہی بنوارہا ہے۔ جس وقت یہ خبر ہمارے کانوں میں پڑی میرے ایک صحافی دوست نے کہا دیکھنا یہ برج شاہی عنقریب ’برج رعایا‘ بن جائے گا۔ لیکن میرے کانوں میں طرابلس کے صدارتی محل سے آنے والی یہ آواز گونج رہی تھی ’ کیڑے مکوڑو، کاکروچو اور مینڈکو اپنے گھروں کو لوٹ جائو ورنہ سب کے سب مارے جائوگے‘۔یہ کسی اور کی نہیں کرنل معمر قذافی کی آواز تھی جو اس وقت اس بلندی پر تھا جہاں سے خلق خدا نظر نہیں آتی یا آتی ہے تو کیڑے مکوڑوں سے بھی حقیر نظر آتی ہے۔
30ارب ڈالر کی لاگت سے بننے والا برج شاہی (کنگڈم ٹاور) ایک میل (1.6کلو میٹر) بلند ہوگا۔ جدہ سے تقریباً20کلو میٹر کے فاصلے پر بحر احمر کے ساحل پر واقع یہ بلند وبالا عمارت ایک کروڑ بیس لاکھ مربع فٹ کے وسیع وعریض رقبے میں پھیلی ہوگی اور اس میں عالیشان ہوٹل، جم، ریستوران، اپارٹمنٹس اور دنیا بھر کی آسائشوں سے مزین شاپنگ سینٹرز ہوںگے۔ جس کی نچلی منزل سے آخری منزل کا سفر بذریعہ لفٹ20منٹ کا ہوگا۔ دبئی کے برج الخلیفہ کی بلندی 3281فٹ ہے جب کہ جدہ کے برج شاہی کی بلندی 5,280فٹ ہوگی، اس ٹاور کا ڈیزائن بھی اسی امریکی کمپنی نے تیار کیا ہے جس نے برج الخلیفہ کا ڈیزائن تیار کیا تھا۔ ماہرین تعمیرات اس منصوبہ کی تنقید کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا کی سب سے اونچی عمارت بنانے کی جوبازی لگی ہوئی ہے وہ خطرناک ہے۔ عالمی جریدہ دی آرکیٹیکٹس جرنل کے ایڈیٹر روزی آلکا ٹونے اس کو فضول کی مقابلہ آرائی کہا ہے لیکن اس کو کیا کیجئے کہ یہ بازی جو لگ گئی ہے تو کہنا مشکل ہے کہ کہاں جاکر ٹھہرے گی۔
ہم نے بچپن میں پڑھا تھا: المنارۃ تتحدث (منارہ بولتا ہے)۔ یہ ساتویں جماعت میں عربی کی درسی کتاب القرأۃ الراشدہ کا پہلا سبق تھا۔ کتاب کے مؤلف مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ نے مضمون میں ہندوستان کی تاریخ بیان کی ہے، دہلی کا قطب مینار بچوں کو ہندوستان میں اسلام اور مسلمانوں کے عروج وزوال کی کہانی سنارہا ہے۔ یہ کہانی بہت ہی دلچسپ، رقت انگیز اور عبرتناک ہے۔ دہلی کا قطب مینار بیان کررہا ہے کہ کس طرح سرزمین ہند پر مسلمانوں کے قافلے اترے اور کس طاقت نے انہیں یہاں سرخ روئی و سربلندی عطا کی ۔ پھر کیوں، کس طرح اور کن ہاتھوں سے وہ ذلیل وخوار ہوئے۔ انگریزوں کے ہاتھوں پلاسی اور بکسر کی جنگوں میں مسلمانوں کی شکستوں کی دلدوز کہانیاں سناتے وقت منارے کی آنکھیں بھر آتی ہیں۔ منارہ بتاتا ہے کہ جس وقت سلطنت مغلیہ کا زوال اپنی انتہا کو پہنچ رہا تھا، ہندوستان کے ہندو مسلمان، راجے، مہاراجے، نوابین، جاگیرداران اور امرائے سلطنت کیا کررہے تھے۔ کاش! آج کے یہ سلاطین مسلم سمجھ پاتے کہ منارے بھی بولتے ہیں اور بروج (ٹاورز) بھی کہانیاں سناتے ہیں۔ کاش! ان کے دل کی آنکھیںاندھی نہ ہوگئی ہوتیں اور یہ دیکھ پاتے کہ ان مناروں کی آنکھوں میں کس طرح خون کے آنسو تیررہے ہیں، جو ان کے سروں پر کھڑے ہیں یا جن کی بلندیوں پر ان کے دماغ ہیں۔
