علامہ فضل حق خیر آبادی اورانقلاب۱۸۵۷کی ناکامی کے اسباب

Table of Contents

اس عظیم مجاہد آزادی کی قربانیوں کو ہندوستان نے فراموش کردیا‘ جس نے ملک کو اس وقت ایک آئینی حکومت کا تصور دیا‘ جب آزادی اور جمہوریت کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔

ہندوستان کی جنگ آزادی کے جن عظیم رہنمائوں پر تاریخ میں سب سے زیادہ ظلم ہوا‘ ان میں علامہ فضل حق خیر آبادی کانام سب سے نمایاں اور سب سے بڑا ہے۔ وہ انگریز مؤرخین کی ذہنی خباثت اور علمی خیانت کے شکار تو ہوئے ہی‘ ہندوستانی مؤرخین کی تنگ نظریوں اور تعصبات کے بھی شکار رہے ہیں۔ کالاپانی کے اولین قیدیوں میں شامل فضل حق خیر آبادی انگریز حکمرانوں کے لئے تو سب سے خطرناک شخص تھے اور ان کا ہندوستان میں رہنا برطانوی حکومت واقتدار کے لئے سب سے بڑا خطرہ تھا کیونکہ اسی نے دہلی اور اس کے اطراف کی ریاستوں سے آگرہ اور اودھ تک بغاوت کی آگ بھڑکائی تھی‘ ملک کے نامور علماء کو جمع کرکے جہاد کا فتویٰ جاری کرایا تھا اور پھر الور(راجستھان) سے اودھ تک کا سفر کیا تھا‘ انگریزوں کے خلاف ہرمحاذ پر جنگ پر شریک کارزار رہا تھا لیکن ہمارے مؤرخین کے لئے وہ ایک قابل ذکر مجاہد آزادی بھی نہیں تھے۔ چہ جا ئیکہ انہیں تحریک آزادی کے ایک عظیم رہنما کی حیثیت سے تاریخ میں ان کا جائز مقام دیاجاتا‘ تاریخ کی اہم کتابوں میں ان کا ذکر بھی نہیں ملتا۔ خود مسلمانوں نے بھی ان کو وہ اہمیت نہیں دی‘ جس کی مستحق ان کی عظیم شخصیت تھی۔ الٹے ان کی شخصیت کو متنازعہ بنانے کی سوچی سمجھی سازش کی گئی۔ دراصل فضل حق خیر آبادی ان مسلمانوں کے لئے بھی سخت ناپسندیدہ شخصیت بن گئے تھے‘ جوسلطنت مغلیہ اور ہندو مسلم اتحاد واتفاق کے خلاف تھے اور ان کے بھی جو تاج برطانیہ کی غلامی سے نجات کی جدوجہد کو بغاوت اور غداری تصور کرتے تھے اور یہ کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ انقلاب 1857 کی ناکامی کے بعد اگلے سوبرسوں تک یہی عناصر ہرشعبے میں پھلتے پھولتے رہے اور ان ہی کا سکہ ہرجگہ چلتا رہا۔ اگر عربی فارسی کی قدیم کتابیں‘ مخطوطات ودستاویزات اور آثار قدیمہ کی صورت میں محفوظ سرکاری وغیر سرکاری تحریریں نہ ہوتیں‘ تو شاید اس عظیم مجاہد آزادی کانام بھی ہندوستان کی اگلی نسلوں تک نہیں پہنچتا۔
1857کی جنگ آزادی کو عموماً ایک وقتی ابال اور ایک غیر منظم عوامی شورش کہاجاتاہے‘ جبکہ اس جنگ میں سماج کا ہر طبقہ شریک تھا اورملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک سماج کے ہر طبقہ کا اتنے بڑے پیمانے پر شریک جنگ ہوجانا‘ کسی تحریک کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ اس انقلاب کی تپش سے ملک کا کوئی حصہ اور کوئی طبقہ اچھوتا نہ تھا۔ یہ صرف باغی سپاہیوں کی یلغار نہیں تھی‘ بلکہ اس میں کسانوں‘ زمینداروں ‘محنت کشوں اور کاریگروں سے لے کر تاجروں اور رؤساوامراء تک شریک تھے‘ جن کی قیادت علامہ فصل حق خیر آبادی‘ مولانا احمد اللہ شاہ مدراسی‘ مولانا فیض احمد بدایونی‘ نواب عظیم اللہ بیگ‘ جنرل بخت خاں‘ جنرل محمود خاں‘حافظ بہادر خاں ‘ نانا صاحب ‘ تاتیہ ٹوپے‘ مولانا کفایت علی کافی مراد آباد‘ مولانا رحمت اللہ کیرانوی‘ ڈاکٹروزیر احمداکبر آبادی مولانا لیاقت علی اور مفتی عنایت احمد کاکوری جیسے علماء‘ رؤسا اور جرنیلوں کے ہاتھوں میں تھی۔ اور ان میں سے کسی کا بھی جذبہ حریت اتفاقی اور وقتی نہ تھا۔
جہاں تک علامہ فضل حق خیر آبادی کا تعلق ہے‘ تو ملک و ملت اور امور سلطنت سے ان کی دلچسپی نئی نہیں تھی۔ ان کی سوچ اور ان کی قائدانہ حیثیت کا اندازہ صرف اس ایک واقعہ سے لگایاجاسکتا ہے کہ 1857سے تقریباً 30سال پہلے اکبر شاہ ثانی (متوفی 1837) کے عہد میں رعایائے دہلی کے نمائندے کی حیثیت سے انہوں نے بادشاہ کو ایک درخواست پیش کی تھی۔ اس میں حالات کی سنگینی کا ادراک کرانے کی بھرپور کوشش کی گئی تھی۔ غالباً1826میں پیش کی گئی اس درخواست کے مندرجات سے آپ کی دور اندیشی اور سیاسی بصیرت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ فارسی میں لکھی گئی اس درخواست کا خلاصہ یہ ہے:
یہاں کے باشندے ہندوہوں یا مسلمان‘ ملازمت ‘تجارت ‘زراعت ‘حرفت‘ زمینداری اور دریوزہ گری پرمعاش رکھتے ہیں۔ انگریزوں کی حکومت کے قیام سے معاش کے یہ تمام وسائل مسدود ومفقود ہوگئے ہیں۔ ملازمت کے دروازے شہریوں پر بند ہیں۔ تجارت پر‘انگریزوں نے قبضہ کرلیا ہے۔ کپڑا‘سوت‘ ظروف اور گھوڑے وغیرہ تک وہ فرنگ سے لے کر فروخت کرکے نفع کماتے ہیں۔ معافی داروں کی معافیاں ضبط کرلی گئی ہیں۔ کسانوں کو محاصل کی کثرت نے بدحال کردیا ہے۔ ان چاروں طبقوں کی زبوں حالت کے نتیجے میں اہل حرفہ اور ان سب کے نتیجے میں دریوزہ گرتنگی معاش کے شکار ہیں۔ دہلی میں ہوڈل وغیرہ بہت سے پرگنے جاگیر میں شامل تھے اور جاگیر داروں کے یہاں ہزاروں آدمی فوج‘انتظامی امور اور شاگرد پیشہ کی خدمت پر مامور تھے۔ اب یہ پرگنے اور دیہات ومواضعات انگریزوں نے ضبط کرلئے ہیں اور لاکھوں کسان بے روزگار ہو گئے ہیں۔ بیوائوں کی معاش چرخہ کاتنے ‘رسیاں بٹنے اور چکی پیسنے پر موقوف تھی۔ اب اسی کی تجارت حکومت(کمپنی) نے اپنے ہاتھ میں لے لی ہے اور ہاتھ کی چکیوں کی جگہ پن چکیاں لگ گئی ہیں‘ تو یہ ذریعہ معاش بھی جاتا رہا۔ عوام کی اس بے بضاعتی اور بے روزگاری سے اہل حرفہ اور ساہو کار بے روزگار اور رزق سے محروم ہوگئے ہیں۔ ان سب پر مستزاد چارلس مٹکاف نے یہ حکم دیا ہے کہ غریب زر چوکیداری اداکریں۔ دوسرا حکم یہ ہوا کہ ہر گلی کے دروازے پر پھاٹک لگایاجائے‘ جس کا کوئی فائدہ معلوم ومقصود نہیں ہے۔ تیسراحکم یہ ہوا ہے کہ ان پھاٹکوں کے کھلنے اور بند ہونے کے اوقات مقرر ہوں‘ جس سے بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ چوتھا حکم یہ ہوا ہے کہ ہر محلے میں پانچ پانچ بنچ مقرر کئے جائیں۔
