راہل،انا اور میں

Table of Contents

انا کاموازنہ گاندھی اور جے پی کی بجائے ونوبابھاوے سے کیا جانازیادہ مناسب ہے جن کی بھودان تحریک نے کانگریس کے سنڈیکیٹ کے مقابلے انڈیکیٹ کی زمین تیار کی تھی

فکرفردا
میں نہیں چاہتا کہ انا ہزارے آج کے جے پرکاش ناراین بنیںاور انکی تحریک سے فرقہ پرست عناصرکوئی فائدہ اٹھائیں،میری خواہش تھی کہ راہل گاندھی ’سنڈیکیٹ ‘ کی گرفت سے باہر آئیں اوروہ ملک کے عوام کے دلوں کی دھڑکن بن جائیں۔اور یہ اس کے لیے ایک سنہری موقع تھاجوکانگریس نے گنوا دیا۔

ٓاحمد جاوید
اس دن راہل گاندھی پارلیمنٹ میںوقفہء صفر کے دوران کھڑے ہوئے تومیرے دل نے کہا کہ وہ وہی کریںگے جو آج سے بیالیس سال پہلے ان کی دادی نے کیا تھا، جی چاہتا تھا کہ کانگریس کے لیڈروں اور ممبران پارلیمنٹ سے راہل بھی وہی کہیں جو ۱۹۶۹ء کے اگست میںان سے اندرا گاندھی نے کہا تھا۔لیکن آرزو تو پھرآرزو ہے ، اتنی آسانی سے کب پوری ہوتی ہے۔یہ پارلیمنٹ میں راہل کی پہلی باضابطہ تقریرتھی۔وہ اس کے ساتھ انا ہزارے کی بھوک ہڑتال اور لوک جن پال بل پر اپنی خاموشی توڑ رہے تھے۔ یہ ان کے لیے اس تحریک پراپنا موقف پیش کرکے ملک کے عوام کا دل جیت لینے کا ایک بہترین موقع تھا جس نے پورے دیس کوبے چین کر رکھا ہے ، پارلیمنٹ ہی نہیںپورا ملک ہمہ تن گوش تھا اوروہ اس موقع کا استعمال کرنا چاہتے تھے۔آج ان کے ساتھ ان کی بہن پرینکا بھی آئی تھیں جو عام طور پرپارلیمنٹ کے کسی اجلاس میں اس طرح نہیں آتیں۔ظاہر ہے کہ وہ پوری تیاری سے آئے تھے۔وہ پالیمنٹ میں بولے اور خوب بولے، محنت سے تیار کی گئی ان کی اس تقریر نے لوگوں کو متأثر بھی کیا،تالیاں بھی بجیں،حزب اختلاف نے ہنگامہ بھی کیااور اب اس پرباتیں بھی ہورہی ہیں۔لیکن راہل گاندھی نے مجھے مایوس کیاہے۔
ذاتی طور پرراہل گاندھی کی شخصیت نے مجھے کبھی متأثرنہیں کیا۔مجھے ان میںملک کے ایک سب سے بڑے سیاسی خاندان کا چشم وچراغ ہونے کے علاوہ کوئی خوبی نظر نہیں آتی جو ان کوملک کے وزیراعظم کی کرسی کا مضبوط امیدوار بناتی ہولیکن پھر بھی میں انا ہزارے کے بجائے راہل گاندھی کو ملک کے عوام بالخصوص نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن دیکھنا چاہتا تھا۔میں نہیں چاہتا کہ انا ہزارے آج کے جے پرکاش ناراین بنیںاور انکی تحریک سے فرقہ پرست عناصرکوئی فائدہ اٹھائیں،میری خواہش تھی کہ راہل گاندھی ’سنڈیکیٹ ‘سے باہر آئیں اوروہ ملک کے عوام کے دلوں کی دھڑکن بن جائیںاور یہ اس کے لیے ایک سنہری موقع تھاجوکانگریس نے گنوا دیا۔
ارہل کی طرح اندرا گاندھی بھی اپنے والد پنڈت نہرو کی سیاسی وارث تھیں۔لال بہادر شاستری کی اچانک موت کے بعد ان کو ملک کا وزیر اعظم بنوانے میں کامراج اور انکے ساتھیوں کا بڑا اہم رول تھا۔لیکن ڈاکٹر ذاکر حسین کی موت کے بعدصدر جمہوریہ کے انتخاب میں کانگریس کے امید وار کے بجائے وی وی گری کی حمایت کرکے وہ نہ صرف پارٹی کے اندر ایک طاقتورلیڈر بن کر ابھری تھیں بلکہ ملک کے عوام کے دلوں کی دھڑکن بن گئی تھیں۔اندرا گاندھی نے پارٹی کے فیصلے کے خلاف صدر جمہوریہ کے انتخاب میں پارٹی کے ممبران پارلیمنٹ واسمبلی سے ضمیر کی آوازپر ووٹ دینے کی اپیل کی تھی۔ بہ غور دیکھیں توآج ممبران پالیمنٹ پر اس سے کہیں زیادہ واجب ولازم ہے کہ وہ اپنے ضمیر کی آواز سنیںاور اسی کے مطابق فیصلہ لیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ ان کے ضمیر کو بیدار کرے تو کون؟یہ راہل کر سکتے تھے لیکن وہ چوک گئے۔کانگریس میں آج بھی وہی حالات ہیںجو ۱۹۶۹ء میں تھے۔