علامہ فضل حق اپنے عہد کی روح کا اضطراب ہیں، ان کی تڑپ، بےچینی اور بھاگ دوڑ اس عہد کی تڑپ اور چھٹپٹاہٹ ہے
احمدجاوید
علامہ فضل حق خیر آبادی(1797-1861) ہندوستان کی دینی ، علمی ،سیاسی اور سماجی تاریخ کاایک سنگ میل اور جنگ آزادی کے ایک عظیم رہنما ہیںلیکن وہ ملک و ملت کی جتنی عظیم شخصیت ہیں ،اس سے کہیں زیادہ تاریخ کا ایک مظلوم کردارہیں۔وہ انگریز مؤرخین کی ذہنی خباثت اور علمی خیانت کے شکار بھی ہوئےاور ہندوستانی مؤرخین کی تنگ نظریوں اور تعصبات کے بھی شکار رہے ہیں۔ کالاپانی کے اولین قیدیوں میں شامل فضل حق خیر آبادی انگریز حکمرانوں کے لئے تو سب سے خطرناک شخص تھے جس کا ہندوستان میں رہنا برطانوی حکومت واقتدار کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ تھا کیونکہ اسی شخص نے دہلی اور اس کے اطراف کی ریاستوں سے آگرہ اور اودھ تک بغاوت کی آگ بھڑکائی تھی،ملک کے نامور علماء کو جمع کرکے جہاد کا فتویٰ جاری کرایا تھا ، الور سے اودھ تک کا سفر کیا تھااور انگریزوں کے خلاف ہرمحاذ جنگ پر شریک کارزار رہا تھا لیکن ہمارے مؤرخین کے لئے وہ ایک قابل ذکر مجاہد آزادی بھی نہیں تھے،چہ جا ئیکہ انہیں تحریک آزادی کے ایک عظیم رہنما کی حیثیت سے تاریخ میں ان کا واجب مقام دیاجاتا،ان کی شخصیت کو متنازعہ بنانے کی سازشیں کی گئیں کیونکہ وہ ان مسلمانوں کے لئے بھی ناپسندیدہ تھے جوحکومت مغلیہ کی مذہبی رواداری سے اختلاف رکھتےتھےاور ہندومسلم اتحادو اتفاق کے خلاف تھے، ان کے بھی معتوب تھےجن پر جوش اصلاح نے اپنے بھائیوں کو بھی اجنبی بنادیا تھا اور ان کے بھی جو تاج برطانیہ کی غلامی سے نجات کی جدوجہد کو بغاوت اور غداری تصور کرتے تھے، عیسائیوں کو اہل کتاب مانتےاورمشرکین ہند کے بجائے ان سے تعاون کرنا چاہتے تھے اور یہ کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ انقلاب 1857کی ناکامی کے بعد اگلے سوبرسوں تک یہی عناصر ہرشعبے میںچھائے رہے ،ہرجگہ ان ہی کا سکہ چلتا رہااورانھیں کی روش تاریخ نگاری کی روایت بنتی چلی گئی۔ ان میں وہ مصنفین بھی ہیں جنھوں نے ملک کے لوگوں کی خیرخواہی میں اقتدار پر قابض انگریزوں کی خوشنودی کےلیے سچ کا گلا گھونٹا اورجان بوجھ کر’انقلابیوں‘ کانام زبان پر لانے سے گریزکیا یا پھران کو تختہ مشق بنایا اور وہ بھی جو ان سے نظریاتی اختلاف رکھتے تھے،انتقام کے جذبات سے مغلوب تھےاور تعصبات کی بنا پران کی عظمتوں کے منکر۔علامہ خیرآبادی کی عین جوانی کے زمانے میں دہلی میں ایک انقلابی تحریک پیداہوئی جس کو مؤرخین تحریک اصلاح، تحریک جہاد یا پھر وہابی تحریک کانام دیتے ہیں۔انیسویں صدی کی سیاسی ، سماجی اورمذہبی تاریخ پر اس کا غیرمعمولی اثر ہے ۔ ہندوستان کے مسلمانوں کی اکثریت اس کے زیراثرہمیشہ کے لیے دو فرقوں میں بٹ گئی۔عوام سے زیادہ علماتفرقوںکا شکار ہوگئے۔ اس تحریک کے نظریاتی پیشوا شاہ اسماعیل دہلوی کے عقائد و نظریات کی جن علمانے گرفت کی تھی، ان میں علامہ فضل خیرآبادی کا نام سب سے بڑا اورسرفہرست تھا، اس لیے عین فطری ہے کہ وہ ایک فرقہ کے محبوب اور دوسرے کے معتوب بن جاتے۔ اگر عربی فارسی کی قدیم کتابیںاور مخطوطات،خود انگریزوں کے خفیہ دستاویزات اور آثار قدیمہ کی صورت میں محفوظ سرکاری وغیر سرکاری تحریریں موجود نہ ہوتیںتو شاید اس عظیم مجاہد آزادی کانام بھی ہندوستان کی اگلی نسلوں تک نہیں پہنچتا۔
علامہ فضل حق خیرآبادی نے’ہدیہ سعیدیہ (حکمت طبعیہ) ، الجنس الغالی فی شرح الجوہرالعالی، حاشیہ افق المبین(میرباقرداماد)،حاشیہ تلخیص الشفا لابن سینااور حاشیہ شرح سلم(قاضی مبارک)جیسی معرکۃ الآرادرسی کتابیں لکھیںجوآج تک درسگاہوں کی زینت ہیںاور مشرق و مغرب میں سند کا درجہ رکھتی ہیں، تحقیق الاجسام، تحقیق الکلی الطبعی اورالروض الجود فی حقیقۃ الوجودجیسے رسائل دے گئےجو معقولات(سائنس) کے دقیق مسائل کا حل ہیں اوراپنے عہد کے سلگتے مسائل ومباحث پر ’تحقیق الفتویٰ‘ اور ’امتناع النظیر‘جیسی تحقیقی کتب دیں جوموضوع پر حرف آخر کا درجہ رکھتی ہیںجبکہ جاتے جاتے1857کی جنگ آزادی کے اسباب و واقعات پر’ الثورۃ الہندیہ‘ (نثر) اور’قصائد فتنۃ الہند‘(نظم)لکھ گئے جو تاریخ پر ان کا ایک احسان عظیم ہے اور شمس العلمامنشی ذکاء اللہ دہلوی، سرسید احمدخاں اور سامراج نوازانگریز مصنفوں کے جھوٹ کا پردہ چاک کرتی ہیں۔ علامہ عبدالحق خیرآبادی ، مولانا ہدایت اللہ خاں جونپوری ، مولانا شاہ عبدالقادر بدایونی، مولانا فیض الحسن سہارنپوری ،مولانا ہدایت علی بریلوی ، مولانا محمد عبداللہ بلگرامی اور مولانا عبدالعلی رامپوری جیسے اعاظم و اکابرعلماان کے شاگردتھے جن کا اورجن کے شاگردوںکے نام کا سکہ آج تک ہماری درسگاہوں اورمنقولات و معقولات کے ہرشعبے میں چلتا ہے۔