اردو کے دشمنوں میں ہے’جناب‘کا بھی نام

اردو کی زبوں حالی کی اصل ذمہ دار حکومت وسیاست یا خود ہماری نادان قیادت؟

Table of Contents

پہلی خبر: وزیر تعلیم اروندرسنگھ لولی نے انجمن ترقی اردو ہند کے توسط سے پیش کردہ درخواستیں اس ہدایت کے ساتھ اردواکادمی دہلی کو بھیج دی ہیںکہ فوری طورپر اردو میڈیم کے 126 اساتذہ کا تقررکرلیا جائے۔حکومت کی اس کارروائی پر اظہار اطمینان کرتے ہوئے انجمن ترقی اردو ہند کے سکریٹری ڈاکٹر خلیق انجم نے کہاکہ ہمیں خوشی ہے کہ انجمن کی مہم کامیاب ہوئی۔ ہم اس کے لئے وزیر تعلیم کے شکر گزار ہیں۔ واضح رہے کہ ممبراسمبلی شعیب اقبال (سابق ڈپٹی اسپیکر) نے اسمبلی میں سوال اٹھایاتھا کہ اردو کے اساتذہ کی برسوں سے خالی پڑی اسامیوں پر بحالیاں کیوں نہیں کی جاتیں؟ وزیر تعلیم کا جواب تھا کہ اردو میڈیم کے اساتذہ نہیں ملتے۔ اس کے جواب میں انجمن ترقی اردو ہند نے 400 اساتذہ کی ایک فہرست ان کی درخواستوں کے ساتھ وزیر موصوف کی خدمت میں پیش کی۔ انجمن کے نمائندوں نے وزیراعلیٰ شیلا دکشت اور دوسرے رہنمائوں سے بھی ملاقاتیں کیں۔ ان درخواستوں کو دیکھنے کے بعد وزیر تعلیم مسٹر لولی نے کہاکہ ہمیں ایسے امیدواروں کی ضرورت ہے جو سائنس،ریاضی اور سماجی علوم اردومیں پڑھا سکیں۔ انجمن نے ایک بار پھر درخواستیں جمع کیں اورایسے 200 امیدواروں کی فہرست پیش کردی۔ اب تین چار ماہ کے بعد حکومت دہلی کے محکمہ تعلیم نے یہ کارروائی کی ہے کہ ان درخواستوں کو اردو اکادمی کو بھیج دیں تاکہ ان میں سے 126 امیدواروں کی عارضی تقرری کرلی جائے۔ (ہفتہ،23 اکتوبر2010 )
دوسری خبر: دہلی میں اردو کے ساتھ حکومت کا امتیازی سلوک اور تفریق وتعصب اپنی تمام حدوں کو پارکرگیا ہے۔ لسانی اقلیت کے یکساں اور معیاری تعلیم کے حقوق کی کھلی خلاف ورزی کی جارہی ہے اور اردو پڑھنے پڑھانے والوں کے ساتھ پناہ گزینوں جیسا سلوک کیا جارہاہے۔ یہ انکشاف اس وقت ہوا جب وزیر تعلیم اروندر سنگھ لولی نے اردواکادمی دہلی کو 126 نئے اساتذہ کی تقرری کی ہدایت دی اور اکادمی نے ایسا کرنے سے معذرت کرلی۔واضح رہے کہ راجدھانی کے اسکولوں میں تقریباً 20 سال پہلے حکومت نے اردو اکادمی کے ذریعہ کچھ اساتذہ کی تقرری کی تھی جن کی مجموعی تعداد تقریباً 120 بتائی جاتی ہے۔ان کی تنخواہ صرف 2200 روپے تھی۔ تین چار سال قبل ان پر شیلاحکومت کو رحم آیا تو 5500 روپے دیا جانے لگا اور اب ان میں سے پی جی ٹی کو 13160 اور ٹی جی ٹی کو 11160 روپے اداکئے جارہے ہیں (جبکہ ان ہی اسکولوں کے دوسرے پی جی ٹی اساتذہ کی تنخواہ 42000 روپے کے آس پاس ہے) یہ اضافہ بھی اس وقت کیا گیا جب لفٹننٹ گورنر نے حکومت کو ہدایت دی کہ ان کو کم ازکم اتنی تنخواہ دی جائے جتنی کشمیری مہاجرین کو مختلف محکموں میں دی گئی امدادی ملازمت پر دی جاتی ہے۔گزشتہ 13 ستمبر کو دہلی ہائی کورٹ نے اس تفریق کو ختم کرنے کا حکم دیا تھا لیکن دوماہ سے اوپر ہوچکے حکومت نے اس پرکوئی کارروائی نہیں کی ہے۔ اردو اکادمی دہلی جو اس کیس میں فریق تھی، فیصلے کو دبائے بیٹھی ہے اور اردو کے رکھوالوں کے منہ پر تالے پڑے ہوئے ہیں۔(5 نومبر2010)

