اناہزارے،کانگریس اورمسلمان

Table of Contents

احمد جاوید
ٓٓ جس وقت اروند کیجریوال وشو ہندو پریشد کے اس دعوے کی تردیدکررہے تھے کہ رام لیلا میدان میں انا ہزارے کی ستیا گرہ کے دوران کھانے پینے کے انتظامات ہندو پریشد کے لوگوں نے سنبھال رکھے تھے، اتفاق ہے کہ عین اسی وقت ’ندوہ‘ کے ایک فاضل نوجوان راقم سے یہ دریافت کر رہے تھے کہ ونوبا بھاوے اور ان کی بھودان تحریک کو آر ایس ایس نے کس طرح استعمال کیا تھا؟اور تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میرے لیے ان کو یہ سمجھا پانامشکل تھا کہ ونوبا بھاوے ہندوستان کی تاریخ کا ایک بیحد مضبوط اورمعتبرسیکولرسوشلسٹ کردارہے،وہ ایک گاندھیائی رہنما تھے، اہنسا اور انسانیت کے اصولوں پر مرتے دم تک قائم رہے،سماج کے اس آخری شخص کی زندگی میںآزادی کی روشنی پہنچانا ان کی زندگی کاواحد نصب العین تھا، جس کی زندگی میں آزادی کی کرن نہ پہنچی تو گاندھی جی کی نظر میں آزادی ادھوری تھی، اپنی ایک ایک سانس انہوںنے گاندھی جی کے اصولوں کے لیے وقف کردی تھی، آرایس ایس اوراس کی انتہا پسندانہ ثقافتی قوم پرستی کے سخت خلاف تھے ،اتنے سخت خلاف کہ جب سارا سنگھ پریوارجیلوں میں بندتھا،اندرا گاندھی کی ایمرجنسی کوانہوں نے انوشاسن کاپرب قراردیاتھا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ آر ایس ایس نے ان کی تحریک کو اپنے کازکے لیے استعمال کیا۔ اس تضاد کی تطبیق میرے لیے آسان نہ تھی کیونکہ ہملوگ تصویر کاایک رخ دیکھنے کے عادی ہیںاور جمہوری معاشرے کی پیچیدگیوں کی سمجھ آج بھی ہم میں بہت کم ہے۔
تاریخ کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ تاریخ سے ہم سبق نہیں لیتے۔ اناہزارے کی تحریک کوئی ایک دو دن کا قصہ نہیں ہے۔یہ نہ تو راتوں رات کھڑی ہوگئی نہ وہ بھیڑ جو انا کے پیچھے کھڑی تھی،یونہی کھڑی ہوگئی تھی۔ اس کے پیچھے برسوں کی محنت اورایک منظم ومسلسل جدوجہد تھی۔ جو لوگ اروند کیجریوال، ان کے’ پریورتن ‘اورپی سی آر ایف کو جانتے ہیںاور ملک کے طول عرض میں ان سے جڑے ہزاروں نوجوانوں کی آر ٹی آئی کے ہتھیار سے بدعنوانی کے خلاف جنگ کی سرگرمیوں کا علم رکھتے ہیں وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ انڈیااگینسٹ کرپشن کی اصل باگ ڈور کن ہاتھوں میںہے اوروہ کتنے باشعور اورسنجیدہ لوگ ہیں۔ یہ وہی کیجریوال ہیںجنہوں نے بدعنوانی کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے محکمہ انکم ٹیکس کا اعلی عہدہ چھوڑ دیا،آرٹی آئی لانے کی جنگ جیتی اور اس کے لیے ملنے والے اپنے میگسیسے ایوارڈ کی ساری رقم وقف کردی۔ پھر یہ کہ کیجریوال اور ان کی ٹیم نے پورے ایک سال پہلے اس مہم کی پلاننگ شروع کردی تھی،پہلے انا کو جوڑا۔پھر کرن بیدی،پرشانت بھوشن،سنتوش ہیگڑے اور دوسری شخصیتوںکوجوڑنے میں کامیاب ہوئے ،انہوں نے محسوس کیا کہ آج اس ملک میںقابل اعتماد عوامی قیادت کاجو خلاہے اس کو اگر کوئی پرکر سکتا ہے تووہ صرف وہ ہے جس میں لوگوںکو گاندھی جی کی جھلک نظرآ سکے۔ خودانا ہزارے کو جو لوگ جانتے ہیں وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ مہاراشٹر میںایسی کتنی تحریکیں منظم کرچکے ہیں،کتنے قانون بنوا اوربدلواچکے ہیں،وہ بنکروں،کسانوں ،مزدوروں اور غریبوںکے لیے انصاف کی لڑائی کب سے لڑرہے ہیں،کس طرح مہاراشٹرکے ایک انتہائی پسماندہ،غریبی اوربدحالی کی تاریکیوں میںڈوبے ہوئے گائوں کودنیا کے نقشے پرلائے اوریہ ان کاپہلا انشن تھایاوہ اس سے قبل تیرہ چودہ بھوک ہڑتال کرچکے ہیں۔ اگر اس کے باوجود ہم یہ کہیں کہ اس تحریک کے پیچھے اصل طاقت آر ایس ایس ہے توآپ اس کو کیا کہیںگے؟یہی نہ کہ ہم اناہزارے کی شخصیت،ان کی برسوں کی جدوجہد،اروند کیجریوال اور ان کے پی سی آر ایف کی پوری ٹیم کی محنتوںاور سب سے بڑھ کرملک کے ان کروڑوں نوجوانوں کی ایمانداری پر بیک جنبش قلم پانی پھیر رہے ہیںجو بغیر کسی لاگ لپیٹ اور سیاسی ونظریاتی وابستگی کے کرپشن کے خلاف ہیںاوراس کے سرسہراباندھ رہے ہیںجو ہرگز اس کا اہل نہیں۔لیکن یہی خیال ہمارے ان لیڈروں کو کیوں نہیں آیا جو انا ہزارے اور ان کی ٹیم کوآر ایس ایس کاآلہ کارثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں؟دراصل وہ یاتواس مفروضہ پرایمان لاچکے ہیںکہ اس ملک میں کوئی بڑی عوامی تحریک آرایس ایس کے علاوہ کوئی اورمنظم کر ہی نہیں سکتایاپھر ان کی آنکھوں پر کوئی پٹی بندھی ہے جو ان کو یہ بھی نہیں دیکھنے دیتی کہ اگر آر ایس ایس اوروشو ہندو پریشد کے پاس اتنی ہی طاقت ہوتی توبی جے پی کی ریلیوں میںبھی سروں کا یہی سیلاب کیو ں نہیں امڈ پڑتا؟اس معاملے میں سب سے گھٹیا اورسوقیانہ کرداربعض مسلم قایدین نے ادا کیا، انہوں نے ملک کے بدعنوانی مخالف جذبات کے طوفان کے سامنے مسلمانوں کو کھڑا کرکے حکومت کو راحت پہنچانے کی کوشش کی ۔اور جہاں تک آر ایس ایس کا تعلق ہے توہر کامیابی کا سہرا اپنے سر باندھنے کاہنر کوئی سنگھ پریوار سے سیکھے۔جو لوگ انا ہزارے کی تحریک کی کامیابی کا سہرا اس کے سرباندھنے پر تلے ہوئے ہیں، وہ ایک طرف انا اور ان کی ٹیم کو زبردستی سنگھ پریوار کے پالے میںدھکیل رہے ہیں ،دوسری طرف اس تحریک سے پیداشدہ لہر پر سوار ہوکرووٹ کی فصل کاٹنے کی فضا بنانے میں بی جے پی کی مدد کر رہے ہیں۔
