ہر دوار سے سوامی نگمانند کی موت کی خبر آئی تو میرار د عمل اوروں سے مختلف تھا۔کوئی اس پر غم واندوہ کا اظہار کررہا تھا کہ اس جواں سال سادھو نے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جان دے دی لیکن ارباب اقتدار کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی جبکہ وہ کچھ اور نہیں گنگا کو آلودگی سے بچانے اور غیر قانونی کھدائی کی مانگ کررہاتھا توکوئی اس کی بھوک ہڑتال کا موازنہ یوگا گرو بابارام دیو کے ستیاگرہ سے کررہا تھا جو اس وقت اسی اسپتال کی انتہائی نگہداشت یونٹ میں موجود تھے اور سیاستدانوں سے لے کر افسروں اور سادھو سنتوں سے لے کر سماجی رہنمائوں تک میں ایک ہلچل سی مچی ہوئی تھی، بڑے نامی گرامی سادھو سنت اور سیاسی وغیر سیاسی رہنما ان کی بھوک ہڑتال توڑ وانے کے لئے بھاک دوڑ کر رہے ہیں۔اور کوئی بی جے پی کے دوہرے پیمانے ،آر ایس ایس اور وشوہندو پریشد کے کھوکھلے کردار کو ہدف تنقید بنا رہا تھا ۔اس کے برعکس میں نہ رو سکتا تھا نہ ہنسنے کی طاقت تھی ،نہ کچھ بولنے کی ہمت نہ سننے کاحوصلہ ،فکر وتشوش کاایک گہرا سمندر تھا اور میں۔ پھر اس جواں سال سادھو کی مرگ ناگہاں پر اس کے بڑے بھائی انجینئر ستیم کمار آشیش کا رد عمل میڈیا کی سرخیوں میں آیا تو میری یہ کیفیت اور بھی شدید ہوگئی جس کو بہ کوشش تمام ابھی تک میں کوئی نام نہیں دے سکا۔
نگما نند کی داستان حیات بھی ایک بہت ہی دردناک کہانی ہے ۔وہ شمالی بہار کے ایک متوسط میتھل برہمن خانوادے کا چشم وچراغ تھا۔جہاں اس قسم کے سادھو سنت بننے کی کوئی روایت نہیں ہے۔میتھل برہمن تارک الدنیا سنیاسی یا گوشہ گیر سادھوسنت نہیں ہوتے، ان کی زندگی متوازن اور شاستروں میں آئے چاروں آشرم (برہم چریہ ،وان پرست،گرہست اور سنیاس )کا سنجوگ اور متوازن ہوتی ہے۔وہ زندگی کے آخری حصے میں جب انسان گھر گرہستی کی ذمہ داریوں سے فارغ اور بال بچوں پرمنحصر ہوجاتا ہے،دنیا کے جھمیلوں سے الگ ہوکر خود کو اپنے چھوٹوں کی رہنمائی اور پوجا پاٹھ کے لئے وقف کردیں تب بھی گھر اور خاندان کو نہیں چھوڑتے۔وہ روایتی طور پر شاستروں کے ما ہر ہوتے ہیں ،ویا کرن ،ریاضی، کھگول اور جیوتش جیسے علوم ان میں سینہ بہ سینہ چلے آتے ہیں ،وہ پنڈت ہیں،گیانی ہیں اس لئے وقت کی رفتار سے ہم آہنگی ان کی خاصیت ہے، جتنے ڈاکٹر ،انجینئر ،اور آئی اے ایس ،آئی پی ایس افسران آج ان میں ہیں ہندوستان کے کسی بھی خطے کی کسی اور برادری میں نہیں ہیں۔ان میں سے چند افراد پوجا پاٹھ اور مذہبی رسومات کی پیشوائی کی ذمہ داری ضرور ادا کرتے ہیں ،پیدائش سے موت تک کے مذہبی امور ادا کرانے،زائچہ بنانے، مہورت نکالنے وغیرہ کیلئے وہ اپنے ججمانوں سے معقول دکشنا وصول کرتے ہیں ،ان کے ایسے ہر کام کا معاوضہ اسی طرح مقرر ہے جس طرح ڈاکٹروں اور وکیلوں کی فیس مقرر ہوتی ہے لیکن وہ چوبیسوں گھنٹے اسی میں نہیں لگے رہتے ،گھر گرہستی کے سارے کام اسی طرح وقت پر انجام دیتے ہیں جس طرح کوئی ڈاکٹر یا وکیل کرتا ہے ۔ان میں کوئی گیرو الباد ے میں ملبوس بھکاری یا مندروں میں دھونی رما کر بیٹھا سادھو نہیں ہوتا۔یہ رجحان ان میں پہلے تھا نہ اب ہے ۔ان میں ودیا پتی اور منڈن مشرا جیسے عظیم بھگت اور پنڈت ہوئے ہیں لیکن نہ تو وہ سنیاسی تھے نہ فقیر۔ان کی بیویاں اور بچے بھی ان ہی کی طرح پنڈت گیانی تھے۔