گزشتہ سے پیوستہ ہفتے (اتوار 24اکتوبر 2010)ہم نے حکومت دہلی کے محکمہ تعلیم کے ایک فیصلے کے حوالے سے آپ کی توجہ اردو کی زبوں حالی کے اسباب و عوامل کی طرف مبذول کرانے کی کوشش کی تھی۔ خبریہ تھی کہ وزیرتعلیم اروند سنگھ لولی نے انجمن ترقی اردو ہند کے توسط سے پیش کردہ درخواستیں اس ہدایت کے ساتھ اردو اکادمی دہلی کو بھیج دی ہیں کہ’ فوری طورپر اردو میڈیم کے 126اساتذہ کا تقرر کرلیا جائے‘۔ جس پر انجمن ترقی اردو ہند نے اظہار اطمینان و مسرت کیا ہے۔ ہم نے لکھا تھا کہ ’حکومت (دہلی) اردو کے کشکول میں عارضی اساتذہ کی بھیک ڈال رہی ہے اور ہم ہیں کہ اسی پر خوش ہیں اور اپنی پیٹھ ٹھونک رہے ہیں۔اگر آپ ملک کی پسماندہ ترین ریاست بہار کی اردو قیادت سے بھی سبق لینے کی زحمت اٹھاتے تو اردو کے ساتھ وزیر اعلیٰ شیلا دکشت اور وزیر تعلیم اروند سنگھ لولی کی اس زیادتی پر ان کا گریبان پکڑ لیتے کہ اردو کے گہوارے دہلی میں اردو کے ساتھ یہ مذا ق کیوں؟ ایک وہ ہیں جو اردو کے 35ہزار اساتذہ کی تقرری کے اعلان پر بھی احسان مند نہیں ہوتے، دینی مدارس کے 15ہزار سے زائد مدرسین و ملازمین کی تنخواہیں جاری کی جاتی ہیں تو وہ اسے کسی کا احسان نہیں، اپنا حق سمجھتے ہیں، سجدے میں نہیںگرتے اور ان سے مزید وعدے کیے جاتے ہیں، یقین دہانیاں کرائی جاتی ہیں اور ایک ہم ہیں جن کو126عارضی اساتذہ کی بھیک ہی خوش کردیتی ہے اور ہم اپنی پیٹھ تھپتھپانے لگتے ہیں‘۔ یہ تو نہیں معلوم کہ میری اس گزارش کا راجدھانی میں اردو کے ہمدردوں، بہی خواہوں اوراردو کی سیاست کے جیالوںپر کوئی اثر ہوا یا نہیں، ٹھہرے ہوئے پانیوںکی غیرت میں کوئی حرکت آئی یا نہیں اور ’اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ‘ جیسے دعوے کرنے والوں نے اپنے گریبانوں میں جھانک کردیکھنے کی زحمت گوارہ کی یا نہیں لیکن اس کے بعد تین ایسے واقعات سامنے آئے جو میں آپ سے بانٹنا چاہتا ہوں۔
سب سے پہلے تو ہمارے ایک ادیب وشاعر دوست نے جو بہار سے تعلق رکھتے ہیں، ذاتی طور پر مجھ سے اپنے شدید ردعمل کا اظہار کیا اور کہا کہ’ جس قیادت سے آپ نے راجدھانی کے قائدین اردو کو غیرت دلائی ہے، وہ کسی بھی طرح اتنی اچھی نہیں ہے۔یہ توبہار کی اردو آبادی کی لسانی بیداری اور سیاسی شعور تھا جس نے حکومتوں کو جھکنے کے لیے مجبور کردیا۔ بہار کے جن دوردراز علاقوں کے لوگ بھوجپوری، بجیکا، میتھلی، مگہی، سرجا پوری جیسی بولیاں بولتے ہیں وہ بھی اردوپر ایسے فدا ہیں کہ اپنے بچوںکو ہر قیمت پر اردو پڑھانا چاہتے ہیں اور سرکاری کاغذات میں پوری سختی اور مستعدی سے اپنی مادری زبان اردو درج کراتے ہیں لیکن اس کے برعکس دہلی اور یوپی کے جس خطے کو آپ اردو کا گہوارہ کہتے ہیں وہاں کبھی لوگوں کے گھروں میں جاکراردو کی کسمپرسی دیکھ آئیے۔حقیقت سمجھ میں آجائے گی‘۔ ہمارے دوست پورے جوش میں تھے، وہ اس سلسلے میں کچھ بھی سننے کو تیار نہیں تھے۔ ان کو میری اس رائے سے قطعی اتفاق نہیں تھا کہ یہ صورت حال سال دو سال میں نہیں پیدا ہوئی ہے، برسوں کی مہربانیوں کا نتیجہ ہے اور اس کے لیے اوروں سے زیادہ خود ہماری قیادتیں ذمہ دار ہیں۔لیکن جب میں نے ان سے سوال کیا کہ کیاآپ بتاسکتے ہیں کہ بہار میں جب جنتا پارٹی اقتدار میںآئی اور اس حکومت میں غلام سرور وزیر تعلیم بنائے گئے تو انہوں نے اردو کی بنیادی تعلیم کے لیے کیا کیا اقدامات کیے؟ کیا انہوں نے پرائمری اور ثانوی سطح پر اردو کی تعلیم اور دینی مدارس کے طلبہ واساتذہ کو مساوی سہولیات مہیا کرانے کے لیے اپنی کرسی دائو پر نہیں لگادی تھی؟ اقلیتی اسکولوںکی منظوری اور مدرسہ بورڈ کے اپ گریڈیشن کی فائلوں کے ساتھ کیا وہ ایک ہاتھ میں فائل اور دوسرے میں اپنا استعفیٰ لے کر وزیر اعلیٰ کرپوری ٹھاکر کے پاس نہیں گئے تھے؟ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ اس کے بعد کانگریس نے اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دینے کا وعدہ اپنے انتخابی منشور میں کیا اور پھر وہ اقتدار میںآئی تو انجمن ترقی اردو ہند کے ریاستی صدر ڈاکٹرعبدالمغنی مرحوم کو جگن ناتھ مشرا نے اپنی کابینہ میں وزیر تعلیم کی کرسی پیش کی تھی لیکن انہوں نے یہ کرسی ٹھکرادی تھی کہ سرکار پہلے اپنا انتخابی وعدہ پورا کرے ورنہ ہم سڑکوں پر اترکرتحریک چلائیں گے لیکن اس کے برعکس مرکز میں بھی اردو کے ایک عظیم مجاہدنے تحریک چلائی تھی، لاکھوں دستخط جمع کیے تھے۔ کیا دہلی اور یوپی کی اردو آبادی نے بڑھ چڑھ کر ان کا ساتھ نہیں دیا تھا لیکن اس کے بدلے میں موصوف نے کیا کیا؟کیا اقتدار کی کرسی نے ان کی زبان پر تالے نہیں ڈال دیے اور کیا حکوت کی نوازشوں میں دب کر اردو کی وہ تحریک ہمیشہ کے لیے خاموش نہیں ہوگئی؟ میرے دوست کے پاس اب ہاں ہوں کے سوا کوئی الفاظ نہیں تھے۔
اس کے بعد ایک این جی او کے حوالے سے یہ خبر آئی کہ اردو کی تعلیم کے لیے مرکزی حکومت نے وزیر اعظم کے 15نکاتی پروگرام کے تحت جو رقم مختص کی تھیں ان میں سے ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کیا گیا کیونکہ یہ سرمایہ ریاستی حکومتوں کی جانب سے پیش کردہ تجاویز کے لیے مخصوص تھا اور کہیں سے کسی حکومت نے ایسی کوئی تجویز پیش ہی نہیں کی۔ حد تو یہ ہے کہ خود مرکز نے وزیر اعظم کے ذریعہ اردو کے فروغ کے لئے بنائی گئی اسکیم کی تشہیر کے لئے مختص فنڈ سے پچھلے تین سال میں ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کیا۔یہ کھیل نیا نہیں ہے۔ اقلیتوں کی فلاح وبہبود کے لیے اس قسم کی اسکیمیں اس ملک میں ایسی ہی چلتی ہیں۔ حکومتیں اعلان کرتی ہیں کہ اس مد میں اتنے کروڑ روپے مختص کردیے گئے اور ہمارے نام نہاد قائدین (جو اصلاً حکومت کے ہرکارے ہوتے ہیں) اس کا خوب ڈھنڈورہ پیٹتے ہیں، ہمارے اخبارات شہ سرخیوں میں رپورٹیں شائع کرتے ہیں، مبارک سلامت کی بہاریں آجاتی ہیں، بے چارے عام لوگ کیا جانیں کہ اصل کھیل کیا ہے۔ بھیک کی شکل میں جو رقوم دی جارہی ہیں ان میں سے ایک چونی ّ بھی خرچ کی جائے گی یا نہیں؟ملک کے دوردراز علاقوں کو جانے دیجئے، راجدھانی دہلی کے اسکولوں میں اردو اساتذہ کی اسامیاں برسوں سے خالی پڑی ہیں، کیا ہمارے ووٹ پر اقتدار کے حلوے مانڈے توڑنے والے کسی لیڈر نے آج تک اردو کے کشکول گدائی میں عارضی اساتذہ کی بھیک ڈالنے والے وزیرتعلیم کا دامن پکڑا؟ ان سے پوچھا کہ وزیر اعظم کے 15نکاتی پروگرام پر عمل درآمد کیوں نہیں ہورہا ہے؟ بھلا فرصت کس کو ہے؟ کچھ بورڈوں اور اکیڈمیوں میں مگن ہیں، کچھ شعبوں میں اونگھ رہے ہیں اورکچھ این جی اوز کے کھلونوں سے دل بہلارہے ہیں۔ باقیوں کی اپنی اپنی الگ الگ مجبوریاں اور کمزوریاں ہیںوہ ارباب اقتدار و حکومت کو ناراض کرنے کی ہمت نہیں جٹاسکتے۔