اس درخواست سے جہاں علامہ فضل حق کی سیاسی بصیرت اور عوام کے مسائل ومشکلات پر ان کی گہری نگاہ کا ثبوت ملتا ہے‘ وہیں یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ 1857 کے انقلاب کے اسباب و عوامل کیاتھے اور اس جنگ میں ہر طبقہ کے لوگ کیوں کود پڑے تھے۔ 1857 کا ہنگامہ رونما ہوا‘ تو علامہ فضل حق الور میں تھے۔ وہ کئی سال پیشتر دہلی کو چھوڑ چکے تھے‘ لیکن جیسے ہی انہیں میرٹھ کی بغاوت اور دہلی کے حالات کی خبرہوئی‘ انہوں نے یہاں آکر انقلابیوں کی رہنمائی کا فرض نبھایا۔ ویسے بھی دہلی ان کا وطن تھا۔ ان کے غالب‘ ان کے آزردہ اور ان کے اہل وعیال یہیں تھے۔ حکیم احسن اللہ خاں نے اپنے روزنامچے میں لکھا کہ مولانا نے بہادر شاہ ظفر سے کہا تھا کہ آپ کے تمام ملازمین نااہل ہیں۔ کسی ہوشیارآدمی کو رسد کی فراہمی پر مامور کیجئے۔ مولوی ذکاء اللہ دہلوی لکھتے ہیں کہ جس تاریخ کو سپاہ آئی‘ دوسرے روز(12مئی 1857) کو قلعے میں اکابر شہر کی ایک مجلس مقرر ہوئی کہ شہر کا اور سپاہ کی رسد ورسانی کا انتظام کیاجائے۔ اگر بندوبست نہیں ہوگا‘ تو وہ سارے شہر کو لوٹ کر کھاجائیں گے۔ مولوی ذکاء اللہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ انہوں نے بادشاہ (بہادر شاہ) کے لئے ایک دستور العمل سلطنت لکھا تھا۔ دراصل آج کی اصطلاح میں آپ اسے بادشاہ کی کابینہ کا دستور کہہ سکتے ہیں۔ اسی دستور کی روشنی میں حکومت تشکیل پانا تھی۔ اس کے پہلے ہی جملے سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ نے اس انقلاب کو منظم تحریک کی صورت دینے کی کیسی کوشش کی تھی۔ ملاحظہ فرمائیں:
’’ازاں جاکہ واسطے رفع برہمی سررشتہ اور موقوفی بدانتظامی طریقہ فوجی وملکی کے مقرر ہونا دستور العمل کاواجب اور مناسب اور واسطے عمل درآمد دستور کے اولاً متعین ہونا کورٹ کا ضروری ہے‘ اس لئے حسب ذیل قواعد لکھے جاتے ہیں‘‘۔
یہ کورٹ دس ارکان پر مشتمل تھا‘ جن میں 6فوج کے نمائندے اور 4شہری تھے۔ اس کورٹ کے ارکان کو جوحلف اٹھانا پڑتا تھا‘ اس سے اس کے دائرہ کار اور حدود اختیارات کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔
ملاحظہ کریں:
’’ہرکام کو بڑی دیانت اور امانت سے بلارورعایت کمال جاں فشانی سے اور غوروفکر سے سرانجام کریں گے اور کوئی دقیقہ دقائق متعلقہ انتظام سے فروگذاشت نہ کریں گے۔ اور حیلۃً وصراحۃً اخذ اجر یارعایت کسی طرح وقت تجویز امور انتظام کورٹ میں نہ کریں گے‘ بلکہ ہمیشہ ساعی اور سرگرم ایسے انتظام امورات سلطنت میں مصروف رہیں گے کہ جس سے استحکام ریاست اور رفاہ اور آسائش رعیت ہو اور کسی اور مجوزہ کورٹ کو بے اجازت کورٹ اور صاحب عالم قبل اجرا اس کے صراحتہً یا کنایۃً کسی پر ظاہر نہ کریں گے‘‘۔
