یہ ان لوگوں کے لیے یقینا سخت مایوس کن ہے بلکہ ان کو صدمہ پہنچا ہوگا جو سمجھ رہے تھے کہ این آئی اے کے قیام سے صورت حال میں تبدیلی آئے گی ۔عجیب اتفاق ہے کہ یہ عین اس وقت ہورہا ہے جب اتر پردیش میں اسی قسم کے دھماکوں میں گرفتار کئے گئے طارق قاسمی اور خالد مجاہد کو رہاکرنے کی کارروائی کی جارہی ہے کیونکہ تحقیقات سے ثابت ہوچکا ہے کہ ان کی گرفتاری غلط اور غیر قانونی تھی۔ اصل دہشت گردوں کو بے نقاب کر نے اور کیفر کردار تک پہنچانے کے بجائے ان کو بلی کا بکرا بنا یا گیا تھا۔
احمدجاوید
خبر آئی کہ قومی تفتیشی ایجنسی (این آئی اے )کی متعدد ٹیمیں ملک کی مختلف ریاستوں میںخیمہ زن اور دہشت گرد تنظیم ’ انڈین مجاہدین‘ کے ان ارکان کوڈھونڈ نکالنے میںسرگرداں ہیں جومبینہ طور پر حیدر آباد اور بنگلور کے بم دھماکوں میں ملوث ہیں تو ذہن سب سے پہلے بھٹکل ( کرناٹک )اور اعظم گڑھ ( اتر پردیش) کی طرف گیا ۔پھر یہ جان کربھی حیرت نہیں ہوئی کہ ان میں سے۶ ٹیمیں صرف بہار کے مختلف مقامات پر کیمپ کئے ہوئی ہیںکیونکہ انڈین مجاہدین کے حوالے سے اعظم گڑھ اور بھٹکل کے ساتھ دربھنگہ کا نام کافی دنوں سے میڈیا کی سرخیوں میںہے، کوئی پہلی بار ایسا نہیں ہوا ہے کہ ملک کے کسی حصہ میں دھماکہ ہوا اور بھٹکل یا اعظم گڑھ اور دربھنگہ کا نام آیا۔اگر اخباروں کی اطلاعات پر بھروسہ کریں تو ان بم دھماکوں میں ملوث ۱۰ میں سے ۲؍ نوجوان بہار کے ہیں، ۶؍ اعظم گڑھ کے اور ۲؍ کا تعلق حیدر آباد اور بنگلورسے ہے۔آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ بہار سے تحسین اختر اورعامر رضا کی گرفتاری کے لیے چھ چھ ٹیمیں ریاست کے مختلف مقامات پر کیمپ کئے ہوئی ہیں تو اتر پردیش کے مختلف مقامات اور دوسری ریاستوں میں یہ تعداد کتنی ہوگی۔ یہ اندازہ بھی لگایاجاسکتاہے کہ جن علاقوں میں یہ ٹیمیں موجود اور سرگرداں ہیں وہاں کے لوگوں، اعلی تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں اور خاص طور پر ان نوجوانوں اور ان کے والدین میں کتنی دہشت ہوگی جو کبھی ملک کے دوسرے دور دراز علاقوں میں بہ غرض تعلیم مقیم رہے ہیں۔یہ ان لوگوں کے لیے یقینا سخت مایوس کن ہے بلکہ ان کو صدمہ پہنچا ہوگا جو سمجھ رہے تھے کہ این آئی اے کے قیام سے صورت حال میں تبدیلی آئے گی ۔عجیب اتفاق ہے کہ یہ عین اس وقت ہورہا ہے جب اتر پردیش میں اسی قسم کے دھماکوں میں گرفتار کئے گئے طارق قاسمی اور خالد مجاہد کو رہاکرنے کی کارروائی کی جارہی ہے کیونکہ تحقیقات سے ثابت ہوچکا ہے کہ ان کی گرفتاری غلط اور غیر قانونی تھی۔ اصل دہشت گردوں کو بے نقاب کر نے کی بجائے ان کو بلی کا بکرا بنا یا گیا تھا۔ بہار کے سابق وزیر اور اسمبلی میںحزب اختلاف کے رہنما عبدالباری صدیقی کا ردعمل ہے کہ این آئی اے کو ملزمین کی سماجی تفتیش کرنی چاہیے ورنہ وہ ان کو گرفتار کرتے ہیں ، برسوں قید میں رکھتے ہیںاور الزام ثابت نہ ہونے پر وہ رہا کردئے جاتے ہیں۔بلاوجہ پورے پورے خاندان اور ان کی عزت تباہ ہوجاتی ہے۔