نائن الیون دہشت کے دس سال: کون جیتا کون ہارا؟

Table of Contents

اس جنگ کی دسویں سالگرہ سے پہلے جس کا آغازنائن الیون سے ہواتھا،اسامہ بن لادن کی موت کے بعدامریکا کے لیے القاعدہ کی حتمی شکست کا اعلان کر دینا آسان تھا لیکن اس عفریت پر قابو پانا اس کے لیے اتنا آسان نہیں ہے جو اس نے تہذیبوں کے تصادم کے نظریہ کو لاکھوںانسانوں کے خون سے سینچ کرپروان چڑھایا ہے۔ دہشت اور انتقام کا کھیل شیر کی سواری ہوتی ہے جس پر چڑھنا آسان ہوتا ہے اترنا آسان نہیں ہوتا۔

احمدجاوید

آج اس جنگ کے دس سال پورے ہورہے ہیںجس کا آغاز ورلڈٹریڈ ٹاوراور پنٹاگون پر القاعدہ کے حملوں سے ہواتھااوراس وقت مریکا اس جنگ کی دسویں سالگرہ منارہاہے تویہ سوال ذہن میں آنا عین فطری ہے کہ اس مدت میںدنیا نے کیا کھویا اور کیا پایا اور خود امریکا اس وقت کہاں کھڑا ہے؟ یہ سوال اس وقت اوربھی اہم ہوجاتا ہے ،جب صدربارک بامہ اس موقع پر جاری کردہ اپنے تحریری پیغام میںکہہ رہے ہیں کہ امریکہ نے اسامہ بن لادن کومار کر نائن الیون کا بدلہ لے لیا ہے۔صدرابامہ نے’ یو ایس اے ٹوڈے‘ کے ادارتی صفحہ پر شائع مضمون میں کہا ہے کہ’’ نائن ا لیون کے ذمہ دارامریکہ کوخوف زدہ کرنا چاہتے تھے۔یہ سازشی اور دہشت گرد امریکا کی صلاحیتوں کے سامنے ہیچ ہیں ۔آج ہمارا ملک زیادہ محفوظ ہے اورہمارے دشمن کمزور ہیں‘‘۔
امریکہ کے اس دعوے میں کتنی سچائی ہے کہ آج وہ زیادہ محفوظ ہے اور اس کے دشمن کمزورہوچکے ہیں ، اس پرتو کوئی رائے واقعات وحقائق کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد ہی قائم کی جاسکتی ہے لیکن جوبات اس وقت زیادہ واضح اورقابل لحاظ ہے وہ امریکا کی خوف ودشت کی نفسیات اور انتقام کے جنون سے باہر آنے کی دبی دبی خواہش ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ اس کے لیے اتنا ہی آسان ہے ،جتنا اس خواہش اک اظہار۔ابامہ نے نائن الیون کی دسویں سالگرہ کے پیغام میں کہاہے کہ’ ایسے مرحلے میں جبکہ لوگ انتقام کی آگ میں جل کرتباہ کرنے کے راستے پر چل پڑتے ہیں،ہم نے اپنی تعمیر کا راستہ اختیار کیا،نائن الیون کا دن قومی خدمت کے دن کے طور پر منایا جائیگا اورنائن الیون کے مہلوکین ہمارے ہیروز ہیں‘۔ آپ چاہیں تو امریکہ کی اس وسیع القلبی کوقتل کے بعد جفا سے توبہ کا نام بھی دے سکتے ہیںاور انکل سام کی زود پشیمانی بھی کہہ سکتے ہیں ۔ تاہم اس جنگ کی دسویں سالگرہ سے پہلے اسامہ بن لادن کی موت کے بعدامریکا کے لیے القاعدہ کی حتمی شکست کا اعلان کر دینا آسان تھا لیکن اس عفریت پر قابو پانا اس کے لیے اتنا آسان نہیں ہے جو اس نے تہذیبوں کے تصادم کے نظریہ کو لاکھوںانسانوں کے خون سے سینچ کرپروان چڑھایا ہے۔ دہشت اور انتقام کا کھیل شیر کی سواری ہوتی ہے جس پر چڑھنا آسان ہوتا ہے اترنا آسان نہیں ہوتا ۔شخص کی موت کو سوچ کی موت سمجھ لینا،خود فریبی بھی ہے اور سہل انگاری بھی،چاہے وہ اسامہ کی پر اسرار موت ہی کیوں نہ ہو۔
