ہندوستانی مسلمان اور حق تعلیم آخر یہ ٹکراؤ کیاہے؟

Table of Contents

احمد جاوید
اب ایک سال ہونے کوآئے ،دہلی کی اردو اکادمی نے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ملک کے معروف ماہر تعلیم و سرکردہ دانشور سید حامد کے اعزاز میں ایک نشست کا اہتمام کیا تھا۔ جلسے کی صدارت جسٹس راجندر سچر کررہے تھے۔ اپنی صدارتی تقریر میں انہوں نے ایک بڑا ہی دلچسپ واقعہ بیان کیا تھا۔جسٹس سچر جو ایک ماہر قانون و انصاف کے علاوہ سرکردہ سماجی خدمت گاربھی ہیں بلکہ یہ ان کی شخصیت کا غالب عنصر ہے،وہ سماج کے دبے کچلے اور پسماندہ طبقات کے لیے اپنے دل میں بے پناہ درد رکھتے ہیں اس لیے مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی دور کرنے کے سلسلے میںسید حامد کی کوششوں کے قدر داں ہیں۔مسلمانوں کی سماجی، معاشی اور تعلیمی حالت کا جائزہ لینے کے لیے وزیر اعظم ہند کے ذریعے جسٹس راجندر سچر کی صدارت میں مقرر کی گئی اعلیٰ سطحی کمیٹی میں سید حامد بھی شامل تھے۔ اس کمیٹی نے بڑی محنت اور ایمانداری سے ملک کے مسلمانوں کی سماجی، معاشی اور تعلیمی حالت کا مطالعہ کیا،اس کے لیے سرکاری وغیر سرکاری ایجنسیوں سے ٹھوس اعداد وشمار حاصل کیے، ملک کے مختلف علاقوں کے دورے کیے، ماہرین اور دانشوروں سے تبادلۂ خیالات کیا اور سماجی وسیاسی نمائندوں سے ملاقاتیں کیں۔ اسی سلسلے میں یہ تحقیقاتی کمیٹی حیدر آباد گئی تھی۔ جسٹس سچر کا بیان ہے کہ اس دن شہر کے مسلمانوں کے ایک نمائندہ وفد سے ان کی ملاقات تھی۔ یہ بڑے ہوش مند، تعلیم یافتہ اور آج کی دنیا پر گہری نگاہ رکھنے والے مسلمان تھے۔ انہوں نے کمیٹی کے سامنے اپنی باتیں بڑی خوش اسلوبی سے رکھیں لیکن ایک موقع پر سید حامد صاحب ان پر چیخنے لگے، وہ انتہائی غصے میں تھے، جتنا جی میں آیا ان کوبرا بھلا کہا۔ہم سب حیران تھے لیکن ان کے اس غصے کا سبب ناقابل فہم نہیں تھا۔ وہ ایک درد مند دل رکھتے ہیں اور مسلمانوں کے سچے ہمدرد ہیں۔ہوا یہ تھا کہ اس وفد میںشامل بعض افرادنے سچر کمیٹی سے کہا کہ چونکہ عام طورپر مسلم طلبہ میٹرک کے امتحانات میں ریاضی میں ناکام ہوجاتے ہیں اوران کی تعلیم کا سلسلہ آگے بڑھنے سے رک جاتا ہے اس لیے سچر کمیٹی حکومت سے یہ سفارش کرے کہ مسلم طلبا کو اس سلسلے میں مستثنیٰ قرار دے دیا جائے، ان کے لیے ریاضی (حساب) میں پاس ہونا لازمی نہ ہو۔ یہ سننا تھا کہ سید حامد اپنے غصہ پر قابو نہ رکھ سکے۔چیخ اٹھے ’کیاآپ لوگ اس قوم کو جاہل بنادینا چاہتے ہیں؟‘ پھر دیر تک ان پر لعنت ملامت کرتے رہے اور ان لوگوں کی حالت یہ تھی کہ کاٹو تو بدن میں خون نہیں ۔