نگمانند کا اصل نام سوروپ کمار گریش تھا ۔اس کی پیدائش دربھنگہ کے ایک گائوں میں غالباً1976میں ہوئی ۔اس کے والد پرکاش کمار جھا انجینئر اور ایک اعلیٰ عہدیدار ہیں۔ وہ اپنے خاندان کے ساتھ رانچی میں رہتے ہیں۔گریش ان کے دو بیٹوں میں چھوٹا اور والدین کا بے حد عزیز تھا،وہ ذہین اور ہونہار تھا ۔اس نے بہترین مارکس کے ساتھ میٹرک پاس کیا اور اعلی تعلیم کے لئے دہلی آیا جہاں وہ گرین فیلڈ اسکول کا طالب علم تھا ۔وہ آئی آئی ٹی کی تیاری کررہا تھا کہ اچانک لاپتہ ہوگیا ۔دادا دادی، والد ین، چچا اور بھائی بہنوں کا اضطراب مت پوچھیئے۔ اس سے عمر میں دو سال بڑے بھائی آشیش نے کہاں کہاں کی خاک نہ چھانی لیکن کچھ پتہ نہیں چلا، انجینئر آشیش جو بنگلور کی کسی کمپیوٹر کمپنی میں ملازم ہیں بتاتے ہیں کہ جب انہیں پتہ چلا کہ ان کاگریش ہردوار کے میتری سدن میں ہے وہ وہاں بھی پہنچے لیکن آشرم کے سوامی شیوانند نے ایسے کسی بھی شخص کے آشرم میں ہونے سے صاف صاف انکار کردیا اور جب ان کا بھائی ایک سنیاسی کی شکل میں سوامی شیو انند کے چیلے کی حیثیت سے سامنے آیا تو وقت بہت آگے نکل چکا اور اس کی واپسی ناممکن ہوچکی تھی۔
سوامی شیوانند کے سایے میں روحانیت کی مشق وریاضت کرتے کرتے نگما نند (سوروپ کمار گریش)کو گنگا کی فکر ستانے لگی۔ دراصل سادھو سنتوں کی کوششوں سے حکومت اتراکھنڈ نے 26مارچ 2010کو کنبھ میلہ کے جائے انعقاد میں کھدائی پر مکمل پابندی عاید کردی تھی لیکن اس خطے میں مائننگ کرنے والوں کی عرضی پر نینی تال ہائی کورٹ نے 27دسمبر 2010کو سرکار کے اس حکم پر روک لگادی ۔ماتری سدن نے اس روک کو نامنظور کرتے ہوئے تحریک چھیڑ دی ۔اس کاالزام تھا کہ یہ فیصلہ پتھروں اور ریت کی کھدائی کرنے والے مافیا سے ساز باز کا نتیجہ ہے اور فیصلہ سنانے والا جج پی ایف گھوٹالے میں ملوث رہ چکا ہے۔ عدالت میں قانونی جنگ جاری رکھنے کے ساتھ ہی 28جنوری 2011 سے ماتری سدن کے سوامی یجنا نند بھوک ہڑتال پر بیٹھے لیکن ان کی طبیعت بگڑجانے کے بعد19فروری سے نگمانند تامرگ بھوک ہڑتال پر بیٹھ گئے ۔وہ اس سے قبل 2007میں 7دن اور 2008میں بھی 68دن بھوک ہڑتال کرچکے تھے ۔58دنوں کے بعد ان کی طبیعت بگڑی تو پولس نے اٹھا کر ان کو ضلع اسپتال میں بھرتی کرایا جہاں سے پہلے دہرادون لے جایاگیا۔پھر جولی گرانٹ اسپتال میں بھرتی کرایا گیا۔یہیں ان کی موت ہوئی۔ جس وقت کے ملک کچھ نامی گرامی سادھو سنت اور سیاستداں بابا رام دیو کی بھوک ہڑتال ختم کرانے کے لئے دہرادون کے ہمالین اسپتال کے چکر لگارہے تھے عین اسی وقت دوسری طرف ایک جواں سال سنیاسی بے ہوشی کی حالت میں آخری سانسیں لے رہا تھا لیکن اس کی طرف کسی کی توجہ نہیں گئی ۔ انجینئر آشیش کہہ رہا تھا کہ’’ اس کا بھائی میتری سدن کے سوامی شیوانند اور پتھروں کی کھدائی کرنے والے مقامی ٹھیکیداروں کی آپسی دشمنی کا شکار ہوگیا ۔