۱۱ستمبر۲۰۰۱ء کوالقاعدہ نے جن دوعمارتوںکو نشانہ بنایا تھاان میں سے ایک امریکا کی اقتصادی برتری کی علامت تھی اور اسے امریکی فخر سے جنت کی سیڑھی کہتے تھے،دوسراامریکاکی فوجی طاقت کا مرکز ہے۔ گویایہ حملے بہت ہی سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ اورگہرے غوروفکرکا نتیجہ تھے۔اس کے پیچھے خواہ کسی رابرٹ ٹییبر،سارتریا چیگیوارا کا دماغ نہ رہاہو لیکن یہ اپنے وقت کے بہت ہی ذہین افرادتھے جنہوں نے امریکہ اور اس کے نیو ورلڈآڈر کی شہ رگ پر حملہ کیاتھااور اسے ایک ایسی جنگ میں کھینچ لیا تھاجو کبھی ختم ہونے والی نہیں ہے۔ امریکہ نے نائن لیون کاانتقام لینے کے لیے ایک عالم کو خون میں نہا دیا۔اس نے نہ صرف افغانستان یا عراق پر حملے کیے،اپنے ۶۰۰۰ سے زاید فوجیوں کی جانوںکی قربانی دی،اس کے حلیفوں کے سپاہیوں کی ایک بڑی تعداد بھی اس جنگ میں کام آئی بلکہ اس نے اس جنگ کودنیا کے دور دراز علاقوں تک پھیلادیاجو اس سے پہلے مخصوص علاقوں تک محدودتھی۔ برائون یونیورسیٹی کے ماہرین کی تحقیقات کے مطابق اس جنگ میں نقصانات کا تخمینہ تقریبا ایک لاکھ۳۷ہزار عام شہریوں کی جانیں ہیںجوافغانستان ،عراق اورپاکستان میں مارے گئے ہیں،اس کے علاوہ ان ملکوں کے۷۸لاکھ لوگ بے گھر ہوگئے جو اپنے ہی ملکوں میںپناہ گزینوں کی زندگی جینے کو مجبور ہیں۔ برائون پروجیکٹ کے مطابق امریکا کواس جنگ میں کم ازکم ۴ٹریلین ڈالرکا مالی نقصان اٹھانا پڑاہے جو۲۰۰۵ء سے ۲۰۱۰ء تک مسلسل چھ سال کے مجموعی بجٹ کے برابر ہے۔عالمی جریدہ ’اکونومسٹ ‘ کی رائے میںیہ اس جنگ کے نقصانات کا ایک انتہائی محتاط تخمینہ ہے ۔اس سے قطع نظر کہ اتنی بھیانک تباہ کاریوں کے باوجود صدر ابامہ کہہ رہے ہیں کہ ایسے مرحلے میں جبکہ لوگ انتقام کی آگ میں جل کرتباہ کرنے کے راستے پر چل پڑتے ہیں،ہم نے اپنی تعمیر کا راستہ اختیار کیا،اصل سوال یہی ہے کہ اتنی ساری قربانیوں اورایسی ناقابل تلافی تباہیوں کے بدلے میں اسے کیا ملا؟اکیا وہ اس نے واقعی القاعدہ کو شکست دے دی ہے اور وہ اب پہلے سے زیادہ محفوظ ہے؟
امریکا کی فوج کشی کے فورا بعد عراق کی جو حالت تھی،اس وقت یقینا اس کی اس سے بہترحالت ہے ، آج وہاںمسلکی اور نسلی تشدد کا وہ بازار گرم نظر نہیںآتالیکن ابھی کل کی بات ہے القاعدہ وہاں ایک دن میںملک کے مختلف حصوں میں ایک ساتھ ۴۲ حملے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔اس سال کے اواخر میں جب امریکی فوج کی آخری ٹکریاں بھی یہاں سے نکل جائیںگی ،اس وقت نہ امریکا کے پاس ایک قابل اعتماد دوست ہوگا (نوری المالکی کی سرکار اپنے نجات دہندہ امریکا سے کہیں زیادہ ایران سے قریب ہے )نہ وہاں پوری جمہوریت ہوگی جس کا نعرہ لگاکر اس نے مشرق وسطی کے خوش حال ترین ملک کوتباہی و بربادی کے اندھے غار میں پہنچا دیا۔