احمدجاوید
کسی جمہوری معاشرے کی تعمیروتشکیل اوراس کے استحکام و ارتقا میںتعلیم اورنصاب تعلیم کی کیا اہمیت ہے یا ہندوستان جیسے جغرافیائی،نسلی اور ثقافتی تنوع کے حامل وسیع وعریض کثیرالمذاہب ملک میںیہ کتنانازک اور حساس معاملہ ہے،کسی ذی شعورشخص سے مخفی نہیں ہوسکتا۔جس ملک کے مختلف جغرافیائی خطوں ،الگ الگ نسلوںاور ثقافتوں کے لوگوںکو مذاہب ، زبانیں،روایات یہاں تک کہ رسوم ورواج اورکھان پان تک دل و جان سے عزیزہوں،وہاںقومی یکجہتی ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور طبقاتی اتحاد واتفاق کا فروغ اور ان کا تحفظ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ اس کے مختلف علاقوں، ریاستوں، فرقوں، زبانوں اوران کی ثقافتوں کوبلاتفریق و تعصب پھلنے پھولنے کے یکساں مواقع نہ دئے جائیں ، ہرفرقے اور ہرطبقے میں اٹوٹ احساس تحفظ نہ ہو اورحکومتیں ان اختلافات سے بالاتر ہوکرکام نہ کریں۔یہی احساس تھا کہ ہمارے قومی رہنماؤ ں نے آزادی کے بعد ہندوستان کو ایک ایسا آئین دیا جس میں اس قسم کے تفریق و تعصب کی کہیں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ آئین کے رہنما اصولوں میں یہ صراحت موجود ہے کہ ہندوستان ایک سوشلسٹ سیکولر جمہوری ریاست ہے جس کاکوئی مذہب نہیںاوراس کے ہرباشندے کو سماجی ،معاشی اور سیاسی انصاف کے ساتھ ساتھ بولنے ، سوچنے اوراپنی سوچ کا اظہارکرنے کی آزادی، عقائدو مذہب اور عبادت کی آزادی اور مساوات عزت و مواقع کی ضمانت حاصل ہے۔یہ آئین اس کی اجازت نہیںدیتاکہ کسی مذہب کے ماننے والوں یاان کے عقائداور طریقہ عبادت کو کسی اور پرتھوپاجائے یاکسی بھی صورت میں کسی کو کسی پر ترجیح دی جائے۔آئین ہند کی اس روح کے تحفظ اورفروغ کے لیے ہی ریاستوں کی تشکیل لسانی و ثقافتی بنیادوں پرکی گئی اور تعلیم کو مرکزکے بجائے ریاستوں کی ذمہ داریوں یا اختیارات کی فہرست میں رکھاگیااوربلاشبہ و حدت میں کثرت کے اسی فلسفہ میں اس ملک و قوم کی جان اور اسی کے فرو غ میں اس کا مستقبل ہے۔
بدقسمتی سے اس ملک میں ایک طبقہ ابتداہی سے اس کے برعکس سوچ رکھتا ہے۔ وہ آئین وقانون کی حکمرانی کے بجائے’ اکثریت کی حکمرانی‘ بلکہ اس کے پردے میںاپنااور ایک نسل خاص کا راج چاہتاہے ۔ اس نسل پرست گروہ کی سوچ دوسروں کو اپنی پسند اور اپنی خواہش کے ڈنڈوں سے ہانکنے کی ہے۔ وہ اس ملک کو ایک مخصوص ثقافتی رنگ میں رنگنا بلکہ لوگوںپر ایک خاص مذہب اور اس کے رسومات و عقائد کو تھوپنا چاہتا ہے اور اسی میں اس ملک کی بقا اور ترقی دیکھتا ہے۔بنیادی طور پر یہ اسلام اور مسلمانوں کی ضد کی نفسیات میں مبتلا طبقہ ہے جس کوملک کی اکثریت کے مذہب و عقائدکو اقلیتوں پرتھوپنے، اقلیتی فرقوں اوران کی شناختوں یاتشخص کو مٹانے میں ملک و قوم کی مضبوطی اورترقی نظر آتی ہے۔یہ دنیاکامقابلہ سائنسی ترقی ،معاشی خوشحالی اورتہذیب وثقافت کی اعلی قدروں سے کرنے کے بجائے ملک کو ہزاروں سال پیچھے ان اساطیری کہانیوں میں لے جاکر افسانوی شان و شوکت سے ملکوں اورقوموں کو مات دیناچاہتاہے جن کی کوئی اصل نہیں ہے اور چونکہ آج کل یہی طبقہ اقتدارمیں ہے،ملک کے نظام تعلیم اور نصاب تعلیم میں پوری تندہی کے ساتھ ایسے تصرفات کررہاہے جو ملک کے باشعور عوام و خواص کو بے چین کررہے ہیں۔صورت حال کی سنگینی کا اندازہ آپ ان واقعات سے لگاسکتے ہیںجن میں ایسے دانشوروں،ادیبوں، صحافیوں اورسائنسدانوں کو قتل کیاگیاجنھوں نے اس سوچ کی مخالفت کی یا ان تعلیمی اداروں کوجو اپنے شعبوں میں عالمی شناخت رکھتے تھے ، ایسے ہاتھوں میں سونپاگیا جو کسی بھی طرح اس کے اہل نہ تھے یا ان باوقارتعلیمی اداروں کے داخلے اور فنڈ میںکٹوتی کی گئی جہاںترقی پسندی اورروشن خیالی کا غلبہ تھا۔ یہ عقل کے دشمن ماکھن لال چترویدی یونیورسیٹی آف جرنلزم کو گئوشالہ میں تبدیل کررہے ہیں، سائنس اورصنعتی تحقیقات کی قومی کونسل(سی ایس آئی آر)کو گائے کے پیشاب اور اس کے اجزاپر ریسرچ کرنے اورایک جانورکے فضلے کوحیات بخش ’نعمت‘ ثابت کرنے کو مجبور کرتے ہیں، جے این یوکی عالمی شناخت اوراس کے ترقی پسندانہ کردار کو ختم کرکے اسے دقیانوسی افکارو خیالات کی تبلیغ و اشاعت کا مرکزبنانا چاہتے ہیں؛ انڈین اسٹیٹسٹکل انسٹی ٹیوٹ، ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز، نیشنل میوزیم اور مینجمنٹ کی تعلیم کے مرکزی ادارے(IIMs)ان کو ایک آنکھ نہیں بھاتے حتی کہ یہ یوجی سی کو ختم کردیناچاہتے ہیں۔ان کی ضدہے کہ اسکولوں اور کالجوں میں جیوتش،نجوم اور کرم کانڈکی تعلیم دی جائے، بچوں کے معصوم ذہنوں میں قدیم دقیانوسی افکاروخیالات کو اس طر ح ڈالاجائے کہ وہ مشرکانہ جہالتوں بلکہ احمقانہ کرم کانڈوں(رسومات وخرافات)پرسوال اٹھانے والوں کو ملک و قوم کا دشمن تصور کریں۔