اڈوانی کی’ سیکولر‘ رتھ یاترا ، نتیش اور لالو

لال کرشن اڈوانی جب کہہ رہے تھے کہ یہ وہی بہار ہے جہاں ۱۹۹۰ء میںایک یاترا کے دوران ان کو گرفتار کیا گیا تھا اور اسی بہار کے وزیر اعلی نے آج ان کی رتھ یاترا کو ہری جھنڈی دکھا ئی ہے تو حاضرین حیرت سے ان کا منھ دیکھ رہے تھے۔

Table of Contents

فکر فردا
ٖآپ چاہیںتوکہہ سکتے ہیں کہ آج تو فرقہ پرست طاقتیںنتیش کے کندھوں پر سوار ہیں۔کچھ دوسرے لوگ کہیںگے کہ یہ نتیش کمار کی ایک غیر معمولی کامیابی ہے کہ بی جے پی اپنے روایتی ایجنڈوں سے ہٹ کرٹھوس اوربنیادی مسائل پر مہم چلا رہی ہے اورایل کے اڈوانی مودی کے بجائے نتیش کوملک بھر کے لیے نمونہ بتا رہے ہیںلیکن میرے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ سیاست کے اس کھیل میں آج کون کس کے کندھے پرسوار ہے؟

احمد جاوید

یہ غالبا ۱۹۹۷ء کی بات ہے ۔سمتا پارٹی کی قیادت نے پارٹی کے خاص خاص مسلم ارکان کی ایک ’کنفیڈنشیل میٹنگ‘بلائی تھی۔سمتا پارٹی کا بی جے پی سے سمجھوتہ ہو چکا تھا اور پارٹی کے بانیوں میں شامل بیشتر سرکردہ مسلم لیڈران جارج فرنانڈیز اورنتیش کمار کا ساتھ چھوڑ کر جا چکے تھے۔پٹنہ میں ایم ایل اے کلب کے کانفرنس ہال میں رکھی گئی اس میٹنگ کومیڈیا سے پوشیدہ رکھا گیا تھا۔میٹنگ میں نتیش کمار کے علاوہ ارون کمار اور بھیم سنگھ بھی موجود تھے۔ باقی سب کے سب مسلمان تھے جن میں اب صرف اخلاق احمد،مرحوم عبدالباقی ، خورشید انور ایڈوکیٹ، ایس ایم زماں اورمحمد رضاء اللہ کے نام یاد رہ گئے ہیں۔نتیش کمار نے اس دن اپنی پارٹی کے مسلم ارکان سے مسلمانوں کے ٹھوس اور بنیادی مسائل پر توجہ دینے اور اس کے لیے سید شہاب الدین کے انگریزی جریدہ ’مسلم انڈیا‘ کو مطالعہ میں رکھنے کوکہا تھا۔ (یاد آتا ہے کہ نتیش کمار نے سید شہاب الدین کا ذکر بڑے احترام سے کیا تھا حالانکہ ان دنوں سیدصاحب اور ان میں بڑی سخت ناراضگی تھی، انہوں نے ہنستے ہنستے اس کا بھی ذکر کیا تھا کہ موصوف نے کیوںاور کس طرح نتیش کمار کو پارٹی سے نکال دیا تھا )۔ پھر یہ سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ اس وقت بہار میں جنگل راج کے خلاف سماجی انصاف کی لڑائی ہم اکیلے نہیں لڑ سکتے۔ بکھری ہوئی طاقتوں کو مجتمع کرنا ہو گا ، سمجھوتے کرنے ہونگے اور ہر اس طاقت کی مدد لینی ہوگی جو اس جنگل راج سے بہار کو نجات دلانے میںکام آسکتی ہے۔ ایک وقت تھا جب بی جے پی نے سوشلسٹ طاقتوں کے کندھوں پر سوار ہوکر اپنا قد بڑھایا۔اب جبکہ لالو جیسے لوگوں کے باعث سماجی انصاف کی لڑائی کمزور پڑچکی ہے او ر سماجوادی طاقتوں کو سہارے کی ضرورت ہے توکیوں نہ ہم اس کے کندھے استعمال کریں۔اس وقت ہمارا اصل مسئلہ بھرشٹاچار ہے۔گاڑی ایک بار پٹری پر آجائے تو پھر دوسری طاقتوں سے بھی نپٹ لیںگے۔انہوں نے کہا تھا کہ ایک بار ہم اس جنگل راج کو ہلا دیں تو پھر اس کی طاقت ٹوٹتے دیر نہیں لگے گی کیونکہ اس کی جان اقتدار کے طوطے میں ہے۔