دراصل علامہ فضل حق خیر آبادی نے انقلاب 1857 کو کامیابی سے ہمکنار کرانے کے لئے اپنی تمامتر صلاحیتیں لگادی تھیں‘ اپنے جملہ وسائل‘ افراد خاندان اور خویش واقارب سب کو اس جنگ میں جھونک دیا تھاکیونکہ انہیں اس جنگ کی ناکامی کے نتائج کا احساس تھا۔ حکیم احسن اللہ خاں اپنی یاد داشت میں لکھتے ہیں کہ ’’مولوی صاحب( فضل حق) جب بھی بادشاہ کے پاس آتے‘ بادشاہ کو مشورہ دیتے کہ جہاد کی مہم میں اپنی رعایا کی ہمت افزائی کریں اور ان کے ساتھ باہر بھی نکلیں۔ فوجی دستوں کو حتی الامکان بہتر معاوضہ دیں‘ ورنہ انگریز جیت گئے‘ تو نہ صرف خاندان تیموریہ‘ بلکہ تمام مسلمان نیست ونابود ہوجائیں گے۔ (حکیم احسن اللہ خاں کی یادداشت /ایس معین الحق / پاکستان ہسٹوریکل سوسائٹی کراچی ‘ ص: 24 بحوالہ’علامہ فضل حق اورانقلاب۱۸۵۷(یس اخترمصباحی)دارالقلم دہلی ،ص۸۵)
لیکن بدقسمتی سے وہی ہوا‘ جس کا ان کو اندیشہ تھا۔ علامہ فضل حق اپنی یادداشت ’الثورۃ الہندیہ‘‘ میں خود لکھتے ہیں: بہت سے لشکر شہر مشہور‘ بلدمعمور‘مسکن آل تیمور‘ دارالسلطنت دہلی جاپہنچے۔ وہاں پہنچ کر ایک ایسے شخص کو ان سب نے اپنا سردار بنالیا‘ جو پہلے بھی ان کا آمروحاکم تھا‘ جس کے پاس اس کے ارکان دولت اور وزیر تھے‘ لیکن وہ خود ضعیف‘غمزدہ اور ناتجربہ کار تھا۔ سچ پوچھئے تو آمرو حاکم ہونے کے بجائے اپنی شریک حیات (زینت محل) اور وزیر(حکیم احسن اللہ خاں) کا مامور ومحکوم تھا۔ اس کا یہ وزیر‘ جو حقیقت میں نصاری ٰکا کارپرداز اور ان کی محبت سے غالی تھا۔ صحیح معنوں میں اپنے حاکم ووالی اورنصاریٰ کے دشمنوں کا بدترین مخالف تھا۔ یہی اس آمرو حاکم کے اہل خاندان کا حال تھا۔ ان میں سے بعض مقرب بارگاہ اور رازدار(شہزادہ مرزا مغل وغیرہ) بھی تھے۔ یہ سب کے سب جو جی چاہتا کرتے تھے اور وہ سردار ایسا ضعیف الرائے اورناتجربہ کار تھا کہ کچھ جانتا ہی نہ تھا۔ اس سے عجیب حرکتیں سرزد ہوتی تھیں۔ان حالات میں بعض شہرودیہات سے بہادر مسلمانوں کی ایک جماعت علماء زہاد اور ائمہ اجتہاد سے جہاد کے وجوب کا فتویٰ لے کر جدال وقتال کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی‘‘۔ ڈاکٹر ابواللیث صدیقی لکھتے ہیں کہ آخری مرتبہ جان کی بازی لگادینے پر آمادہ کرنے کے لئے ایک باقاعدہ فتویٰ جہاد جاری کیاگیا۔
باغی ہندوستان کے مصنف مولانا عبدالشاہد شیروانی(علی گڑھی) لکھتے ہیں: بادشاہ سراسیمہ تھے‘ شہزادوں کی لوٹ کھسوٹ اور تخت شاہی کی تمنائوں نے باہمی رقابت کا میدان گرم کر رکھا تھا۔ عمائدین شہر میں دو گروہ تھے۔ ایک بادشاہ کا ہمنوا اور دوسرا حکومت(کمپنی) کا بہی خواہ۔ فوجیوں میں طبع اور لالچ نے گھر کر لیا تھا۔ دو ایک جماعتیں مقصد اعلیٰ کو سامنے رکھے ہوئے تھیں۔ ایک جماعت مجاہدین کی تھی‘دوسری روہیلوں کی۔ یہ جنرل بخت خاں کی سرداری میں داد شجاعت دے رہی تھی۔ جنرل بخت خاں علامہ سے ملنے پہنچے۔ مشورہ کے بعد علامہ نے آخری تیر ترکش سے نکالا۔ بعدنماز جمعہ جامع مسجد میں علماء کے سامنے تقریر کی۔ استفتا پیش کیا۔ مفتی صدر الدین آزدہ صدرالصدور دہلی‘ مولوی عبدالقادر دہلوی‘ قاضی فیض اللہ دہلوی‘ مولانافیض احمد بدایونی‘ ڈاکٹر مولوی وزیر خاں اکبر آبادی‘ سید مبارک شاہ رام پوری نے دستخط کردئیے۔ اس فتوے کے شائع ہوتے ہی ملک میں عام شورش بڑھ گئی۔ دہلی میں نوّے ہزار سپاہ جمع ہوگئی تھی(بحوالہ مولوی ذکا ء اللہ) لیکن جنرل بخت خاں کی اسکیموں میں مرزا مغل آڑے آتے تھے۔ مرزا الٰہی بخش نے بادشاہ سے سرکارمیں معافی کا خط بھجوادیا تھا۔ مرزا مغل کی وجہ سے فوج میں پھوٹ پڑ گئی۔ جنرل بخت خاں کے لوگ بگڑ گئے۔ کمپنی کی فوج نے 14ستمبر 1857کو شہردہلی پر حملہ کردیا اور 19ستمبر کو مکمل طور پر انگریز قابض ہوگئے‘ لیکن علامہ نے ہمت نہیں ہاری۔ وہ پانچ دن تک بھوکے پیاسے اپنے مکان میں رہے۔ پھر رات کی تاریکی میں اپنے اہل وعیال کے ساتھ نکلے۔ کسی طرح دریائے جمنا پار کی۔ علی گڑھ پہنچے‘ وہاں سے اودھ کے لئے روانہ ہوئے‘ جہاں احمد اللہ شاہ مدراسی کے دم سے معرکہ جہاد گرم تھا۔ جنرل بخت بھی اپنی فوج کے ساتھ آگرہ اور روہیل کھنڈ ہوتے ہوئے اودھ کا رخ کرچکے تھے‘ لیکن بدقسمتی ان کا پیچھا کر رہی تھی۔ علامہ فضل خق خود الثورۃ الہندیہ میں لکھتے ہیں: نصاریٰ کی افواج کے باغیوں اور ہماری افواج کے متعدد لشکروں نے اپنے سابق ومعزول والی(واجد علی شاہ) کی بیگم اور اس کے ایک ناتجربہ کار و نا سمجھ لڑکے (برجیس قدر) کو امیر وحاکم بناڈالا۔ یہ لڑکا چھوٹا‘ ناتجربہ کار‘ نازپروردہ‘ ہمسنوں کے ساتھ کھیلنے والا اور دشمن سے لاپرواہ تھا۔ تدبیر امور مملکت ‘اجرائے احکام اور قیادت فوج کی صلاحیت نہ رکھتا تھا۔ اس کے اعیان سلطنت اور ارکان دولت سب کے سب نااہل‘ سست‘ بزدل‘ احمق‘ خائن اور غیر دیانتدار تھے‘‘۔
بہرحال بیگم حضرت محل‘ مولوی احمد اللہ شاہ مدراسی اور جنرل بخت خاں کی فوجوں کی شکست وپسپائی کے بعد علامہ کو 30جنوری1859 میں خیر آباد (اودھ) سے گرفتار کیاگیا۔ بغاوت کا مقدمہ چلا اور کالاپانی(حبس دوام بعبور دریائے شور) کی سزا سنائی گئی۔ ان کا مکان‘ زمین جائیداد‘ کتابیں اورہروہ چیز ضبط کرلی گئی‘ جو کسی استعمال میں آسکتی تھی۔الثورہ الہندیہ میں خود فرماتے ہیں: میرا جوتا اور لباس اتار کر موٹے اور سخت کپڑے پہنادئیے۔ نرم بستر چھین کر سخت اور تکلیف دہ بچھونا حوالے کردیا۔ گویا اس پر کانٹے بچھا دئیے گئے یا دہکتی ہوئی چنگاریاں ڈال دی گئیں۔ میرے پاس لوٹا‘پیالہ اور کوئی برتن تک نہ چھوڑا۔ ان حالات میںبھی علامہ فضل حق کی استقامت کا حال مولانا حسین احمد مدنی کی زبانی سنئے:
’’مولانا نے اپنے اوپر جس قدر الزام لئے تھے‘ ایک ایک کرکے سب رد کردئیے‘ پھر جس مخبر نے فتوے کی خبردی تھی‘ اس کے بیان کی تصدیق وتوثیق کی‘ فرمایا:’’ پہلے اس گواہ نے سچ کہا تھا اور رپورٹ بالکل صحیح لکھوائی تھی۔ اب عدالت میں میری صورت دیکھ کر مرعوب ہوگیا اور جھوٹ بولا۔ وہ فتویٰ صحیح ہے‘ میرا لکھا ہوا ہے او رآج اس وقت بھی میری وہی رائے ہے۔ جج بار بار علامہ کو روکتا تھا کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ مخبر نے عدالت کا رخ اور علامہ کی بارعب وپروقار شخصیت دیکھ کر شناخت کرنے سے گریز کرتے ہوئے کہہ دیا تھا کہ یہ مولانا فضل حق نہیں‘ وہ دوسرے تھے۔ علامہ کی شان استقلال کے قربان جائیے۔ خدا کا شیر گرج کر کہتا ہے:’’ وہ فتوی صحیح ہے‘ میرا لکھا ہوا ہے اور آج اس وقت بھی میری وہی رائے ہے‘‘۔
پورٹ بلیئر کے سپرنٹنڈنٹ کرنل ہوفٹن(Houghton) نے ایک بار کسی قیدی کو فارسی کا ایک مخطوطہ دے کر اس کی ضروری تصحیح کی گذارش کی۔ مولوی صاحب کو اس کی تصحیح میںدقت محسوس ہوئی۔ انہوں نے یہ کام علامہ فضل حق کے حوالے کردیا۔ علامہ نے نہ صرف اس کی تصحیح کردی‘ بلکہ اس میں ضروری اضافے اور حوالہ جات بھی درج کردئیے۔ مولوی صاحب نے جب وہ کرنل ہوفٹن کو واپس دیا‘ تو وہ حیران رہ گیا۔ اس نے دریافت کیا کہ انہوں نے یقینا مشکل کام مختلف کتابوں کے حوالوں کے ساتھ کیسے کیا۔ مولوی صاحب نے ساری حقیقت بیان کردی۔ کرنل ہوفٹن اسی وقت اٹھا اور علامہ فضل حق کے بیرک کی طرف چل پڑا۔ اس نے دیکھا کہ ایک سن رسیدہ ضعیف آدمی اپنے سرپر ایک ٹوکری اٹھائے ہوئے چلا آرہا ہے۔ یہ منظر دیکھ کر ہوفٹن کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے‘ جس کے بعد ہوفٹن نے ان کی معافی کی سفارش کی تھی اور ان کو اپنی نگرانی میںلے لیا تھا۔ پھر ان کی رہائی کا پروانہ بھی جاری ہوا‘ لیکن جس دن ان کے بیٹے شمس الحق رہائی کا پروانہ لے کر پورٹ بلیئر پہنچے‘ ان کوقیدوحیات سے رہائی مل چکی تھی‘ ان کاجنازہ جارہا تھا۔ کسی سے پوچھا کہ یہ کس کا جنازہ ہے‘ تو اس نے جواب دیا ’’یہ علامہ فضل حق خیر آبادی ہیں‘ ان کا کل ہی(12فروری 1861) انتقال ہوگیا تھا۔ اس طرح اس مومن کامل کو خالق ومالک نے انگریزوں کے اس آخری احسان سے بھی بچا لیا اور اس کے اس یقین وایمان کی لاج رکھ لی کہ’’ظاہری اسباب پر نظر ڈالتا ہوں‘ تو اپنی رہائی سے مایوس اور امیدوں کو منقطع پاتا ہوںلیکن اپنے رب عزیز ورحیم رئوف وکریم کی رحمت سے ناامید نہیں ہوں‘ وہی جابرفرعونوں سے عاجز ضعیفوں کو نجات دلاتا ہے۔وہی زخمی مظلومین کے زخموں کو اپنے رحم وکرم کے مرہم سے بھرتا ہے۔ وہ ہرسرکش کے لئے جباروقہار‘ہر ٹوٹے ہوئے دل کا جوڑنے والا‘ ہر نقصان رسیدہ فقیر کو کامیاب اور ہر دشوار کو آسان بنانے والا ہے‘‘۔ (الثورۃ الہندیہ)

علامہ فضل حق خیر آبادی
ایک نظر میں