سماج میںان خیالات کے جڑ پکڑنے کی سنگینی کا احساس کسی باشعور ہندوستانی کو ہی ہوسکتا ہے ۔ میرے تو ملک کے ایک بڑے عالم ، مسلم پرسنل لابورڈ کے رکن اور امارت شرعیہ بہارکے ناظم مولانا انیس الرحمن کے یہ الفاظ سن کر ہوش اڑ گئے کہ این آئی اے ایک خاص فرقہ اور بہار کے مخصوص علاقہ کے لوگوں کے خلاف کام کر رہی ہے۔ کم و بیش یہی خیال اعظم گڑھ کے مولانا طاہرمدنی، عامر رشادی اور دوسرے علماء و قائدین کا ہے اور بھٹکل کے مولانا الیاس بھٹکلی کی سوچ بھی یہی ہے کہ ہشت گردی کا ہوا دراصل بھٹکل کو بدنام کر نے کی سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہے جو اسلام دشمن طاقتوں نے رچائی ہے۔
ملک کے جنوبی ساحل پر واقع بھٹ کل ہندوستان کے قدیم ترین ساحلی شہروں میں سے ایک ہے۔ اپنے جغرافیائی محل وقوع اور تاریخی پس منظرکی بنا پر ملک کے دوسرے حصوں کے مقابلے میں بہت پہلے سے عالمی گاؤں کا حصہ ہے۔ چند سال پہلے تک یہ شہر اپنی ترقی، خوشحالی اورامن پسندی کے لیے جانا جاتا رہا ہے، ملک کے نقشے پر ایک بڑے تعلیمی مرکز کی حیثیت سے ابھر رہا تھا اور اسی حوالے سے خبروں میںرہا کرتا تھا،محمد حسین اور گنیش پجاری جیسے ہونہار طلبہ بھٹ کل کا نام روشن کر رہے تھے اور ملک کے دور دراز علاقوں کے طلبہ انجینئرنگ اور دوسرے پیشہ ورانہ کورسز میں داخلہ کے لیے بھٹکل کا رخ کرنے لگے تھے( ان ہی طلبہ میں انجینئرفصیح محمود بھی شامل تھا جو دربھنگہ کے ایک ڈاکٹر جوڑے کا چشم و چراغ ہے اور جس کو پچھلے دنوں سعودی عرب سے گرفتار کر کے نئی دہلی لایا گیا) ۔لیکن بد قسمتی سے اب یہ دہشت گردی کے حوالے سے لگاتارمیڈیا کی سرخیوں میں ہے،اور اس کی ساری نیک نامی اور امن پسندی دہشت گردی کے شور میں دب گئی ہے ۔ملک کے کسی بھی حصہ میں بم دھماکہ ہوجائے اس کا نام ضرور آتا ہے۔
کرناٹک کے اتر کنڑ ضلع میں واقع بھٹ سکل بحر ہند کے ساحل پر ایک پرفضامقام ہے۔خوبصورت پہاڑیاں، سمندر کاکنارا، صاف ستھرا شہر اور مہمان نواز باشندے دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتے ہیں، یہاں سے صر ف سو کلو میٹر کے فاصلے پر جوگ کے مشہور جھرنے واقع ہیں۔اس تاریخی شہر اور بندر گاہ کا ذکر پرتگالی تاریخی ٹیکسٹ میںبیٹے کلا(Batecala)کے نام سے ملتا ہے۔کہتے ہیں کہ زمانہ قدیم میں یہاں ایک جین راجا بھٹ کلنکا کا راج تھااور اسی کے نام پر اس کو بھٹکل کہا جانے لگا۔جنوبی ہند کے اس شہر کی تاریخ شمالی ہند کی قدیم ریاست ویشالی کی طرح جمہوریت اور پنچایتی گن راج کی کہانی سناتی ہے جہاں راجا اور پرجا ایک چھت کے نیچے بیٹھ کر امور حکومت باہمی مشاورت سے طے کرتے تھے ۔ امن پسندی اور عدم تشدد کی روایات اس کی فضا میں رچی بسی ہیں۔ شہر کے باشندے محنتی، ایماندار، مہذب، تعلیم یافتہ، خوش اخلاق اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں کام آنے والے، امن پسند اور مذہبی ہیں۔