اکیسویں صدی کاپانی پت اورمکھیوں کی جنگ

Table of Contents

احمد جاوید
پانی پت کی پہلی جنگ شروع ہوئی تو ایک طرف بہ مشکل تمام تین ہزار سپاہی، چند سو گھوڑے اور چند توپیں تھیں اور دوسری جانب ایک لشکر جرار تھا جن کے سپاہیوں کی صفیں تاحد نگاہ پھیلی ہوئی تھیں، اس لشکر کے گھوڑوں، اونٹوں اور خچروں کو توجانے دیجئے اس کے ہاتھیوںکی تعداد تین ہزار سے زائد تھی جن پر آزمودہ کار تیر انداز تعینات تھے جن کے نشانے خطا نہیں کرتے۔ ایک فرق اور بھی تھا۔ بابر کے تین ہزار سپاہی باہر سے آئے تھے، وہ حملہ آور اور پردیسی تھے جبکہ ابراہیم لودی کا لشکر جرار اپنے وطن میںتھا اور اسے اس سرزمین پر ہر قسم کی امدادوسہولیات حاصل تھیں۔کہتے ہیں کہ توپ کے گولوں سے سلطنت دہلی کی فوج کے ہاتھی گھوڑے بدک گئے۔ اپنے ہی سواروں او راپنے ہی لشکر کے سپاہیوں کو کچلنے لگے لیکن پھر بھی اس لشکر جرار کے سامنے بابر کے تین ہزار سپاہیوں کی بساط ہی کیا تھی ۔وہ تو کہئے کہ اس کے ایک سپاہی کا تیر ہاتھی پر سوار بادشاہ کو لگا اور زخمی ابراہیم لودی بے قابو ہاتھی کی پیٹھ سے زمین پر آگرا۔سلطان کی فوج دوبارہ سنبھلنے لگی تھی ،بابر کو اپنی شکست صاف نظر آرہی تھی ،اتنے میں اس کے کسی سپاہی نے آگے بڑھ کر زخمی بادشاہ کا سر قلم کیا اور اسے نیزے پر بلند کردیا ۔اتنی سی بات تھی جس نے بادشاہ کی فوج کے پیراکھا ڑدیئے اور حملہ آور فوج کا سردار ،غزنی کی چھوٹی سی ریاست فرغانہ کا امیر، مرزا عمر شیخ کا بیٹا اور جانشین ظہیر الدین محمد بابر بادشاہ کی جگہ لینے میں کامیاب ہوگیا۔
عہد حاضر کا پانی پت نائن الیون کے بعد افغانستان کے تورا بورا میں برپا ہوا ۔فرق یہ تھا کہ یہاں حملہ آور طاقتیں لشکر جرار لے کر آئی تھیں وہ دنیا کی طاقتور ترین افواج کے بہترین اور آزمودہ کار جرنیلوں کی قیادت اور جدید ترین ہتھیاروں سے لیس تھیں اور ان کے مقابلے پر تھے مٹھی بھر نہتے طالبان۔ایک طرف ٹوٹی ہوئی پرانی بندوقوں،پرانی تکنیک کے راکٹوں، تھوڑے سے گولے بارود اور غیر تربیت یافتہ سپاہیوں کا نیم منظم لشکر تھا ،جوجلدہی پہاڑو ںاور صحرائوں میں چھپ کر گوریلا جنگ لڑنے کے لئے مجبور ہوگیاجبکہ دوسری طرف روشنی کی رفتار سے وار کرنے والے بی 2اور ایف15جیسے جدید ترین طیارے اورمیزائیل تھے جو زمین کی تہوں کے اندر تک نشانہ لگاسکتے تھے۔ تاریخ نے پھر اپنے آپ کو دوہرایا، بی 2اور ایف 15کی چنگھاڑ اور قالینی بمباری کے سامنے طالبان کے پیرا کھڑ گئے لیکن حملہ آور طاقتوں کی بدقسمتی یہ تھی کہ اس بار اسے نہ بادشاہ کی لاش ملی نہ سرملا۔ اسامہ زندہ یامردہ کانعرہ لگاکر دس سال تک افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجادی، تورابورا کی بلند وبالاچوٹیوں کو تہہ وبالاکردیا، دشوار گذار گھاٹیوں سے لے کر گھنے جنگلوں تک ملک کے چپہ چپہ کی خاک چھانی، افغان مخبروں، جاسوسوں اورغداروں پر اربوں ڈالر پانی کی طرح بہائے، محاذجنگ پرصف اول کے حلیفوں کی کونسی مانگ تھی جو پوری نہ کی لیکن بادشاہ کا سراس کے ہاتھ نہ آنا تھا نہ آیا۔ ہم نہیں کہتے کہ ایبٹ آباد میں امریکہ نے اسامہ کو مارگرانے کاجودعویٰ کیاتھا، وہ سچ نہ تھا لیکن اس واقعہ کااصل سچ یہ ہے کہ جس وقت صدرابامہ افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی کااعلان کررہے تھے، امریکی بحریہ کے غوطہ خور کمانڈوز بحرعرب میں اسامہ بن لادن کی لاش تلاش کررہے تھے۔ اب یہ تلاش حقیقی اورواقعی ہے یا محض تماشہ اورڈرامہ،یہ تو وہی جانیں لیکن سچ یہی ہے کہ یہ دنیا آج اکیسویں صدی کے پانی پت میں کھڑی ہے اورفاتح کو اپنی فتح کا اعلان کرنے کیلئے بادشاہ کے سر کی تلاش ہے ۔
افغانستان کے فاتح کوبادشاہ کا سر چاہئے ۔اور ابھی یہ انتظارباقی ہے کہ یہ کس کے ہاتھ آتا ہے۔ ایک طرف تو اقوام متحدہ سے القاعدہ اور طالبان میں تفریق کی توثیق کراکے صدر ابامہ نے امریکہ کی شکست کا اعلان کردیاہے اوردوسری طرف وہ ملا عمراوردوسرے افغان مجاھدین سے مذاکرات میںمصروف ہیں۔ میری یہ بات کسی کو پسند آئے یا نہ آئے لیکن سچ یہی ہے کہ افغانستان میں عالمی طاقتوں کی شکست ہوچکی ہے اور امریکہ جس طرح اس بدنصیب ملک سے جارہا ہے اس میں طالبان ہی مستقبل کی سب سے بڑی اور نمایاں قوت ہوگی۔فاتح کون ہوگا یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے۔جہاںتک شکست کاتعلق ہے تواس کی سب سے بڑی ذمہ داری خود امریکیوں پر عاید ہوتی ہے۔ 9سال کی طویل مدت میں وہ اگر متبادل تیار کرنے میں ناکام رہے، افغانوں کا دل نہ جیت سکے، طالبان کا حوصلہ نہ توڑ سکے تو یہ بھلا کس کی ناکامی ہے؟ ساری دنیا کے بہترین دماغوں اورطاقتور ترین فوجی قوتوں نے متحد ہو کر بھی اگر طالبان کو شکست نہ دیا، یا افغانستان کو جیت نہ سکے تو اس کی بنیادی وجہ امریکی سوچ کا عہد وسطی میں ہونا ہے۔ انہوں نے افغانستان کاصدیوں سے طے شدہ اسٹرکچر بدلنے کی کوشش کی جس کا رد عمل ہوا اور وہ طالبان کی مزاحمت کو شکست دینا تو درکنا اسے کمزور کرنے میں بھی ناکام رہے۔
امریکی صدر اوبامہ کا امریکی فوج کے مرحلہ وار انخلاکا اعلان سن کر مجھے بار بار پانی پت کی جنگ اور پندرہویں صدی عیسوی کی دنیا یاد آرہی تھی ۔میرا خیال ہے کہ افغانستان میں امریکہ کے اس ایڈونچر کا تفصیلی تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے ۔امریکیوں کے ساتھ افغانستان میں جو کچھ ہوا یا کیا گیا ،طالبان نے یہ جنگ جس طرح لڑی یا لڑرہے ہیں ،پاکستانی ایجنسیوں نے اس جنگ میں جو کردار ادا کیا یا جو کھیل کھیلا ،یہ اور ان جیسے دوسرے نکات کااحاطہ چندسوصفحات میںممکن نہیںہے ،صدام حسین نے عراق کو امریکہ کا دوسرا ویت نام بنادینے کا دعوی کیا تھا ،وہ تو یہ نہ کرسکے لیکن افغانستان کی جنگ امریکیوں کے لئے کئی معنوں میں ویت نام سے بھی مہنگی ثابت ہوئی ۔طالبان کا یہ کوئی معمولی کار نامہ نہیں ہے کہ انہوں نے افغانستان کو عراق نہیں بننے دیا۔
پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل نے نائین الیون کے بعد امریکی فوجیوں پر چاکلیٹ سولجر کی پھبتی کسی تھی اور کہا تھا کہ وہ طالبان کا مقالبہ نہیں کرسکیں گے۔ اس وقت لوگوں کو لگا تھا کہ وہ زمینی حقائق سے چشم پوشی کررہے ہیں۔ جنرل حمید گل اور ان کے ساتھیوں کے کئی انداز ے غلط ثابت ہوئے لیکن کم از کم ان کی یہ پھبتی صد فیصد درست ثابت ہوئی۔ وقت کے ساتھ امریکہ اپنی تمامتر ٹکنالوجی کے باوجود طالبان جنگجوئوں کے سامنے بے بس ثابت ہوا۔ امریکی افواج اور خفیہ ایجنسیوںنے اربوں ڈالر جاسوسی پر خرچ کئے۔ طالبان لیڈر شپ کا سراغ لگانے کے لئے ان پر زرو جواہر کی بارش کردی، ملا عمر کا ساتھ چھوڑنے والوںکو ہرقسم کی ترغیبیں دی گئیں لیکن ہر کوشش ناکام ٹھہری۔ ملا داداللہ کے سوا ایک بھی ممتاز طالبان رہنما ہلاک نہ ہوسکا۔ جواکادکا ان سے الگ ہوئے تھے وہ بھی بعد میں واپس آگئے۔ باقیماندہ بھی طالبان قیادت کے خلاف بولنے کو تیار نہ ہوئے۔ اب نوبت یہاں تک آئی کہ خود امریکہ القاعدہ اور طالبان کو الگ الگ قرار دے کر ان سے مذاکرات میں مصروف ہے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل تک القاعدہ اور طالبان کی تفریق کو منظوری دے چکی ہے، طالبان کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے نکالا جاچکا ہے۔ اب اور کس کو کہتے ہیں گھٹنے ٹیکنا۔
صدر ابامہ نے افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کا اعلان کیا تو ٹی وی پر اپنی قوم سے دس منٹ کے خطاب میں سب سے زیادہ جن دو باتوں پر زور دیا ان میں سے ایک یہ تھی کہ القاعدہ کی تمامتر کوششوں کے باوجود یہ جنگ اسلام بنام امریکہ نہیں بنائی جاسکی۔ پتہ نہیں صدر ابامہ کے اس دعوے میں کتنی سچائی ہے لیکن جس طرح یہ ان کی نظر میں امریکی حکمت عملی کی ایک بہت بڑی کامیابی ہے اسی طرح امریکہ کے اعصاب پر سوار یہ خوف کہ یہ جنگ اسلام اور امریکہ کی جنگ نہ بن جائے ایک بہت ہی تلخ حقیقت کی غماز ہے۔ دھواں وہیں اُٹھتا ہے جہاں آگ موجود ہوتی ہے۔پانی پت میں لودی پر غالب آنے کے بعد بابر سلطنت دہلی کا تاجدار صرف اس لئے نہیں بن گیا تھا کہ اس کے پاس توپ اور بندوقیں تھیں، بے شک جدید ٹکنالوجی اس کی ایک بہت بڑی طاقت تھی لیکن اس کی اصل طاقت وہ مقامی حمایت تھی جو لودی خاندان کے حکمرانوں کے خلاف اسے حاصل تھی۔ افغانستان کی سرزمین میں اکیسویں صدی کے اس پانی پت نے اور باتوں کے علاوہ یہ بھی ثابت کردیا کہ کوئی فوج چاہے کتنی ہی طاقتور کیوں نہ ہو ، خواہ اسے ٹکنالوجی کی جتنی سپورٹ حاصل ہو اور اس کے پاس جس قدر بھی وسائل ہوں، اس کے لئے عوامی حمایت رکھنے والی گوریلا تحریک کو شکست دینا ممکن نہیں۔ میں نے کسی موقع پر ان ہی کالموںمیںرابرٹ لیبرکے حوالے سے لکھا تھا کہ یہ جنگ مکھیوں کی جنگ ہوتی ہے جس میں فتح طاقت وجسامت پرمنحصرنہیںہوتی ۔ مکھی کتے کی دم پر بیٹھتی ہے وہ وہاں کاٹ کھاتاہے، اڑ کر اس کی پیٹھ پر آبیٹھتی ہے، وہ وہاں بھنبھورتا ہے، مکھی اس کے کان پر بیٹھ جاتی ہے، اس کے سراور تھوتھنے پر آبیٹھتی ہے۔ کتا کبھی یہاں کاٹتاہے، کبھی وہاں کاٹتا ہے، کبھی اس پہلو اچھلتا ہے ، کبھی اس پہلو تڑپتا ہے، وہ اپنے آپ سے عاجز آجاتاہے، اسے اپنی حالت پر رحم آنے لگتا ہے ، ایسے کتے کو آپ نے بارہا سڑک پر بھاگتے دیکھا ہوگا اور آپ کی سمجھ میں نہیں آیا ہوگا کہ وہ سرپٹ بھاگ رہا ہے تو کیوں؟
