ہندوستانی مسلمان اورحق تعلیم مستثنیٰ منہ

Table of Contents


احمدجاوید
مسلم پرسنل بورڈکی مجلس عاملہ نے حق تعلیم ایکٹ(آرٹی ای)سے مدرسوں کو مستثنی قرار دینے کی مانگ کی اورپھر اس قانون میںترمیم کے لئے تحریک چھیڑنے کا اعلان کیاتوحیرت نہیں ہوئی کہ ملک کے مسلمانوںکے مختلف مسالک ومکاتب فکرکے دینی رہنماؤںکی یہ انجمن جس کاواحدایجنڈاشریعت کا تحفظ ہے حق تعلیم ایکٹ میںشریعت کے لئے خطرہ دیکھتی ہے اوراس ایکٹ کے نفاذکے تقریباایک سال بعدقائدین ملت میںیہ بیداری آئی ہے،حیرت تواس پر ہے کہ ہندوستان کے آئین وقانون پرگہری نظراوراقلیتوںکے مسائل کاگہراادراک رکھنے والے مسلم دانشوروںپر خاموشی طاری ہے۔جوقانون ملک کے ہرشہری کومعیاری تعلیم کی گارنٹی دیتا ہے اور جس کوعام طور پرغریبوں،کمزوروںاوراقلیتوںکے لئے وردان ماناجارہاہے اسے یہ علمامذہبی آزادی کے بنیادی حق کے منافی اور تعلیم کوقومیانے کی سازش قراردے رہے ہیں۔
اب ایک سال ہونے کوآئے ،دہلی کی اردو اکادمی نے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ملک کے معروف ماہر تعلیم و سرکردہ دانشور سید حامد(چانسلر، جامعہ ہمدرد) کے اعزاز میں ایک نشست کا اہتمام کیا تھا۔ جلسے کی صدارت جسٹس راجندر سچر کررہے تھے۔ اپنی صدارتی تقریر میں انہوں نے ایک بڑا ہی دلچسپ واقعہ بیان کیا تھا۔جسٹس سچر جو ایک ماہر قانون و انصاف کے علاوہ سرکردہ سماجی خدمت گاربھی ہیں بلکہ یہ ان کی شخصیت کا غالب عنصر ہے،وہ سماج کے دبے کچلے اور پسماندہ طبقات کے لیے اپنے دل میں بے پناہ درد رکھتے ہیں اس لیے مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی دور کرنے کے سلسلے میںسید حامد کی کوششوں کے قدر داں ہیں۔مسلمانوں کی سماجی، معاشی اور تعلیمی حالت کا جائزہ لینے کے لیے وزیر اعظم ہند کے ذریعے جسٹس راجندر سچر کی صدارت میں مقرر کی گئی اعلیٰ سطحی کمیٹی میں سید حامد بھی شامل تھے۔ اس کمیٹی نے بڑی محنت اور ایمانداری سے ملک کے مسلمانوں کی سماجی، معاشی اور تعلیمی حالت کا مطالعہ کیا،اس کے لیے سرکاری وغیر سرکاری ایجنسیوں سے ٹھوس اعداد وشمار حاصل کیے، ملک کے مختلف علاقوں کے دورے کیے، ماہرین اور دانشوروں سے تبادلۂ خیالات کیا اور سماجی وسیاسی نمائندوں سے ملاقاتیں کیں۔ اسی سلسلے میں یہ تحقیقاتی کمیٹی حیدر آباد گئی تھی۔ جسٹس سچر کا بیان ہے کہ اس دن شہر کے مسلمانوں کے ایک نمائندہ وفد سے ان کی ملاقات تھی۔ یہ بڑے ہوش مند، تعلیم یافتہ اور آج کی دنیا پر گہری نگاہ رکھنے والے مسلمان تھے۔ انہوں نے کمیٹی کے سامنے اپنی باتیں بڑی خوش اسلوبی سے رکھیں لیکن ایک موقع پر سید حامد صاحب ان پر چیخنے لگے، وہ انتہائی غصے میں تھے، جتنا جی میں آیا ان کوبرا بھلا کہا۔ہم سب حیران تھے لیکن ان کے اس غصے کا سبب ناقابل فہم نہیں تھا۔ وہ ایک درد مند دل رکھتے ہیں اور مسلمانوں کے سچے ہمدرد ہیں۔ہوا یہ تھا کہ اس وفد میںشامل بعض افرادنے سچر کمیٹی سے کہا کہ چونکہ عام طورپر مسلم طلبہ میٹرک کے امتحانات میں ریاضی میں ناکام ہوجاتے ہیں اوران کی تعلیم کا سلسلہ آگے بڑھنے سے رک جاتا ہے اس لیے سچر کمیٹی حکومت سے یہ سفارش کرے کہ مسلم طلبا کو اس سلسلے میں مستثنیٰ قرار دے دیا جائے، ان کے لیے ریاضی (حساب) میں پاس ہونا لازمی نہ ہو۔ یہ سننا تھا کہ سید حامد اپنے غصہ پر قابو نہ رکھ سکے۔چیخ اٹھے ’کیاآپ لوگ اس قوم کو جاہل بنادینا چاہتے ہیں؟‘ پھر دیر تک ان پر لعنت ملامت کرتے رہے اور ان لوگوں کی حالت یہ تھی کہ کاٹو تو بدن میں خون نہیں ۔
