احمد جاوید
فکر فردا
ٓٓ یہ محض اتفاق ہے کہ جس وقت اروند کیجریوال وشو ہندو پریشد کے اس دعوے کی تردیدکررہے تھے کہ رام لیلا میدان میں انا ہزارے کی ستیا گرہ کے دوران کھانے پینے کے انتظامات پریشد کے لوگوں نے سنبھال رکھے تھے ،عین اسی وقت ’انقلاب‘ کے ایک قاری راقم الحروف سے یہ دریافت کر رہے تھے کہ ونوبا بھاوے اور ان کی بھودان تحریک کو آر ایس ایس نے اپنے کازکی تکمیل کے لیے کس طرح استعمال کیا تھا؟اور تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے ان کو میرے لیے یہ سمجھا پانامشکل تھا کہ ونوبا بھاوے ایک بیحد سیکولر،سوشلسٹ ،گاندھیائی رہنما تھے،وہ اہنسا اور انسانیت کے اصولوں پر مرتے دم تک قائم رہے،سماج کے اس آخری شخص کی زندگی میںآزادی کی روشنی پہنچانا ان کی زندگی کاواحد نصب العین تھا، جس کی زندگی میں آزادی کی کرن نہ پہنچی تو گاندھی جی کی نظر میں آزادی ادھوری تھی، اپنی ایک ایک سانس انہوںنے گاندھی جی کے اصولوں کے لیے وقف کردی تھی، آرایس ایس اوراس کی انتہا پسندانہ ثقافتی قوم پرستی کے سخت خلاف تھے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ آر ایس ایس نے ان کی تحریک کو اپنے کاز کی تکمیل کے لیے استعمال کیا۔ در اصل پچھلے ہفتے ان ہی کالموں میں عرض کیا تھا کہ اندرا گاندھی نے بہ مشکل تمام ونوباکو سنگھ پریوار کی طاقت بننے سے بچا لیا تھا ورنہ اس وقت کی کانگریس قیادت نے ان کو اور ان کی تحریک کو فرقہ پرستوں کے پالے میں دھکیلنے میں کون سی کسر اٹھا رکھی تھی۔ کانگریس کی روایتی سوچ اور ’سنڈیکیٹ‘ کو توڑ کر اندرا گاندھی ایک مقبول عام لیڈر بن کر ابھری تھیںاور کانگریس میں نئی روح پھونک دی تھی۔اناکا موازنہ گاندھی اور جے پی سے نہیں ونوبا بھاوے سے کیا جانازیادہ مناسب ہے۔
اروند کیجریوال کہہ رہے تھے کہ وی ایچ پی کا بیان گمراہ کن ہے۔یہ ان کی تحریک کو بدنام کرنے کی سازش کا حصہ ہے۔ تحریک جب آگے بڑھی اور بھیڑ بڑھ گئی تو افراد اور جماعتوں کی ایک بڑی تعداد نے ان سے رجوع کرنا شروع کیا۔وہ لوگوں کے لیے کھانے کے اسٹال لگانا چاہتے تھے۔میرے پاس ایسی دس تنظیموں کی فہرست ہے جنہوں نے وہاں یہ اسٹالز لگائے تھے لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ کون کون سی تنظیمیںتھیں اور ان افراد کے نام کیا ہیں ؟ اب اگر اشوک سنگھل یہ دعوی کر رہے ہیں کہ وشو ہندو پریشد نے کھانے کے اسٹالز لگوائے تھے اورکے این گو ونداچاریہ کہہ رہے ہیں کہ وہاں جو لوگ موجود تھے ان میں بڑی تعداد آر ایس ایس کے کارکنان کی تھی تواس پربوکھلانے کی بجائے سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔بھیڑ گھس کر مقصد حاصل کرنا آر ایس ایس اک نیا وطیرہ نہیں ہے ۔گاندھی جی کے قتل کے بعد آر ایس ایس پرجب زمینیں تنگ ہوگئیں تواس کے لیڈروں اور پرچارکوں نے اسی طرح ونوبا بھاوے کی بھودان تحریک میںگھس کرنہ صرف اپنے سیاسی وسماجی وجود کو بچایا بلکہ بڑی چالاکی سے نئی زمینیں ہموار کیں۔