عالم اسلام کا عوامی انقلاب اوراسرائیل کامستقبل؟

Table of Contents

احمد جاوید
مشرق وسطی کے ملکوںکی عوامی بیدار ی اور اس کے نتیجے میں آنے والی سیاسی تبدیلیوں کی اہمیت ومعنویت کا اندازہ آپ صدر امریکہ بارک ابامہ کے ان الفاظ سے لگاسکتے ہیں:’’پچھلے چھ مہینے میںہم نے مشرق وسطی اور شمالی افریقہ میںغیر معمولی تبدیلیاںعمل میں آتے ہوئے دیکھا۔چوراہے در چوراہے ،شہردرشہراورملک در ملک لوگ اپنے بنیادی انسانی حقوق کی بازیابی کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔دو حکمراں سبکدوش ہوگئے،مزید ان کی پیروی کر سکتے ہیںاوراگرچہ یہ ملک ہمارے ساحلوںسے طویل فاصلے پر واقع ہیںلیکن ہم جانتے ہیںکہ خود ہمارا اپنا مستقبل اور معیشت سلامتی کی قوتوںاورتاریخ ومذہب کے سروکاروں کے ساتھ اس خطے سے وابستہ ہیں‘‘۔
یہ اقتباس صدر ابامہ کے اس خطاب کی تمہید ہے جو انہوںنے۱۹ مئی۲۰۱۱کونیویارک میںامریکہ کی جیوش سوسائٹی کے ارکان کے سامنے کیا تھا۔اس سے دو دن قبل انہوںنے اپنے ایک بیان میںا سرائیل کو اپنی پالیسیوںپر نظر ثانی کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا تھاکہ خطے میںامن وسلامتی کے لئے اسرائیل اورفلسطین کی سرحدیں۱۹۶۷ء کی حدود کی بنیاد پرقائم ہونی چاہئے۔ جس پراسرائیل اور یہودیوں کی جانب سے بڑا شدیدرد عمل ہواتھا۔صدر امریکہ نے گویا صفائی پیش کرتے ہوئے اپنے اس خطاب میںاسرائیل اور یہودیوںکووقت کی نزاکت اورحالات کے تقاضوں کااحساس دلانے کی کوشش کی کہ مشرق وسطی اورشمالی افریقہ کے لوگوںنے اپنا مستقبل خود اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے۔ ایک طرف القاعدہ اور اس نوع کی انتہاپسند تنظیموںکا طلسم ٹوٹ چکا ہے تودوسری طرف زین العابدین بن علی،عبد اللہ علی الصالح اورحسنی مبارک جیسے امریکی کٹھ پتلیوں کے دن بھی لد چکے ہیں۔خلیفہ بن خلیفہ ،اسداورقذافی کے اقتدار کی چولیں ہل چکی ہیں۔آل سعود اورآل صباح لرزہ بر اندام ہیں۔ ایسے میںہمارے لئے اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنا ناگزیر ہے’’ پچھلے چھ ماہ کے واقعات نے ہم پر واضح کردیا ہے کہ لوگوں کو دبائے رکھنے اور انکی توجہ کو دوسری جانب موڑنے کی حکمت عملیاںاب مزید کارگر نہیںہونگی۔ سٹیلائٹ ٹی وی اورانٹر نیٹ نے وسیع تر دنیا کو دیکھنے کے لئے کھڑکی کھول دی ہے۔ہندوستان،انڈونیشیااور برازیل کی مانندحیرت انگیز ترقی کی حامل یہ دنیاسیل فون اور سوشل نیٹ ورکس کی بدولت نوجوانوں کو روابط قائم کرنے اور منظم ہونے کے جو مواقع فراہم کر رہی ہے وہ پہلے کبھی میسرنہ تھے اور اس طرح ایک نئی نسل ابھر آئی ہے جس کی آوازوں سے پتہ چلتا ہے کہ تبدیلیوںکوروکانہیںجاسکتا‘‘۔