تفسیروحدیث، فقہ و اصول اور منطق و فلسفہ میں جو رسوخ علامہ خیرآبادی کو حاصل تھا، اس کی نظیر ان کےمعاصرین میں کہیں نہیں ملتی۔ادب و انشامیں غالب وآزردہ علامہ خیرآبادی کے خوشہ چیں تھے۔ اس دور کے سب سے بڑے عالم و فقیہ تاج الفحول علامہ فضل رسول بدایونی نے اپنے بیٹے کو ان کی خدمت میںزانوئے تلمذ تہہ کرنے کو بھیجا، سرسید نےان کے تعلق سے لکھا کہ جمیع علوم و فنون میں یکتائے روزگار ہیںاور منطق و حکمت کی تو گویا انہیں کی فکرعالی نے بنارکھی ہے۔ منشی محمد جعفر تھانیسری لکھتے ہیں کہ فلاطون و سقراط و بقراط کی غلطیوں کی تصحیح کرنے والے تھے اور پروفیسر یوسف سلیم چشتی رقم طراز ہیں کہ ادب و حکمت کی جن بلندیوں پر وہ پہنچے ہوئے تھے، غالب ان کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔سیاست ومدنیت میںان کے مقام کا اندازہ اس سے لگایاجاسکتاہے کہانیسویں صدی کے وسط میںلال قلعہ کے اندر بادشاہ کی ناک کے نیچے آئینی حکومت کی بات کرنا،بادشاہ کو دستور کا پابند بنانااور قلعہ معلی کوحکومت میں عوام کو شریک کرنے پر آمادہ کرنا، بادشاہ کی مجلس شوریٰ اور ایڈمنسٹریشن کورٹ قائم کرنا انھیں کا حصہ تھا ۔گویا علامہ خیرآبادی کی ذات ایک کثیرالجہات نابغہ روزگارشخصیت تھی جس نے کم و بیش ہرشعبہ حیات کو متأثر کیا۔
فضل حق خیر آبادی 1797ء میں پیدا ہوئے۔یہ اودھ میں عہد آصف الدولہ کا آخری سال تھا۔ وہ ابھی چار سال کے تھے کہ اودھ کی حکومت اور کوئی چھ سال کے تھے کہ دہلی کی بادشاہت براہ راست انگریزوں کی نگرانی میں آگئی۔ ان کے والد علامہ فضل امام فاروقی خیرآبادی (متوفی 1824) جو معقولات میں اپنے وقت کے امام تسلیم کئے جاتے ہیں، منطق کی مشہور درسی کتاب ’مرقات‘کے مصنف ہیں، دہلی میں صدرالصدور کے منصب پر فائز تھےاور شیخ عبدالعزیز محدث دہلوی کے ہم پلہ معاصرین میں شمار کیے جاتے ہیں۔ فضل حق نے پہلے اپنے والد،پھر شاہ عبدالقادر اور شاہ عبدالعزیز دہلوی سے درس لیا۔ 13سال کی عمر میں 1809ءمیںتکمیل علوم و فنون کے بعد درس و تدریس میں مصروف ہوئے۔ آپ کے درس کی بڑی شہرت ہوئی لیکن والدگرامی علامہ فضل امام فاروقی کے انتقال کے بعدآپ نے سرکاری ملازمت اختیار کر لی لیکن پھرجلد ہی اس ملازمت سےمستعفی ہوگئے۔ نواب فیض محمدخاں رئیس جھجھر کو معلوم ہوا تو انہوں نے اپنے پاس بلایا۔ وہ ایک عرصے تک وہیں رہے، پھر مہاراجہ الور کے یہاں چلے گئے۔ یہاں سے سہارنپور گئے۔ پھر ٹونک کے نواب وزیرالدولہ نے بلا لیا۔ وہ ایک عرصہ تک رام پور میں نواب یوسف علی خاں کے اتالیق اور محکمۂ نظامت اور پھر مرافعہ عدالیتن پر بھی مامور تھے۔آخر میں لکھنؤ چلے آئے جہاں صدر الصدور کے عہدہ پر فائز تھے۔ مشہور مجاہد آزادی مولوی احمد اللہ شاہ مدراسی سے ملاقات کے بعد 1856میں وہ پھر الور چلے گئےاوراب انقلاب کی زمین تیار کررہے تھےکہ میرٹھ کی بغاوت کا واقعہ پیش آگیا۔
1857کی جنگ آزادی کو عموماً ایک وقتی ابال اور ایک غیر منظم شورش تصورکیاجاتاہےجبکہ تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ نہ تودہلی پرمیرٹھ چھاؤنی کے باغی سپاہیوں کی یلغار صرف باغیوں کی پیش قدمی تھی نہ اس انقلاب کی تپش سے ملک کا کوئی حصہ اور کوئی طبقہ اچھوتا تھا بلکہ اس میں کسانوں‘ زمینداروں ‘محنت کشوں اور کاریگروں سے لے کر تاجروں اور رؤساوامرا تک شریک تھے جن کی قیادت علامہ فصل حق خیر آبادی ،مولانا احمد اللہ شاہ مدراسی، مولانا فیض احمد بدایونی، نواب عظیم اللہ بیگ ،جنرل بخت خاں‘ جنرل محمود خاں،حافظ بہادر خاں ، نانا صاحب ،تاتیہ ٹوپے، مولانا کفایت علی کافی مراد آبادی ، مولانا رحمت اللہ کیرانوی، ڈاکٹروزیر احمداکبر آبادی ،مولانا لیاقت علی اور مفتی عنایت احمد کاکوری جیسے علماء، رؤسا اور جرنیلوں کے ہاتھوں میں تھی اور ان میں سے کسی کا بھی جذبہ حریت اتفاقی اور وقتی نہ تھا۔
امورسیاست و مملکت سے علامہ فضل حق خیر آبادی کی دلچسپی نئی نہیں تھی۔ان کے والددہلی کے صدرالصدورتھے،وہ خود دہلی ،جھجھر،الور، ٹونک ، رامپور اور اودھ کی حکومتوں میں اعلیٰ منصبوں پر فائز رہ چکے تھے اور اقتدارکے اعلیٰ مراکزمیں ان کی گہری رسائی تھی۔ ان کی سوچ اور ان کی قائدانہ سرگرمیوںکا اندازہ اس ایک واقعہ سے لگایاجاسکتا ہے کہ 1857سے تقریباً 30سال پہلےاکبر شاہ ثانی (متوفی 1837) کے عہد میں رعایائے دہلی کے نمائندے کی حیثیت سے انہوں نے بادشاہ کو ایک درخواست پیش کی تھی۔ 1826ءمیںلکھی گئی اس درخواست کے مندرجات سےآپ ان کی سیاسی بصیرت کا بھی اندازہ لگا سکتے ہیں اور اس دور کی سماجی ومعاشی صورتحال کوبھی سمجھ سکتے ہیں۔ اس درخواست کا خلاصہ یہ ہےکہ ’’ یہاں کے باشندے ہندو ہوںیا مسلمان‘ ملازمت ‘تجارت ‘زراعت ‘حرفت‘ زمینداری اور دریوزہ گری پرمعاش رکھتے ہیں۔ انگریزوں کی حکومت کے قیام سے معاش کے یہ تمام وسائل مسدود ومفقود ہوگئے ہیں۔ ملازمت کے دروازے شہریوں پر بند ہیں۔ تجارت پر‘انگریزوں نے قبضہ کرلیا۔ کپڑا،سوت، ظروف اور گھوڑے وغیرہ تک وہ فرنگ سے لے کر فروخت کرکے نفع کماتے ہیں۔ معافی داروں کی معافیاں ضبط کرلی گئی ہیں۔ کسانوں کو محاصل کی کثرت نے بدحال کردیا ہے۔ ان چاروں طبقوں کی زبوں حالی کے نتیجے میں اہل حرفہ اور ان سب کے نتیجے میں دریوزہ گرتنگی معاش کے شکار ہیں۔ دہلی میں ہوڈل وغیرہ بہت سے پرگنے جاگیر میں شامل تھے اور جاگیر داروں کے یہاں ہزاروں آدمی فوج‘انتظامی امور اور شاگرد پیشہ کی خدمت پر مامور تھے۔ اب یہ پرگنے اور دیہات ومواضعات انگریزوں نے ضبط کرلئے ہیں اور لاکھوں کسان بے روزگار ہو گئے ہیں۔ بیوائوں کی معاش چرخہ کاتنے، رسیاں بٹنے اور چکی پیسنے پر موقوف تھی۔ اب رسی کی تجارت حکومت(کمپنی) نے اپنے ہاتھ میں لے لی ہے اور ہاتھ کی چکیوں کی جگہ پن چکیاں لگ گئی ہیں تو یہ ذریعہ معاش بھی جاتا رہا۔ عوام کی اس بے بضاعتی اور بے روزگاری سے اہل حرفہ اور ساہو کار بے روزگار اور رزق سے محروم ہوگئے ہیں۔ ان سب پر مستزاد چارلس مٹکاف نے یہ حکم دیا ہے کہ غریب زر چوکیداری اداکریں۔ دوسرا حکم یہ ہوا کہ ہر گلی کے دروازے پر پھاٹک لگایاجائے جس کا کوئی فائدہ معلوم ومقصود نہیں ہے۔ تیسراحکم یہ ہوا ہے کہ ان پھاٹکوں کے کھلنے اور بند ہونے کے اوقات مقرر ہوںجس سے بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ چوتھا حکم یہ ہوا ہے کہ ہر محلے میں پانچ پانچ پنچ مقرر کئے جائیں‘‘(۱)۔ایک طرف تواستبدادکی چکی میں پستی رعایااس اضطراب میں مبتلا تھی، دوسری طرف قلعہ معلی کا یہ حال کہ کون کسی کی فریادیں سنتا۔ یہی زمانہ تھاجب شاہ اسماعیل دہلوی اور سید احمدبریلوی نےاصلاح کی تحریک شروع کی۔ شاہ اسماعیل نے یکے بعد دیگر کئی کتابیں لکھیںجن میں رسول ﷺ اور اولیاوبزرگان دین کے لیے ایسے الفاظ استعمال کئے جو ان کی شان کے منافی اورسخت قابل اعتراض تھے، شفاعت کے اجماعی عقیدہ کی ایسی توضیح پیش کی جس سےرسول کریم ﷺ کی شان شفاعت کا انکار لازم آتا تھا، اسی طرح آپ ﷺ کے تعلق سے امکان نظیرکی بحث چھیڑی جس سےمقام نبوت کا استخفاف ہوتاتھا۔ مسلمانوں میںبےچینی پیدا ہوگئی۔ اس فتنہ کی سرکوبی کے لیےآپ نے’تحقیق الفتویٰ فی ابطال الطغویٰ‘(1825)لکھی۔ اسی طرح رسالہ’ امتناع النظیر‘ لکھاتاکہ یہ فتنہ یہیں دم توڑ دے ۔مرزاغالب کی مشہورمثنوی ’ امتناع نظیر‘ بھی اسی زمانے کی تخلیق ہےجس کے تعلق سے خواجہ حالی نے لکھا ہےکہ انھیں کی فرمائش پر لکھی گئی تھی۔ آپ کی دور رس نگاہوں نے دیکھ لیا تھا کہ یہ فتنہ امت کوشدید نقصان پہنچائےگااور ہوابھی یہی ،افتراق و انتشار کے دروازےجوکھلےتوآج تک بند نہیں ہوئے۔اسی طرح ملک کی سیاست اور اقتدار کی جنگ میں بھی ان کی چشم بصیرت وقت سے آگے دیکھ رہی تھی۔ اپنے آخری ایام میں کالا پانی کی قیدکے دوران تحریرکردہ ’ الثورۃ الہندیہ‘ میں آپ نے ان اسباب وعوامل کی نشاندہی کی ہے جنھوں نے 1857ء کی لڑائی کی زمین تیار کی اورسینوں میں جلتی آگ کے لیے تیل کا کام کیا۔وہ لکھتے ہیں:’’ انگریزوں نے پوری جانفشانی و تندہی کے ساتھ مذہب وملت کے مٹانے کے لیےطرح طرح کے مکرو حیلہ سے کام لینا شروع کیا۔بچوں اور نافہموں کی تعلیم اور اپنی زبان و دین کی تلقین کے لیےشہروں اور دیہات میں مدرسے قائم کیے۔پچھلے زمانے کے علوم و معارف اور مدراس و مکاتب کے مٹانے کی پوری کوشش کی۔دوسری ترکیب یہ سوچی کہ مختلف طبقوں پر اس طرح قابو حاصل کیا جائے کہ زمین ہند کے غلہ کی پیداوارکاشتکاروں سے لے کر نقد دام ادا کیے جائیںاور ان غریبوں کو خریدو فروخت کا کوئی حق نہ چھوڑا جائے۔ اس طرح بھاؤ گھٹانے بڑھانے اور منڈیوں تک اجناس پہنچانے اور نہ پہنچانے کے خود ہی ذمہ دار بن بیٹھیں۔اس کا مقصد اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ خدا کی مخلوق مجبور و معذور ہوکران کے قدموں پر آپڑے؛ اور نصاریٰ اور ان کے اعوان و انصار کے ہر حکم کی تعمیل اور ہرمقصد کی تکمیل کرے۔ان کے دلوں میں اور بھی بہت سے مفاسد تھےمثلاًمسلمانوں کو ختنہ کرانے سے روکنا،شریف اور پردہ نشین خواتین کا پردہ ختم کرانانیز دوسرے احکام دین مبین کومٹانا وغیرہ۔اس طرح سب سے پہلے اپنے ہندو مسلم لشکریوں کوان کے رسوم و اصول سے ہٹانے اورمذہب وعقائد سے گمراہ کرنے کےدرپے ہوئے۔ان کا گمان تھا کہ جب بہادر لشکری اپنے دین کو بدلنے اور احکام نصرانیت بجالانے پر آمادہ ہوجائیںگے تو پھر دوسرے باشندوں کو عتاب کے ڈر سے مجال انکار نہ ہوسکےگی۔