آج بھی کانگریس کو’ سنڈیکیٹ ‘چلارہاہے،جس نے اپنی ناسمجھی سے ملک میں ٹکراؤ کاماحول پیدا کردیا ہے ، کرپشن جیسے مسئلے پرملک کے عوام اورپالیمنٹ کو آمنے سامنے لاکھڑاکیاہے ۔ انا نے زمیں ہموار کردی تھی،راہل چاہتے تو اس سے ملک کو نکال سکتے تھے،ملک کے عوام ان کوامید کی نظروں سے دیکھ رہے تھے،وہ ان کو ایک قابل اعتماد،پر عزم وجواں سال قیادت دے سکتے ہیں،ان کے جذبات کو زبان دے سکتے تھے۔لیکن وہ اس حوصلہ سے کام نہ لے سکے جس کی ایسے موقعوں پر ضرورت ہوتی ہے۔سوال صرف یہ نہیں ہے کہ راہل گاندھی نے ایسا کیوں نہیں کیا،مشکل تو یہ ہے کہ عوامی جذبات کی جس لہر پرراہل سوار ہو سکتے تھے،اس پرآا یس ایس کے جیالے سوار ہوجائیں ،یہ خطرہ مزید بڑھ گیا ہے۔
انا ہزارے کاموازنہ ایک طرف گاندھی اور جے پی سے کیا جارہاہے تودوسری طرف راہل سے ۔کہا جارہاہے کہ جو کام برسوں کی بھاگ دوڑ میں راہل نہ کرسکے،وہ انا نے یوں کر دکھایا۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ انا ہزارے نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن بن گئے ہیں،وہ ان کی حمایت میں ہزاروں کی تعداد میںسڑکوں پر اتر رہے ہیں۔اپنے سینے اور اپنے ماتھے پر ’میں انا ہوں ‘کی پٹی لگاکر گھوم رہے ہیں۔ان پر جانیں قربان کر رہے ہیں،خود سوزی جیسا انتہائی قدم اٹھارہے ہیں،انا بھی اس سے بے حد خوش ہیں۔ اس کے محرکات وعوامل سے قطع نظراس کے پیغام کو سننے، سمجھنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پرکانگریس کے منصوبہ سازوں کو چاہیے کہ وہ اس پر پوری سنجیدگی سے غورکریں۔انا کاموازنہ گاندھی اور جے پی کی بجائے ونوبابھاوے سے کیا جانا چاہیے جن کی بھودان تحریک نے کانگریس کے سنڈیکیٹ کے مقابلے پر انڈیکیٹ کی زمین تیار کی تھی۔ ۱۹۶۷ء کے انتخابات میں کانگریس کی حالت انتہائی پتلی تھی۔پارٹی بے جان ہوچکی تھی،لوگوںکے دلوںمیں اس کے سرمایہ داروں کی پارٹی ہونے کا خیال راسخ ہوچکاتھا۔پہلی باروہ کئی ریاستوں میںاقتدار سے بے دخل ہوگئی تھی۔اندرا گاندھی کے مقابلے سنڈیکیٹ کی شکست اورپارٹی کے بٹوارے کا اثر یہ ہواکہ اس میں نئی جان آگئی،غریبوںاور اقلیتوں میںکانگریس کے تئیںاعتمادپیدا ہوا۔اور یہ دونوں طبقات کانگریس کے ساتھ مضبوطی سے جڑے جس کا ۱۹۷۱ء کے انتخابات میں فائدہ ہوا۔کانگریس کی تاریخ اور اندرا گاندھی کی سیاسی زندگی پر نظر رکھنے والے کسی طفل مکتب کوبھی بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ۷۱ء کی کامیابی میںونوبابھاوے اوران کی بھودان تحریک کا کیا کردارتھااورغریبوں میں زمین کی تقسیم ،بینکوں کو قومیانے کے فیصلے اورغریبی ہٹائو کے نعرہ نے ملک کی سیاسی فضا کس طرح بدل دی تھی۔یہ بھی سچ ہے کہ آرایس ایس نے اپنے اکھڑے ہوئے قدموں کو جمانے کے لیے ونوبابھاوے اور بھودان تحریک کو استعمال کرنے کی کوشش کی اوراسے اس میں کسی حد تک کامیابی بھی ملی لیکن جو غلطی انا ہزارے کے ساتھ منموہن حکومت کر رہی ہے اگروہی اندرا گاندھی نے ونوبا کے ساتھ کیا ہوتاتوان کوآر ایس ایس کی طاقت بننے سے کون روک سکتاتھا۔ گئوکشی کے خلاف ونوبابھاوے کا آمرن انشن اب بھی بہت سے لوگوں کو یاد ہوگا،آرایس ایس نے ٹکرائو کی وہی فضابنانے میں کون سی کسر اٹھا رکھی تھی،جوآج کرپشن اوراناہزارے کی بھوک ہڑتال پربنا نے میں لگی ہوئی ہے لیکن وہ اندراگاندھی تھیں جنہوں نے ونوبا کوآرایس ایس کی طاقت بننے نہیں دیا تھا اور یہ منموہن سنگھ اوران کا سنڈیکیٹ ہے جو انا ہزارے کوآر ایس ایس کی طاقت بنانے پر تلا ہواہے۔

مصنف کے بارے میں

احمد جاوید

احمد جاوید اردو کے ممتاز صحافی، مصنف، مترجم اور کالم نگار ہیں۔ تاریخ و تمدن پر گہری نظر اور ادب و صحافت میں اپنے منفرد اسلوب سے پہچانے جاتے ہیں۔

مزید