وہ رامائن اور مہابھارت کی کہانیوں کو تاریخ ثابت کر نے کے لیے کروڑوں روپے خرچ کررہے ہیں،ان پر معصوم بچوں کو یہ پڑھانے کا بھوت سوارہے کہ پلاسٹک سرجری اور اسٹیم سیل تھریپی جدید سائنس کی ایجاد نہیں ، ہزاروں سال پہلے ان کاموں میں ہمارے رشی منیوں کو مہارت حاصل تھی۔وہ لوگوں کویہ باورکرانا اوربچوں کویہی پڑھاناچاہتے ہیںکہ قطب مینار قطب الدین ایبک نے نہیں راجاسمدرگپت نے بنوایا اور اس کا اصل نام وشنوستمبھ ہے، لال قلعہ ایک ہنومان مندراور تاج محل ایک شیومندر ہے تاکہ سادہ لو ح ذہنوں میں ان کے بنانے والوں کی عظمتوں کے نقوش ثبت ہونے کے بجائے ان سے اور ان کے ہم مذہبوں سے نفرت و عداوت کے جذبات پیداہوں ۔ان پر شیواجی اور افضل خاں، اکبر اور رانا پرتاپ، گوبندسنگھ اوراورنگ زیب کی جنگوں کو مذہبی جنگوں کا رنگ دینے اورمعصوم ذہنوں میںمذہبی منافرت کازہر بھرنے کا خبط سوار ہے۔
منصوبہ تعلیم کی زعفران کاری کا
مرکزی وزارت فروغ انسانی وسائل نے نئی قومی تعلیمی پالیسی کی تیاری کے لیے پچھلے سال سابق کابینہ سکریٹری ٹی آر ایس سبرامنیم کی قیادت میں ایک پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی۔ اس کمیٹی نے مئی میں حکومت کو رپورٹ سونپی۔۲۰۰صفحات پر پھیلی ہوئی اس رپورٹ میں تقریباً ۹۰سفارشات ہیں۔یہ رپورٹ اگرچہ سرکاری طورپر ابھی تک عام نہیں کی گئی کیونکہ یہ جاری کی جاتی تو اس پر شدیداحتجاج اورگرماگرم بحث یقینی تھی۔ اس میں جن نکات پر زور دیا گیا ہے وہ نہ صرف مذہبی اقلیتوں کے لیے سخت قابل اعتراض ہیںخود اکثریتی طبقہ کے ان باشعورلوگوں کے گلے سے بھی نہیں اترسکتے جو عقل و منطق پر بھروسہ کرتے ، ملک کے ہرمذہب اور جملہ طبقات کے ساتھ عدل ومساوات میں یقین رکھتے اورتاریخ کے پہیے کو الٹا گھمانے کے خیال کو بدترین حماقت سمجھتے ہیں۔ اس رپورٹ میں بظاہربعض بڑی خوبصورت تجاویز میں لپیٹ کر تعلیم کے ’ بھگواکرن‘ کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا ایکشن پلان پیش کیا گیاہے۔مثلاً آئی اے ایس ؍آئی پی ایس کی طرز پرتعلیم کے شعبے میں بھی ایک آل انڈیاسروس یعنی انڈین ایجوکیشن سروس(آئی ای ایس) کی تخلیق، غیرملکی یونیورسیٹیوں کو ہندوستان میں اپناکیمپس کھولنے کی اجازت اور ایجوکیشنل ریگولیٹریز کی اصلاح اوران کی ازسرنوتشکیل جن میں یوجی سی کو ختم کرنا سرفہرست ہے۔ان تجاویز کی خوبیوں اور خامیوں پربحث سے قطع نظرمرکزکی مودی حکومت اور مختلف ریاستوں کی بی جے پی حکومتیں اس راہ میں پہلے ہی کئی قدم اٹھاچکی ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ حکومت کی نیت کیاہے۔رپورٹ کی ۹۰میں سے ایک سفارش اخلاقی تعلیم یا اقدارکی تعلیم(Value Education) ہے اورکمیٹی کا اصل زور اسی پر ہے۔ایک انگریزی اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس سلسلے میںمودی حکومت کے ایک اعلیٰ افسر کا کہنا ہے کہ’’ طلبا کو اپنے ’بھارتیہ‘ ہو نے پر فخر ہونا چاہیے اور اسکول ان کویہ تعلیم(Value Education) دینے میں بہت ہی زیادہ دخل رکھتے ہیں‘‘۔
ہندوستانی اقدار سے اس سرکار اور اس کے پالیسی سازوں کی مراد کیا ہے اور وہ اسکولوں سے اس سلسلے میں کیا چاہتے ہیں اب کسی سے مخفی نہیں رہ گیاہے۔اس موضوع پر میڈیا اور تعلیم یافتہ حلقوں میں اب تک اتنی بحثیں ہوچکی ہیں کہ کوئی طفل مکتب بھی اس کھیل کی تہہ تک پہنچ سکتا ہے۔اخلاقی تعلیم کی یہ بحث بچوں کو وعظ پلانے، پروچن دینے، اخلاق کے نام نہاد سانچے میںان کو زبردستی ڈھالنے اوران پراخلاق تھوپنے جیسے نکات کے گردگھومتی ہے،تاہم ساری بحثوں کا خلاصہ اکثریتی طبقہ اور اس کے عقائدو رسومات کی برتری اوراقلیتی طبقات کے جذبات و مفادات کی پامالی ہے۔یہ سوچ یا اس نوع کا منصوبہ کتنا خطرناک ہے یا اس سے کیا نتائج نکلیںگے؟ اس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ سوویت یونین نے اسی قسم کا نظام تعلیم اور نصاب تعلیم اپنایاتھا۔اشتراکیت کے خوف سے اس کے اسکول کالجوں میںچالیس منٹ کی کلاس میں پچیس پچیس منٹ اخلاق و نظریات کادرس دیاجانے لگا تھا،یہاں تک کہ ایک وقت آیاجب ہراستاد ومعلم خوفزدہ رہنے لگا کہ کہیں اس پر غداری کا الزام نہ آجائے اور ان میں اس عمل میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی بازی لگ گئی (ثقافتی قوم پرستی کے علمبرداروں نے وطن عزیز میں بھی خوف ودہشت کا ماحول بنانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے)۔ اشتراکیت کی اس تعلیم وتبلیغ کا انجام کیا ہوا؟ایک تو اس نے دنیابھرمیں بائیں بازو کی انتہاپسندی کوتقویت پہنچائی یہاں تک کہ اشتراکیت پسندوں کی جماعتیں اپنے ہی ساتھیوں پربھی شک کرنے اورایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے لگے ۔