انہوں نے پہلے ہندو لشکریوں کو جو تعداد میں بہت زیادہ تھےگائے کی چربی اور مسلمان سپاہیوں کو جو تھوڑی تعداد میں تھے سورکی چربی چکھانے پر زور ڈالا۔یہ شرمناک روش دیکھ کر دونوں فرقوں میں اضطراب پیدا ہوگیااور اپنے اپنے مذہب اور اعتقاد کی حفاظت کی خاطر ان کی اطاعت سے منھ موڑ لیا۔ ان کے اس اضطراب نے خرمن امن پر چنگاری کا کام کیا(۲)۔وہ انگریز افسروں کے ساتھ لوٹ مار کرکےمیرٹھ سے دہلی آگئے جہاں بہادر شاہ ظفر کو مجبور کیا کہ وہ انگریزوں کی غلامی کے خلاف ان کا ساتھ دیں ۔علامہ خیرآبادی اس کا انجام دیکھ رہے تھے اس لیے وہ اوروں سے زیادہ اضطراب میں تھے۔انہوں نے لکھاہے کہ انقلابیوں نے ایک ایسے شخص کو اپنی قیادت سونپ دی تھی جوضعیف اور ناتجربہ کار تھااور جس کے وزیرو مشیرتو وزیرو مشیر ، اہل خانہ تک نصاریٰ کے وفادار تھے۔
1857ء کی شورش کے اسباب کیا تھے اور اس کو ایک منظم تحریک بنانے میں علامہ فضل حق خیرآبادی اوران جیسے قائدین انقلاب کا کیا کردارتھااور وہ کیوں ناکام ہوئے یا اس کی قیمت اپنی جانوں اورقیدوبندکی صعوبتوں سےان کو کیوں چکانی پڑی؟ اس کو سمجھنے کے لیے کم ازکم سوسال کےان واقعات وحادثات کو نگاہ میں رکھنا ہوگاجن کاآغاز سقوط بنگال سے ہوتا ہے۔آپ جگت سیٹھ، رائے درلبھ، میرجعفر اور یارلطف جیسے کرداروں کے ساتھ ساتھ ملک کے چھوٹے بڑے حاکموں، نوابوں اور اراجاؤں کے آپسی رشتوں اور کسی مضبوط مرکزی اقتدار کے فقدان کو بھی سامنے رکھیں جب ہی سلطان ٹیپو شہید اور علامہ فضل حق خیرآبادی جیسے بیدارذہنوں اوربےچین روحوں کی عظمتوں کاادراک ممکن ہے ۔
بادشاہ جہانگیر نے 1618ء میں انگریزوں کو ہندوستان میں تجارت کی اجازت دی تھی اور 1750 ءتک ملک کی تجارت و معیشت پر ہی نہیں، ہندوستان کی بیشتر ریاستوں کے سیاسی امور میں بھی ان کا عمل دخل قائم ہوچکا تھا۔ کلکتہ اگرچہ ان کی تین اہم تجارتی کوٹھیوں میں سے ایک تھا لیکن بنگال کا اقتدارابھی تک ان سےاچھوتا تھا ۔کمپنی نے کلکتہ میں قلعہ بنانا شروع کیا توبنگال کے نواب سراج الدولہ نے ان کی سخت سرزنش کی۔ آج کا مغربی بنگال، بہار، جھارکھنڈ، اڑیسہ، بنگلہ دیش، شمال مشرق کی سات ریاستیں اور میانمار (برما) اس وقت صوبہ بنگال تھا۔ اس وقت انگریزوں کے پاس صرف 300-350 سپاہی تھے اور سراج الدولہ کے پاس 18000 سپاہی ۔برطانوی پارلیمنٹ کے ایوان عام میں کہا گیاتھا کہ 5 برطانوی فوجی کےبرابرایک ہندوستانی فوجی ہے۔ انگریزی فوج کا سپہ سالاررابرٹ کلائیو جانتا تھا کہ اگر آمنے سامنے جنگ ہوئی تو وہ ایک گھنٹہ بھی میدان میں ٹک نہیں پائےگا۔ کلائیو نے یہ بات برطانوی پارلیمنٹ کو خط لکھ کرکئی بار بتائی تھی۔انڈیاآفس لائبریری (لندن) میں کلائیو کےایسے دو خطوط موجود ہیںجن میں اس نےاستدعا کی ہے کہ اگر یہ جنگ جیتنی ہے تو اسے مزید سپاہی دیے جائیں۔ اس کے جواب میں حکومت برطانیہ نے اسے لکھاتھاکہ ہم اس وقت نپولین بوناپارٹ کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں اور یہ جنگ ہمارے لیے بنگال سے زیادہ اہم ہے اور ہم آپ کو اس سے زیادہ فوجی نہیں دے سکتے۔ اس کے بعد کلائیو نے اپنے دو جاسوسوںکو مامور کیا کہ وہ معلوم کریں کہ کیا سراج الدولہ کی فوج میں کوئی ایسا آدمی ہے جسے ہم لالچ دے کرخرید سکتے ہیں۔ جاسوسوں کو پتہ چلا کہ بنگال کی فوج کا سپہ سالارمیرجعفر دن رات ایک ہی خواب دیکھتاہے کہ وہ بنگال کا نواب کب بنے گا۔کلائیو کواس کا علم ہوا تو اس نے میر جعفر کو خط لکھا۔ اس میں اس نے صرف دو باتیں لکھیں۔ پہلا یہ کہ ’’اگر تم ہم سے دوستی کرو اور ایسٹ انڈیا کمپنی سے معاہدہ کرو تو ہم جنگ جیتنے کے بعد تمہیں بنگال کا نواب بنا دیں گے‘‘ اور ’’جب تم بنگال کے نواب بنوگے تو بنگال کی تمام جائیدادیں تمہاری ہوںگی، ہمیں صرف اس کا 5فیصد دینا اور باقی جتنا جی چاہے لوٹتے رہنا۔ کلائیو نے بنگال کے مشہور تجارتی گھرانوںجگت سیٹھ (مہتاب چند اورسوروپ چند)اور اومی چندکے ساتھ ساتھ مقامی حاکموں رائے درلبھ اور یارلطف خاں کو پہلے ہی خریدلیا تھا۔ بنگال کے مغربی علاقوں پر ناگپور کے مراٹھاحکمراں راگھوجی بھوسلے کے سپہ سالار بھاسکرپنڈت کے حملے 1741ء سے لگاتارجاری تھےاوراب مراٹھے بھی نواب بنگالہ کے خلاف کمپنی کےایک مضبوط حلیف تھے۔میر جعفر نے کلائیو کو لکھ کر جواب دیا کہ اسے اس کی دونوں شرطیں منظور ہیں، بتاؤ کیا کروں؟ چنانچہ کلائیو نے اس سلسلے میں آخری خط لکھا اور کہا کہ ’’تمہیں بس اتنا کرنا ہے کہ اپنے 18000 سپاہیوں سے کہو کہ جنگ شروع ہونےپر وہ ہمارے سامنے ہتھیار ڈال دیں‘‘۔