امریکہ کے اپنے مفادات اوراسرائیل کے تحفظ کے تئیںفکروتشویش کو صدرابامہ کے یہ الفاظ مزید واضح کرتے ہیںکہ ایک محفوظ اسرائیل کے لئے ’’دو مملکتیںوجود میںآنی چاہئیںجس میںاسرائیل، اردن اور مصر کے ساتھ فلسطین کی مستقل سرحدیںملتی ہوںاور اسرائیل کی مستقل سرحدیںفلسطین کے ساتھ ملتی ہوںاور اسرائیل اور فلسطین کی سرحدیں۱۹۶۷کی حدود کی بنیاد پرقائم ہونی چاہئیںجس میںباہمی رضامندی سے علاقوں کا تبادلہ ہو سکتا ہے‘‘۔صدرابامہ کے اس خطاب کواگر آپ اسرائیل کے صدرشمعون پیریز کے اس تازہ بیان سے جوڑکردیکھیںجو اس کے ایک ماہ بعد آیا ہے توحقیقت حال مزید واضح ہو جائے گی۔ کثیر الاشاعت اسرائیلی اخبارہاریتز کے مطابق صدرپیریز نے متنبہ کیا ہے کہ اگرامن مذاکرات میںتل ابیب کی جانب سے اسی طرح رکاوٹیںپیدا کی جاتی رہیںتواسرائیل کا یہودی ریاست کی حیثیت سے باقی رہناممکن نہیںہوگا۔پیریز کی رائے میںنتن یاہو حکومت نے اگر۱۹۶۷ کی سرحدوںپر واپسی کی تجویز کو ٹھکرایاتوپھراسرائیل نہ صرف پوری دنیا میںاچھوت ہوکررہ جائے گابلکہ اس کے لئے یہودی ریاست کے طور پراپنا وجودبرقرار رکھنا بھی ممکن نہ ہوگااوروہ ایک دو قومی ملک بن کر رہ جائے گا۔شمعون پیریز کا خوف یہ ہے کہ’’ آج کل جو کچھ ہو رہا ہے وہ امن مذاکرات میں رکاوٹیںپیداکرنے علاوہ کچھ نہیں۔بہت جلد ہم دیوارسے ٹکراکرپاش پاش ہوجائیں گے۔ہم بہت تیزرفتاری سے اسرائیل کے خاتمے کی طرف گامزن ہیں‘‘۔(ہاریتز،۱۷جون،تل ابیب)
ـــدراصل حال کے برسوں میں مسلمانوں کی آپسی دوریاںکم ہوئی ہیں، مسلک اور فرقوں، نظریات وعقائد کی دیواریں نیچی ہوئی ہیں۔ بہت سی گرہیں ڈھیلی پڑی ہیں۔ جس سے اسرائیل اورامریکہ دونوںخوفزدہ ہیں۔پچھلے دنوں مشہور مصری عالم دین یوسف القرضاوی نے ریاض (سعودی عرب) میں ایک سمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’میری خواہش ہے کہ سارے سلفی صوفی ہوجائیں اور سارے صوفی سلفی ہوجائیں۔‘‘کسی کو کیا معلوم تھا کہ ابھی ان کے اس قول کی باز گشت بھی ختم نہ ہوئی ہوگی کہ مصر کے لوگ سیلاب کی طرح سڑکوں پر اترآئیں گے اور مسلک ومذہب کی سرحدیں ان کو ایک ہونے سے روک نہ سکیں گی۔ یہاں تک کہ حسنی مبارک اور اس کے صیہونی آقائوں کی مصر میں عیسائی مخالف فسادات اور فرقہ وارانہ تشدد پھیلانے کی سازشیں بھی کام نہ آئیں گی۔
جہاںتک مسلم ممالک کی عوامی بیداری کا تعلق ہے تودنیائے عرب کو سیاسی، سماجی اور جغرافیائی طور پر تین حصوں میں بانٹ کردیکھا جاسکتا ہے:
1-جزیرۃ العرب کا وہ علاقہ جہاں سعودی عرب، عراق، کویت، یمن اور امارات واقع ہیں، اس خطے میں انقلاب کی لہریں زیادہ طاقتور نظر نہیں آتیں لیکن اضطراب سب سے زیادہ یہیں ہے۔ القاعدہ اسی خطے میں زیادہ مضبوط و متحرک ہے۔ تیل کی دولت اور سیاسی ودینی قیادتوں کے مضبوط گٹھ جوڑنے یہاں جمہوریت پسند قوتوں کو دبارکھا ہے لیکن جہاں بھی اس کی گرفت ڈھیلی پڑرہی ہے، وہ ابھر کر سامنے آرہی ہیں، بحرین، یمن اورسعودی عرب کے بعض علاقوں کی صورت حال اسی حقیقت کی غماز ہے۔