اسی اثنا میں ملک کے معروف دانشور ، تاریخ داں اور سابق سینئر بیورو کریٹ جناب کے کے کھلر نے ’عالمی اردوادب‘ کے کشمیری لال ذاکر نمبر پر اپنا دلچسپ اور معلوماتی تبصرہ بہ غرض اشاعت ہندوستان ایکسپریس کو بھیجا۔ اس مضمون میں اردو کے حوالے سے بڑے دلچسپ واقعات کا ذکر ہے۔ جناب کھلر ترقی اردو بیورو(موجودہ قومی اردو کونسل) کے ڈائریکٹر اور جعفری کمیٹی کے ممبر سکریٹری رہے ہیں۔ وہ اردو کے بڑے بڑے مجاہدین کو بہت قریب سے دیکھنے کا شرف رکھتے ہیں۔ موصوف پروفیسر آل احمد سرور سے لے کر ڈاکٹر خلیق انجم اور پروفیسر گوپی چند نارنگ سے لے کر کشمیری لال ذاکر تک کا ذکر خیر بڑے بے باکانہ انداز میں کرتے ہیں۔ میرا قلم ان چشم کشا حقائق کو دوہرانے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ یہاں ہم صرف اس ایک واقعہ کو دوہرانا چاہتے ہیں جومیرے آج کے اس کالم کا محرک ہے اور جس کو پڑھ کر میری زبان پربے ساختہ ناشاد اورنگ آبادی کا یہ مصرعہ آگیا :اردو کے دشمنوں میں ہے …کا بھی نام ۔
آپ نے سردار جعفری کمیٹی کا نام ضرور سنا ہوگا اور شاید اس کی سفارشات بھی نظر نواز ہوئی ہوں۔ علی سردار جعفری اور ان کے ساتھیوں کو گجرال کمیٹی کی رپورٹ کی روشنی میں ایک نئی رپورٹ تیار کرنے کو کہا گیا تھا کیونکہ اس رپورٹ پر برسوں بیت چکے تھے اور اس پر گرد وغبار کی بڑی موٹی تہہ جم چکی تھی۔ واقعہ یہ ہے کہ جب اندر کمار گجرال کے نام وزیر اعظم کی کرسی کی ’لاٹری‘ نکلی تو اردو والوں کو بڑی شدت کے ساتھ اندرا گاندھی کی گجرال کمیٹی اور اس کی سفارشات یاد آئیں۔ یاروں نے گجرال کو اردو کے سلسلے میں ان کی سفارشات یاد دلانے کے لیے ایک نمائندہ وفد ترتیب دیا۔ اس وفد نے وزیر اعظم سے ملاقات کی اور ان سے کہا کہ اردو کے سلسلے میں ایک رپورٹ برسو ں سے وزیر اعظم کے دفتر کی فائلوں میں دبی ہے جو خود آپ نے اس وقت کی وزیر اعظم محترمہ اندرا گاندھی کو سونپی تھی۔حسن اتفاق ہے کہ آج آپ خود وزیراعظم ہیں، اگر چاہیںتو اردو کو اس کا حق مل سکتا ہے۔ گجرال نے جواب میں جو کچھ کہا تھا آج اس کو دوہرانے کی ضرورت نہیں رہ گئی ہے۔ یاد آتا ہے کہ اس وفد میں معروف صحافی پروانہ ردولوی (مرحوم) بھی شامل تھے اور اپنی صاف گوئی وبیباکی کے لیے مشہور پروانہ صاحب مرحوم اس وقت اپنے آپ پر قابو نہیں رکھ پائے تھے جب ایک مجاہد اردو نے جو گجرال کمیٹی میں بھی رہ چکے تھے،ایک اور جائزہ کمیٹی کی تجویز پیش کردی تھی۔ اللہ بخشے مرحوم کو وزیر اعظم کی موجودگی میں
انہوں نے وہ کھری کھوٹی سنائی تھی جو کوئی باضمیر انسان کبھی نہیں بھلاسکتا۔ وزیر اعظم ہکاّ بکاّ دیکھ رہا تھا،پروانہ مرحوم نے وزیر اعظم سے کہا تھا ’’گجرال صاحب! ہم یہاں کمیٹی کمیشن کی بھیک مانگنے نہیں آئے ہیں۔ اگر کچھ کرسکتے ہوں تو عملی صورت میں کیجئے ورنہ خدا حافظ، کمیٹی کمیشن کا کھیل تو ہم 45برسوں سے دیکھتے آئے ہیں۔لیکن گجرال کے لیے اس نئی مصیبت سے نجات کی اس سے بہتر صورت بھلا کیا ہوسکتی تھی، انہوں نے اس تجویز پر فوراً عمل کیا اور جعفری کمیٹی کی تشکیل عمل میں آگئی۔ اب آگے کی روداد اس کمیٹی کے ممبر سکریٹری کے کے کھلر کی زبانی سنئے:
’’میری ان سے پہلی اور آخری ملاقات جعفری کمیٹی میں ہوئی۔ یہ ملاقات کافی مایوس کن تھی جوں جو ں میٹنگیں بڑھتی گئیں مایوسی بھی بڑھتی گئی۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ (اس کمیٹی کے) بیشتر ممبروں کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ قومی تعلیمی پالیسی میں سہ لسانی فارمولہ کی کیا پوزیشن ہے اور سہ لسانی فارمولے میں اردو کی کیا پوزیشن ہے۔کامن اسکول سسٹم کس بلا کا نام ہے اور قومی تعلیمی نظام کسے کہتے ہیں۔ حاضر ممبران صرف ایک ہی رٹ لگائے ہوئے تھے۔ مادری زبان میں تعلیم ہونی چاہئے، اردو میڈیم اسکولوں کی تعداد میں اضافہ ہونا چاہئے۔ امرتا پریتم اور مس حیدر تو کسی میٹنگ میں آئی ہی نہیں۔ نامور سنگھ نے ہندی میں دستخط کیے۔ نارنگ صاحب (پروفیسر گوپی چند نارنگ) تو دساور میں رہتے تھے لیکن دستخط والے دن آگئے تھے۔ جہاں تک ذاکر صاحب (کشمیری لال ) کا تعلق ہے تو ان کے لیے ایسی میٹنگیں ایک تفریح تھی۔ جعفری صاحب اکثر بیماررہتے تھے اور میٹنگوں کی باگ ڈور راج بہادر گوڑ کے سپرد رہتی تھی۔ان ممبروں کو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ آئین میں جومادری زبان کا ذکر ہے وہ صرف لسانی اقلیتوں کے لیے ہے اور وہ اس سے بھی بے خبر تھے کہ ہریانہ میں کون سی تین زبانیں پڑھائی جارہی ہیں۔… جب میں نے ہریانہ گورنمنٹ کی چٹھی دکھائی کہ ہریانہ اسٹیٹ میں تیسری زبان جو پڑھائی جارہی ہے وہ ہے تیلگو تو اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔اور جب میں چنڈی گڑھ اس امر کی تصدیق کرنے کے لیے گیا تو یہ بھی جھوٹ نکلا۔ حتیٰ کہ میوات کے بارے میں بھی کافی غلط فہمیاں تھیں، میوات کی زبان اردو نہیں، میواتی ہے جو برج بھاشا کی شاخ ہے۔‘‘
دیکھا آپ نے اردو کی لڑائی ہمارے مجاہدین اردو کس سنجیدگی کے ساتھ لڑتے ہیں۔ کھلر صاحب نے اپنے مضمون میں جعفری کمیٹی کے دوسرے حاضر ممبران کا نام لینے کی ضرورت نہیں سمجھی کیونکہ جعفری کمیٹی ان کا موضوع نہیں تھی، ان کے مضمون میں یہ ذکر ضمناً آیا ہے۔ ورنہ اس میں انجمن ترقی اردو ہند کے ذمہ داروں کا نام ضرور آتا اور ان موصوف کا تو اور بھی زیادہ صراحت کے ساتھ جنہوں نے گجرال کے سامنے یہ تجویز پیش کی تھی اور جن کو پروانہ ردولوی (مرحوم) کی کھری کھوٹی سننی پڑی تھی۔
جس سہ لسانی فارمولہ اور کامن اسکول سسٹم کا ذکر یہاں کھلر صاحب نے کیا ہے اسی فارمولہ اور اسی نظام کے تحت ملک کی دوسری ریاستوں بالخصوص بہار اور کرناٹک میںاردو کی تعلیم وتدریس کی صورت حال دہلی، ہریانہ اور اترپردیش سے یکسر مختلف ہے۔ تفصیلات میں جائیں تو گفتگو طویل ہوجائے گی۔ہم سے پوچھئے تو اس فرق کی دو وجہیں ہیں ایک تو یہ کہ ان دونوں ریاستوں میں سوشلسٹ تحریک کے نتیجے میں کانگریس کی حکومتیں آتی جاتی رہی ہیں اور اردو آبادی کے ووٹ کے لیے سیاسی پارٹیاں اس کے مسائل کو سنجیدگی سے لینے کے لیے مجبور تھیں اور ان ریاستوں میں اردو والوں کی سیاسی قیادت بھی اپنی زبان کے تئیں سنجیدہ تھی۔وہ خود اردو سے محبت کرتی تھی اور اردو کو اپنا مستقبل سمجھتی تھی، اس کے برعکس اردو کا اصل گہوارہ کہلانے والے اترپردیش، دہلی اور ہریانہ میں اردو لسانی اقلیت کی سیاسی قیادت جن طالع آزما لیڈروں کے ہاتھوں میں تھی وہ کبھی اپنے عوام کے بنیادی مسائل کے تئیں سنجیدہ نہیں رہے،ان کی منزلیں کل بھی وہی تھیں جو آج ہیں۔ دوسری بڑی اور اہم وجہ یہ ہے کہ ان ریاستوں کے مجاہدین اردو میں کوئی آل احمد سرور، گوپی چندنارنگ، کشمیری لال ذاکر، جگن ناتھ آزاد اور خلیق انجم نہیں تھا۔ وہاں اردو کی لڑائی غلام سرور اور بیتاب علی صدیقی جیسے اردو کے بے لوث خادم لڑرہے تھے، جن کویہ بھی معلوم تھا کہ کامن اسکول سسٹم کیا ہے، سہ لسانی فارمولہ کس بلا کا نام ہے،آئین میں مادری زبان کے ذکر کی نوعیت کیا ہے اور وہ حکومت کے ہرجھوٹ، سچ اورہر مکروفریب کا تعاقب زمینی سطح تک کرنے کا عزم وحوصلہ بھی رکھتے تھے۔یہ نہیں کہ دہلی اور ہریانہ میں سہ لسانی فارمولہ کے تحت تیلگو پڑھائی جارہی ہے یا اترپردیش میں پنجابی اور سنسکرت اور مجاہدین اردوکو خبر تک نہیں۔ وہ مادری زبا ن میں تعلیم اوراردو میڈیم اسکولوں کی تعداد میں اضافے کی رٹ تو لگائے جارہے ہیں لیکن حکومت اردو اسکولوں اور اردو زبان کے ساتھ کیا سلوک کررہی ہے، اس کی انہیں کوئی فکر نہیں کیونکہ ان کی منزل تو کمیشن، کمیٹی اور اکادمیوں کی صدارت و رکنیت ہے۔ یہ ان صوبوں کی اردو آبادی کی بدقسمتی ہے کہ اس نے ان ہی پر مکمل انحصار کرلیا اور اپنی جنگ خود نہیں لڑی۔