دوسرے خوداس کی اپنی سر حدوں کے اندرمذہبی ،لسانی اور ثقافتی تنوع کومٹانے کی کوششیں یانظریاتی جبرکا انجام دنیاکی ایک سپرپاورکے بکھراؤ کی صورت میں سامنے آیا۔اشتراکیت کی جبری تعلیم اس کو بچانہ سکی ۔اسکول کالجوں میں مذہبی مبا حث کو چھیڑا گیا تودومیں سے ایک صورت لازمی ہے۔ یاتو نوجوانوں کو ان پر کھل کر بات کرنے کی آزادی دی جائے گی یاپھران کو ایسا کرنے سے روکاجائے گا؟ دونوں صورتوں میں مذہبی مخاصمت ومنافرت بڑ ھے گی ۔تبادلہ خیال کی آزادی توپھربھی اپنے اندرمفاہمت اور مخاصمت دونوں امکان رکھتی ہے گرچہ تجربہ بتاتا ہے کہ ان مباحث کو کچے ذہن کے نوجوانوں میں چھیڑناخطرے سے خالی نہیں ہے، جب تک دل میں ان کو سمجھنے کی خواہش ازخود پیدانہ ہواورمتکلم و مخاطب میں باہمی اعتماد اورہمدردی نہ ہو۔بصورت دیگر مذہبی عقائد پر بحث اور وہ بھی دو مختلف فرقوں کے افراد میںباعث فساد ہی ہوتی ہے لیکن فکری جبرتولامحالہ وہ لاوے پیداکرتاہے جو ایک دن ضرورابلتا اور معاشرے کو تہس نہس کردیتاہے۔
اس قسم کے تجربات کی ایک اورمثال امریکہ ہے جہاں ۱۹۶۰ء ،۱۹۷۰ء اور۱۹۸۰ء کے عشروں میں وقفہ وقفہ سے یہ بحثیں اسی زورو شور سے جاری تھیں جس شدت سے اب یہ یہاں جاری ہیں۔امریکہ جہاںنہ توآبادی کی ساخت ہندوستان جیسی متنوع ہے نہ معاشرہ اس قدر کثیرالمذاہب مختلف النسل ہے اورنہ اتناجذباتی ،ناخواندہ اورسماجی و معاشی بدحالی کا شکار ہے جہاں ایک ڈ ھونگی بابابھی لاکھوں لو گوں کو اپنے جال فریب میں پھانس لیتاہے اوراس کی عقیدت میںاند ھے لا کھوں لو گ ایک عصمت دری کے مجرم کوبچانے کے لیے سڑکوں پر اترآتے ہیں۔وہاں بھی اخلاقی تعلیم یا ویلیوایجوکیشن کا تجربہ اپنے منفی نتائج کی وجہ سے بری طرح ناکام بلکہ خطرناک ثابت ہوا۔امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں اخلاقی تعلیم یا ویلیو ایجوکیشن کو نصاب میں شامل کرنے کے محض تین دہائیوں میں پرتشددجرائم میںپانچ سو ساٹھ (۵۶۰ )فیصد اضافہ ہوگیا۔ تشددکے رجحان میں یہ ہوشربااضافہ آنکھیں کھولنے والاتو تھاہی ناجائزبچوں کی پیدائش، طلاق کی شرح، نابالغ بچیوں کے حاملہ ہونے اور ایڈژ کے مریضوں کی تعداد میں بھی اضافہ کی رفتار ہوش اڑادینے والی تھی۔دوسرے ترقی یافتہ ملکوں کے مقابلے میں اب امریکہ میں طلاق اورنوجوانوں میں تشدد سے اموات کی شرح بہت ہی اونچی ہے اور اس کا سہراامریکہ کے لوگ اسی اخلاقی تعلیم کو دیتے ہیںجو بچوں کو اسکول میں دی جارہی تھی۔ اب امریکہ کے لوگ اسکولوں میں صرف آفاقی اقدار(Core value) کی تعلیم کا مطالبہ کررہے ہیںجس سے مراد بنیادی سیکولراقدار ہیں یعنی انسانی اخوت و محبت، ہمدردی، سچائی، غمخواری، حب الوطنی، عدل وانصاف، مساوات وغیرہ جس کی دنیا کے ہرمذہب و معاشرہ میں یکساں اہمیت ہے۔لیکن عین اسی وقت ہمارے ارباب اقتدار اخلاق و اقدارکی تعلیم کے نام پرایک خاص مذہب و ثقافت کو لوگوںپرتھوپنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ مسلمان بچے اسلام اور قرآن مدرسوں میں سیکھ لیتے ہیں، عیسائی بچوں کوان اسکولوں میں عیسائیت کی بنیادی تعلیم لینے کی سہولت حاصل ہے جو عیسائی چلاتے ہیں کیونکہ ملک کا آئین اقلیتوں کو اپنے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور چلانے کا اختیار دیتاہے لیکن اکثریتی فرقہ کے بچوں کویہ سہولت حاصل نہیں ہے۔اس لیے وہ راماین، مہابھارت یا گیتا کی تعلیم عام اسکولوں میں رائج کریںگے۔کچھ دنوں پہلے سپریم کورٹ کے ایک جج جسٹس انل آر دوے نے ملک میں تشدد اور دہشت گردی کے بڑھتے مسئلہ کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے ایک مشورے میں کہا کہ گیتا اور مہابھارت اسکول کے بچوں کو اس لیے پڑھانا چاہیے کہ گرو ششیہ جیسی ہماری قدیم روایات ختم ہوتی جارہی ہیں، اگر یہ روایات زندہ ہوتیں تو ملک میں یہ مسائل نہیں ہوتے ۔اسی طرح ۲۰۱۲ء میں مدھیہ پردیش ہائیکورٹ نے گیتاسار(گیتاکا خلاصہ) اسکولوں کے نصاب میں شامل کرنے کے خلاف دائر کردہ عرضی کو خارج کرتے ہوئے کہاکہ گیتا مذہب نہیںہندوستانی فلسفہ ہے۔ عدالت نے اگست میں کیتھولک بشپس کونسل کی دائرکردہ مفادعامہ کی عرضی پراس کے وکیل کو دو ماہ کی مہلت دی تھی کہ وہ اس کتاب کو پوری پڑھ کردیکھیں کہ اس میں کیا ہے۔ پھر اس نے یہ فیصلہ سنایا۔عدالت عالیہ کے فاضل ججوں سے کون کہے کہ عزت مآب ا بھی بہت لمبا زمانہ نہیں گز راجب سوویت یونین(یو ایس ایس آر) کے اسکول کالجوںمیں چالیس منٹ کی کلاس میںپچیس منٹ تک اسی قسم کے ایک فلسفہ کا درس دیا جاتاتھا لیکن اس کا انجام کیاہوا؟
