او آئی سی کی مکہ کانفرنس اور سیریا

Table of Contents

احمدجاوید
سعودی عرب کے شاہ عبداللہ کی تحریک پر مقدس شہر مکہ میں بلائی گئی تنظیم اسلامی کانفرنس(او آئی سی) کی دوروزہ ہنگامی میٹنگ اس سنگٹھن کی تاریخ میں اس لحاظ سے اب تک کی سب سے کامیاب میٹنگ مانی جائے گی کہ اس کے سارے ایجنڈوں پرارکان ممالک کی اتفاق رائے ابھر سامنے آئی اور سارے فیصلے عام سہمتی سے لیے گئے۔اوآئی سی کی کسی میٹنگ میں اس گرم جوشی اور اتفاق رائے کا مظاہرہ پہلی بار دیکھنے کو ملا۔برما میں مسلمانوںکے قتل عام کی مذمت،اسرائیل کے ناپاک منصوبوں پر اظہار تشویش، امریکہ اور دنیا کے مختلف حصوں مسلمانوں اور ان کی عبادت گاہوں پر حملوںکی سخت سے سخت لفظوں میں مذمت اور انتباہ اور سیریا میں سرکاری افواج کی اپنے عوام کے خلاف خونریز کارروائیوں کے خلاف اظہار اتحادو یکجہتی اس میٹنگ کی قراردادوں کے وہ نکات ہیں جن کی بازگشت دور تک سنی گئی اور دیر تک سنی جائے گی۔لیکن اسی کے ساتھ ہوا میں کئی گمبھیر سوال بھی اچھل آئے ہیں۔جہاں غیرجانبدار مبصرین یہ پوچھ رہے ہیں کہ جو اسلامی ملکوں میں جو اتحاد فکروعمل سیریا کی اسد حکومت کے خلاف نظر آرہا ہے یہی گرم جوشی اور اتحادو اتفاق کبھی اسرائیل کے خلاف کیوں نظرآیا جبکہ اس تنظیم کا قیام ہی اسرائیلی جارحیت کے خلاف عمل میں آیا تھاوہیں سیریا کی حکومت اپنی رکنیت کی معطلی پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہہ رہی ہے کہ او آئی سی پچھمی سامراج کی چاپلوسی کرتے ہوئے دہشت گردوں کی حمایت کر رہا ہے۔سیریائی اخبار نشرین نے کانفرنس کو عیارشیطان کاخطاب دیتے ہوئے لکھا ہے کہ شام کو اس پر کوئی حیرانی نہیں ہے اور یہ کہ کانفرنس مسلکی سوچ پر عمل پیرا ہے جس کا حقیقی اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔اس کانفرنس کا دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ تاریخ میں پہلی بار سعودی عرب میں اسلامی جمہویہ ایران کے صدر کا اتنا گرم جوش سواگت کیا گیا اور صدر احمدی نژاد کی مکہ کے لیے روانگی سے ٹھیک پہلے سعودی عرب نے یہ اعلان کیا تھا کہ اگر اسرائیل ایران کے ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرتا ہے تو وہ سعودی فضائیہ اسرائیلی طیارے کو اپنے حدود میں مار گرائے گی۔جبکہ اب تک ایران کے ایٹمی ہتھیاروں سے سب سے زیادہ سعودی عرب کو ہی ڈرایا جاتا رہا ہے۔اب اس میٹنگ کو اگر عرب و عجم کے اتحاد کے روپ میں دیکھا جارہا ہے تو یہ اسوابھاویک نہیں ہے۔
جہاں تک سیریا کا سوال ہے توکسی بھی ملک و قوم کی سیاسی صورت حال کواس کی تاریخ ، جغرافیہ اور آبادی کی ساخت سے ہٹ کر نہیں سمجھا جاسکتا۔شام میں آج جو کچھ ہورہا ہے،اس کی جڑیںبھی اس کی تاریخ اور آبادی کے تانے بانے میں پیوست ہیںلیکن حافظ الاسد کے جانشینوں نے وقت کی نبض اور ہواکے رخ کو پہچاننے سے انکار کردیا ہے۔ورنہ کوئی وجہ نہیں تھی کہ بشر الاسد کے وزراء، سفراء، معاونین خاص اور مشیران خصوصی منھ موڑ کر جارہے ہیں،منحرف ہوکر باغیوں سے جامل رہے ہیں، ان کو سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وقت کروٹیں لے چکا ہے، خدارا!