یہ ذکر پہلے آچکا ہے کہ بھٹکل زمانہ قدیم سے بیرونی دنیا اور دور دراز کے ممالک سے جڑا رہا ہے۔۱۹۶۰ کی دہائی میں یہاں کے باشندوں کا رجحان مغربی ممالک کی طرف بڑھااور آج یہاں کے لو گ برطانیہ ، امریکہ اور آسٹریلیا میںبھی ہیںاور خلیجی ممالک دبئی،بحرین، قطر، عمان اور سعودی عرب میں بھی تجارت اور ملازمت کر رہے ہیں۔ بھٹکل،اعظم گڑھ اور دربھنگہ میں اگر کوئی قدر مشترک ہے تو یہی تعلیم، دینی بیداری، بیرونی دینا سے ان کا جڑاؤ اور ہونہار و محنتی طلبہ جو دوردور تک اپنے گاؤں اور ضلعوں کا نام روشن کر رہے ہیں۔
17.034 مربع کلو میٹر میں پھیلے بھٹکل کی آبادی ۲۰۱۰ء کی مردم شماری کے مطابق 112000 ہے۔ جس میں مرد و عورت کا تناسب برابر برابر یعنی پچاس پچاس فیصد ہے۔جنسی تناسب کی یہ قابل رشک صورت حال صرف ہندوستان کی راجدھانی دہلی اور اطراف کے ان علاقوں اور شہروں کے لیے ہی سبق نہیں جہاں یہ تناسب فی ہزار ۹۰۰ سے۰۰ ۷ تک ہے، ملک کے دوسرے علاقوں کے لیے بھی سبق آموز ہے۔ اسی طرح اس شہر کی شرح خواندگی قومی اوسط سے ۲۵ فیصد سے بھی اونچی ہے۔قومی شرح خواندگی۵ء ۵۹ فیصد کے مقابلے میںبھٹ کل کی شرح خواندگی ۷۵فیصد ہے۔ مردوں میں یہ شرح ۸۰ فیصد کے قریب ہے تو عورتوں میں ۷۵ فیصد کے آس پاس جس کا سہرا انجمن حامی مسلمین اور شہر کی ان دوسری تنظیموں کے سر جاتا ہے جن کے رفاہی کاموں کو دیکھ کر آپ کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں۔ شہر میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور شاید یہ ملک کا واحد شہر ہے جہاں کے مسلماں شرعی خطوط منظم ہیں ، آپ مقامی انجمن کو امارت شرعیہ بھی کہہ سکتے ہیں اور چاہیں تو برادری کی پنچایت کا نام دے لیں لیکن یہ ہریانہ اور مغربی اتر پردیش کی کھاپ پنچایت نہیں ہے ، اس ترقیاتی و رفاہی کاموں اور تعلیم کے فروغ کی عملی کوششوں کی اس ملک میں مشکل ہی سے کوئی دوسری مثال ملے گی ۔انجمن کے تعلیمی اداروں کی تعداد ۱۵ سے زائد ہے جن میں ۴ پرائمری اسکول، ۳ ہائی اسکول، ۴ کالج، ایک انجینئرنگ کالج ،ایک مینجمنٹ انسٹی ٹیوٹ اور ایک انسٹی ٹیوٹ آف تکنالوجی و مینجمنٹ شامل ہیں۔دوسری تنظیمیں بھی اسی طرز پر قابل تقلید خدمات انجام دے رہی ہیں۔ آپ بھٹکل اس ماحول اور یہاں کے تعلیمی اداروں کی کار کردگی کو دیکھتے ہیں تو حیران رہ جاتے ہیں ، آنکھوں پر بھروسہ نہیں ہوتا کہ کیا یہ وہی بھٹکل ہے جو آپ نے سن رکھا تھا۔لیکن این آئی اے کے دعوے پر یقین کریں تو بنگلور اور ملک کے دوسرے مقامات پر بم دھماکوں میں ملوث بہار کے سمستی پور ضلع کے رہنے والے تحسین اختر نے بم بنانے کی تربیت بھٹکل میں لی تھی۔ جی ہاں! آپ نے جو یہ سنا تھا کہ بم بنانے کی ٹریننگ ناسک اور ناگپور کے ہندو ملٹری اسکولوں میں دی جاتی ہے اور دہشت گردوں کی تربیت کے لیے باضابطہ فوجی افسران کی خدمات حاصل ہیں،وہ تو کل کی باتیں تھیں آج کی تازہ خبر یہ ہے کہ بہار کے تحسین اختر نے تعلیم کے لیے جنوبی ہند کا سفر نہیں کیا تھا، بم بنانا سیکھنے کے لیے بھٹکل گیاتھا۔