آرایس ایس سے وابستہ دیناناتھ بتراجو دہلی میں شکشا سنسکرتی اتھان نیاس چلاتے ہیں اور جنھوں نے مشہور مصور ایف ایم حسین کے خلاف مہم چلائی تھی ، آجکل شکشابچاؤ ابھیان سمیتی کے سربراہ ہیں، ملک میں تعلیم وثقافت کوبچانے کی جی توڑ مہم چلارہے ہیں۔آں موصوف نے مرکزمیں مودی حکومت کے اقتدارمیں آتے ہی ملک کی تعلیمی پالیسی کواپنی سوچ میں ڈھالنے کی مہم تیز کردی تھی اور حال ہی میں انہوں نے تعلیم کا’ پروجیکٹ بھارتیہ کرن‘ پیش کیا ہے۔ٹی آر ایس سبرامنیم کی۰ ۹ سفارشات کومحیط جہازی رپورٹ کے ساتھ اس پروجیکٹ کوبھی شامل کر لیں توسمجھنے میں آسانی ہو گی کہ یہ لو گ کتنی ڈھٹائی وبے حیائی سے ہندوستان کو عہدوسطی بلکہ ظلمت کے زمانے میں گھسیٹ لیناچاہتے ہیں۔ کچھ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیںہے، سب کچھ عیاں اورننگا ہے کہ آرایس ایس کے شکشا سنسکرتی اتھان نیاس کا منصوبہ اوردیناناتھ بتراکا ارادہ کتناخطرناک ہے یا وہ تعلیم و ثقافت کو کس رنگ اور کس سانچے میں ڈھالنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ بتراکی ۹؍ کتابیں پہلے ہی گجرات کے ۲۴ہزاراسکولوںمیں داخل نصاب ہیں۔ان کتابوں میں بتایاگیا ہے کہ ہندوتوکے نظریہ کے لوگ ہی اس ملک کے اصل باشندے ہیں،دوسرے لو گ بھارت ماتا کے وفادار نہیں ہیں۔ان میں موہنجوداڑو اور ہڑپا کی تاریخ کو مسخ کیاگیاہے، راماین اور مہابھارت کی کہانیوں کو تاریخ بتایاگیا ہے جبکہ دنیا جانتی ہے کہ یہ بالمیکی اورویاس کی تخلیقات ہیں۔شکشاسنسکرتی اتھان نیاس، شکشابچاؤ ابھیان سمیتی اور دیناناتھ بترا کادباؤ دنیا کے سب سے بڑے ناشرین کتب’پینگوئن‘ سےحال ہی میں ’دی ہندو: این الٹرنیٹوہسٹری (ہندو: ایک متبادل تاریخ) شائع کرانے میں کامیاب رہاہے جس کی روشنی میں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ ان کو این سی ای آرٹی کی سوشل سائنس کی معیاری کتابوں پر کیوں اعتراض ہے اور یہ بچوں کو کس قسم کا گیان دینا یا کونسی جہالتیں ان کے معصوم ذہنوں پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔
تعلیم سے آگے سیاست
آپ کووزیراعظم نریندرمودی کی کابینہ کی تشکیل کے فوری بعد کایہ واقعہ یاد ہوگا کہ جس وقت آرایس ایس کے لیڈران وزیرفروغ انسانی وسائل کے ساتھ میٹنگ کررہے تھے ،عین اسی وقت بی جے پی کے لیڈران رومیلاتھاپڑ کی تاریخ کی کتابوں کو جلانے کی اپیل کرر ہے تھے۔یہ لوگ این سی آرٹی کی ان کتابوں کے خلاف ہیں جو اپنی معروضیت کے لیے دنیابھرکے علمی حلقوں میں قدر کی نگاہوں سے دیکھی جاتی ہیں۔ ہندوتوکے ایجنڈوں میں تعلیم و ثقافت ہمیشہ سے اوپر رہی ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اسی راستے سے ملک کے عوام کو یہ اپنا ذہنی غلام بناسکتے ہیں۔حکومت کی دلچسپی نظام تعلیم کو بہتربنانے اور ترقی دینے سے زیادہ متنازعہ امور میںہے کیونکہ بی جے پی اور آرایس ایس کی سیاست کو اسی سے تقویت ملتی ہے۔اسے اس کی کوئی فکر نہیں ہے کہ اس سے ملک کس راہ پر جائیگا اور اسکے نتائج کیاہوںگے؟ اگر کچھ فکر ہے تو عوامی جذبات کوبھڑکاکر اورفرقہ وارانہ منافرت کو بڑھاکرسیاست کی فصل کاٹنے کی ہے۔مدھیہ پردیش کی حکومت نے مدرسوں میں گیتاکی تعلیم لازمی کرنے کانوٹیفکیشن جاری کیا تھاجو مسلمانوں کے شدیداحتجاج کے بعد واپس لیاگیا۔اسی طرح یوگا کے نام پر تعلیمی اداروں میں سوریہ نمسکار کو لازمی بنانا یا ٹیچر کو مخاطب کر نے کے لیے ’رشی‘ کا لفظ لازمی قرار دینا یا اسکول کے سارے بچوں کو دن کا کھانا(مڈڈے میل)کھاتے وقت لازمی طورپربھوجن منترپڑھوانا کیاہے یا ان کے مقاصد کیا ہیں اور ان باتوں سے بچوں کے اخلاق میں کیا تبدیلی آئےگی یا معیار تعلیم میں کس قسم کی ترقی ہوگی؟!۔انتہا تو یہ ہے کہ مدھیہ پردیش اور گجرات جیسی ریاستوں میں آرایس ایس کا جریدہ’ دیوپتر‘(دیوکابیٹا)پڑھناتک اسکولوں میں لازمی کرنے کا فیصلہ لیاگیا۔
دنیاجانتی ہے کہ مسلمان کسی بھی کام کے شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھتے ہیںجس میں کھانا بھی شامل ہے،آج تک کسی نے نہیں سنا کہ اس قسم کا کوئی منتر ہندوبھی پڑھتے ہیں یا ایسی کوئی روایت ملک کے دوسرے مذہبی فرقوں کے لوگوں میں بھی چلی آتی ہے، سوائے اس کے کہ آرایس ایس کی شاکھاؤں میں ’بھوجن ‘منتر پڑھاجاتاہے جواس گروہ کے پیشواؤں کی ایجاداوراسی طرح مشرکانہ ہے جس طرح وندے ماترم یا سوریہ نمسکاراوربلاشبہ یہ اوراس طرح کے دوسرے فیصلے ملک کے مسلمانوں کو نشانہ بناکرلیے جارہے ہیں جس کا مقصد دو میں سے ایک ہے کہ یاتو مسلمان اس کی مخالفت کریں جس سے ٹکراؤ کا ماحول پیداہو یا پھرمسلم بچے اپنے دین و ایمان سے ہاتھ دھوبیٹھیں۔ یہ تواس معاملے کا ایک پہلوہے، دوسراپہلو جو اس سے بھی زیادہ خطرناک اوربلاتقریق مذہب و ملت پورے ملک و قوم کے لیے سخت تباہ کن ہے ، وہ یہ ہے کہ دیناناتھ بترا یا اس کے شکشاسنسکرتی اتھان نیاس کی وہ کتابیں ہوں جن کویہ این سی ای آرٹی کی کتابوں پرترجیح دیتے ہیں یا خود آرایس ایس کے لٹریچر سراسر افسانوی اور اساطیری کہانیوں کا پلندہ ہیں جن کو پڑھ کر بچوں کاذہن معروضی، منطقی ، سائنسی، حقیقت پسند اور تحقیقی بننے کے بجائے توہم پرست بنے گا اوراس سے اساطیرفروشی کوتقویت ملے گی جس نے اس ملک کی ایک بڑی آبادی کو پہلے ہی تاریکی اور توہم میں غرق کررکھا ہے۔