علامہ فضل حق خیر آبادی (ولادت1797) علامہ فضل امام فاروقی خیر آبادی (متوفی 1824) صدرالصدور دہلی کے فرزند تھے‘جو معقولات میں اپنے وقت کے امام تسلیم کئے جاتے ہیں۔ علم منطق کی مشہور درسی کتاب ’مرقات‘ آپ ہی کی تصنیف ہے۔ فضل حق نے اپنے والد کے علاوہ شاہ عبدالقادر محدث دہلوی اور شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی سے درس لیا۔ 13سال کی عمر میں تکمیل علوم و فنون کے بعد درس و تدریس میں میں مصروف ہوئے۔ آپ کے درس کی بڑی شہرت ہوئی‘ لیکن 1825میں آپ نے سرکاری ملازمت اختیار کر لی۔ دہلی کی شاہی حکومت 1803اوراودھ کی نوابی حکومت 1801سے انگریزوں کے زیرنگیں آچکی تھی‘ لیکن برائے نام ہی سہی‘ معاہدہ کے تحت دہلی میں قانونی حکومت مغل بادشاہ اور اودھ میں نواب کی تھی۔ اور حکومت کے مناصب پرفائز افراد ان ہی حکومتوں کے اصل ملازم تھے‘ لیکن علامہ فضل حق نے حکام کا طریقہ خلاف مرضی پایا اور وہ مستعفی ہوگئے۔ نواب فیض محمدخاں رئیس جھجھر کو معلوم ہوا‘ تو انہوں نے اپنے پاس بلایا۔ وہ ایک عرصے تک وہیں رہے، پھر مہاراجہ الور کے یہاں چلے گئے۔ یہاں سے سہارنپور گئے۔ پھر ٹونک کے نواب وزیرالدولہ نے بلالیا۔ آخر میں لکھنؤ چلے آئے جہاں صدر الصدور کے عہدہ پر فائز تھے۔ وہ ایک عرصہ تک رام پور میں نواب یوسف علی خاں کے اتالیق اور محکمۂ نظامت اور پھر مرافعہ عدالیتن پر بھی مامور رہے۔ مشہور مجاہد آزادی مولوی احمد اللہ شاہ مدراسی سے ملنے کے بعد 1856میں وہ الور چلے گئے۔ آپ نے متعدد کتابیں تصنیف کیں‘ جن میں شرح سلّم، الھدیہ السعیدیہ، امتناع النظیر اور الثورۃ الہندیہ بہت مشہور ہیں۔ آخر الذکر 1857کے انقلاب سے متعلق ان کی یاد داشت پر مبنی ہے اور یہ ایک مستند تاریخی ماخذ تسلیم کی جاتی ہے۔ یہ یاد داشت انہوں نے کالا پانی میں تحریر کی تھی‘ جہاں سے مولانا مفتی عنایت احمد کا کوروی کے ساتھ ہندوستان پہنچی اور اس کو ان کے اپنے خلف الرشید مولانا عبدالحق خیر آبادی نے مرتب کیا۔ آپ کے کئی شاگرد اپنے دور کے مشاہیر علماء ہیں۔ 1857کا انقلاب شروع ہوا‘ تو آپ الور میں تھے دہلی آئے۔ جنرل بخت خاں روہیلہ جب چودہ ہزار فوج کے ساتھ بریلی سے دہلی پہنچا ‘تو علامہ نے جامع مسجد میں علماء کے سامنے تقریر کی۔استفتا پیش کیا‘ جس پر علماء نے دستخط کئے۔ جس کے بعد بقول مولوی ذکاء اللہ عام شورش بڑھ گئی، دہلی میں نوے ہزار سپاہ جمع ہو گئی۔ دہلی پر انگریزوں کا قبضہ ہونے کے بعد کسی طرح یہاں سے نکل کر اودھ پہنچے‘ جہاں 1859میں گرفتاری کے بعد آپ پر بغاوت کا مقدمہ چلا اور کالا پانی کی سزا ہوئی۔ 1861میں جزیرئہ انڈومان میں آپ کا انتقال ہوا اور وہیں مدفون ہوئے۔
آسماںان کی لحدپرشبنم افشانی کرے
حشر تک شان کریمی نازبرداری کرے

مصنف کے بارے میں

احمد جاوید

احمد جاوید اردو کے ممتاز صحافی، مصنف، مترجم اور کالم نگار ہیں۔ تاریخ و تمدن پر گہری نظر اور ادب و صحافت میں اپنے منفرد اسلوب سے پہچانے جاتے ہیں۔

مزید