نواب سراج الدولہ میدان میں آیا تواس کی فوج میں اس کے اپنے، رائے درلبھ اور یارلطف خان کےپچاس ہزار سپاہی ، 40توپخانے اور 10جنگی ہاتھی تھے۔دوسری طرف کمپنی کی فوج بہ مشکل تین ہزارسپاہیوں پر مشتمل تھی جو کلائیو نےہوگلی میں مار کھانے کے بعد اپنےبچے کھچے تین ساڑھے تین سو انگریز سپاہیوں اور بقیہ بھاڑے کےہندوستانیوں کو شامل کرکے بنائی تھی۔ کلائیو کے اسی تین ہزار سپاہیوں نے 23جون 1757ء کو پلاسی میںبنگال کی ایک اتنی بڑی فوج کو شکست دے دی۔ رائے درلبھ اور یارلطف کے سپاہیوں نے نواب کی فوج کے ساتھ مورچہ توسنبھالالیکن وہ جہاں کھڑے تھے، کھڑے رہے، کوئی حرکت نہیں کی۔ بنگال کے اٹھارہ ہزار فوجیوں نےمیرجعفرکے حکم پر40منٹ کے اندر ہتھیار ڈال دئےاور کلائیو کی کے تین ہزار سپاہی ان اٹھارہ ہزار سپاہیوں کو قید کرکے کلکتہ لے گئےجہاںفورٹ ولیم میں پہلے ان کو دس دنوں تک بھوکا پیاسا رکھا گیا ۔ پھر ان سب کومیرجعفراور کلائیونے جانوروں کی طرح ذبح کرادیا۔ اسی دوران مرشد آباد میں گھات لگاکرنواب سراج الدولہ کوشہید کر دیاگیا۔ اس کے بعد رابرٹ کلائیو نے مرشدآباد اورکلکتہ کو جی بھر کر لوٹا۔ وہ سونے، چاندی، ہیروں اور جواہرات سے بھرے 900 جہاز لندن لے گیا۔ کلائیو نےلوٹ کی اس دولت کی جو تفصیلات برٹش پارلیمنٹ میں پیش کی تھی ، وہ یہ تھی کہ’ اس نے اس کا حساب تو نہیں لگایا ہے لیکن یہ تقریباً 1000 ملین سٹرلنگ پاؤنڈز کامال ہوگا‘‘(۳)۔ یہ تھاہندوستان میں برٹش حکومت کاپہلاقدم اور اس کی فوجی مہمات کی باضابطہ ابتدا جس کےپہلے مرحلے کی تکمیل 1764ء میں بکسر کی جنگ پر، دوسرے کی 1799ء میں مراٹھوں اور نظام کی مددسےشیرمیسور سلطان فتح علی ٹیپوکی شہادت کے ساتھ ؛اور تیسرے مرحلے کی تکمیل 1857ء میں سقوط قلعہ معلی دہلی پر ہوئی۔
یہ وہ زمانہ تھا جب صنعتی انقلاب کے زیراثر دنیا کی معیشت ایک نئی کروٹ لے رہی تھی۔ 1760ء سے 1840کے درمیان مصنوعات ضروریہ کی پیداوار پرانی تکنیکوں اور دستکاری سے مشینوں پر منتقل ہوگئی۔ان میں بھی سب سے پہلےکپڑے اور اشیائے خوردونوش کی صنعتوں پر اس تبدیلی نے غیرمعمولی اثرڈالا ،کیمیاوی اور آہنی مصنوعات کی پیداوار،بھاپ کی طاقت اور پانی کی توانائی کے استعمال ، مشینی آلات کی ترقی اور فیکٹریوں کے نظام کے قیام نے صنعت و حرفت اور تجارت ومعیشت پرمغربی ملکوںکی بالادستی قائم کردی،ان میں بازار پر قبضے کی کشمکش بھی چھڑگئی۔ مشینوں سے کپڑوں کی پیداوار،نہروں کی تعمیر اور ان پرپن چکیوں کی تنصیب،پھربھاپ کے انجن کی ایجاد، فیکٹریوںمیں مصنوعات کی تیزرفتار پیداوار کا آغازاورآہنی مصنوعات کی پیداوار میں غیرمعمولی اضافہ، وہ سنگ میل ہیںجن کوبرعظیم ہندوستان میںپلاسی کی جنگ سے 1857ء تک کے اہم واقعات کے ساتھ رکھ کر دیکھا جانا مناسب ہوگا۔ صنعتی انقلاب کا مرکز چونکہ برطانیہ عظمیٰ، مغربی یوروپ اور شمالی امریکہ تھا،اس لیےاس عہد کی سیاسی تاریخ کو بھی آپ انگریزوں، جرمنوں،فرانسیسیوں اور ڈچوں میںزورآزمائی کی تاریخ پاتے ہیں۔یہاں تک کہ ملکوں اور قوموں کے سیاہ و سفید کا فیصلہ صنعتی گھرانے اورتجارتی کمپنیاں کر رہی تھیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی انگریزوں نے 1600ء میں قائم کی تھی اور 1874ء میں تحلیل کردی گئی۔ بنیادی طور پر یہ ایسٹ انڈیزمیںکاروبارکرنے والےلندن کے تاجروں کی تنظیم اورمجلس حاکمہ کے طورپر قائم کی گئی تھی۔ پھراسے خطہ بحرہند سونپاگیا اور اس کے بعد پورے جنوب مشرقی ایشیا میں کاروبار کا اختیاردے دیا گیا۔ اپنے عروج کے زمانے میں یہ دنیا کا سب بڑاکارپوریٹ تھا۔صنعتی انقلاب کے ساتھ اس کا کاروبار اتنی تیزی سے پھیلا اوراتنا بڑھاکہ اٹھارہویں صدی کے وسط تک یہ دنیا کے نصف کاروبار پر قابض ہوگئی تھی، بالخصوص اشیائے ضروریہ مثلاً روئی، ریشم، نیل، شکر، نمک، مسالے، چائے اور افیون کی تجارت پر اس کا اجارہ تھا۔حتی کہ ہندوستان میں برطانوی سامراج اسی نے قائم کیا۔کمپنی نے اچانک ہندوستان کے ایک وسیع وعریض علاقہ پر قبضہ کرلیا، فوجی طاقت کا استعمال کرنے لگی اور قانون و انتظام کی باگ ڈوراس نےاپنے ہاتھوں میں لے لی۔اس وقت اس کا سامراج اتنا بڑا تھا جتنابڑا خودبرطانیہ اور اس کی نوآبادیات کا رقبہ بھی نہیں تھا۔برصغیر کے بیشتر علاقے،جنوب مشرقی ایشیا کے بڑے حصے اور ہانگ کانگ اس کی کالونی تھےاور کمپنی کی تین پریسیڈنسی میں اس کی مسلح افواج کی تعداد برٹش آرمی کے مقابلے میں دوگنی(دولاکھ ساٹھ ہزار) تھی۔ ہندوستان میں اقتدار کی باگ ڈوراس نے 1757ء میں پلاسی کی جنگ کے بعد سنبھالی تھی اور 1858ء تک یہاںاس کا راج تھا جب برٹش پارلیمنٹ میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ لاکر تاج برطانیہ نے ہندوستان کا براہ راست کنٹرول حاصل کیا اور ہندستان میں برٹش راج کا ایک اور دور شروع ہوا۔