ان ہی کالموں میں ہم پہلے بھی آپ سے عرض کرچکے ہیں کہ دنیائے عرب کی سیاسی وسماجی صورت حال تاریخ کے نازک ترین دور سے گزررہی ہے لیکن مشرق وسطیٰ کے ملکوں کے حکمرانوں کی سمجھ سے باہر ہے کہ وہ تاریخ کے اس نازک موڑ پر کیا کریں۔صحرائے عرب میں تعمیر کیے جانے والے ان مناروں(ٹاوروز) پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک مغربی مبصر نے بڑی خدا لگتی بات کہی ہے کہ یہ اس سوچ کی علامت ہیں جس کی جڑیں عہدوسطیٰ میں پیوست ہیں۔ بلاشبہ یہ سلاطین عرب آج بھی عہد وسطیٰ میں جی رہے ہیں۔ دنیائے عرب کو آج سیاسی ، سماجی اور جغرافیائی اعتبار سے تین حصوں میں بانٹ کر دیکھا جاسکتا ہے۔ پہلا جزیرۃ العرب کا وہ علاقہ جہاں سعودی عرب، عراق، کویت ، یمن اور عرب امارات ہیں، اس خطے میں انقلاب کی لہریں بہ ظاہر زیادہ طاقتور نظرنہیں آتی ہیں لیکن دنیا جانتی ہے کہ یہاں زمینوں کے نیچے کتنا لاوا ابل رہا ہے۔ تیل کی دولت اور جبر واستبداد کی قوتوں سے دبی انقلابی طاقتیں کس دن آتش فشاں بن جائیں، کچھ کہا نہیں جاسکتا لیکن ان ملکوں کی دینی اور سیاسی قیادتیں یہ سمجھنے سے قاصر ہیں۔ دوسرے حصے میں دنیائے عرب کے قدیم تہذیبی وثقافتی مراکز واقع ہیں۔ مصر، شام، فلسطین اور اردن۔ اسی خطے میں دنیائے اسلام کا سب سے حساس فلیش پوائنٹ بیت المقدس اور صیہونیت کا ناسور اسرائیل ہے۔عرب قوم پرستی کا میدان عمل شروع سے یہی خطہ رہا ہے اور یہاں نسبتاً زیادہ سیاسی بیداری ہے۔ تیسرا حصہ مغرب کا علاقہ ہے جو مراقش، لیبیا، تیونس، موریطانیہ اور شمالی افریقہ کے دوسرے ممالک پر مشتمل ہے۔جہاں یوروپ اور صوفیا کے اثرات کے باعث جمہوریت کی جڑیں اور انقلابی فکر کافی مضبوط ہیں اور آج ان دونوں خطے میں کس طرح حکمراں اور عوام آمنے سامنے کھڑے ہیں اور اس ٹکرائو کا فائدہ اٹھانے کی کیسی سازشیں بیرونی طاقتیں کررہی ہیں وہ کسی سے مخفی نہیں ہیں۔ کاش! ان حکمرانوں کی آنکھیں ہوتیںجو اس عالم میں بھی فلک شگاف عمارتوں کی تعمیرکی بازی میں لگے ہوئے ہیں۔ کاش!ان کے کان ہوتے وہ سن پاتے اور کاش! ان کے دل ہوتے جو یا درکھتے کہ منارے بھی بولتے ہیں۔

مصنف کے بارے میں

احمد جاوید

احمد جاوید اردو کے ممتاز صحافی، مصنف، مترجم اور کالم نگار ہیں۔ تاریخ و تمدن پر گہری نظر اور ادب و صحافت میں اپنے منفرد اسلوب سے پہچانے جاتے ہیں۔

مزید