وہی غلطی نہ دوہرائیں جو لیبیا مین قذافیوںنے کی تھی لیکن یہ ہیں کہ کسی کی نہیں سنتے۔جس وقت ریاض میں او آئی سی کے ارکان ممالک کے سربراہان اسد حکومت کو اس جنگ سے باز آجانے کے انتباہ کے ساتھ جو اس نے اپنے ہی عوام کے خلاف چھیڑ رکھی ہے، اس کی رکنیت معطل کرنے کا متفقہ فیصلہ لے رہے تھے۔ عین اسی وقت عمان(اردن) میں شام کے سابق وزیر اعظم ریاض حجاب کہہ رہے تھے کہ اسد حکومت کا ملک کے صرف ۳۰ فیصد علاقہ پر کنٹرول رہ گیا ہے۔اس لیے وہ اس روشن ہو چکے انقلاب کو مکمل ہونے دیں اور ملک کے اتحاد کو برقرار رکھیں۔
شام کی مسلح افواج پر اسد اور ان کے قبیلے کی گرفت اب تک ڈھیلی نہیں پڑی ہے جس کا بیرونی طاقتوں کو شدید انتظار ہے ۔ بیرونی مداخلت کی راہ میں ایک رکاوٹ شام کا جغرافیہ اور اس کی آبادی کی بناوٹ بھی ہے۔ ریاض حجاب بھی یقینا اسی طرف اشارہ کرر ہے ہیں۔ ملک کا ایک تہائی کوہستانی خطہ تادیر اسد انتظامیہ کے قبضہ میں رہ سکتا ہے کیونکہ اس خطہ میں علویوں کی کثیر آبادی ہے اور یہ اسٹرٹیجک اہمیت کا حامل بھی ہے ۔ اس طرح شام پر تقسیم کا خطرہ بھی منڈلا رہا ہے۔فوجی تسلط اور علاقائیت کے شکنجے میں جکڑے ہوئے اس ملک کے مغرب میں لبنان اوربحر اوسط، مشرق میں عراق، شمال میں ترکی، جنوب میں اردن اور جنوب مغرب میں اسرائیل واقع ہے۔ان میں سے صرف ترکی اپنے پڑوسی کو خانہ جنگی سے نکالنے کی عملی کوششیں کر رہا ہے۔اسرائیل کی یہ خواہش غیر فطری ٰ نہیںہوسکتی کہ یہ خانہ جنگی طول پکڑے۔او آئی سی کی قرار داد تو یہ کہتی ہے کہ بلا تفریق عرب و عجم اسلامی ممالک اس خانہ جنگی کے خلاف ہیں لیکن عملی طور پر ایران اور حزب اللہ اب بھی اس کی پیٹھ پر ڈٹے ہوئے ہیں تو سعودی عرب، کویت ، قطر اور متحدہ عرب امارات کھل کر باغیوں کا ساتھ دے رہے ہیں، سرمایہ اور ہتھیار سپلائی کر رہے ہیں۔سیریا کی ۷۴ فیصد آبادی سنی ہے جن میں اکثریت عربوں کی ہے۔ان میں تھوڑے کرد، آشوری اور ترکمانی بھی شامل ہیں۔۱۲ فیصد علوی شیعہ ہیں۔۱۰ فیصد عیسائی(عرب، سیرین اور آرمینیائی) اور تین فیصد درز ہیں جن کو شیعہ مانا جاتا ہے۔۸۷ فیصد مسلم آبادی والے اس ملک کی سب سے بڑی بدقسمتی یہی ہے کہ اس کی لگ بھگ سوسالہ جدید تاریخ میں یہاں کبھی کوئی مقبول عام حکومت اقتدار میں نہیں رہی اور تقریباً نصف صدی سے تو یہاں صرف ۱۲ فیصد آبادی عملاً حکمراں اور بقیہ محکوم ہیں۔اسد حکومت اگر او آئی سی کی قرار داد کو مسلکی تعصب کہہ رہی ہے جبکہ اس کو ایران کی تائید بھی حاصل ہے تو یہ اس کے اپنے دل کا چور ہے۔
مشرق وسطی کے بیشتر ممالک پہلی جنگ عظم اور اس سے پہلے بچھائی گئی بساط کے نتیجے میں دنیا کے نقشے پروجود میں آئے ہیں ورنہ یہ ایک بہت ہی وسیع و عریض سلطنت اسلامیہ کاحصہ تھے۔خلافت عثمانیہ کے حصے بخرے کرتے وقت برطانیہ اور اس کے اتحادیوں نے یہ التزام ہر جگہ کیا کہ ان ملکوں میں کبھی مقبول عام قیادتیں اقتدار میں نہ آئیں اور یہ قومیں ہمیشہ آپس میں برسر پیکار رہیں۔