مودی حکومت نے ایک ایسے شخص کو انڈین کونسل آف ہسٹوریکل ریسرچ (ICHR) جیسے باوقارادارے کی صدارت سونپ دی جس کی کل علمی خدمات اور مبلغ علم و دانش یہ ہے کہ وہ مذہبی کہانیوں کو تاریخی باور کرانے کی کوشش کرتا رہا ہے اور اس میں بھی صرف دو باتیں۔ ایک تو ہندوستان کی تہذیب کی عظمتیں اور اس کی قدامت کہ سائنس کی ساری ایجادات ہزاروں سال پہلے ہمارے ہی دیس میں ہوئیں،فلسفہ، ڈراما، ریاضی، لسانیات، ہیئت، نجوم میں ہم سب سے آگے اورمرشد عالم(وشوگرو) تھے ، ہمیں بھرت، پاننی، کپل، آریہ بھٹ ، سوشرت،چرک اور پتنجلی وغیرہ پر فخر ہے۔نہ ہم سے بہتر دنیا میں کوئی ملک تھانہ لوگ تھے اورنہ دنیاکے کسی دیس میں ہمارے راجاؤں سے اچھے راجاتھے نہ آج تک ہوئے اس لیے ان کی پوجا کرنی چاہیے اور دوسری یہ کہ مسلمانوں نے ہندوستان پر حملے کئے،مقامی آبادی پر مظالم ڈھائے اورلوگوں کوبزورطاقت مسلمان بنایااور ان کا دھرم خراب کیا لیکن ان کے پاس نہ تو اکلویہ کا انگوٹھا کاٹنے یا رنگ و نسل کی بنا پرانسانوں کی تقسیم کا کوئی جواب ہے اور نہ آدیباسیوں اوردلتوں پر صدیوں سے چلے آرہے مظالم پر کوئی شرم۔یہ تاریخی سچائیوں کو مسخ کرکے ایک مفروضہ بلکہ جعلی شاندار ماضی پر فخر کی تعلیم دینا چاہتے ہیں تاکہ مظلوم اقوام اپنے بہترمستقبل کے لیے جدوجہد کرنا بھول جائیں۔پھریہ عہدوسطی کی جنگوں کو ہندو مسلم رنگ میں پیش کرکے دونوں فرقوں میں دوری اور عداوت پیداکرنااور اس سچائی کو چھپالینا چاہتے ہیںکہ ترکوں اور مغلوں کی فتوحات میںمسلمانوں سے زیادہ ہندوسپاہیوں، راجپوت راجاؤں ، ان کی فوجوں اور اس سے بھی زیادہ یہاں کی سیاسی سماجی ا ور معاشی صورت حال کا ہاتھ تھا اور یہ مقامی حکمرانوں کے مظالم تھے اور اونچ نیچ کی لعنت تھی جن سے عاجزآکر مظلوموں نے ترکوں اورمغلوں کا ساتھ دیا۔وہ جس راناسانگاکو بابرکاحریف ومقابل باور کراناچاہتے ہیںاسی رانا سانگاکے تعلق سے یہ سچائی چھپاتے ہیں کہ سلطان ابراہیم لودی کے خلاف اس نے بابرکا ساتھ دیاتھابلکہ وہ اسے ہندوستان پر حملے کی دعوت دینے والوں میں شامل تھا۔وہ جس ہیم چندروکرمادتیہ کوہمایوں اور اکبرکے مقابل کھڑاکرناچاہتے ہیںاسی کے تعلق سے یہ چھپا نا چاہتے ہیں کہ وہی ہیموشیرشاہ سوری کا ملازم اور اس کے جانشینوں کا سپہ سالار تھا۔
یہ ان کی جہالت ہی تو ہے کہ اطلاعاتی ٹکنالوجی کے انقلاب اورمعلومات کے دھماکوں کے اس عہد میں بھی وہ عوام کو سچائیوں سے ناواقف رکھنا چاہتے ہیں اوریہ اسی کانتیجہ ہے کہ ایک اتنے بڑے ملک میں جہاں سے تعلیم یافتہ افراد دنیابھرکے ملکوں میں جاکرہرشعبے میں قائدانہ کردار ادا کررہے ہیںیہ اپنی پسندکے اہل افراد کی تلاش میں ناکام ہیںجس سے یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز تک کے متعدد عہدے خالی پڑے ہیں۔اب تک اس حکومت میں ایک درجن سے زائد آئی اے ایس؍ آئی پی ایس افسران استعفے دے چکے ہیں اور دوسرے بہت سے اعلی افسران رضاکارانہ سبکدوشی کی قطار میں کھڑے ہیں۔ کاکوڈکرجیسے مشہور سائنسداں نے استعفی دیا، امرتیہ سین جیسے نوبل انعام یافتہ دانشور نے انٹرنیشنل یونیورسٹی آف نالندہ کی چانسلری چھوڑی، درجنوں مشہور پروفیسروں اور ڈائریکٹروں نے اپنی عزت و وقار بچانے کے لیے منصب چھوڑکر گھر بیٹھ جانا مناسب جانا۔فلم اینڈ ٹیلیویزن انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا(FTII) پونے کا ڈائریکٹر گجندرچوہان جیسے شخص کو بنایا جانااس کی ایک مثال ہے کہ اس حکومت کی سوچ کیا ہے اور اس کے پاس معتبر دانشوروں یا باوقار اداروں کے شایان شان اہل افراد اورمناسب لیاقتوں کی کتنی کمی ہے؟عقل و منطق کے یہ دشمن این سی ای آرٹی کی کتابوں پربچوں کو تعلیم یافتہ بنانے کے بجائے بدعنوان بنانے کا الزام دھرتے ہیں ، ان کے نزدیک تعلیم کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ بچے پڑھ لکھ کر مذہبی،اساطیری اورثقافتی رسوم و رواج یہاں تک کہ توہمات کو بھی بلاچوں چرا قبول کریں، منودادی سوچ پر کوئی سوال نہ اٹھائیں، سنسکرتی کے نام پر ہر اس کام کو کریں جو ان سے کرم کانڈی پنڈت اورہاتھ کی لکیریں یا ستاروں کی چالیں دیکھ کرمستقبل بتانے والے ٹھگ کہیں۔اپنی اس انسانیت مخالف غیرترقی پسندانہ سوچ میں یہ اتنے ڈھیٹ اور پرجوش ہیں کہ شکشاسنسکرتی اتھان نیاس نے مودی کے اقتدار میں آنے کے اگلے ہی دن نظام تعلیم میں اصلاحات لانے کے لیے کمیشن قائم کرلیاتھا۔ تاریخ میں پہلی بار کسی غیرسرکاری تنظیم نے کمیشن بنایا، رپورٹ تیارکی اورنہایت دیدہ دلیری سے حکومت کو کسی شاہی فرمان کی طر ح دیا کہ وہ اس پر عمل کرے۔کیا آپ نے اس سے پہلے کبھی سناکہ کسی غیرسرکاری تنظیم نے دنیامیں کہیں کوئی کمیشن بنایاہے۔یہ آر ایس ایس کی اس سوچ کا ننگامظاہرہ ہی توہے کہ بی جے پی کی حکومت میںوہ خود کوملک کے سیاہ و سفید کا مالک اور اقتدار کا اصل مرکز سمجھتاہے۔