یہ ذکر پہلے آچکا ہے کہ پلاسی کی جنگ نے کمپنی کو اچانک پورے شمال مشرقی ہندوستان کا مالک و مختار بنادیاتھا لیکن بہ غور دیکھیں تو اس کے پیچھے برسوں کی منصوبہ بندی ، غداریاںاور ناپاک چالیں تھیں۔بنگال اس وقت ملک کا سب سے سرسبزو شاداب اور نہایت زرخیزخطہ تھا۔اس سے انگریزوں کے حوصلے اس قدربلند اوران کی سیاسی و اقتصادی طاقت اتنی مضبوط ہوگئی کہ اس نےدہلی کے بادشاہ کے اقتدار کو چیلنج کردیااور 1764ء میں بکسر کی جنگ میں بادشاہ دہلی شاہ عالم ثانی، نواب اودھ شجاع الدولہ اور نواب بنگالہ میرقاسم کی متحدہ فوج کو شکست ہوگئی کیونکہ یہ تینوں اور ان کے ماتحت حاکموں کی فوجیں لڑتو رہی تھیں، اپنے وجود کی لڑائی لیکن ان میں اتحادو اتفاق اور عسکری تال میل کی بڑی کمی تھی۔ کمپنی کی فوج کی کل تعداد 17ہزار تھی جن میں 1859برٹش فوجی، 5297دیسی پیادے اور 9189گھڑسوار تھے جبکہ بادشاہ کی متحدہ فوج کی مجموعی تعداد 40ہزار کے قریب تھی۔ نواب اودھ شجاع الدولہ اور نواب بنگالہ میرقاسم کی فوجیں کمپنی کے سپہ سالار ہیکٹر منرو کے پہلے ہی حملے میں بکھر گئیں۔ بادشاہ نے بڑی مشکل سےاپنی فوج کو دوبارہ منظم کیا لیکن لامحالہ اسے ہیکٹر منرو سے مذاکرہ اور صلح کرنا پڑی اور معاہدہ الٰہ آباد کی شکل میں بادشاہ داور اس کے وزیراعظم نواب شجاع الدولہ نے کمپنی کی حکومت کو نہ صرف قانونی اور اخلاقی جواز دے دیا،ستم تو یہ ہوا کہ بادشاہ نے اپنی حکومت کے جملہ دیوانی امور، محاصل اور بازارکے نظم ونسق کی ذمہ داری بھی کمپنی کے سپرد کردی اور شاہ عالم دہلی کابرائے نام بادشاہ رہ گیا۔ ایسا اس لیے بھی ہوا کہ شمال مشرق سے سلطنت مغلیہ کو اگر کمپنی اور اس کے حلیفوں نے گھیر لیا تھااورمغرب میں سکھوں طاقت بڑھ رہی تھی تو جنوب مغرب سے مراٹھوں کا سخت دباؤتھاجو مغلوں سے ایسی نفرت و عداوت رکھتے تھے کہ کسی بھی حد تک جاسکتےتھے۔ معاہدہ الٰہ آباد کے نتیجے میں جہاں اودھ اور الٰہ آباد کاایک بڑا رقبہ براہ راست کمپنی کے قبضے میں چلاگیا، وہیں اس معاہدے نے اودھ کے نواب اورسلطنت کےدوسرے صوبیداروں کی خودمختاری کو بھی قانونی حیثیت دے دی، کمپنی نےاب مراٹھوںکے پیشوا اور ٹراونکور کے راجا سے مل کرجنوبی ہندمیں اپنی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ میسور پر ساری توجہ مرکوز کردی یہاں تک کہ اس منصوبے میں دکن کے نظام کو بھی شامل کرلیا۔ 1799ء میں سرنگاپٹم کی لڑائی اورسلطان ٹیپو کی شہادت، پلاسی کی جنگ اور سراج الدولہ کی شہادت کا ایک اور اعصاب شکن اعادہ تھاجس نے ہندوستانیوں کی آنکھیں تو کھولیں لیکن دیسی رجواڑوں، نوابوں اوردین دھرم کےٹھیکیداروں نےاب بھی اپنے گریبانوں میں منھ ڈالا ہوتا اور وہ اپنی آنکھوں پربندھی لالچ اور نفرت وعداوت کی پٹیاں کھول دیتے تو مستقبل کےہندوستان کی تاریخ وہ نہیں ہوتی جو ہے۔
1857 کا ہنگامہ رونما ہواتو علامہ فضل حق خیرآبادی الور میں تھے۔ وہ کئی سال پیشتر دہلی کو چھوڑ چکے تھےلیکن دہلی اب بھی ان کا وطن تھا۔ ان کے دوست احباب اور اہل وعیال یہیں رہتےتھے۔ میرٹھ کی بغاوت اور دہلی کے حالات کی خبرہوتے ہی انہوں نےیہاں آکر انقلابیوں کی رہنمائی کا فریضہ نبھایا۔ بادشاہ کے وزیر اور کمپنی بہادر کے وفادارملازم حکیم احسن اللہ خاں نے اپنے روزنامچے میں لکھاہے کہ مولانا نے بہادر شاہ ظفر سے کہا تھا کہ آپ کے تمام ملازمین نااہل ہیں۔ کسی ہوشیارآدمی کو رسد کی فراہمی پر مامور کیجئے۔ مولوی ذکاء اللہ دہلوی جن کو علامہ سے سخت پرخاش تھی، اپنی ’تاریخ عروج سلطنت انگلشیہ‘ میںلکھتے ہیں کہ جس تاریخ کو سپاہ آئی، دوسرے روز(12مئی 1857) قلعے میں اکابر شہر کی ایک مجلس مقرر ہوئی کہ شہر کا اور سپاہ کی رسد رسانی کا انتظام کیاجائے۔ اگر بندوبست نہیں ہوگا تو وہ سارے شہر کو لوٹ کر کھاجائیں گے۔وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ مولوی صاحب(علامہ خیرآبادی) نے بادشاہ (بہادر شاہ) کے لئے ایک دستور العمل سلطنت لکھا تھا۔ اسی دستور کی روشنی میں حکومت تشکیل پانا تھی۔ اس کے پہلے ہی جملے سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ نے اس انقلاب کو منظم تحریک اور سچ مچ کے انقلاب کی صورت دینے کی کیسی کوشش کی تھی۔ ملاحظہ فرمائیں:
’’ازاں جاکہ واسطے رفع برہمی سررشتہ اور موقوفی بدانتظامی طریقہ فوجی وملکی کے مقرر ہونا دستور العمل کاواجب اور مناسب اور واسطے عمل درآمد دستور کے اولاً متعین ہونا کورٹ کا ضروری ہے اس لئے حسب ذیل قواعد لکھے جاتے ہیں‘‘۔یہ کورٹ دس ارکان پر مشتمل تھا جن میں 6فوج کے نمائندے اور 4شہری تھے۔ اس کورٹ کے ارکان کو جوحلف اٹھانا پڑتا تھا، اس سے اس کے دائرہ کار اور حدود اختیارات کا بھی اندازہ ہوتا ہے:
’’ہرکام کو بڑی دیانت اور امانت سے بلارورعایت کمال جاں فشانی سے اور غوروفکر سے سرانجام کریں گے اور کوئی دقیقہ دقائق متعلقہ انتظام سے فروگذاشت نہ کریں گے۔ اور حیلۃً وصراحۃً اخذ اجر یارعایت کسی طرح وقت تجویز امور انتظام کورٹ میں نہ کریں گے بلکہ ہمیشہ ساعی اور سرگرم ایسے انتظام امورات سلطنت میں مصروف رہیں گے کہ جس سے استحکام ریاست اور رفاہ اور آسائش رعیت ہو اور کسی اور مجوزہ کورٹ کو بے اجازت کورٹ اور صاحب عالم قبل اجرا اس کے صراحتہً یا کنایۃً کسی پر ظاہر نہ کریں گے‘‘(۴)۔
علامہ فضل حق خیر آبادی نے انقلاب 1857 کو کامیابی سے ہمکنار کرانے کے لئے اپنی تمامتر صلاحیتیں ، جملہ وسائل، افراد خاندان اور خویش واقارب سب کو اس جنگ میں جھونک دیا تھاکیونکہ انہیں اس جنگ کی ناکامی کے نتائج کا احساس تھا۔ حکیم احسن اللہ خاں اپنی یاد داشت میں لکھتے ہیں کہ ’’مولوی صاحب( فضل حق) جب بھی بادشاہ کے پاس آتے،بادشاہ کو مشورہ دیتے کہ جہاد کی مہم میں اپنی رعایا کی ہمت افزائی کریں اور ان کے ساتھ باہر بھی نکلیں۔ فوجی دستوں کو حتی الامکان بہتر معاوضہ دیںورنہ انگریز جیت گئے تو نہ صرف خاندان تیموریہ بلکہ تمام مسلمان نیست ونابود ہوجائیں گے‘‘(۵)۔ لیکن بدقسمتی سے وہی ہوا جس کا ان کو اندیشہ تھا۔ علامہ اپنی یادداشت ’الثورۃ الہندیہ‘ میں خود لکھتے ہیں: بہت سے لشکر شہر مشہور بلدمعمورمسکن آل تیمور دارالسلطنت دہلی جاپہنچے۔ وہاں پہنچ کر ایک ایسے شخص کو ان سب نے اپنا سردار بنالیا جو پہلے بھی ان کا آمروحاکم تھا، جس کے پاس اس کے ارکان دولت اور وزیر تھے لیکن وہ خود ضعیف ،غمزدہ اور ناتجربہ کار تھا۔ سچ پوچھئے تو آمرو حاکم ہونے کے بجائے اپنی شریک حیات (زینت محل) اور وزیر(حکیم احسن اللہ خاں) کا مامور ومحکوم تھا۔ اس کا یہ وزیر جو حقیقت میں نصاری ٰکا کارپرداز اور ان کی محبت سے غالی تھا۔ صحیح معنوں میں اپنے حاکم ووالی اورنصاریٰ کے دشمنوں کا بدترین مخالف تھا۔ یہی اس آمرو حاکم کے اہل خاندان کا حال تھا۔ ان میں سے بعض مقرب بارگاہ اور رازدار(شہزادہ مرزا مغل وغیرہ) بھی تھے۔ یہ سب کے سب جو جی چاہتا کرتے تھے اور وہ سردار ایسا ضعیف الرائے اورناتجربہ کار تھا کہ کچھ جانتا ہی نہ تھا۔ اس سے عجیب حرکتیں سرزد ہوتی تھیں۔ان حالات میں بعض شہرودیہات سے بہادر مسلمانوں کی ایک جماعت علماء زہاد اور ائمہ اجتہاد سے جہاد کے وجوب کا فتویٰ لے کر جدال وقتال کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی‘‘۔ ڈاکٹر ابواللیث صدیقی لکھتے ہیں کہ آخری مرتبہ جان کی بازی لگادینے پر آمادہ کرنے کے لئے ایک باقاعدہ فتویٰ جہاد جاری کیاگیا۔ باغی ہندوستان کے مصنف عبدالشاہد شیروانی لکھتے ہیں: بادشاہ سراسیمہ تھا، شہزادوں کی لوٹ کھسوٹ اور تخت شاہی کی تمنائوں نے باہمی رقابت کا میدان گرم کر رکھا تھا۔ عمائدین شہر میں دو گروہ تھے۔ ایک بادشاہ کا ہمنوا اور دوسرا حکومت(کمپنی) کا بہی خواہ۔ فوجیوں میںطمع اور لالچ نے گھر کر لیا تھا۔ دو ایک جماعتیں مقصد اعلیٰ کو سامنے رکھے ہوئے تھیں۔ ایک جماعت مجاہدین کی تھی ،دوسری روہیلوں کی۔ یہ جنرل بخت خاں کی سرداری میں داد شجاعت دے رہی تھی۔ جنرل بخت خاں علامہ سے ملنے پہنچے۔ مشورہ کے بعد علامہ نے آخری تیر ترکش سے نکالا۔ بعدنماز جمعہ جامع مسجد میں علماء کے سامنے تقریر کی۔ استفتا پیش کیا۔ مفتی صدر الدین آزدہ صدرالصدور دہلی، مولوی عبدالقادر دہلوی ،قاضی فیض اللہ دہلوی ،مولانافیض احمد بدایونی، ڈاکٹر مولوی وزیر خاں اکبر آبادی، سید مبارک شاہ رام پوری نے دستخط کردئیے۔ اس فتوے کے شائع ہوتے ہی ملک میں عام شورش بڑھ گئی۔ دہلی میں نوّے ہزار سپاہ جمع ہوگئی تھی لیکن جنرل بخت خاں کی اسکیموں میں مرزا مغل آڑے آتے تھے۔ مرزا الٰہی بخش نے بادشاہ سے سرکارمیں معافی کا خط بھجوادیا تھا۔ مرزا مغل کی وجہ سے فوج میں پھوٹ پڑ گئی اور جنرل بخت خاں کے لوگ بگڑ گئے۔دوسری طرف کمپنی نے پنجاب سے مہاراجاپٹیالہ کی فوج بلائی اور 14ستمبر 1857کو شہر پر حملہ کردیا۔ 19ستمبر کو مکمل طور پر انگریز قابض ہوگئےلیکن علامہ نے ہمت نہیں ہاری۔ وہ پانچ دن تک بھوکے پیاسے اپنے مکان میں رہے۔ پھر رات کی تاریکی میں اپنے اہل وعیال کے ساتھ نکلے۔ کسی طرح دریائے جمنا پار کیا،علی گڑھ پہنچے، وہاں سے اودھ کے لئے روانہ ہوئے جہاں احمد اللہ شاہ مدراسی کے دم سے معرکہ جہاد گرم تھا۔ جنرل بخت بھی اپنی فوج کے ساتھ آگرہ اور روہیل کھنڈ ہوتے ہوئے اودھ کا رخ کرچکے تھے لیکن بدقسمتی ان کا پیچھا کر رہی تھی۔ علامہ فضل حق خود’ الثورۃ الہندیہ‘ میں لکھتے ہیں: نصاریٰ کی افواج کے باغیوں اور ہماری افواج کے متعدد لشکروں نے اپنے سابق ومعزول والی(واجد علی شاہ) کی بیگم اور اس کے ایک ناتجربہ کار و نا سمجھ لڑکے (برجیس قدر) کو امیر وحاکم بناڈالا۔ یہ لڑکا چھوٹا، ناتجربہ کار، نازپروردہ ،ہمسنوں کے ساتھ کھیلنے والا اور دشمن سے لاپرواہ تھا۔ تدبیر امور مملکت ، اجرائے احکام اور قیادت فوج کی صلاحیت نہ رکھتا تھا۔ اس کے اعیان سلطنت اور ارکان دولت سب کے سب نااہل ، کاہل، بزدل ، احمق، خائن اور غیر دیانتدار تھے‘‘۔بہرحال بیگم حضرت محل، مولوی احمد اللہ شاہ مدراسی اور جنرل بخت خاں کی فوجوں کی پسپائی کے بعد علامہ خیرآباد(اودھ) چلے گئےجہاں سے 30جنوری1859 کے دن ان کو گرفتار کیاگیا۔ بغاوت کا مقدمہ چلا اورحبس دوام بعبور دریائے شور(کالاپانی) کی سزا سنائی گئی۔ ان کا مکان، زمین جائیداد، کتابیں اورہروہ چیز ضبط کرلی گئی جو کسی استعمال میں آسکتی تھی۔’الثورہ الہندیہ‘ میںلکھتے ہیں کہ: میرا جوتا اور لباس اتار کر موٹے اور سخت کپڑے پہنادئیے،نرم بستر چھین کر سخت اور تکلیف دہ بچھونا حوالے کردیا، گویا اس پر کانٹے بچھا دئیے گئے یا دہکتی ہوئی چنگاریاں ڈال دی گئیں۔ میرے پاس لوٹا،پیالہ اور کوئی برتن تک نہ چھوڑا۔ ان حالات میںبھی علامہ فضل حق کی استقامت کا حال یہ تھاکہ پہلے تو اپنے اوپر عائد کیے گئے ایک ایک الزام کو رد کردیا۔ پھر جس مخبر نے فتوے کی خبر دی تھی، اس کے بیان کی توثیق و تصدیق کی اور کہا کہ پہلے تو اس گواہ نے سچ کہا تھا اور رپورٹ بالکل صحیح لکھوائی تھی ۔ اب عدالت میں میری صورت دیکھ کر مرعوب ہوگیا اور جھوٹ بولا کہ وہ میں نہیں ہوں۔ وہ فتویٰ صحیح ہے، میرا لکھا ہوا ہے اور آج اس وقت بھی میری رائے وہی ہے۔
پورٹ بلیئر کے سپرنٹنڈنٹ کرنل ہوفٹن(Houghton) نے ایک بار کسی قیدی کو فارسی کا ایک مخطوطہ دے کر اس کی ضروری تصحیح کی گذارش کی۔ مولوی صاحب کو اس کی تصحیح میںدقت محسوس ہوئی۔ انہوں نے یہ کام علامہ فضل حق کے حوالے کردیا۔ علامہ نے نہ صرف اس کی تصحیح کردی بلکہ اس میں ضروری اضافے اور حوالہ جات بھی درج کردئیے۔ مولوی صاحب نے جب وہ کرنل ہوفٹن کو واپس دیا تو وہ حیران رہ گیا۔ اس نے دریافت کیا کہ انہوں نے یقینا مشکل کام مختلف کتابوں کے حوالوں کے ساتھ کیسے کیا۔ مولوی صاحب نے ساری حقیقت بیان کردی۔ کرنل ہوفٹن اسی وقت اٹھا اور علامہ فضل حق کے بیرک کی طرف چل پڑا۔ اس نے دیکھا کہ ایک سن رسیدہ ضعیف آدمی اپنے سرپر ایک ٹوکری اٹھائے ہوئے چلا آرہا ہے۔ یہ منظر دیکھ کر ہوفٹن کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔اس کے بعداس نے ان کی معافی کی سفارش کی اور ان کو اپنی نگرانی میںلے لیا۔ پھر ان کی رہائی کا پروانہ بھی جاری ہوا لیکن جس دن ان کے بیٹے شمس الحق رہائی کا پروانہ لے کر پورٹ بلیئر پہنچے، ان کوقیدحیات سے رہائی مل چکی تھی۔ ان کاجنازہ جارہا تھا۔ کسی سے پوچھا کہ یہ کس کا جنازہ ہے تو اس نے جواب دیا ’’یہ علامہ فضل حق خیر آبادی ہیں‘‘۔20اگست 1861کو ان کا انتقال ہوا۔ خالق ومالک نےان کو انگریزوں کے اس آخری احسان سے بھی بچا لیا اور اس کے اس یقین وایمان کی لاج رکھ لی کہ’’ظاہری اسباب پر نظر ڈالتا ہوںتو اپنی رہائی سے مایوس اور امیدوں کو منقطع پاتا ہوںلیکن اپنے رب عزیز ورحیم رئوف وکریم کی رحمت سے ناامید نہیں ہوں،وہی جابرفرعونوں سے عاجز ضعیفوں کو نجات دلاتا ہے۔وہی زخمی مظلوموں کے زخموں کو اپنے رحم وکرم کے مرہم سے بھرتا ہے۔ وہ ہرسرکش کے لئے جباروقہار،ہر ٹوٹے ہوئے دل کا جوڑنے والا، ہر نقصان رسیدہ فقیر کو کامیاب اور ہر دشوار کو آسان بنانے والا ہے‘‘ (۶)۔ علامہ فضل حق ازاول تاآخر اپنے عہد کا اضطراب ہیں، ان کی ساری تڑپ، بےچینی اور بھاگ دوڑ اس عہد کے روح کی تڑپ اور چھٹپٹاہٹ ہے ۔
(۱) فضل حق خیرآبادی اور سن ستاون؍ص ۲۶۔۲۴؍ محمود احمد برکاتی؍برکات اکیڈمی، کراچی؍۱۹۷۵
(۲)باغی ہندوستان (الثورۃ الہندیہ)؍ص ۹۔۱۰؍ علامہ فضل حق خیرآبادی ؍ عبدالشاہدخاں شیروانی؍بزم قادریہ رضویہ، اسلام آباد
(۳)آزاد دائرہ معارف وکی پیڈیا؍htps://en.wikipedia.org/wiki/Battle_of_Plassey
(۴) فضل حق خیرآبادی اور سن ستاون؍ص۵۵۔۵۲؍ محمود احمد برکاتی؍برکات اکیڈمی، کراچی؍۱۹۷۵
(۵)حکیم احسن اللہ خاں کی یادداشت /ص 24؍ایس معین الحق / پاکستان ہسٹوریکل سوسائٹی کراچی بحوالہ’علامہ فضل حق اورانقلاب۱۸۵۷؍ ص۸۵ (یس اخترمصباحی)دارالقلم ،دہلی
(۶) باغی ہندوستان (الثورۃ الہندیہ)؍ص ۳۱؍ علامہ فضل حق خیرآبادی ؍ عبدالشاہدخاں شیروانی؍بزم قادریہ رضویہ، اسلام آباد
احمدجاوید
[email protected]
صدر،اردومیڈیاایسوسی ایشن(انڈیا)، نئی دہلی
ایڈیٹر ،ثقافت انٹرنیشنل(نیوزاینڈویوزسروسز)نئی دہلی Saqafat.in