اروند کیجریوال کہہ رہے تھے کہ’’ وی ایچ پی کا بیان گمراہ کن ہے۔یہ ان کی تحریک کو بدنام کرنے کی سازش کا حصہ ہے۔ تحریک جب آگے بڑھی اور بھیڑ بڑھ گئی تو افراد اور جماعتوں کی ایک بڑی تعداد نے ان سے رجوع کرنا شروع کیا۔وہ لوگوں کے لیے کھانے کے اسٹال لگانا چاہتے تھے۔میرے پاس ایسی دس تنظیموں کی فہرست ہے جنہوں نے وہاں یہ اسٹالز لگائے تھے ‘‘۔ انہوں نے ان تنظیموں اور افراد کے نام نہیںبتائے۔کہانہیں جاسکتا کہ ان میںسنگھ پریوار کے لوگ تھے یانہیںتھے ۔ اب اگر اشوک سنگھل یہ دعوی کر رہے ہیں کہ وشو ہندو پریشد نے کھانے کے اسٹالز لگوائے تھے اورکے این گوونداچاریہ کہہ رہے ہیں کہ وہاں جو لوگ موجود تھے ان میں بڑی تعداد آر ایس ایس کے کارکنان کی تھی تواس پربوکھلانے کی بجائے سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔بھیڑمیں گھس کر مقصد حاصل کرنا آر ایس ایس کا نیا وطیرہ نہیں ہے ۔ گاندھی جی کے قتل کے بعد آر ایس ایس پرجب زمینیں تنگ ہوگئیں تواس کے لیڈروں اور پرچارکوں نے ونوبا بھاوے کی بھودان تحریک میںگھس کرنہ صرف اپنے سیاسی وسماجی وجود کو بچایا بلکہ بڑی چالاکی سے نئی زمینیں ہموار کیں۔فرق صرف یہ ہے کہ اس وقت کسی اشوک سنگھل کی ہمت نہیں تھی کہ وہ یہ دعوی کرتا کہ سروودیہ کے سالانہ اجتماع میںآر ایس ایس کے کتنے کارکنان شریک تھے۔ اسی طرح ۱۹۷۰ء کی دہائی میں اس نے سوشلسٹوں کے کندھوںپر سوار ہوکراپنا سیاسی قدبڑھایا۔ لیکن کیااس کے لیے ونوبا بھاوے یا جے پرکاش نارائن ذمہ دار تھے؟ان رہنمائوں کو دوش دینا سراسر حماقت ہوگی،یہ سیکولرطاقتوں کی ناکامی تھی جس نے فرقہ پرستوں کوان سے فایدہ اٹھانے اورعوامی جذبات کااستحصال کرنے کا موقع دیا۔ بدقسمتی سے کانگریس ہر اس طاقت کو اپنے لیے خطرہ سمجھ لیتی اور اپنا دشمن بنالیتی ہے،جس کے ساتھ عوامی حمایت ہو اورجو اسکے اشارے پر ناچنے سے انکار کردے۔ورنہ کوئی وجہ نہیں تھی کہ غریبی یا کرپشن جیسے مسئلے پر ٹکراؤ کا ماحول پیدا ہوتا، اورفرقہ پرست طاقتیںاس کا استحصال کرتیں۔
انا ہزارے کاموازنہ ایک طرف گاندھی اور جے پی سے کیا جارہاہے تودوسری طرف راہل سے ۔کہا جارہاہے کہ جو کام برسوں کی بھاگ دوڑ میں راہل نہ کرسکے،وہ انا نے یوں کر دکھایا۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ راہل تونئی امنگوں کی علامت نہ بن سکے، انا ہزارے نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن بن گئے ، وہ ان کی حمایت میں ہزاروں کی تعداد میںسڑکوں پر اتر رہے ہیں۔اپنے سینے اور اپنے ماتھے پر ’میں انا ہوں ‘کی پٹی لگاکر گھوم رہے ہیں۔