جے این یو کے تعلق سے بعض حلقوں میں یہ بات مشہور ہے کہ جب اشتراکیت پسند دانشوروں نے کانگریس کو بہت پریشان کیا تو اندرا گاندھی نے راجدھانی کے جنگلوں اور پہاڑیوں کے درمیان اس دانشگاہ کا منصوبہ بنایاتاکہ وہ عام آبادی سے دور اس علمی جنت میں بحث و تمحیص اور تدریس و تحقیق کے کاموں میں مصروف رہیں اوریہ سکون سے حکومت چلاسکیں۔ پتہ نہیں اس خیال میں کتنی سچائی ہے لیکن اس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ اردو کی لڑائی جب اپنے شباب پر تھی تو ریاستی اردو اکادمیوں کا قیام عمل میں آیا۔ اردو کی انجمنوں کے گرانٹ اور وظائف کا سلسلہ شروع ہوا۔ بہار اور کرناٹک میں یہ اکادمیاں اور انجمنیں اردو کا مقتل نہیں بن سکیں کیونکہ وہاں سوشلسٹ تحریک مضبوط تھی لیکن دوسری ریاستوں بالخصوص اردو کے روایتی گہواروں میں اردو کی یہ قتل گاہیں حکومت کا بے حد کامیاب تجربہ ثابت ہوئیں۔ آخر یہ اردو کا قتل نہیں تو اور کیا ہے کہ جب اردو آبادی حکومت سے اپنی مادری زبان میں بنیادی تعلیم کا مطالبہ کرتی ہے اوراردواساتذہ کی برسوں سے خالی پڑی اسامیوں پر تقرری کے لیے آواز اٹھاتی ہے تو ان کے دامن میں اردو اکادمی کے ذریعہ عارضی اساتذہ کی بھیک ڈال دی جاتی ہے اور انجمن ترقی اردو ہند اس بھیک کو اردو پر حکومت کا احسان باور کراتے ہوئے سجدے میں گرجاتی ہے؟
جو بچے اردو پڑھنا چاہتے ہیں یا جن کی مادری زبان اردو ہے اور جو دہلی کے اردو میڈیم اسکولوں میں زیرتعلیم ہیں ان کے والدین وسرپرست ٹیکس ادا نہیںکرتے؟ کیا معیاری تعلیم ان کا حق نہیں ہے یا وہ اس ملک میں دوسرے درجہ کے شہری ہیں؟ اگر ریاست کے دوسرے اسکولوں اور دوسری زبانوں کی تعلیم وتدریس کے لیے کسی اکادمی کی جانب سے کوئی عارضی اور غیر معیاری بندوبست نہیں ہے توپھر اردو کے ساتھ کیوں؟ اردو میڈیم اسکولوں میں مختلف مضامین کے اساتذہ اور شہر کے عام اسکولوں میں اردو اساتذہ کی اسامیاںبرسوں سے کیوں خالی پڑی ہیں؟ کیا یہ اردو لسانی اقلیت کے بنیادی حقوق کی کھلی خلاف ورزی نہیں ہے؟لیکن اس ظلم کے خلاف کون آواز اٹھائے؟ جو اردو کے حقوق کی جنگ کے سپاہی اورسالارکارواں ہوسکتے تھے، وہ اکادمیوں اور انجمنوں میں لگے ہیں، مشاعروں اور سمیناروں میں مگن ہیں، نام نہاد ادبی وعلمی موشگافیوں میں مصروف ہیں، مقالے اور پیپر تیار کررہے ہیں، ہراس شخص کے لیے یہاں کوئی نہ کوئی ریوڑی موجود ہے جو اردو کی لڑائی لڑسکتا تھا۔
ملک میں حقوق تعلیم ایکٹ کے نفاذ کو کئی ماہ ہوچکے، اس قانون کی رو سے معیاری تعلیم ریاست کے ہر شہری کا بنیادی حق اور حکومت کی ذمہ داری ہے۔اس میں کسی کے ساتھ بھی کوئی تفریق یا امتیازی سلوک قابل مواخذہ جرم ہے، اس کے لیے جس طرح بچوں کے والدین کو سزا اور جرمانہ کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، اسی طرح حکومت و انتظامیہ اور اس کے ذمہ داروںکو بھی سزا ہوسکتی ہے لیکن اس قانون کو لانے اور اس سلسلے میں بلند بانگ دعوے کرنے والی حکومت اور اس کے وزیر تعلیم سے تو کوئی پوچھے کہ ان کی ناک کے نیچے کیا ہورہا ہے؟ کپل سبل اور منموہن سنگھ سے تو کوئی معلوم کرے کہ دہلی کے ان بچوں کا قصور کیا ہے جواردوپڑھنا چاہتے ہیں یا جن کا ذریعۂ تعلیم اردو ہے؟ کیا یہ ان کے ساتھ بدترین تفریق نہیں ہے کہ پہلے تو ان سے کہا گیا کہ اردو کے اساتذہ نہیں ملتے اور جب اس جھوٹ کا پردہ فاش کردیا گیا تو اردو اکادمی سے کہہ دیا گیا کہ وہ ان کو عارضی اساتذہ مہیا کرادے؟ آخر ان کے لیے حکومت کے پاس مستقل اور کل وقتی اساتذہ کیوں نہیں ہیں؟ یہ کس جرم کی سزا ہے کہ حکومت دوسرے یومیہ معلمین و مدرسین کو جو حق المحنت ادا کرتی ہے، اردو کے ان اساتذہ کو اتنی ہی خدمات کے لیے اس کا ایک چوتھائی معاوضہ بھی ادا نہیں کرتی؟سوال یہ بھی ہے کہ اتنی کم تنخواہ پر کام کرنے کے لیے کون تیار ہوگا اور جواتنی کم قیمت میں خدمات پیش کرنے کے لیے تیار ہوگا، ہم سوچ سکتے ہیںکہ اس کی اہلیت کیا ہوگی یا وہ کتنی ایمانداری سے ان بچوں کو تعلیم دے گا؟ کیا اتنی قلیل تنخواہ میں سائنس، ریاضی اور دوسرے مضامین کے باصلاحیت اساتذہ کام کرنے کوتیار ہوں گے جو تنخواہ اردو اکادمی عارضی اساتذہ کو دیتی ہے۔ وزیر تعلیم اروند سنگھ لولی نے جب انجمن ترقی اردو ہند کے ذریعہ جمع کرد درخواستیں اردو اکادمی بھیجیں تو اپنی کامیابی کی نوید جانفزا سنانے والے یہ بتانا نہ بھولے کہ ان اساتذہ کی تنخواہیں بارہ ہزار روپے ماہانہ ہوںگی۔ جیسے کہ اردو پر قارون کے خزانہ کا منہ کھل گیا ہو۔بے چارے یہ جاننے کی زحمت کیوں اٹھائیں کہ جن اساتذہ کو اردو اکادمی اس وقت 13161روپے ادا کرتی ہے ان کی تنخواہ 42ہزار روپے ہوتی ہے۔ دوسری سہولیات بھتے، پینشن اور انشورنس وغیرہ الگ ہیں۔جتنی اہلیت کے عام اساتذہ (پی جی ٹی) کی تنخواہیں 42ہزار روپے ماہانہ ہے اتنی ہی اہلیت کے اساتذہ سے صرف بارہ ہزار روپے میں کام لینا کیا اردوکا قتل نہیں ؟ کہیں اردو والوں کو یہ احساس دلانا مقصود تو نہیں کہ جب تک اردو پڑھتے پڑھاتے رہوگے پوری روٹی نہیں مل سکتی؟
اس واقعہ کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ ایک طرف تو حقوق تعلیم ایکٹ کی رو سے ہر شہری کو اس کے گھر کے پاس اور اس کی مادری زبان میں معیاری تعلیم مہیا کراناحکومت کی ذمہ داری ہے اور غیر منظور شدہ اسکولوں اور مدرسوں کو بند کرانے کی تیاری کی جارہی ہے لیکن دوسری جانب لسانی اقلیتوں کو اس حق سے محروم کرنے کی گہری سازشیں بھی جاری ہیں۔ایسی پالیسیاں وضع کی جارہی ہیں کہ لسانی اقلیتوں کا وجود ختم ہوجائے۔ مردم شماری کے دستاویز میںمادری زبان اور مذہب کا خانہ ختم کردیا گیا ہے۔ایسا تاریخ میں پہلی بار2010کی مردم شماری میں ہورہا ہے۔ جب کسی زبان کے بولنے والوں کی صحیح تعداد ہی نہیں معلوم ہوگی تو وہ حقوق کا مطالبہ کس بنیاد پرکریں گے لیکن اس کے خلاف آواز اٹھانے کی ذمہ داری کس کی ہے؟ کون آواز اٹھائے کہ مردم شماری میں زبان اور مذہب کا اندراج کیوں ختم کیا گیا؟ جب کہ ہم دوسری جانب یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ نام نہاد پسماندہ برادریوں کے دبائو میں مرد م شماری میں ذات پات کا اندراج شامل کیا جارہا ہے تاکہ ان کو ان کی تعداد کے تناسب سے تعلیم اور روزگار میں ریزرویشن دیا جاسکے۔گویا ہمارے پالیسی سازوں کو ذات پات کی لعنت کا فروغ جو سراسر ملک کے آئین کی روح کے منافی ہے، تو گوارا ہے لیکن لسانی اور مذہبی اقلیتیں نہ کہیں اپنی آبادی کے تناسب سے روزگار اورتعلیم میں حصہ مانگ لیں یہ ان کو ہرگز گوارہ نہیں۔ ارباب اقتدار کا گریبان کون پکڑے، ان کو ان گہری سازشوں اور گندی چالوں سے آج کون روکے؟ حکومت اور اپوزیشن میں اس پر مکمل اتحاد اور گہرا ساز بار ہے او ر جب ہم ان خطرناک سازشوں کے خلاف خود ہی خاموش ہیں تو اوروں کیا پڑی ہے۔ابھی چند ہفتے قبل یہ خبر آئی تھی کہ حکومت اترپردیش نے سہ لسانی فارمولہ اسکیم کو حتمی طور پر ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ وہ35 ہزاراساتذہ کی ایک ہی جھٹکے میں امیدیں ہمیشہ کے لیے ختم ہوچکی ہیں اور وہ سڑکوں پر آگئے جو 1963میں لاگو کی گئی سہ لسانی فارمولہ اسکیم کے تحت ریاست کے اسکولوں میں اپنی خدمات پیش کررہے تھے اورحکومت نے 2003سے جن کی تنخواہیں روک رکھی تھیں۔ اگر ہماری آنکھیں اب بھی نہ کھلیں اور ہم اسی قسم کی عارضی اسکیموں پر قانع رہے تو اس کو کیا نام دیاجائے گا؟
یہ ذکر پہلے آچکا ہے کہ اسی سہ لسانی فارمولہ اور اسی نظام تعلیم کے تحت اردو کی تعلیم وتدریس کی صورت حال ملک کی دوسری کئی ریاستوں بالخصوص بہار اور کرناٹک میں دہلی، ہریانہ اور اترپردیش سے مختلف ہے جس کی دو وجہیں ہیں ایک تو ان ریاستوں میں سوشلسٹ تحریک نسبتاً مضبوط تھی اور دوسری اردو لسانی اقلیت کی سیاسی قیادتیں بھی وہاں اپنی زبان کے تئیں سنجیدہ تھی۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں ہے کہ دہلی اور ہریانہ میں بھی عوام نے غیر کانگریسی، غیر بی جے پی سوشلسٹ طاقتوں کا باربار ساتھ دیا لیکن سیاستدانوں نے ان کو ہمیشہ دھوکہ دیا؟ یہاں پر بہت ماضی میں جانے کی گنجائش نہیں ہے۔ 1993 کے اسمبلی انتخابات کے نتائج کو ہی سامنے رکھئے پھر غورکیجئے تو سچائی اظہر من الشمس ہوجائے گی۔ یہ دہلی میں اسمبلی کا پہلا انتخاب تھا۔ کانگریس مخالف لہر چل رہی تھی۔ صو بہ کی چار اسمبلی سیٹوں پر جنتادل کے امیدواروں کو کامیابی ملی، ان میں سے تین مسلم تھے، بہت سے دوسرے حلقوںمیں بھی جنتا دل کے امیدواروں نے اچھے ووٹ لئے تھے۔ چاہتے تو دہلی کی سیاست میں یہ تیسری طاقت بن کر ابھرسکتے تھے اور اتحاد کی سیاست کے اس دور میں ان موثر کوکردار اداکرنے سے روکا نہیں جاسکتا تھا لیکن یہ چند سال بھی میدان میں ٹکے نہ رہ سکے۔مفادات کی قربان گاہ پرملت بھینٹ چڑھگئی۔ ایک شعیب اقبال کے علاوہ سب کے سب کانگریس کی جھولی میں جاگرے۔ہمیں کانگریس میں ان کی شمولیت پر اعتراض نہیں ہے۔ لیکن اگر ان کی شمولیت ایشوز پرمبنی اور مشروط ہوتی اوروہ ہمارے مسائل کے حل کی ایماندارانہ کوششیں جاری رکھتے تو عین ممکن ہے کہ صورت حال مختلف ہوتی لیکن انہوںنے ایسانہیں کیا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ سیاستدان بھی اردو کے اتنے ہی گنہگار ہیں جتنے کہ وہ نام نہاد مجاہدین اردو جنہوںنے اردوکو کشکول گدائی بنارکھا ہے۔ہماری سیاسی قیادت اگر اپنی مادری زبان اور تعلیم کے تئیں آج بھی سنجیدہ ہوجائے تو کسی کی کیا مجال کہ اردو کے ساتھ یہ تفریق و تعصب جاری رکھے۔ لیکن اصل سوال تو یہی ہے کہ کیا اب بھی ہماری سیاسی وسماجی قیادتیں خواب غفلت سے بیدار ہوںگی اور نان ایشوز کو ایشوبنانے کا دھندہ ترک کرکے بنیادی مسائل کے حل کی جدوجہد پر کریںگی جو ذرا مشکل کام ہے؟

مصنف کے بارے میں

احمد جاوید

احمد جاوید اردو کے ممتاز صحافی، مصنف، مترجم اور کالم نگار ہیں۔ تاریخ و تمدن پر گہری نظر اور ادب و صحافت میں اپنے منفرد اسلوب سے پہچانے جاتے ہیں۔

مزید