اپریل کے آخری ہفتے میں اس سے میری بات ہوئی تھی ،فون پر اس نے بتایا تھا کہ وہ تو بھوک ہڑتال توڑ دینا چاہتا ہے لیکن سوامی شیوا انند جی اسے اس کی اجازت نہیں دے رہے ہیں ۔وہ 16فروری سے انشن پر تھا ۔اس سے پہلے کہ ہم کچھ کرتے ،اس کی زندگی ہاتھ سے نکل چکی تھی اور 27اپریل کو اسے اسپتال میں داخل کرادیاگیاتھا‘‘ اس وقت میرے ذہن میں تاریخ کے کئی اوراق گردش کررہے تھے۔ انجینئرپرکاش کمار جھا،سوامی شیوانند جی مہاراج اور سوروپ کمار گریش (سوامی نگما نند)میں مجھے تاریخ انسانی کے بہت سے کردار نظر آرہے تھے،وہ آپس میں گڈمڈ ہورہے تھے اور میں فکر وتشویش کے ایک بحر بے کنار میں غرق تھا۔کارل مارکس نے یقینا اسی دن کے لئے مذہب کو افیون کی گولی کہا تھا اور غالب نے جنت کی حقیقت کو اسی پس منظر میں اپنے تلخ وتند طنز کا موضوع بنایا ہوگا۔
آریہ نسل کے لوگوں کی قدیم سرزمین فارس کی تاریخ کا ایک اساطیری کردار ضحاک بہت مشہور ہے ۔وہ توران کے بادشاہ کابیٹا اور شہنشاہ جمشید کا باجگذار تھا جس کی سلطنت کا ایک عالم میں طوطی بولتا تھا، جمشید اور فریدون کے دشمن جب کسی بھی طرح اسے زیر نہ کر سکے تو ایک سن رسیدہ جادو گر یا شیطان نے عابد وزاہد کا روپ اختیار کرکے شاہ توران کے دربار میں رسائی حاصل کی ،پھر وہ اسکے بیٹے اور متوقع جانشین ضحاک کا اتالیق بن بیٹھا ۔یہاں تک کہ اس نے ضحاک کے ہاتھوں پہلے اس کے باپ اور پھر شہنشاہ جمشید کے جانشین فریدون کا قتل کرادیا ۔ضحا ک کے بادشاہ بن جانے کے بعد اس نے اس کی پشت پر ہاتھ پھیرے یا بوسہ دیا جس سے اس کے دونوں کندھے پر دوسانپ نمودار ہوئے جو نوجوانوں کا مغز کھاتے تھے ،ہر دن دو خوبرو نوجوان لائے جاتے ان کو قتل کیاجاتا اور ان کے مغز سے ضحاک کے شانوں پرپھنکارتے سانپوں کے پیٹ کی آگ بجھائی جاتی ۔یہاں تک کہ وہ سانپ بستی کی بستی اور قوم کی قوم کے نوجوانوں کا مغز کھاتے چلے گئے ۔قصہ طویل ہے اور مختلف اندازمیں بیان کیا جاتا ہے ۔ہم نہیں جانتے کہ اس اساطیری کہانی کی اصل حقیقت کیا ہے اور ان میں سے کونسی روایت زیادہ درست ہے لیکن ہماری آنکھیں دیکھ رہی ہیں کہ آج کے ضحاک کے سانپ بھی نوجوانوں کا مغز کھاتے ہیں اور تب تو ایک ضحاک تھا ‘آج انگنت ضحاک نہ جانے کس کس بھیس میں سرگرم ہیں ۔
آپ کو میری یہ بات ذراتلخ لگے گئی لیکن یہ سچ ہے کہ سوامی اسیمانند اور سوامی شیوانند کی شکل میں ہی نہیں،مرشدوں،پیروں اور نام نہاد مولانا ئوں کی شکل میں بھی کتنے ضحاک ہیں جن کے شانوں پر لہراتے افعیٰ کی خوراک کچے ذہن کے نوجوانوں کا مغز ہے ،بہت سے حسن بن صباح آج بھی موجود ہیں جو نوجوانوں سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت چھین رہے ہیں ،انہیں اپنا ذہنی غلام بنارہے ہیں ،موت کے منہ میں جاتے ہوئے بھی سوامی اسیما نند کا سورگ یاحسن بن صباح کی جنت انہیں زندگی جیسی خدا کی عظیم نعمت وامانت کے بارے میں سوچنے نہیں دیتی ۔وہ یہ سوچ کر خود کو ہلاکت میں ڈال لیتے ہیں کہ حضرت کا حکم ہے یا سوامی جی کا آدیش ہے کیا کریں؟کاش!ہم اپنے عہد کے ضحاک کو پہچان پاتے اور ان کو اسی طرح ختم کرسکتے جس طرح ضحاک کے ظلم سے سلطنت ایران کو نجات ملی تھی۔