فرق صرف یہ ہے کہ اس وقت کسی اشوک سنگھل کی ہمت نہیں تھی کہ وہ یہ دعوی کرتا کہ سروودیہ کے سالانہ اجتماع میںآر اسے ایس کے کتنے کارکنان شریک تھے۔ اسی طرح ۱۹۷۰ء کی دہائی میں اس نے سوشلسٹوں کے کندھوںپر سوار ہوکراپنا سیاسی قدبڑھایا۔ لیکن اس کے لیے ونوبا بھاوے یا جے پرکاش نارائن کو دوش دینا سراسر حماقت ہوگی،یہ کانگریس کی ناکامی اور اس کی ضد تھی جس نے فرقہ پرستوں کوان سے فایدہ اٹھانے اورعوامی جذبات کااستحصال کرنے کا موقع دیا۔ بدقسمتی سے کانگریس ہر اس طاقت کو اپنے لیے خطرہ سمجھ لیتی اور اپنا دشمن بنالیتی ہے،جس کے ساتھ عوامی حمایت ہو اورجو اسکے اشارے پر ناچنے سے انکار کردے۔ورنہ کوئی وجہ نہیں تھی کہ غریبی یا کرپشن جیسے مسئلے پر ٹکراؤ کا ماحول پیدا ہوتا، اورفرقہ پرست طاقتیںاس کا استحصال کرتیں۔
ونوبا بھاوے گاندھی جی کے ان پیروکاروں میں سے تھے جنہوں نے کسی بھی حالت میں ان کے اصولوں سے کبھی سرمو انحراف نہیں کیا۔وہ جنگ آزادی کے دوران ۱۹۳۲ء میں جیل گئے تو قیدیوں کو مراتھی زبان میں گیتا کا پاٹھ پڑھایا،گیتا کے وہ اسباق بعد میں Talks On Geeta کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہوئے اور علمی حلقوں میں قدر کی نگاہوں سے دیکھے جاتے ہیں۔گاندھی جی نے ۱۹۴۰ء میں ان کو برطانوی سامراج کے خلاف پہلے انفرادی ستیاگرہی کے طور پر چنا تھا۔انہوںنے گیتا ہی نہیں،بائبل اور قرآن کاتعارف بھی تحریر کیا ۔The essence of Quran ان کی مشہور کتابوں میں سے ایک ہے۔سابرمتی آشرم میں ان کی کٹیا آج بھی موجود ہے۔انہوں نے سروودیہ تحریک منظم کیا اور اسی تحریک کی کوکھ سے۱۹۵۱ء میںبھودان تحریک نے جنم لیا۔وہ ۱۳ سال تک ملک بھر میں پیدل گھومتے رہے اورملک کے الگ الگ کونوں میں ۶ آشرم قائم کیے۔انکی بھودان تحریک ۱۹۵۷ ء تک شباب پر پہنچ چکی تھی ۔آگے چل کر یہ گرام دان تحریک میں بدل گئی اوریہ ۱۹۷۴ ء تک جاری رہی۔انہوں نے ایک ہزار سے زائد بھودان گرام بسائے اور اس تحریک کے تحت بے زمینوںمیں دس لاکھ ایکڑ زمینیں بانٹیں گئیں۔گاندھی اور مارکس کے اصولوں میں ہندوستان کا مستقبل دیکھنے والا یہ سنیاسی سیکولر بھارت کی طاقت تھا نہ کہ آر ایس ایس کی۔اندرا گاندھی نے اس حقیقت کواس وقت سمجھا جب ان کو ہندوتوکی طاقت بنانے کی سازشیں شباب پر تھیں۔غریبی ہٹاؤ کے نعرے اور بینکوں کو قومیانے کے ساتھ ونوبھاوے کا آشیرواد حاصل کر کے کانگریس میں نئی روح پھونک دی۔ونوبا بھاوے آر ایس ایس کے کتنے سخت مخالف تھے اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتاہے کہ انہوں نے اندرا گاندھی کی ایمرجنسی کی نہ صرف حمایت کی تھی بلکہ اسے انوشاسن کا پرب کہا تھا جبکہ کل تک اسی ونوبا اور اس کی بھودان تحریک کے کندھوں پر آر ایس ایس سوارتھی اور دنیا جانتی ہے کہ ان کے گئوکشی مخالف آمرن انشن سے اندرا گاندھی نے کس طرح نبٹا تھا ۔