تقریباایک سال سے دہلی اورملک کے مسلم سیاسی وسماجی حلقوں میں وقفہ وقفہ سے مفت لازمی تعلیم کے قانون کے خلاف آوازیںاٹھائی جارہی ہیں،جمعیۃ علماء ہند، ملی کونسل، مجلس مشاورت،مسلمانوں کی کون سی قابل ذکر تنظیم ہے جو حق تعلیم ایکٹ یا اس کی بعض دفعات سے مسلمانوں کومستثنیٰ قرار دینے کا مطالبہ نہیں کررہی ہے ،یہاںتک کہ اب مسلم پرسنل لا بورڈنیبھی مورچہ سنبھال لیاہے۔یہ تنظیمیں حکومت کو دھمکی دے رہی ہیں کہ اس نے اگر مسلمانوں کے دینی مدارس کو اس قانون سے مستثنیٰ قرار نہیں دیا تو وہ اس کے خلاف ملک گیر تحریک چھیڑیں گے۔ لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر اتریں گے، گرفتاریاں دیں گے،جیل بھریں گے کیونکہ یہ پچھلے دروازے سے تعلیم کو قومیانے کی سازش ہے، اس قانون کی زد میں ہمارے دینی مدارس آتے ہیںجن پرحرف آئے ہمارے لیے کسی بھی قیمت پر قابل برداشت نہیںہے ۔حیدر آباد میں مسلمانوں کے نمائندہ وفد نے سچر کمیٹی سے مسلم طلبہ کے لیے جس استثنیٰ کا مطالبہ کیا تھا، گہرائی میں اتر کر دیکھیں توحق تعلیم ایکٹ کے سلسلے میں مسلم علماء و ملی قائدین کے مطالبات اس سے ذرا بھی مختلف نہیں ہیں لیکن آج کسی سید حامد کو ان پر غصہ نہیں آرہا ہے( اور اگر آرہا ہو تو ہمارے علم میں نہیں ہے) کسی نے ان کو ڈانٹ نہیں پلائی، کسی کی ہمت نہیں کہ لب کشائی کرے کیونکہ آج ان کے سامنے حیدر آباد کے ہوش مند اورتعلیم یافتہ مسلمان نہیں بلکہ شمالی ہند کے قائدین ملت اور علمائے کرام ہیں۔ ہر سمجھ دارآدمی خوفزدہ ہے کہ کہیں اس پر حکومت کی حمایت اور ملت سے غداری کا الزام نہ آجائے۔
پہلا سوال تویہی ہے کہ جب یہ قانون پارلیمنٹ کی میز پر تھا اور اس پر بحث ہورہی تھی،اس وقت ہمارے قائدین کہا ں سورہے تھے؟اور جب اس قانون کے نفاذ کو چار ماہ سے اوپر ہوگئے، ان میں اچانک بیداری اور بے چینی کیوں پھیل گئی اوراب ایک سال بعد مسلم پرسنل لا بورڈنے حق تعلیم ایکٹ کے خلاف نئی توانائی کے ساتھ جنگ کیوںچھیڑدی ہے ؟دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا اس قانون سے مسلمانوں اور بالخصوص مدرسوں کو مستثنیٰ قرار دیا جانا ممکن ہے؟ اگر ممکن ہے تو اس کی کیا صور ت ہوگی؟ کیا حکومت کو یہ اختیار ہے کہ ملک کے بعض شہریوں کو آئین میں دیے گئے حقوق دے اور بعض کو اس سے کسی وجہ سے محروم رکھے؟ اور اگر ایسا کیا گیا تو کیا یہ ملک کے آئین کی روح اور انصاف کے تقاضے کے منافی نہیں ہوگا؟ اگر ہاں تو پھر اس آئینی و قانونی بحران کا حل کیا ہے؟ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس قانون میں کوئی خامی نہیں ہے لیکن حق تعلیم ایکٹ کو جبری تعلیم یا تعلیم کو قومیانے کی سازش قرار دے کرٹکرائو کا ماحول پیدا کرنا سراسر غلط ،گمراہ کن اوربدبختانہ ہے۔ یہ نہ ملک وقوم کے حق میں بہتر ہوگا اور نہ مسلمانوں کے حق میں بہتر۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ ہم اس قانون ے ہر پہلو پر ہم سنجیدگی سے غور کرتے اور منفی طرز فکر ترک کرکے حق تعلیم ایکٹ ہمیں جو حقوق دیتا ہے، اس سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی تدابیر کرتے لیکن ہورہا ہے یہ کہ ہم اندیشوںاور امکانات کے پیچھے بھاگ رہے ہیں، حکومت کی نیت پر شک کررہے ہیں، ان شرائط کو منفی طور پر لے رہے ہیں جوتعلیمی اداروں پر ملک کے ہر شہری کو یکساں اور معیاری تعلیم کی سہولیات مہیا کرنے کی غرض سے عائد کی گئی ہیں۔ جب حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ تعلیم کے جملے مصارف برداشت کرے اور آپ کو یہ حق حاصل ہے کہ معیاری تعلیم کی سہولیات مہیا کرانے سے قاصر رہنے کی صورت میں اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کریں تو اس قانون میں جو کم از کم معیار طے کیا گیا ہے وہ ہمارا حق ہے یا حکومت کی جانب سے تھوپی گئی شرطیں؟ یہ آپ کے نقطۂ نظر پر منحصر ہے کہ آپ ا ن کو کس طرح لیتے ہیں۔
دراصل ہم لوگ آسانیوں کی تلاش میں رہتے ہیں اور اپنے بچوں کے لیے بہتراور معیاری تعلیم کے حصول کی تدابیر اور اپنے ادارو ں کو حکومت سے تعلیمی اداروں کی حیثیت سے تسلیم کرانے کی جدوجہد کرنا یقینا مشکل کام ہے۔شاید اسی لیے قائدین ملت شرائط میں نرمی بلکہ استثنیٰ کا مطالبہ کررہے ہیں۔ اس میں آسانی یہ بھی ہے کہ لگے ہاتھوں سیاست کی روٹی بھی گرم ہورہی ہے ورنہ کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہم اپنے حق سے خود ہی دست بردار ہونے کی ضد کریں، خود کو مستثنیٰ منہ کرانے کا مطالبہ کریں اور اپنے اداروں کو تسلیم کرانے کی جدوجہد نہ کریں۔ کسی طفل مکتب کو بھی یہ بتانے کی حاجت نہیں یے کہ حق تعلیم ایکٹ سے کسی فرد ،جماعت یاادارہ کومستثنی قرار دینے کا مطلب ا س کو ان حقوق سے محروم یادست بردارکرناہے جو یہ ایکٹ اسے دیتا ہے۔ پچھلے سا ل جولائی میں اس سلسلے کے ایک جلسے میں مرکزی وزیرفروغ انسانی وسائل نے مدرسوں کو اس ایکٹ سے مستثنیٰ کرانے کا وعدہ بھی کرلیا تھا۔پھرانہوںنے ایک گائڈلائن جاری کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’حق تعلیم ایکٹ میں مدرسہ کی بات نہیں ہے اور نہ ہی اس سے مذہبی تعلیم کو کوئی خطرہ لاحق ہے۔ پھر بھی اگر کسی کو شک ہے تو اس کے لیے گائڈ لائن جاری کردیاگیاہے۔‘‘ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ اس قانون سے مذہبی تعلیم کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے لیکن جو تعلیمی ادارے ضروری شرائط پورے نہیں کرتے، وہ اس قانون کی زد میںضرورآئیں گے چاہے وہ اسکول یا پاٹھ شالا ہوں یا مدرسے۔اس ایکٹ کی رو سے غیر منظور شدہ اداروںمیں بچوں کو روکنا غیر قانونی اور قابل مواخذہ جرم ہوگا۔ گائڈلائن وغیرہ وقتی اور جھوٹی تسلی ہے ۔وزیر موصوف یہ کہہ کر جھوٹی تسلی دے رہے ہیں کہ مدرسے اس قانون کے دائرے میں نہیں آتے ۔کیونکہ اگر مدرسوں کو مستثنیٰ قرار دیا جاتا ہے تویہ مدرسوں میں زیرتعلیم بچوں کے بنیادی حق کے ساتھ سمجھوتہ اور خلاف آئین ہوگا۔ آخر ان بچوں کو وہ کس جرم میں تعلیم کے حق سے محروم کرسکتے ہیں جو تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم بھی لینا چاہتے ہیں؟حکومت پر لازم ہے کہ وہ مسلمانوںکو طفل تسلی دینے یا گمراہ کرنے کے بجائے ہمارے دینی مدرسوں کو تعلیمی اداروں کی حیثیت سے تسلیم کرے اور مدرسے بھی تعلیم کے کم از کم معیار کی پابندی کریںاورخود کوتسلیم کرائیں۔ حکومت سے تسلیم شدہ ایسے مدرسے اس ملک میں ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں اور شاید کپل سبل ان ہی مدرسوں کے تعلق سے باربارکہہ رہے ہیں کہ مدرسے اس قانون کی زد میں نہیں آتے۔ مسلمانوں کو کسی خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہئے۔ ماضی میں بھی یہ ملت اس قسم کی طفل تسلیوں کا شکار ہوچکی ہے۔