جس دوسری بات پر صدر ابامہ نے اپنے خطاب میں اس سے بھی زیادہ زور دیا وہ یہ تھی کہ پچھلی ایک دہائی میں جنگوں پر اربوں ڈالر خرچ کئے گئے۔ اب وقت آچکا ہے کہ ہم اپنی معاشی ترقی پر توجہ دیں۔ یہ اسی بے بسی کا اظہار ہے جو مکھی اور کتے کی جنگ میں فریق ثانی کا مقدر ہوتی ہے۔ طالبان کو یہ کریڈٹ جاتاہے کہ انہوں نے تاریخ کی ایک بہت ہی کامیاب گوریلا جنگ لڑی، چھوٹے چھوٹے زخم لگا کر دشمن کو بے حال کردیا۔ پھر اس جنگ کو پھیلایا کبھی جنوبی افغانستان میں زور بڑھایا، کبھی مغربی افغانستان ،کبھی کسی علاقے پرمکمل کنٹرول حاصل کرلیا تو کہیں حملہ کرکے فرار ہوجانے کی حکمت عملی اپنائی۔ طالبان کی اصل کامیابی اپنی قیادت کی اطاعت،وفاشعاری اورفرماںبرداری میں ہے۔ ملا عمر برسوں سے غیر فعال اور روپوش ہیں، ان سے لوگ مل نہیں سکتے، ان کے زبانی یا ریکارڈ شدہ احکامات ہی کمانڈروں تک پہنچتے ہیں لیکن کیا مجال ہے کہ طالبان کے کسی ادنی سے ادنی سپاہی کی وفاداری پر حرف آجائے، ہر جنگجو اپنے امیر کاوفادار رہا۔ یہ ان کا اٹوٹ کمٹمنٹ ہی ہے کہ اگرانہوںنے ماضی کی غلطیاںنہ دوہرائیںتوبقول شخصے طالبان آج اپنی فتح سے دو قدم کے فاصلے پر ہیں۔
عراق میں امریکہ اور القاعدہ نے مزاحمت کاروں کو نسلی، قومی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کردیا، شیعہ سنی فسادات ہوئے، کردوں کو مشتعل کیا گیا، بغداد میں خودکش حملے ہوئے، عام شہریوں کو بم دھماکوں کا نشانہ بنایا گیا، درگاہوں اور مزارات کو بموں سے اڑایا گیا جس کا شدید رد عمل ہوا۔وہ جب اقتدار میںتھے تو خواہ کچھ کرتے ہوں لیکن طالبان نے ماضی کی غلطیوں سے سبق لے کریہ غلطی اب نہیں دوہرائی۔ وہ تاجک اور ازبک قیادت کو نشانہ بنا سکتے تھے مگر اس سے گریز کیا، کابل میں دھماکے نہیں کرائے۔ شدید اختلافات کے باوجود ہزارہ قیادت کو بھی نشانہ نہیں بنایا۔ ان کی اس حکمت عملی اور آپسی اتحاد واطاعت کی طاقت نے سپرپاور کو ان کے سامنے جھکنے پر مجبور کردیا۔ میری ذاتی رائے ہے کہ ان کی اس کامیابی کا سہرا ان نادیدہ مہربانوں کے سر بھی جاتا ہے جن کی مدد اور چشم پوشی کے بغیر وہ یہ جنگ جاری نہیں رکھ سکتے تھے۔ آنے والا زمانہ ان نادیدہ طاقتوں اور سربستہ رازوں کو بھی ایک دن ضرور دنیاکیسامنے کردے گا۔ اس وقت ہماری آنکھیں جو کچھ دیکھ رہی ہیں ان میں امریکہ کے لئے بھی عبرت ہے اور دنیا کے لئے بھی سبق۔ فاعتبروا یا اولی الابصار!

مصنف کے بارے میں

احمد جاوید

احمد جاوید اردو کے ممتاز صحافی، مصنف، مترجم اور کالم نگار ہیں۔ تاریخ و تمدن پر گہری نظر اور ادب و صحافت میں اپنے منفرد اسلوب سے پہچانے جاتے ہیں۔

مزید