ان پر جانیں قربان کر رہے ہیں،خود سوزی جیسا انتہائی قدم اٹھارہے ہیں،کیونکہ انااوران کی ٹیم ان میں اعتماد اور امید کی کرن جگانے میںکامیاب ہوئی ہے۔ اس کے محرکات وعوامل سے قطع نظراس کے پیغام کو سننے، سمجھنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پرکانگریس کے منصوبہ سازوں کو چاہیے کہ وہ اس پر پوری سنجیدگی سے غورکریںاور ملک کوجان بوجھ کر ایک خطرناک ٹکرائو کی طرف نہ دھکیلیں۔انا کاموازنہ گاندھی اور جے پی کی بجائے ونوبابھاوے سے کیا جانا چاہیے جن کی بھودان تحریک نے کانگریس کے سنڈیکیٹ کے مقابلے انڈیکیٹ کی زمین تیار کی تھی۔ ۱۹۶۷ء کے انتخابات میں کانگریس کی حالت انتہائی پتلی تھی۔پارٹی بے جان ہوچکی تھی،لوگوںکے دلوںمیں اس کے سرمایہ داروں کی پارٹی ہونے کا خیال راسخ ہوچکاتھا۔پہلی باروہ کئی ریاستوں میںاقتدار سے بے دخل ہوگئی تھی۔لیکن اندرا گاندھی کے مقابلے کانگریس کی شکست اورپارٹی کے بٹوارے کے بعد کمزورہونے کے بجائے اس میں نئی جان آگئی،غریبوںاور اقلیتوں میںکانگریس کے تئیںاعتمادپیدا ہوا۔ یہ دونوں طبقات کانگریس کے ساتھ مضبوطی سے جڑے جس کا ۱۹۷۱ء کے انتخابات میں اسے فائدہ ہوا۔ تاریخ پر نظر رکھنے والے کسی طفل مکتب کوبھی بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ۷۱ء کی کامیابی میں ونوبابھاوے او ران کی بھودان تحریک کا کیا کردارتھا۔لیکن اسی اندرا نے جب جے پرکاش ناراین کے ساتھ ٹکرائو کا راستہ اختیار کیا تو کیا انجام ہوا؟ہندوستان کی سیاست کو جن رہنمائوں نے سب زیادہ متأثر کیاہے،سنیاس ان میں ایک قدرمشترک رہاہے،سماجی زندگی میںیہ ایک بہت بڑی طاقت ہوتی ہے۔گاندھی جی بھی ایک سنیاسی تھے ،ونوبا بھی سنیاسی تھے اورجے پی بھی سرگرم سیاست سے سنیاس لے چکے تھے۔
ونوبا اور انا میں کئی مماثلتیںہیں۔ونوبا کا تعلق بھی مہاراشٹر سے تھااور انا ہزارے بھی مہاراشٹر کے رہنے والے ہیں۔دونوں میں کوئی برابری نہیں ہے لیکن وہ بھی گاندھیائی تھے یہ بھی گاندھیائی ہیں،انہوں نے بھی غریب کسانوں، مزدوروںاوربے زمینوں کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی تھی،یہ بھی گاؤں اور غریبوں کی لڑائی لڑتے آئے ہیں ،جن لوک پال بل پرسرکار کے جھک جانے کے بعدبہ ظاہر تنازعہ ختم ہو گیا ہے لیکن یہ خطرہ مزید بڑھ گیا ہے کہ ان کی تحریک کے کندھوں پرفرقہ پرست طاقتیں سوار ہوجائیں۔اس خطرے سے نبٹنا بھی حکومت اورسیکولرطاقتوں کی ذمہ داری ہے۔جو ٹکراؤ سے نہیں، حکمت اوردانائی سے ممکن ہے۔

مصنف کے بارے میں

احمد جاوید

احمد جاوید اردو کے ممتاز صحافی، مصنف، مترجم اور کالم نگار ہیں۔ تاریخ و تمدن پر گہری نظر اور ادب و صحافت میں اپنے منفرد اسلوب سے پہچانے جاتے ہیں۔

مزید