حق تعلیم ایکٹ ملک کے ہر بچے (6تا 14سال عمر) کو یہ ضمانت دیتا ہے کہ اس کو معیاری تعلیم کی سہولیات مہیا کرائی جائے ۔اس قانون کا اصل مقصدو منشا یہی ہے اور اسی کو یقینی بنانے کے لیے اس ایکٹ میں قانونی انتظامات کیے گئے ہیں۔کسی بھی قانون کی الگ الگ دفعات کو اس کی منشا اور سیاق وسباق سے ہٹاکر اندیشہ ہائے دور دراز کا بازار گرم کیا جاسکتا ہے اور اس قانون کے ساتھ بھی یہی ہورہا ہے۔ جو لوگ اس قانون کوآئین کی دفعہ 29اور30سے متصادم بتارہے ہیں وہ بھول رہے ہیں کہ دفعہ 30 آئین میں ہر شہری کو دیے گئے بنیادی حقوق کی تشریح ہے اور ملک میں رائج و نافذالعمل جملہ قوانین اس کے تابع ہیں کوئی قانون اس سے متصادم نہیں ہوسکتا۔ حق تعلیم ایکٹ میں جہاں یہ بندوبست ہے کہ بچے کی تعلیم کی راہ میں آنے والے والدین اور سرپرستوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی، ان کو قید اور جرمانے کی سزا دی جاسکتی ہے وہیں یہ ضمانت بھی موجود ہے کہ بچوں کو اس کی اور اس کے والدین /سرپرست کی پسندکے ادارے میں تعلیم حاصل کرنے کا حق ہوگا۔ لیکن وہ ادارے طے شدہ معیار کے پابندہوںگے۔ یہ نہ ہو کہ تعلیم کے نام پر کاٹھ کی ہانڈی چڑھا رکھی ہو۔ ہندوستان ہی نہیں ساری دنیا میں آج تعلیم کا جو عمومی معیار ہے وہ اظہر من لشمس ہے۔ بچوں کو پرائمری اور اپر پرائمری (تحتانی ووسطانی) درجات میں ان کی مادری زبان میں سائنس، ریاضی اور سماجیات کی تعلیم دی جاتی ہے، ان کے علاوہ بچہ کوئی اور زبان پڑھنا چاہے یا ملک کی قومی زبان اس کی مادری زبان کے علاوہ ہو تو اس زبان کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔اگر آپ قوم کے بچوں کو اتنی تعلیم بھی دینا نہیںچاہتے(خواہ وہ مدرسے کے بچے ہی کیوںنہ ہوں) یا اس کو بھی بوجھ تصور کرتے ہیںتو کیا آج کی دنیا میں یہ خود کشی نہیں ہے؟ جب ہر بچے کی تعلیم کے مصارف اٹھانے کی حکومت پابند ہے اور وہ بھی بچے کے پسند کے تعلیمی ادارے میں تو کیا کسی بچے کو اس حق سے محروم رکھنا یا مستثیٰ منہ قرار دینا اس کے ساتھ ظلم نہیں ہوگا؟ اگر آپ اپنے تعلیمی اداروں کو معیاری بنانے کے بجائے معیار میں چھوٹ اور استثنیٰ کے طلب گار ہیں تو اس کا مطلب کیا سمجھا جائے؟ ہمارے بچے ریاضی میں ناکام ہوجاتے ہیں اس لیے ریاضی کو استثنیٰ قرار دے دیا جائے، یہ سوچ آخر کس حقیقت کا ثبوت ہے؟ آخر آپ قوم کو جاہل رکھنے پر کیوں بہ ضد ہیں؟ افسوس تویہ ہے کہ ہماری حکومتیںہروہ کام کرنے کو تیاررہتی ہیںجس میںکوئی لاگت نہ آئے اورمسلمان خوش ہوجائیںیابرسراقتدارپارٹی کاووٹ بینک مظبوط ہوجائے چاہے ملک کو اس کی کتنی ہی بھاری قیمت کیوںنہ چکانی پڑے۔

مصنف کے بارے میں

احمد جاوید

احمد جاوید اردو کے ممتاز صحافی، مصنف، مترجم اور کالم نگار ہیں۔ تاریخ و تمدن پر گہری نظر اور ادب و صحافت میں اپنے منفرد اسلوب سے پہچانے جاتے ہیں۔

مزید