احمد جاوید
آپ نے میمنہ اور شیر کی یہ حکایت بارہا پڑھی سنی ہوگی۔اس مثال کوروزمرہ کی گفتگو میںبھی استعمال کرتے آئے ہوںگے۔اور نہیں تو کسی زور آور کو آئینہ دکھانے یا کسی کمزورکووقت کی نزاکت سمجھانے کے لیے ہی سہی آپ کویہ قصہ ضرور یاد آیا ہوگا۔لیکن آپ نے اس حکایت کے اس پہلو پر شاید ہی کبھی غور کیا ہوگا جو اس وقت میرے پیش نظر ہے ۔
بکری کا بچہ دریا کے کنارے کھڑاتھا۔شیر نے دیکھا تو اس کی نیت خراب ہو گئی۔اس نے اس غریب سے کہا :’گستاخ بچے!تونے میرا پانی کیوں خراب کیا؟‘شیر کی دہاڑ سن کر بچہ لرز گیا۔’حضور ! ابھی میں بہت چھوٹا ہوں۔ابھی اس لائق نہیں ہوا کہ دریا میںاتر سکوں ‘۔ شیر پھر دہاڑا’تو تیری ماں نے خراب کیا ہوگا۔‘میمنہ ایک بار پھر کانپ گیا۔’جناب عالی! میری والدہ محترمہ نے آپ کا کچھ نہیں بگاڑا۔ان کا تو کبھی ادھر گزر بھی نہیں ہوا۔یہ تو میں ہوں کہ بھٹک کر تنہا اس جانب …‘ ابھی وہ اپنی بات بھی پوری نہ کر سکا تھا کہ شیر پھر دہاڑا’گستاخ ! زبان لڑاتا ہے ‘اوراسے دبوچ لیا۔ دیکھا آپ نے ایک کمزور میمنہ کے سامنے شیرکس طرح بہانے پر بہانے بناتا ہے ،حیلے تراشتا ہے،اسے دبائو میں لینے اور مجرم باور کرانے کی سعی نامشکور کرتاہے لیکن وہ جلد ہی عاجز آکر اپنی اصلیت پر آجاتا ہے۔وہ پہلے بھی ایسا کر سکتا تھا لیکن یہ کون سی طاقت ہے جو اسے اس سے روکتی ہے؟
جی ہاں ! آپ نے بالکل درست سمجھا۔زندگی کے ہر معرکہ میںسب سے بڑی طاقت اخلاق کی طاقت ہوتی ہے۔یہ اخلاقی قوت کی کمی ہے جوشیر کو میمنہ کے سامنے حیلے ڈھونڈنے پر آمادہ کرتی ہے۔ وہ جواز پر جواز پیش کرتاہے ،بار باراپنا موقف بدلتا ہے،لیکن اس کی ہر کوشش رائگاںجاتی ہے اور اس کا نقاب اتر ناتھا اتر جاتا ہے جو اسکی کھلی ناکامی ہے۔اس نے سمجھا تھا کہ وہ اپنی ہر دہاڑ کے ساتھ کامیابی سے قریب ہو رہاہے لیکن یہ اس کی بھول تھی۔میرے نزدیک اناہزارے اور حکومت کی کہانی بھی میمنہ اور شیر کی کہانی ہے۔انا چاہے اپنے مقصد میں کامیاب ہوں یا نہ ہوںلیکن کانگریس انااور انکے ساتھیوںکو دبائو میں لینے کی ہرکوشش کے ساتھ ناکامی سے قریب ہو رہی ہے ۔وہ توکہیے کہ ملک میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہیں ورنہ ایک طرف ایک گاندھیائی ستیاگرہی ہے اور دوسری طرف پوری حکومت و اقتدار کی طاقت، ایک جانب چند سماجی خدمت گار ہیںاور دوسری طرف ایوان اقتدار کے منتخب نمائندے۔ جمہوریت اور تاناشاہی میں بنیادی فرق یہی ہے کہ وہاںمیمنے ظل الہی کی شان میں گستاخی نہیں کر سکتے، یہاں شیر میمنہ کو آسانی سے دبوچ نہیں سکتا ۔ کانگریس اور اسکی قیادت کاالمیہ یہ ہے کہ اس نے خود اپنے ماضی سے بھی سبق لینے سے انکار کر دیاہے۔ وہ اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ جنگیںہتھیاروں سے نہیںاخلاق کی طاقت سے جیتی جاتی ہیںاور اگرجنگ سیاسی ہوتواور بھی قدم قدم پراحتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس واقعہ کی مثالیںآج یہاں وہاںبکھری پڑی ہیں۔ہم آئے دن دیکھ رہے ہیںکہ جیتی ہوئی جنگیں شکست میں بدل جاتی ہیں اور فاتح طاقتیںکس طرح ناک رگڑ نے پر مجبور ہوتی ہیں۔ ایک طرف تہاڑ جیل سے رام لیلا میدان تک تحریر اسکوئر کامنظر ہے اور دوسری طرف منموہن سنگھ اور ان کے سپہ سالاروں کی نا رسائی ۔جس ٹکرائو کے راستے پر ملک بڑھ رہاہے وہ نہ قوم کے حق میں بہتر ہے اور نہ کانگریس کے مفادمیںبہتر لیکن اس کو کیاکہیے گا کہ کچھ لوگ جان بوجھ کراس کو بڑھا رہے ہیں۔حد تو یہ ہے کہ اس حکومت کواب کرپشن ، رشوت ، اور بدعنوانیوں کے خلاف جد وجہد میں بھی کسی بیرونی طاقت کا ہاتھ نظر آنے لگا ہے۔