2- دوسرا حصہ وہ ہے جہاں دنیائے عرب کے قدیم تہذیبی وثقافتی مراکز واقع ہیں مصر، شام، فلسطین اور اردن۔ اسی خطے میںعالم اسلام کا ناسور اسرائیل واقع ہے۔ یہی علاقہ عرب قومیت کی تحریکوں کا میدان عمل رہا ہے۔ یہاں کے لوگ سیاسی اعتبار سے نسبتاً بیدار ہیں۔
3-تیسرا حصہ مغرب کا ہے جو مراقش، لیبیا، تیونس، موریطانیہ اور شمالی افریقہ کے دوسرے عرب ممالک پر مشتمل ہے۔ اس خطے میں جمہوریت کی لہر سب سے زیادہ مضبوط اور تیز ہے کیونکہ یہاں مسلکی منافرت اور بٹوارے کم ہیں۔ یہ ممالک یوروپ سے قریب ہیں اور یہاں صوفیا کے اثرات زیادہ ہیں۔
پچھلی صدی میںعالم اسلام میں فوجی انقلابات کا سلسلہ مصر کے انقلاب کے بعد تیز ہوا تھا۔ پہلے جمال عبدالناصر آئے، پھر بغداد، شام ، لیبیا اور یہاں تک کہ پاکستان میں فوجی جرنیلوں نے حکومتوں کے تختے پلٹے۔ یہی جرنیل اس وقت مسلم قوموں کے ہیرو تھے۔ میرا خیال ہے کہ یہ ہوا ترکی سے چلی تھی جہاں ایک فوجی انقلاب نے خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کرکے ترکی کو جدید سیکولر ملک بنادیا تھا۔اس کے بیس پچیس سال بعد ایک ایک کرکے مختلف ملکوں کی فوجوں نے حکومت کے تختے پلٹ دیے۔پوراعالم عرب سیاسی وغیرسیاسی انتشاراورقسم قسم کے ٹکراؤکاشکارہوگیا جسکافائدہ اسلام دشمن طاقتوں نے اٹھایا۔ یہ محض اتفاق ہے کہ جمہوریت کی یہ تازہ ہوا بھی عالم اسلام میں ترکی سے چلی ہے۔ جہاں پچھلے عشرہ میں اسلام پسندوں کی حکومت اقتدار میں آئی اور ایک طویل جدوجہد کے بعد اقتدار پر فوج کی گرفت ڈھیلی پڑی۔ اس وقت وہاں آئینی اصلاحات روبہ عمل ہیں اور ترکی میں 12جون (2011) کو ہونے والا عام انتخاب ’نئے جمہوری آئین‘ کے موضوع پر ہوا ہے۔ اسلام پسندوں کی جماعت انصاف و ترقی پارٹی (اے کے پی) بھاری اکثریت سے منتخب ہوکرتیسری بار اقتدار میںآچکی ہے۔آئین میںترمیم کے لئے گرانڈاسمبلی میں۲۶۷سیٹیںدرکارتھیں۔اے کے پی اس ہدف کو تو نہ پاسکی لیکن ملک کے ۸۱میںسے۶۶صوبوں میںکامیاب ہوئی ہے اور۵۵۰کے ایوان میں۳۲۷نشستیںحاصل کی ہیں۔ یہ وہی ترکی ہے جہاں کل تک کمال اتاترک کے نافذ کردہ آئین کے خلاف زبان پرکوئی حرف لانا بھی ناقابل معافی جرم تھا۔ ترکی کی اس تبدیلی نے مشرق وسطیٰ کے اسلام پسندوں کو بھی متاثر کیا ہے اور وہ اب جمہوری طریقے سے تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔ ایران میں اسلامی جمہوریت کی کامیابیوں نے بھی عرب نوجوانوں کو متاثر کیا ہے۔ وہ جب ان عجمی حکمرانوں کو مغربی طاقتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کربات کرتے دیکھتے ہیں تو اپنے حکمرانوں پر ان کا غصہ اور بھی شدید ہوجاتا ہے۔اورکہنے کی ضرورت نہیںہے کہ اس غیظ وغضب کا سب سے بڑاسبب اسرائیل اور اسکاناجائزوجود ہے۔

مصنف کے بارے میں

احمد جاوید

احمد جاوید اردو کے ممتاز صحافی، مصنف، مترجم اور کالم نگار ہیں۔ تاریخ و تمدن پر گہری نظر اور ادب و صحافت میں اپنے منفرد اسلوب سے پہچانے جاتے ہیں۔

مزید