اس وقت عرب ملکوں میں جمہوریت کی جو لہر چل رہی ہے،اس کا سہرا وہ اپنے سر باندھ سکتا تھالیکن اس طوفان میں ایک کرکے اس کے وفاداروں کے اقتدار کے محل زمیں بوس ہوتے جا رہے ہیں اوربدلے میں نئے دوست بھی نہیں مل رہے ہیں۔جہاں تک افغانستان اور طالبان کا تعلق ہے تواس نے القاعدہ کے سرپرستوں کی حکومت کو توضروراکھاڑ پھینکا لیکن یہ حقیقت کسی سے مخفی نہیں ہے کہ انہوںنے افغانستان اور پاکستان کی سرحدوں پر اپنے نئے ٹھکانے قائم کر لیے اوراپنی بنیادیں پاکستان میں بھی وسیع کرلیں۔یہاں اس کی سب سے بڑی حصولیابی یہی ہوگی کہ ایک ایٹمی طاقت کے حامل اور ۱۹ کروڑ آبادی کے مسلم ملک کو اس نے غیر مستحکم بنادیا،اس کے انتہاپسندوں کے قبضے میں چلے جانے کی ر اہیں ہموار کردیں اور اس کے عوام کی اکثریت کے دلوں میں اپنے لیے نفرت کے نہ جانے کتنے بیج بو دئیے۔ صدر ابامہ خود اپنے نائن الیون کے پیغام میں کہتے ہیںکہ القاعدہ کے سربراہ سامہ کوہلاک کرکے اگر چہ نائن الیون کے سازشی کوکیفر کردار تک پہنچا دیا گیا ہے لیکن ہم اس کے باوجود اپنی سلامتی کے تعلق سے غافل نہیں رہ سکتے۔بش نے ایک بار ہوجنتائو سے پوچھا تھاوہ کون سی بات ہے جو ٓاپ کو رات میں جگائے رکھتی ہے ، چینی صدر کا جواب تھا:ہرسال ڈھائی کروڑنئے روزگارپیدا کرنے کی فکرلیکن امریکا کی اصل فکرکیاہے؟ایک اور دہشت گردانہ حملے کا خطرہ۔جس وقت وہ یہ پیغام جاری کررہے تھے،اس وقت بھی امریکی میڈیا کی سرخیوں اورامریکا کے اعصاب پر یہی خوف سوار تھا۔
میں نے کسی موقع پر ان ہی کالموںمیںرابرٹ ٹیبرکے حوالے سے لکھا تھا کہ یہ جنگ مکھیوں کی جنگ ہے جس میں فتح طاقت وجسامت پرمنحصرنہیںہوتی ۔ مکھی کتے کی دم پر بیٹھتی ہے وہ وہاں کاٹ کھاتاہے، اڑ کر اس کی پیٹھ پر آبیٹھتی ہے، وہ وہاں بھنبھورتا ہے، مکھی اس کے کان پر بیٹھ جاتی ہے، اس کے سراور تھوتھنے پر آبیٹھتی ہے۔ کتا کبھی یہاں کاٹتاہے، کبھی وہاں کاٹتا ہے، کبھی اس پہلو اچھلتا ہے ، کبھی اس پہلو تڑپتا ہے، وہ اپنے آپ سے عاجز آجاتاہے، اسے اپنی حالت پر رحم آنے لگتا ہے ، ایسے کتے کو آپ نے بارہا سڑک پر بھاگتے دیکھا ہوگا اور آپ کی سمجھ میں نہیں آیا ہوگا کہ وہ سرپٹ بھاگ رہا ہے توکیوں؟ ہم یہ تونہیں کہہ سکتے کہ امریکا اس وقت فرار کی اسی راہ پر گامزن ہے لیکن اس کی نفسیاتی حالتاس وقت اس سے مختلف بھی نہیں ہے۔کیونکہ مکھیوں کی جنگ میں کسی کی ہار جیت نہیں ہوتی لیکن طاقت و جسامت اس میں جنگ جیت کر بھی ہار جاتی ہے۔

مصنف کے بارے میں

احمد جاوید

احمد جاوید اردو کے ممتاز صحافی، مصنف، مترجم اور کالم نگار ہیں۔ تاریخ و تمدن پر گہری نظر اور ادب و صحافت میں اپنے منفرد اسلوب سے پہچانے جاتے ہیں۔

مزید