اس وقت کانگریس کی قیادت جن ہاتھوں میں ہے ، ان کی اکثریت۰ ۱۹۷ء کے عشرے میںجوان تھی۔بیشتر تواندراگاندھی اور سنجے گاندھی سے قریب بھی تھے۔کانگریس کے ترجمان راشد علوی بھی انہیں لیڈروں میں سے ایک ہیں۔ان کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ آج ملک میں کرپشن کے خلاف اناہزارے کی مہم میں جوبیرونی ہاتھ دیکھ رہے ہیں،ایمرجنسی کے نفاذ کے وقت اندرا گاندھی نے بھی ملک کے حالات کی خرابی کے لیے بیرونی طاقتوں کے اسی ہاتھ کو ذمہ دار قرار دیا تھا۔بات راشد علوی تک ہی محدود نہیں ہے،خود وزیراعظم بھی یہی کہہ رہے ہیں۔وہ انا ہزارے کے خلاف پولس کارروائی کو جائز ٹھہراتے ہوئے یہ کہنا نہ بھولے کہ’ ہندوستان عالمی سطح پر ایک اہم ملک کے طور پر ابھر رہا ہے اور کچھ طاقتیں نہیں چاہتیںکہ ہندوستان اپنا اصل مقام حاصل کرے۔ ہمیں ان طاقتوں کے ہاتھوں میں نہیں کھیلنا چاہیے‘۔اب ملک کی اپوزیشن پارٹیاں اور خاص طور پربائیں بازو کی جماعتیں ان سے وضاحت طلب کر رہی ہیںاورکہہ رہی ہیں کہ وزیراعظم کا یہ بیان ایمرجنسی کے دور میںاپنے مخالفین کے لیے اندراگاندھی کے ریمارکس کی یاد دلا رہاہے۔ہم اس پر یہ اضافہ کرنا چاہیں گے کہ جب جے پرکاش نارائن کی مکمل انقلاب کی اپیل کے مقابلے میں بیرونی طاقتوں کے خلاف اندرا گاندھی لوگو ں کو اپنے ساتھ کھڑا کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی تھیں توکیا منموہن سنگھ اور ان کے مشیروں وزیروں کی جماعت انا کی مہم کے مقابلے اس بیرونی ہاتھ کے خلاف ملک کے عوام کو اپنے ساتھ کھڑا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے؟ منموہن سنگھ ملک کے سر براہ ہیں انکے کسی بیان کو ہلکے مین نہیںلیا جاسکتا۔وہ اگر کہہ رہے ہیں کہ ملک میں پیدا ہونے والے حالا ت کسی بیرونی طاقت کی کارستانی ہیںتو پھر ملک کے عوام میں بے چینی پیدا ہونا لازمی ہے۔انہیںصاف صاف بتانا چاہیے کہ وہ کون سی طاقتیں ہیںجو ہندوستان میں کرپشن کیخلاف مہم کو ہوا دے رہی ہیںاور اس کے پیچھے ان کے کیا مقاصد ہیں؟ہمیں ان طاقتوں کو کھل کر جواب دینا چاہیے ۔یہ صرف ملک کے وقار اوروزیراعظم کی اخلاقی جرأت کا تقاضہ ہی نہیں،سربراہ مملکت پر ملک کے عوام کے اعتماد کا مسئلہ بھی ہے ورنہ لامحالہ یہی سمجھاجائے گا کہ وہ ملک و قوم کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس سے قطع نظر کہ انا ہزارے کی کردار کشی یا انااور ان کے ساتھیوں کے خلاف پروپیگنڈے کا رد عمل کیا ہوگا،ان کے پیچھے آرایس ایس کا ہاتھ دیکھنے والو ں کی بھی کمی نہیں ہے لیکن کیا اس منفی سوچ پر بھروسہ کرکے کہ آرایس ایس کی لال چھتری سے ملک کے سیکولر عوام بدک جائیںگے اور اس تحریک کاہمارے ووٹ بینک پر کوئی اثر نہیں پڑیگا،گانگریس وہی غلطی نہیں دوہرائے گی جواندرا گاندھی نے ایمرجنسی کے دوران کی تھی۔بے شک آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں نے ماضی میں بھی،اس قسم کی عوامی تحریکوں کا اپنی بنیادیں مضبوط کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ونوبابھاوے کی بھودان یگیہ اورجے پی آندولن اس کی مثالیں ہیں لیکن بہ غور دیکھیں تو اس کے لیے اصل ذمہ دارکانگریس تھی جس نے حالات کے تقاضے ،وقت کی نزاکت اورعوام کے جذبات کو سمجھنے سے انکارکرکے ٹکرائو کے رجحان کو فروغ دیا۔جس کی فصل اسے خود بھی کاٹنی پڑی اور ملک وقوم کو بھی قیمت چکانی پڑی۔تارک الدنیا فقیروں اورسنیاسیوں کو احترام و عقیدت کی نظر سے دیکھنے کی اس ملک میں بڑی مضبوط روایت رہی ہے۔ملک کی سیاست میں جب بھی کوئی سنیاسی آیا ہے،عوام نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیاہے۔جے پرکاش نارائن بیشک ایک سوشلسٹ سیاستداں تھے لیکن وہ عملی سیاست سے سنیاس لے چکے تھے۔ یہ ایک اخلاقی طاقت تھی جس کا مقابلہ اخلاقی طاقت سے ہی کیا جاسکتا تھالیکن اندراگاندھی نے اسے بزور قوت کچلنے کی کوشش کی اور کم و بیش یہی غلطی کانگریس پھر دوہرا رہی ہے۔