قومی تعلیمی پالیسی
اس وقت قومی تعلیمی پالیسی کے نئے ڈرافٹ پر نیتی آیو گ(جوپہلے منصوبہ بندی کمیشن تھا )کے رکن ، خلائی سائنسداں کرشناسوامی کستوری ر نگن کی صدارت میں ایک اور کمیٹی کام کررہی ہے۔یہ مودی حکومت کے صرف تین سال میں اس موضوع پر دوسری کمیٹی ہے۔ٹی آر ایس سبرامنیم کی پانچ رکنی کمیٹی نے حکومت کو جو رپورٹ سونپی تھی اس پر خود اس کمیٹی کے ارکان میں اختلاف تھا(جوجلد ہی طشت ازبام ہو گیا)اورابھی حکومت نے اس کو جاری بھی نہیں کیاتھا کہ اس پر احتجاج واعتراض شروع ہو گیاتھا۔اب حکومت نے ۹؍ رکنی کمیٹی تشکیل دی اور دور کی کوڑی یہ لائی کہ اس کی صدارت ایک خلائی سائنسداں کو سونپی تاکہ کو ئی یہ سوال نہ اٹھاسکے کہ حکومت کی سوچ غیرسائنسی ہے۔ حیرت ہے کہ ان کو یہ ا حساس تک نہیں کہ کوئی بات ایک خلائی سائنسداں کہے یا کوئی عام آدمی دیکھایہ جاتاہے کہ اس بات میں کتنی صداقت اورکتنا وزن ہے۔ اس کو عقل و منطق کے میزان پرپرکھاجائے گا ورنہ وہ لو گ بھی سائنسداںہی ہیں جوآرایس ایس کی خوشنودی اور ہندوتوکے غرور کی تسکین کے لیے گائے کے گوبراور اس کے پیشاب پرتحقیق کررہے ہیں تاکہ صدیوں سے چلے آرہے اس داغ کوکچھ ہلکاکرسکیں کہ یہ کیسے لو گ ہیں جو گائے کے گوشت کو حرام اور اس کے گوبروپیشاب کوپاک سمجھتے ہیںیہاں تک کہ اس جانور کے فضلہ کو کھانے پینے میں کچھ عار محسوس نہیں کرتے لیکن ناقابل تردید صداقت یہی ہے کہ وہ اس داغ کو اپنے اس عمل سے مزید گہرا ہی کریں گے اور دنیا اس پر ہنسے گی کہ یہ نام نہاد سائنسداں اپنے نسل پرستانہ غرور کی جھوٹی تسکین کے لیے ملک کے نادان عوام کو کہاں لے جارہے ہیںیا ان کو اخلاقی پستی کے کس قعر مذلت میں ڈ ھکیل رہے ہیں۔جب خودحکومت کا ایجنڈاعیاں ہے تو اس کی مقررکردہ ایک کمیٹی سے دوسری کمیٹی کانصب العین کیونکر مختلف ہو گا سمجھ سے بالاترہے ،ہاں یہ توقع تو کی جاسکتی ہے کہ یہ کمیٹی پہلے سے بھی زیادہ محنت اورشاطرانہ ہوشیاری کے ساتھ جوڈرافٹ تیار کرے گی ،وہ اپنے مقاصد میں اس سے بھی زیادہ جامع ہو گی۔یہ کہنا تحصیل حاصل ہو گا کہ یہ کمیٹی دیناناتھ بتراکے پیش کردہ پروجیکٹ اور سبرامنیم کمیٹی کی جہازی رپورٹ پر اب ازسرنوکام کرر ہی ہے۔پھربھی وزارت فروغ انسانی وسائل کا دعوی ہے کہ کستوری ر نگن کمیٹی کوتعلیم اور نظام تعلیم کوآج کے تقاضوں سے ہم آہنگ، اس کے معیار کوزیادہ بہتراوربین الاقوامی بنانے کا مینڈیٹ دیاگیاہے اور یہ کمیٹی غیرملکی یونیورسٹیوں کو ہندوستان لانے کا روڈمیپ بھی پیش کرےگی۔ وزارت کادعوی یہ بھی ہے کہ گزشتہ دنوں پارلیمنٹ کے ایوان بالا میں بھی بعض ارکان نے اس مسئلہ کو اٹھایا تھا اورتحریری شکل میں اپنی رائیں دی تھیںنیزحکومت کی ویب سائٹ (MyGov) پر۲۶ہزار لوگوں نے فیڈبیک دی ہیں۔ کستوری رنگن کمیٹی ان سب کو سامنے رکھ کرپالیسی کا ڈرافٹ تیار کرے گی۔ اس کمیٹی کے ارکان میںسبکدوش بیوروکریٹ اوربی جے پی کی قومی مجلس عاملہ کے مدعوئے خصوصی کے جے الفونسے، مشہورریاضی داں پروفیسر منجو بھار گو، ماہرتعلیم بسودھاکامت(وئس چانسلرایس این ڈی پی یونیورسٹی، ممبئی)،باباصا حب امبیڈکریونیورسٹی آف سوشل سائنسز(مہو، مدھیہ پردیش )کے وائس چانسلر رام شنکرکریل،ٹرائبل یونیورسٹی(امرکنٹک) کے وائس چانسلرٹی وی کٹامنی،اترپردیش کے کے ایم ترپاٹھی، گوہاٹی یونیورسٹی میں فارسی کے پروفیسرمظہرآصف اورکمیٹی کے ممبر سکریٹری ایم کے شری دھر شامل ہیں۔۲۶؍ جون ۲۰۱۷ء کو قائم کردہ اس کمیٹی کوپالیسی کافائنل ڈرافٹ سونپنے کے لیے کوئی وقت نہیں دیا گیاہے۔ حکومت چاہے گی کہ سولہویں عام انتخابات (۲۰۱۹ء )سے پہلے اس پالیسی کو نافذ کردے اس لیے اس کے پاس وقت بہت کم ہے۔
قومی تعلیمی پالیسی وضع کرنے یا اس پر نظرثانی کرنے کا تصورہندوستان میں کوئی نئی چیز نہیں ہے،یہ پہلی بار۱۹۶۸ء میں لائی گئی تھی۔پھر ۱۹۸۶ء میں لائی گئی۔بنیادی طور پراس کا مقصد ملک میں تعلیم اور اس کے معیار کا فروغ رہاہے۔حکومت ہندنے آزادی کے بعد ہی ملک سے ناخواندگی دور کرنے اورتعلیم کوفرو غ دینے کی متعدد اسکیمیں شروع کردی تھیں۔ہمارے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابو الکلام آزاداس موقف کے حامی تھے کہ نظام تعلیم پرپورے ملک میں مرکزکا کنٹرول ہو ،نصاب تعلیم ونظام تعلیم میں یکساں معیار کوفروغ دیا جائے اور کسی بھی سطح پرمعیار سے سمجھوتہ نہ کیاجائے ۔