یہ وہی بات ہے جو انہوں نے پچھلے دنوں ایک موقع پران الفاظ میں کہی ہے کہ لالو جی اقتدار کے بغیر بن پانی کی مچھلی ہیں۔لالو کی سیاست اور ان کی سیاسی شخصیت پر اس سے بہتر اور جامع تبصرہ ممکن نہیں ہے۔بھلا لالویادوکو نتیش کمار سے بہتر کون جان سکتا تھا(جن لوگوں کورام سندر داس کے مقابلے میں لالو وزیر اعلی بنوانے میں شرد یادو،گھوناتھ جھا اور نتیش کمار کا کیا کردار تھامعلوم ہے، وہی اس جملے کی معنویت سے کماحقہ محظوظ ہو سکتے ہیں)۔آج ہم دیکھ سکتے ہیں کہ نتیش کمار کی یہ رائے کس طرح بالکل درست ثابت ہوئی ،اب اس دیوکی جان کیسی نکل چکی ہے ، لالو کی باتونی سیاست کا جنازہ ان کے کندھوں پر ہے اور ابھی اقتدارسے دور ہوئے دوڈھائی سال بھی نہیں ہوئے ہیں کہ وہ اقتدار کے لیے جنتا کی سادھنا کے بجائے تنترسادھنا کرتے پھر رہے ہیں۔وہ نوراتری (درگاپوجا)کی نویں کے دن وندھیاچل میںپگلا شنکر کے آشرم میں تھے،جہاں ان کے لیے پورے ۹ دن کا یگیہ رکھا گیا تھا اورنویں کے دن اس انوشٹھان کی اختتامی رسومات انہوں نے خود اداکی،آشرم کے ایک کمرے میںوہ دو گھنٹے تک تنتر سادھنا میں مشغول رہے اور اس کمرے میں کسی اور کو جانے کی اجازت نہیں تھی۔یہ تو لالو ہی بتا سکتے ہیںکہ جے پرکاش ناراین اور رام منوہر لوہیاکایہ چیلاجو کل تک پوتھی پترا جلانے کی بات کرتا تھا،برہمنوں کے پاکھنڈاورتوہم پرستی کو پانی پی پی کر گالیاں دیتا تھا،جس وقت مرزاپور (یوپی) کے امراوتی روڈپرواقع پگلا بابا کے آشرم میںناک رگڑ رہا تھا،جے پی اور لوہیا کی آتمائیں اس وقت کہاں سر پٹک رہی تھیں؟ہم تو صرف اتنا جانتے ہیں کہ عین اسی وقت بی جے پی کے سرکردہ رہنما لال کرشن اڈوانی جے پرکاش ناراین کی جائے پیدائش ستاب دیارا(چھپرہ) سے اپنی جن چیتنا(عوامی بیداری)یاتراشروع کرنے کی تیاری کررہے تھے اور آسماں حیران تھا کہ وہ کیادیکھ رہا ہے۔
جے پرکاش ناراین کی سالگرہ (گیارہ اکتوبر)کے دن بہار کے وزیر اعلی نتیش کمارجب اڈوانی کی اس رتھ یاتراکو ہری جھنڈی دکھاتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ’ میں تو اڈوانی جی کاسواگت کرنے یہاں آیاتھا‘۔ کیونکہ یہ بدعنوانی، مہنگائی اور کالا دھن کے خلاف عوامی بیداری کے لیے نکالی جانے والی رتھ یاترا ہے اوریہ کہ ’یہ ہماری کوئی معمولی کامیابی نہیں ہے۔ آج ہرشخص خوش ہے کہ اڈوانی جی یہ رتھ یاترا بہار سے شروع کررہے ہیں ‘۔تو میرے ذہن میںپٹنہ کے ایم ایل اے کلب میں اس دن مسلمانوں سے کہے گئے ان کے یہ الفاظ گونج رہے تھے کہ ’’ایک وقت تھا جب بی جے پی نے سوشلسٹ طاقتوں کے کندھوں پر سوار ہوکر اپنا قد بڑھایا۔ آج سماجی انصاف کی لڑائی کمزور پڑ چکی ہے اور سماجوادی طاقتوں کوسہارے کی ضرورت ہے توکیوں نہ ہم اپنا قد بڑھانے کے لیے ان کا سہارا لیںیہاں تک کہ ہمیں کسی سہارے کی ضرورت نہ رہ جائے، عوام سے کہئے کہ ہمیں پوری طاقت دیں پھر دیکھیں کہ ہم کیا کرتے ہیں۔‘‘آپ چاہیںتوکہہ سکتے ہیں کہ آج تو فرقہ پرست طاقتیں ہی ان کے کندھوں پر سوار ہیں اور وہ اپنا قد بڑھانا چاہتی ہیں۔