پہلی جنگ عظیم میں فرانس کے حصے میں آئے علاقے میں موجودہ شام کی تشکیل ہوئی تھی جو ۱۹۴۶ء میں آزاد ہوااور پارلیمانی جمہوریت کے زیر نگیں آیا لیکن بدقسمتی سے یہ جلد ہی فوجی بغاوتوں کا تختۂ مشق بن گیااور مسلسل تیس بتیس سال تک تختۂ مشق رہا۔۱۹۶۳ء سے ۲۰۱۱ء تک یہاں ایمرجنسی نافذ تھی۔۱۹۴۶ء سے ۱۹۵۶ء کے درمیان یہاں ۲۰ مختلف کابینہ وجود میں آئی جس نے آئین کے چار الگ الگ مسودے تیار کئے لیکن نافذ ایک نہ ہوسکا۔۱۹۴۸ء کی عرب اسرائیل جنگ کی شرمناک شکست کے بعد مارچ ۱۹۴۹ء میں کرنل حسین الزعیم کی قیادت میں فوج نے اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا جو دنیائے عرب میں فوج کے ذریعہ تختہ پلتنے کا پہلاواقعہ تھا۔
شام کی موجودہ انتظامیہ کا خمیر ۸ مارچ ۱۹۶۳ء کی فوجی بغاوت سے اٹھنا شروع ہوا تھا جو اشتراکیت پسند فوجیوں کے ایک گروپ نے برپا کی تھی اور نیشنل کونسل آف ریوولیشنری کمانڈ ( این سی آر سی ) کے نام سے جملہ اختیارات پر قابض ہوگیا تھا۔اس انقلاب کی منصوبہ بندی عرب سوشلسٹ بعث پارٹی نے کی تھی جس کی قیادت مائیکل افلق اور صالح البطار کر رہے تھے۔ سیکولرازم اور پان عرب کے نظریہ پر گامزن یہ جماعت شام ، عراق اور دوسرے عرب ممالک میں ۴۰ ء کے عشرہ سے سرگرم تھی۔یہ انقلا ب فروری ۱۹۶۶ء میں ایک اور فوجی انقلاب پر منتج ہوا جس نے صدر امین الحافظ، وزیراعظم البطار اور بعث پارٹی کے بانی افلق کو قید کردیا اور بعث تحریک شامی اور عراقی قیادتوں میں بٹ گئی۔حافظ الاسد اسی گروپ کا حصہ تھے اور شام کے وزیر دفاع بنائے گئے تھے۔حافظ الاسد کا یہ قول بہت مشہور ہے جو انہوں نے ۲۴ مئی ۱۹۶۶ء کو وزیر دفاع کی حیثیت کہا تھاکہ ہم نہ کبھی امن کی دعوت دیں گے نہ امن قبول کریں گے۔ہم صرف جنگ قبول کریںگے۔ہم اس زمین کو تمہارے خون سے تر کردیں گے۔تم کو بھگاکر دم لیں گے اور سمندر برد کردیں گے۔ اسرائیل کے ہاتھوں عربوں کی شرمناک شکست (۱۹۶۷ء )کے بعدایک اور کرنل زعیم کا جنم ہوا۔ فرق صرف یہ ہے یہ ایک ایسی فوجی بغاوت تھی جو ناکام ہوگئی اور اسے کچل کر اسد نے ملک کے اقتدار پر اپنا اور اپنے قبیلہ کا تسلط اور بھی مضبوط کرلیا۔یہاں تک کہ ۲۰۰۰ء میں حافظ الاسد کی موت کے ساتھ صدر بشر الاسد نے اپنے والد کی جگہ لی۔ آج حافظ الاسد زندہ ہوتے تو شاید وہ بھی قذافی کی طرح دمشق کے صدارتی محل سے باغیوں کو للکار رہے ہوتے ’’ کیڑے مکوڑو! اپنے گھروں کو چلے جاؤ ورنہہم اس زمین کو تمہارے خون سے تر کردیں گے۔تم کو بھگاکر دم لیں گے اور سمندر برد کردیں گے ‘‘۔ شکر ہے کہ ان کی جگہ ان کے بیٹے لے چکے ہیںجو اتنے منھ زور نہیں ہیں۔ عبرت کی جا ہے کہ عدل و انصاف، مساوات انسانی اورقوم کی عظمت رفتہ کی واپسی ساتھ ساتھ اسرائیل کو سمندر برد کرنے کا نعرہ لگاکراقتدار میں آنے والوں کی اولادیںآج خود شام کو ہی خون کے دریا میں غرق کرنے پر تلی ہوئی ہیںاور تنظیم اسلامی کانفرنس کے بانیوں مین شامل حافظ الاسد کے عرب ریپبلک سوریہ کواس تنظیم سے نکال باہر کیا جاچکا ہے۔

مصنف کے بارے میں

احمد جاوید

احمد جاوید اردو کے ممتاز صحافی، مصنف، مترجم اور کالم نگار ہیں۔ تاریخ و تمدن پر گہری نظر اور ادب و صحافت میں اپنے منفرد اسلوب سے پہچانے جاتے ہیں۔

مزید