اسی غرض سے یونیورسٹی ایجوکیشن کمیشن (۱۹۴۸ء)، ثانوی تعلیم کمیشن(۱۹۵۲ء )،اور پھر نظام تعلیم کی جدید کاری کے لیے کوٹھاری کمیشن(۱۹۶۴ء) قائم کیے گئے ۔سائنس کی معیاری اعلی تعلیم کے لیے آئی آئی ٹی قائم کیے گئے ۔ تعلیمی تحقیق و تربیت کی قومی کونسل(این سی ای آرٹی۱۹۶۱ء ) بنائی گئی جو ایک خودمختار ادارہ ہے تاکہ تعلیم کے معیار اور اس کے فروغ کو سیاسی مداخلت سے دور رکھا جائے ۔ وزیراعظم اندرا گاندھی نے ۶۶۔ ۱۹۶۴ء کے تعلیمی کمیشن کی سفارشات کی روشنی میںقومی تعلیمی پالیسی لانے کا اعلان کیا تھا اوراسی میں پہلی بار ۱۴سال تک کے بچوں کے لیے تعلیم کو لازمی بنانے کے عزم کا اظہار کیاگیا تھا ، اساتذہ کی ضروری لیاقت و تربیت کو یقینی بنانے کی ضمانت دی گئی تھی اور سہ لسانی فارمولہ کے تحت مقامی زبانوں، سرکاری زبان اور انگریزی کی تعلیم پرزور دیا گیا تھا۔اس میں سنسکرت کو فروغ دینے پر بھی زورتھا کہ یہ ہندوستان کی تہذیب کا ایک اہم حصہ رہی ہے۔ ۱۹۸۵ء میں وزیر اعظم راجیوگاندھی نے نئی تعلیمی پالیسی بنانے کااعلان کیا اور مئی۱۹۸۶ء میں نئی قومی تعلیمی پالیسی متعارف کرائی گئی۔اس نئی پالیسی میں خاص طور پرمعیار اور مواقع میں مساوات و یکسانیت اور اطفال مرکوز نصاب تعلیم بنانے پر زور دیا گیا۔ د ونوں بار لوگوں نے خدشات و اعتراضات کا اظہار کیا، سہ لسانی فارمولہ پر یہ اعتراض تھا کہ اس سے زبانوں کے سیکھنے پڑھنے کی آزادی سلب کی جارہی ہے یا یہ کہ یہ تعلیم کو قومیانے کی شروعات ہے۔ لسانی اقلیتوں کو اندیشہ تھا کہ یہ ان کے خلاف سازش ہے، قومی زبان ہندی کی لازمی تعلیم اورسنسکرت تھوپنے کے خلاف ملک کے مختلف حصوں میں احتجاج کئے گئے، جنوب میں توآئین کی کاپیاں تک جلائی گئیں۔وزیراعظم منموہن سنگھ کی یوپی اے حکومت نے اپنے کم ازکم مشترکہ پروگرام کے تحت۲۰۰۴ء میں اس راہ میں ایک قدم اور آگے بڑھایاجب پیشہ وارانہ تعلیم کے داخلہ امتحانات کو یکساں اور قومی سطح پرایک ساتھ کرانے کا فیصلہ لیا۔ اس راہ کا ایک اور سنگ میل حق تعلیم ایکٹ(۲۰۰۹ء) تھا جس کے ۸تحت ۱۴سال تک کے بچوں کو مفت تعلیم دینے کی قانونی ضمانت دی گئی اوران کو اسکول سے باہر رکھنے کو قابل مواخذہ جرم قرار دیا گیا۔ اس قانون پر بھی احتجاج کے بعد ترامیم و اصلاحات لائی گئیں۔غرض یہ کہ اقلیتوں کو اس سفر کے ہرموڑ پرکچھ نہ کچھ مشکلات کا سامنا رہاہے جن کی تفصیلات میں جانے کا نہ یہ موقع ہے اور نہ ہماراموضوع لیکن قومی تعلیمی پالیسی کے نئے ڈرافٹ کی تیاری کی موجودہ سرکارکی قواعد اور اس سے قبل بی جے پی کی مرکزی یاریاستی حکومتوں کے فیصلے اوران سے پیداشدہ بے چینی اب تک کی سب سے سنگین صورت حال ہے۔نہ صرف اس لیے کہ اس بار ایجنڈامختلف اورخطرناک ہے بلکہ اس لیے بھی کہ یہ سرکار اقلیتوں کے مطالبات و اعتراضات پرہمدردی سے غورکرنے کی روادار نہیں ہے اور اس کو ان کی منھ بھرائی کہتی آئی ہے۔
آخری بات
دنیاکامقابلہ سائنسی ترقی ،معاشی خوشحالی اورتہذیب وثقافت کی اعلی قدروں سے کرنے یااساطیری کہانیوں کی جھوٹی شان و شوکت سے مدمقابل ملکوں اورقوموں کو مات دینے کی بزدلانہ سوچ کی کشمکش اس ملک میں نئی نہیں ہے۔ضد اورانتقام کی نفسیات اور فرقہ وارانہ نفرت و عداوت کے جذبات نے اس ملک کے باشندوں پرجومظالم ڈھائے ہیںاورمعصوم انسانوںکاجتنا خون پیاہے ان کے تصور سے بھی روحیں کانپ اٹھتی ہیں۔توقع تھی کہ آزادی اورجمہوریت کی روشنی خون کے ان دھبوں کو دھودے گی جو صدیوں پرپھیلے ہوئے ہیں لیکن حیرت ہے کہ نفرت و عداوت کے اس ناپاک کھیل کے فریقوں نے آج تک کوئی سبق نہیں لیا۔میں اس پر جب بھی غور کرتا ہوں ، ایک ہزار سال پیچھے چلا جاتا ہوںجب مشہور مورخ ابوریحان البیرونی نے اس کی جڑوں میں اترنے کی کوشش کی تھی۔پھرکانوں میںپہروں یہ آواز کونجتی رہتی ہے کہ وہ جاہل و نادان تھے،شرکیہ توہمات اور قسم قسم کی جہالتوں کے اسیر تھے لیکن تم تو خیر امت تھے ، تم نے ان کی مظلوم و مقہور اکثریت کو جہالتوں سے نکالنے اور ظالموں کے چنگل سے چھڑانے کی کتنی سعی کی؟اقتدار تمہارے ہاتھوں میں آیا توکیا وہی نہیں کیا جوصدیوں سے ان کے ساتھ ان کے ظالم و جابرحکمراں کر تے آئے تھے،کیا تم نے ان ہی راجپوتوں اور برہمنوں سے مل کراقتدارکے حصے بخرے نہیں کیے جن کے جبرواستبداد سے مظلوموںکو نکالنے کی ذمہ داری تمہاری تھی۔مٹھی بھرصوفیاومشائخ کے علاوہ کس کو اس کی فکرتھی کہ مظلوم و مقہوراقوام کومعبودان باطل کی گرفت اورتوہمات کے پنجوںسے نکالیں۔ کیاتم وہی نہیں ہوجنہوں نے ان کی جہالتوں اور ان کے کفرو شرک کو اوربھی مضبوط کرنے کے سامان کئے۔ اب بھی کتنے ہیں جو گریبانوں میں منہ ڈالنے کوتیارہیں،کیا یہ سچ نہیں ہے کہ خود کو مظلوموں کا رفیق بنانے کے بجائے فریق بنالیا۔