کچھ دوسرے لوگ کہیںگے کہ یہ نتیش کمار کی ایک غیر معمولی کامیابی ہے کہ بی جے پی اپنے روایتی ایجنڈوں سے ہٹ کرٹھوس اوربنیادی مسائل پر مہم چلا رہی ہے اورایل کے اڈوانی مودی کے بجائے نتیش کمار اور ان کی صاف ستھری طرز حکمرانی کو ملک بھر کے لیے نمونہ بتا رہے ہیں جیسا کہ خودنتیش کمار اس تبدیلی کو اپنی کامیابی باور کرارہے ہیںلیکن میرے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ سیاست کے اس کھیل میں آج کون کس کے کندھے پر سوار ہے؟
جہاں تک اڈوانی کا سوال ہے تو ان کی ساری سیاسی زندگی ہی رتھ یاتراؤں سے عبارت ہے۔یہ ان کی ساتویں بڑی رتھ یاترا ہے۔سومناتھ سے اجودھیا کی اس رتھ یاترا کے لیے جس نے ملک کی فضا میں ہندو مسلم منافرت کا زہر گھول دیا تھا اورمشرق و مغرب میںفسادات کی آگ بھڑکا دی تھی،ساری دنیا میں مشہور لال کرشن اڈوانی کی یہ پہلی رتھ یاترا ہے جس کا ایجنڈا غیر فرقہ پرستانہ ہے۔اب تک ان کی رتھ یاترائیں پچھم سے پورب کو ہوتی رہی ہیں، ان کی یاتراؤں کا ہر سورج مغرب سے طلوع ہوتا رہاہے لیکن یہ پہلا موقع ہے جب وہ پورب سے پچھم کی یاترا کررہے ہیں اور ان کی منزل اس بار سومناتھ سے اجودھیا نہیں،ملک کے ایک عظیم سوشلسٹ رہنما کی جائے پیدائش سے ملک کی راجدھانی دہلی ہے۔یہ تقلیب ماہیت اپنے اندر کئی پیغامات رکھتی ہے ۔بلا شبہہ اس یاترا کا اصل نشانہ اتر پردیش ہے اورآپ کہہ سکتے ہیںکہ اقتدار کی بھوک جو نہ کرائے ، اس میں بھی شک نہیں ہے کہ ۸۴ سال کی عمر میں ۱۲۰۰۰کلومیٹر کی یہ یاترا وہ وزیر اعظم کی کرسی کے لیے کر رہے ہیںلیکن یہ واقعہ اتنا سیدھا سادہ بھی نہیں ہے۔اس میں عبرت کی کئی داستانیں موجود ہیں۔لال کرشن اڈوانی جب اپنی اس یاترا کی افتتاحی تقریب میںنتیش کمار کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ’ میںنے صرف ایک بار گزارش کی اور وہ تیار ہوگئے ‘ اوریہ کہ’یہی وہ بہار ہے جہاں ۱۹۹۰ء میں ان کی یاترا کے دوران ان کو گرفتار کیا گیا تھا اور اسی بہار کے وزیر اعلی نے آج ان کی رتھ یاترا کو ہری جھنڈی دکھاکر روانہ کی ہے تو حاضرین حیرت سے ان کا منھ دیکھ رہے تھے۔شاید اس وقت لوگوں کے ذہن میں یہ نہ رہا ہوکہ جے پرکاش ناراین کے جس چیلے نے بحیثیت وزیراعلی ان کی گرفتاری کا حکم دیا تھا، اس وقت جب وہ ان کی جائے پیدائش سے بدعنوانی مخالف رتھ یاترا شروع کر رہے ہیں تو وہ وندھیاچل میں پگلا بابا کے آشرم میں ناک رگڑ رہا ہے ورنہ ان کے حیرت زدہ چہروںکازاویہ اور بھی زیادہ قابل دید ہوتا۔بیشک یہ واقعہ اپنے آپ میں ہندوستان کی سیاست کے کردار پریہ ایک بہت ہی تلخ تبصرہ ہے جس پر مزید کسی تبصرے کی ضرورت نہیں اور یہ فیصلہ ملک کے عوام اورآنے والے وقت کو کرنا ہے کہ آج سیکولرطاقتوں کے کندھوں ایک بار پھر اڈوانی سوار ہیںیا ان پر نتیش سوار؟

مصنف کے بارے میں

احمد جاوید

احمد جاوید اردو کے ممتاز صحافی، مصنف، مترجم اور کالم نگار ہیں۔ تاریخ و تمدن پر گہری نظر اور ادب و صحافت میں اپنے منفرد اسلوب سے پہچانے جاتے ہیں۔

مزید