ٹائم میگزین نے اپنے ۲۹اگست۱۹۶۹ء کے شمارے میںکانگریس کے صدارتی امیدوارنیلم سنجیواریڈی کے مقابلے پراندرا گاندھی کے حمایت یافتہ امیدوار وی وی گری کی جیت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا:اندرا نے سنڈیکیٹ کوچنوتی دی اورڈرامائی کامیابی حاصل کی ۔یہ نئی اور پرانی نسلوں کا ٹکراؤتھاجو پچھلے ماہ کھل کر سامنے آیا۔سنجیواریڈی راجیہ سبھا کے اسپیکر اوروزیراعظم کی کرسی کے پرانے دعویدارہیں ،صدر جمہوریہ کی کرسی کے لیے کانگریس کے امیدوار تھے۔گاندھی نے ۱۴بڑے بینکوںکو قومیالیا۔سنڈیکیٹ کے اسٹالوارٹ مرارجی کو(نائب وزیراعظم کی)کرسی چھوڑنے پرمجبور کردیا۔صدر کے چناؤ سے صرف ۵دن پہلے وہ کھل کرسامنے آگئی تھیں یہ پارٹی ڈسپلن کی غیرمعمولی خلاف ورزی تھی۔کانگریس کی مجلس عاملہ کے ۲۱ممبروںنے اندرا گاندھی کو پارٹی سے نکال دیا تھا۔لیکن اس کے لیے اے آئی سی سی کے۷۰۰ مندوبین کی تائید ضروری تھی۔
اندرا گاندھی نے ۱۹۶۹ء کے صدارتی انتخاب سے ۵دن پہلے رائے دہندگان یعنی ممبرا ن پارلیمنٹ واسمبلی سے کھل اپیل کی تھی کہ وہ ضمیر کی آواز پر ووٹ دیں،جن ممبران کے بارے اندیشہ تھا کہ وہ سنڈیکیٹ کے اثر میں ہیں،ان کے حلقہ انتخاب تک میں جاکرتقریریں کی تھیں تاکہ ان کا ضمیر بیدار ہوجائے۔ضمیر کی آواز میں کتنی طاقت ہوتی ہے اسکا اندازہ ’ٹائم‘ کے اسی ایک جملہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ پورے سنڈیکیٹ کے مقابلے پر یہ اندرا گاندھی کی غیرمتوقع ڈرامائی کامیابی تھی۔
ونوبا اور انا میں کئی مماثلتیںہیں۔ونوبا کا تعلق بھی مہاراشٹر سے تھااور انا ہزارے بھی مہاراشٹر کے رہنے والے ہیں۔دونوں میں کوئی برابری نہیں ہے لیکن وہ بھی گاندھیائی تھے یہ بھی گاندھیائی ہیں،انہوں نے بھی غریب کسانوں، مزدوروںاوربے زمینوں کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی تھی،یہ بھی گاؤں اور غریبوں کی لڑائی لڑتے آئے ہیں ،جن لوک پال بل پرسرکار کے جھک جانے کے بعدبہ ظاہر تنازعہ ختم ہو گیا ہے لیکن یہ خطرہ مزید بڑھ گیا ہے کہ ان کی تحریک کے کندھوں پرفرقہ پرست طاقتیں سوار ہوجائیں۔اس خطرے سے نبٹنا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔جو ٹکراؤ سے نہیں، حکمت عملی سے ممکن ہے۔اروند کیجریوال کی اور باتوں میں کتنا دم ہے،ہم نہیں جانتے لیکن اس کی یہ بات سولہ آنے سچ ہے کہ’’ وہ ایک بہت بڑی بھیڑ تھی۔یہ ممکن ہے کہ اس میں آر ایس ایس کے ارکان بھی رہے ہوں، اوران میںکانگریس اور بی ایس پی کے لوگ بھی تو ہو سکتے ہیں۔‘‘ اس وقت انا ہزارے اور ونوبا بھاوے جو سب سے بڑی مماثلت ہے،وہ یہ ہے کہ انا میں اب بھی کانگریس کی طاقت بننے کے امکانات موجود ہیں ، بشرطیکہ کانگریس کی قیادت اس حقیقت کو سمجھے اور ان کو زبردستی دوسرے پالے میں نہ دھکیلے۔