پیاسوں تک پانی پہنچانے کے بجائے دریا کو کنواں تصور کیا اوراس دین کے خطرے میں ہونے کاخوف اعصاب پرطاری کرلیاجودنیا کوبدلنے آیاتھا اورآج تک یہی کررہے ہو۔وہ بودھ جو دنیاکی مظلوم ترین قوم تھی اور جس نے اسلام اورمسلمانوں کو کل اسی برعظیم میںجوق درجوق گلے لگایا،افسوس !وہ بھی اب تمہاری رفیق نہ رہی۔بیرونی نے لکھاہے:ہما رے اور ہندوؤں کے درمیان مغائرت کے بہت سے اسباب ہیںلیکن اس وقت ان کا تعصب اور بڑ ھ گیا جب مسلمانوں نے ان پرحملہ کیا۔اس نے یہ بھی لکھا کہ وہ خود پسندی کی لعنت اوربیرونی چیزوں کی تحقیر کرنے کی عادت میں مبتلاہیں اور یہ ان کے قومی کردار کی وہ خصوصیات ہیں جن میںوہ جکڑے ہوئے ہیں۔ان کا عقیدہ ہے کہ ان کے ملک کے علاوہ روئے زمین پر کوئی ملک نہیں ہے اور نہ ان کی قوم کے علاوہ کوئی قوم ہے۔نہ کہیں ان کے بادشاہوں جیسے بادشاہ ہیں۔نہ ان کا سا مذہب ہے اور نہ ان جیسا علم و فن۔اس خام خیالی نے ان کو ہٹ دھرمی اور حماقت میں مبتلا کررکھا ہے۔ اس نے یہ بھی لکھا کہ عیسائیت کے ظہور سے پہلے یونانی کفار کے بھی یہی عقائد وافکار تھے جو ہندووں کے ہیں۔ ان کے طبقہ علما کا طریقہ فکربھی ہندو پنڈتوں جیسا تھا اور یونانی عوام ہندو عوام کی طرح بت پرستانہ عقائد رکھتے اور اسی پرفخرکرتے تھے لیکن یونانیوں میں کچھ ایسے حکما پیدا ہوئے جنھوں نے اپنی کوششوں سے حقیقت کو عوامی خرافات سے پاک کیا۔ سقراط نے اپنی قوم کے عوام کی مخالفت کی اور حق پر قائم رہنے کی پاداش میں جان دے دی۔ہندوؤں میں اس درجہ کے حکما و مصلحین پیدا نہیں ہوئے جو علوم کی اصلاح و تکمیل کے خواہاں اور اہل ہوں(اس کے برعکس ان کے نام نہاد پنڈت اور عالم عوام کو ان کی جہالتوں میں مبتلارکھنا اپنے مفاد میں تصور کرتے ہیں)۔یہی وجہ ہے کہ ہندوؤں کے تمام علوم ابہام وانتشار سے پر ہیں۔ان میں کوئی منطقی ربط نہیںاور ان کا کوئی علم ایسا نہیں جو عوامی خرافات کی آمیزش سے پاک ہو۔بیرونی کے نزدیک ہندوؤں کا ہندسہ اورنجوم ایسا ہی ہے جیسا موتیوں، سیپوں اور سڑی ہوئی کھجوروں کا آمیزہ یا پھر گوبر میں لپٹا ہواموتی یا سنگریزوں میں پڑا ہوا نگینہ۔ان کے نزدیک دو باتیں ایک جیسی ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ سائنسی طریق استنباط(rationalization) کو اختیار کرنے کے اہل نہیں ہیں۔بیرونی کے اس مشاہدے کی اہمیت یہ ہے کہ ہم سمجھ سکیں کہ ہندوتوکی اساس کتنی گہری ہیںاور اب ایک ہزار سال بعدبھی وہ اگر ان ہی علوم ، اسی ہندسہ،اسی جیوتش، نجوم اورکھگول کو اسکولوں میں پڑھانے اور ان ہی افکار و عقائد کو لوگوں پرتھوپنے یا نصاب تعلیم میں داخل کر نے پر بضد ہیں تو کیااس میں صرف ان ہی کا جرم ہے یا ان کا بھی قصور ہے جن پر ان کو اس تاریکی سے نکالنے کی ذمہ داری تھی؟ آزادی کے ستربرسوں میں بھی اگروہ جہالتوں کی ان کھائیوں سے نہیں نکل سکے ہیں یا ان کے ذہنوں کے دروازے اب بھی بند ہیں تومجرم کون ہے؟ یہ اب بھی چھواچھوت کی لعنت میں مبتلا ہیں ، گوبرکے دسترخوان پرکھانا کھانے ، چاند سورج کو ہاتھ جوڑنے، گائے کے پیشاب کوپاک اور مقدس ماننے اور اس کے اجزاپر ریسرچ کرکے اس کوحیات بخش ثابت کرنے کے خبط میں مبتلااور ہر اس چیز کے خلاف ہیں جس کو بیرونی اوربالخصوص مسلمانوں کی لائی ہوئی تصور کرتے ہیں تو جرم صرف ان ہندوؤں کا ہی نہیں جو عوام الناس کو ان کی جہالتوں میں غرق رکھ کر اپنے سیاسی و معاشی مفادات کے حصول کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں،قصور ان کابھی ہے جن کی ذمہ داری ان کو ان جہالتوں کے اندھے کنویں سے نکالنے کی تھی۔میراماننا ہے کہ آج بھی اس کشمکش کو ختم اور اس جنون کو بے اثر وہی لوگ کرسکتے ہیں جواس ملک کی مظلوم و مقہور اکثریت کو ان کی جہالتوں سے نکالنے کی سعی کریں ، ان کے فریق بننے کے بجائے رفیق بنیں ، اس لیے کہ جہالتیں چاہے جتنی بھی طاقتورہوں جہالتیں پھرجہالتیں ہیں۔یہ علم و منطق کے سامنے نہیں ٹھہرسکتیں ، روشنی آتی ہے تو تاریکی خود ہی کافور ہوجاتی ہے۔اس لیے تعلیم اور نصاب تعلیم میں تصرفات کی اس نئی مہم سے گھبرانے یا پریشان ہونے کے بجائے ہمیں ان کے مقابلے پرعلم و دانش کے چراغ روشن کر نے کی وہی حکمت عملی اپنانا چاہیے جو ہمارے مشائخ صوفیا نے اپنائی، یہ کانٹوں کے جواب میں کانٹوں کے بجائے پھول بچھانے اورتاریکیوں کو بڑھانے کی کوششوں کے مقابلے میں روشنی پھیلانے کی روش تھی جس نے ماضی میں بھی ہندوستان کی کایاپلٹی اور آج بھی پلٹ سکتی ہے۔آپ آرایس ایس کے ششومندروں اور شکشا سنسکرتی اتھان نیاس کا مقابلہ صرف اور صرف اے ایم یو، جامعہ اور البرکات جیسے اداروں کو فروغ دے کر اور بستی بستی گاؤںگاؤں ان کا جال بچھا کر ہی کرسکتے ہیں، دوسری صورت نہیں ہے۔
احمدجاوید
ریزیڈنٹ ایڈیٹر، انقلاب
سی۵،پاٹلی پترا انڈسٹریل ایریا، پٹنہ۱۳
[email protected]
9818844546