تقریباایک سال سے دہلی اورملک کے مسلم سیاسی وسماجی حلقوں میں وقفہ وقفہ سے لازمی تعلیم کے قانون پر ایک ہلچل سی مچی ہوئی ہے، جمعیۃ علماء ہند، ملی کونسل، مجلس مشاورت، اوریہاںتک کہ اب مسلم پرسنل لا بورڈ،مسلمانوں کی کون سی قابل ذکر تنظیم ہے جو حق تعلیم ایکٹ یا اس کی بعض دفعات سے مسلمانوں کومستثنیٰ قرار دینے کا مطالبہ نہیں کررہی ہے۔ بعض تنظیمیں تو حکومت کو دھمکی دے رہی ہیں کہ اس نے اگر مسلمانوں کے دینی مدارس کو اس قانون سے مستثنیٰ قرار نہیں دیا تو وہ اس کے خلاف ملک گیر تحریک چھیڑیں گے۔ لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر اتریں گے، گرفتاریاں دیں گے،جیل بھریں گے کیونکہ یہ میٹھا زہر ہے،پچھلے دروازے سے تعلیم کو قومیانے کی سازش ہے، اس قانون کی زد میں ہمارے دینی مدارس آتے ہیں جو ہمارے لیے کسی بھی قیمت پر قابل برداشت نہیں ۔حیدر آباد میں مسلمانوں کے نمائندہ وفد نے سچر کمیٹی سے مسلم طلبہ کے لیے جس استثنیٰ کا مطالبہ کیا تھا، گہرائی میں اتر کر دیکھیں توحق تعلیم ایکٹ کے سلسلے میں مسلم علماء و ملی قائدین کے مطالبات اس سے ذرا بھی مختلف نہیں ہیں لیکن حیرت ہے کہ آج کسی سید حامد کو ان پر غصہ نہیں آرہا ہے (اور اگر آرہا ہو تو ہمارے علم میں نہیں ہے) کسی نے ان کو ڈانٹ نہیں پلائی، کسی کی ہمت نہیں کہ لب کشائی کرے کیونکہ آج ان کے سامنے حیدر آباد کے ہوش مند اورتعلیم یافتہ مسلمان نہیں بلکہ شمالی ہند کے قائدین ملت اور علمائے کرام ہیں۔ ہر سمجھ دارآدمی خوفزدہ ہے کہ کہیں اس پر حکومت کی حمایت اور ملت سے غداری کا الزام نہ آجائے۔
پہلا سوال تویہی ہے کہ جب یہ قانون پارلیمنٹ کی میز پر تھا اور اس پر بحث ہورہی تھی،اس وقت ہمارے قائدین کہا ں سورہے تھے؟اور جب اس قانون کے نفاذ کو چار ماہ سے اوپر ہوگئے، ان میں اچانک بیداری اور بے چینی کیوں پھیل گئی؟ اوراب ایک سال بعد مسلم پرسنل لا بورڈنے حق تعلیم ایکٹ کے خلاف نئی توانائی کے ساتھ جنگ کیوں چھیڑ دی؟ کیا واقعی اس قانون کے نفاذ سے اسلام خطرے میں ہے ؟دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا اس قانون سے مسلمانوں اور بالخصوص مدرسوں کو مستثنیٰ قرار دیا جانا ممکن ہے؟ اگر ممکن ہے تو اس کی کیا صور ت ہوگی؟ کیا حکومت کو یہ اختیار ہے کہ ملک کے بعض شہریوں کو آئین میں دیے گئے حقوق دے اور بعض کو اس سے کسی وجہ سے محروم رکھے؟ اور اگر ایسا کیا گیا تو کیا یہ ملک کے آئین کی روح اور انصاف کے تقاضے کے منافی نہیں ہوگا؟ اگر ہاں تو پھر اس آئینی و قانونی بحران کا حل کیا ہے؟ ہم یہ تو نہیںکہہ سکتے کہ اس قانون میں کوئی خامی نہیں ہے لیکن حق تعلیم ایکٹ کو جبری تعلیم یا تعلیم کو قومیانے کی سازش قرار دے کرٹکرائو کا ماحول پیدا کرنا سراسر غلط ، گمراہ کن اور بد بختانہ ہے۔ یہ نہ ملک وقوم کے حق میں بہتر ہوگا اور نہ مسلمانوں کے حق میں بہتر۔ دیکھنے والی آنکھیں یہ بھی دیکھ رہی ہیں کہ اس ٹکراؤ کو بڑھانے میں ایک طرف وہ عناصر پیش پیش ہیںجو اسی قسم کے ٹکراؤ پر اپنی سیاست کی دکانیں سجاتے اور ملی مفادات کا سودا کرتے آئے ہیں۔ دوسری طرف ان کی پیٹھ پر وہ تعلیمی مافیا سرگرم ہیںجو اپنے اسکولوں میںبچوں کے والدین اور سرپرستوں سے موٹی رقمیں وصول کرتے ہیںلیکن ان کو معیاری تعلیم اورواجبی سہولیات نہیں دیتے، وہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کی ناراضگی کا خوف دکھاکرچھوٹ حاصل کرلیںاور ملت کے مستقبل سے بہ دستور کھلواڑ کرتے رہیں۔انہیں اپنے وقتی مفادات کے آگے کچھ سجھائی نہیں دے رہے ہیں،وہ صرف یہ دیکھ رہے ہیںکہ ان کا اپناکاروباربند ہوجائے گاورنہ معیاری انتظامات کرنے ہوںگے۔ کیادن آئے ہیںکہ اس مہم میں بعض وہ لوگ سرمایہ لگا رہے ہیں جو کل تک مسلمانوں کی پسماندگی کے لیے اصل ذمہ دارمدرسوںکو قرار دیتے تھکتے نہ تھے ،لیکن اب ان کو مدرسے حق تعلیم ایکٹ کی زد میں نظر آرہے ہیں کیونکہ ان کا اپنا انگلش میڈیم اسکول خطرے میں ہے۔ جس کے بچنے کی ایک ہی صورت نظر آرہی ہے کہ مدرسے اور مسلمان کے نام پر چھوٹ مل جائے۔
ہندوستان کا آئین ملک کے ہر شہری کویکساں اور معیاری تعلیم کا حق دیتا ہے ،ساٹھ سال بعد حکومت نے اپنی ذمہ داری محسوس کی اور حقوق تعلیم ایکٹ لاکر اس راہ میں پہلا قدم اٹھایا۔یہ قانون ہمیں حق دیتا ہے کہ ہم اپنی پسند کے تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کریں اوراس کے جملہ مصارف حکومت برداشت کرے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ ہم اس قانون کے ہر پہلو پر سنجیدگی سے غور کرتے اور منفی طرز فکر ترک کرکے حق تعلیم ایکٹ ہمیں جو حقوق دیتا ہے، اس سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی تدابیر کرتے لیکن ہورہا ہے یہ کہ ہم اندیشوںاور امکانات کے پیچھے بھاگ رہے ہیں، حکومت کی نیت پر شک کررہے ہیں، ان شرائط کو منفی طور پر لے رہے ہیں جوتعلیمی اداروں پر ملک کے ہر شہری کو یکساں اور معیاری تعلیم کی سہولیات مہیا کرنے کی غرض سے عائد کی گئی ہیں۔ جب حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ تعلیم کے جملے مصارف برداشت کرے اور آپ کو یہ حق حاصل ہے کہ معیاری تعلیم کی سہولیات مہیا کرانے سے قاصر رہنے کی صورت میں اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کریں تو اس قانون میں جو کم از کم معیار طے کیا گیا ہے وہ ہمارا حق ہے یا حکومت کی جانب سے تھوپی گئی شرطیں؟
دراصل ہم لوگ آسانیوں کی تلاش میں رہتے ہیں اور اپنے بچوں کے لیے بہتراور معیاری تعلیم کے حصول کی تدابیر اور اپنے ادارو ں کو حکومت سے تعلیمی اداروں کی حیثیت سے تسلیم کرانے کی جدوجہد کرنا یقینا مشکل کام ہے۔شاید اسی لیے قائدین ملت شرائط میں نرمی بلکہ استثنیٰ کا مطالبہ کررہے ہیں۔ اس میں آسانی یہ بھی ہے کہ لگے ہاتھوں سیاست کی روٹی بھی گرم ہورہی ہے ورنہ کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہم اپنے حق سے خود ہی دست بردار ہونے کی ضد کریں، خود کو مستثنیٰ منہ کرانے کا مطالبہ کریں اور اپنے اداروں کو تسلیم کرانے کی جدوجہد نہ کریں۔ کسی طفل مکتب کو بھی یہ بتانے کی حاجت نہیں ہے کہ حق تعلیم ایکٹ سے کسی فرد ،جماعت یاادارہ کومستثنی قرار دینے کا مطلب ا س کو ان حقوق سے محروم یادست بردارکرناہے جو یہ ایکٹ اسے دیتا ہے۔ پچھلے سا ل جولائی میں اس سلسلے کے ایک جلسے میں مرکزی وزیرفروغ انسانی وسائل نے مدرسوں کو اس ایکٹ سے مستثنیٰ کرانے کا وعدہ بھی کرلیا تھا۔پھرانہوںنے ایک گائڈلائن جاری کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’حق تعلیم ایکٹ میں مدرسہ کی بات نہیں ہے اور نہ ہی اس سے مذہبی تعلیم کو کوئی خطرہ لاحق ہے۔ پھر بھی اگر کسی کو شک ہے تو اس کے لیے گائڈ لائن جاری کردیاگیاہے۔‘‘ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ اس قانون سے مذہبی تعلیم کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے لیکن جو تعلیمی ادارے ضروری شرائط پورے نہیں کرتے، وہ اس قانون کی زد میںضرورآئیں گے چاہے وہ اسکول یا پاٹھ شالا ہوں یا مدرسے۔اس ایکٹ کی رو سے غیر منظور شدہ اداروںمیں بچوں کو روکنا غیر قانونی اور قابل مواخذہ جرم ہوگا۔ گائڈلائن وغیرہ وقتی اور جھوٹی تسلی ہے ۔وزیر موصوف یہ کہہ کر جھوٹی تسلی دے رہے ہیں کہ مدرسے اس قانون کے دائرے میں نہیں آتے ۔کیونکہ اگر مدرسوں کو مستثنیٰ قرار دیا جاتا ہے تویہ مدرسوں میں زیرتعلیم بچوں کے بنیادی حق کے ساتھ سمجھوتہ اور خلاف آئین ہوگا۔اور عدالتیں کسی وقت بھی ان کی گردن پکڑ سکتی ہیں۔ آخر ان بچوں کو وہ کس جرم میں تعلیم کے حق سے محروم کرسکتے ہیں جو تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم بھی لینا چاہتے ہیں؟حکومت پر لازم ہے کہ وہ مسلمانوںکو طفل تسلی دینے یا گمراہ کرنے کے بجائے ہمارے دینی مدرسوں کو تعلیمی اداروں کی حیثیت سے تسلیم کرے اور مدرسے بھی تعلیم کے کم از کم معیار کی پابندی کریںاورخود کوتسلیم کرائیں۔ حکومت سے تسلیم شدہ ایسے مدرسے اس ملک میںہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں اور شاید کپل سبل ان ہی مدرسوں کے تعلق سے باربارکہہ رہے ہیں کہ مدرسے اس قانون کی زد میں نہیں آتے۔ مسلمانوں کو کسی خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہئے۔ ماضی میں بھی یہ ملت اس قسم کی طفل تسلیوں کا شکار ہوچکی ہے۔
حق تعلیم ایکٹ ملک کے ہر بچے (6تا 14سال عمر) کو یہ ضمانت دیتا ہے کہ اس کو معیاری تعلیم کی سہولیات مہیا کرائی جائے ۔اس قانون کا اصل مقصدو منشا یہی ہے اور اسی کو یقینی بنانے کے لیے اس ایکٹ میں قانونی انتظامات کیے گئے ہیں۔کسی بھی قانون کی الگ الگ دفعات کو اس کی منشا اور سیاق وسباق سے ہٹاکر اندیشہ ہائے دور دراز کا بازار گرم کیا جاسکتا ہے اور اس قانون کے ساتھ بھی یہی ہورہا ہے۔ جو لوگ اس قانون کوآئین کی دفعہ 29اور30سے متصادم بتارہے ہیں وہ بھول رہے ہیں کہ دفعہ 30 ہرشہری کو دیے گئے بنیادی حقوق کی تشریح ہے اور ملک میں رائج و نافذالعمل جملہ قوانین اس کے تابع ہیں، کوئی قانون اس سے متصادم نہیں ہوسکتا۔ حق تعلیم ایکٹ میں جہاں یہ بندوبست ہے کہ بچے کی تعلیم کی راہ میں آنے والے والدین اور سرپرستوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی، ان کو قید اور جرمانے کی سزا دی جاسکتی ہے وہیں یہ ضمانت بھی موجود ہے کہ بچوں کو اس کی اور اس کے والدین /سرپرست کی پسندکے ادارے میں تعلیم حاصل کرنے کا حق ہوگا۔ لیکن وہ ادارے طے شدہ معیار کے پابندہوںگے۔ یہ نہ ہو کہ تعلیم کے نام پر کاٹھ کی ہانڈی چڑھا رکھی ہو۔ ہندوستان ہی نہیں ساری دنیا میں آج تعلیم کا جو عمومی معیار ہے وہ اظہر من ا لشمس ہے۔ بچوں کو پرائمری اور اپر پرائمری (تحتانی ووسطانی) درجات میں ان کی مادری زبان میں سائنس، ریاضی اور سماجیات کی تعلیم دی جاتی ہے، ان کے علاوہ بچہ کوئی اور زبان پڑھنا چاہے یا ملک کی قومی زبان اس کی مادری زبان کے علاوہ ہو تو اس زبان کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔اگر آپ قوم کے بچوں کو اتنی تعلیم بھی دینا نہیںچاہتے(خواہ وہ مدرسے کے بچے ہی کیوںنہ ہوں) یا اس کو بھی بوجھ تصور کرتے ہیںتو کیا آج کی دنیا میں یہ خود کشی نہیں ہے؟ جب ہر بچے کی تعلیم کے مصارف اٹھانے کی حکومت پابند ہے اور وہ بھی بچے کے پسند کے تعلیمی ادارے میں تو کیا کسی بچے کو اس حق سے محروم رکھنا یا مستثیٰ منہ قرار دینا اس کے ساتھ ظلم نہیں ہوگا؟ اگر آپ اپنے تعلیمی اداروں کو معیاری بنانے کے بجائے معیار میں چھوٹ اور استثنیٰ کے طلب گار ہیں تو اس کا مطلب کیا سمجھا جائے؟ ہمارے بچے ریاضی میں ناکام ہوجاتے ہیں اس لیے ریاضی کو استثنیٰ قرار دے دیا جائے، یہ سوچ آخر کس حقیقت کا ثبوت ہے؟ آخر آپ قوم کو جاہل رکھنے پر کیوں بہ ضد ہیں؟ ہم یہاں صرف اتنا عرض کریں گے کہ دیوبند کے جس دارالعلوم پر آج ہندوستانی علمااور مسلمانوںکے ایک طبقہ کو بڑا ناز ہے، اس کے بانیوں نے اس کا نام مدرسہ عربی فارسی وریاضی رکھا تھا۔ لیکن آج سب سے زیادہ اسی طبقہ کے لوگ سائنس اورریاضی سے خوفزدہ نظرآتے ہیں۔خدارا! قوم کو اس خوف کی نفسیات اور پست ہمتی کے دلدل سے نکالئے کیونکہ دنیا میں وہی قوم زندہ رہتی ہے جو وقت کے چیلنج کو قبول کرتی ہے۔ ہم اس وقت سربلند و سرخ رو تھے جب ہم میں دنیا بھر کی زبانیں اور علوم وفنون سیکھنے کا جذبہ اور ہر چیلنج کوقبول کرنے کی ہمت تھی۔ جب سے یہ جذبہ اور یہ حوصلہ ہمارے اندر سے رخصت ہوا ذلیل وخوار ہوگئے۔

مصنف کے بارے میں

احمد جاوید

احمد جاوید اردو کے ممتاز صحافی، مصنف، مترجم اور کالم نگار ہیں۔ تاریخ و تمدن پر گہری نظر اور ادب و صحافت میں اپنے منفرد اسلوب سے پہچانے جاتے ہیں۔

مزید