اردو صحافت کے 200سال،ہندوستان میںاردو زبان اور ذرائع ابلاغ

Table of Contents

احمدجاوید

کلیدی خطبہ

قومی سیمینار:’ اردو صحافت- دوسوسال ‘ آسنسول 19؍مئی 2022 ء مغربی بنگال اردو اکادمی، کولکاتہ

اردو صحافت نےابھی( 27؍مارچ 2022 کو)اپنی تاریخ کی دوسری صدی مکمل کی اورایک نئی صدی میں قدم رکھا جو صحیح معنوں میں نئی امنگوں، نئے امکانات ، نئےتقاضوں اور نئی چنوتیوں کی صدی ہے ۔ زبانوں کی تاریخ میں دو صدیاں بے شک کوئی بہت بڑی مدت نہیں ہوتی لیکن اردو صحافت کی دو سو سالہ تاریخ صرف ایک زبان اور اس کے ذرائع ابلاغ کی تاریخ نہیں، نئےہندوستان کی تخلیق اور اس کی ’نشوونما کی تاریخ‘ ہے اور یہ جتنی شانداراورقابل فخرہے، اتنی ہی ہوشربااور اتھل پتھل سے بھرپور بھی ہے ۔دو سو سال کی اس تاریخ میں جتنے نشیب و فراز اور جیسے مقامات تحیرات آتے ہیں ، کہیں اور کہاں آئے ہوںگے۔اسی مدت میں اس کے حصے میں وہ کارنامے آئے جو دنیا کی بڑی زبانوںکی صحافت کے حصے میں صدیوں میں آتے ہیں۔ اسی طرح اس دو سو سالہ تاریخ میں بنگال اوربنگال کے لوگوں کا جو کردار ہے،اس کی اہمیت و معنویت بھی معمولی نہیں ہےبلکہ اساسی اور عہد سازہے۔آپ کوحق حاصل ہے کہ اس کا جشن منائیں،اپنی ماٹی کے سپوتوں اوراپنے ان محسنوںکو یادکریں جن کے وجود سے ہندوستان کی تاریخ کے اوراق روشن ہیں ،ان کی خدمات کوخراج عقیدت پیش کریں جنھوں نے بکھرے ہوئے ہندوستان کو صحیح معنوں میں ایک ملک بنانے کی سعی کی اور اس تہذیب وتمدن کو پروان چڑھانے میںبنیاد کے پتھر کاکردارادا کیا جس کی چمک دمک دنیا کی آنکھیں روشن اور ہمارا سربلند کرتی ہیں یا جس نے کوثرو تسنیم کی موجوں پرگنگا جمنا کے دھاروں کوسرفرازی دی ہے۔عزیزان گرامی! اسی کے ساتھ ضرورت ہے کہ ہم اپنےماضی اور حال کا جائزہ بھی لیںاور یہ بھی دیکھیں کہ تاریخ نے ہمارے کندھوں پرکیاذمہ داریاں منتقل کی ہیں اور اس وقت اردو اور اس کے ذرائع ابلاغ کا وطن عزیز میںاور دنیا کے نقشے پر کیا نقشہ ہے۔ویسے تو تاریخ کی سب سےبڑی ٹریجڈی یہی ہے کہ ہم اس سے سبق نہیں لیتے، نسل در نسل اور بار بار اس کو دوہراتے ہیں۔قابل مبارکباد ہیں آپ کہ تاریخ کہ اس اہم موڑ پر تاریخ کا جائزہ بھی لے رہے ہیں اورمستقبل کےامکانات ومشکلات پر غورو فکر بھی کررہے ہیں۔ مغربی بنگال اردو اکادمی خاص طورپرہمارے شکریہ کی مستحق ہے۔اکادمی کے اراکین اور افسران کو ہم ہم دل کی اتھا گہرائیوں سے ہدیہ تبریک و تحسین پیش کرتے ہیں کہ یہ اس نیک کام کے لیے اتنی بھرپور ، خوبصورت اورایسی باوقار بزمیں آراستہ کرر ہےہیں۔اگر ہم نے اس قیمتی وقت اور ان بیش قیمت مواقع کومحض تفریح و تفنن یا صرف حالات کا ماتم کرنے اور ماضی کی عظمتوں کا قصیدہ پڑھنے میں ضائع نہیں کیا تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ یہ جلسے، مذاکرےاورغوروفکریاآمدورفت کی زحمتیں نتیجہ خیزنہ ہوںاور نئی صدی ہمارے اوپر بھی نئی راہیں روشن نہ کرے۔
آپ سے ہم یہاں اور اس نیک موقع پرصرف یہ گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ جب اردو صحافت کی دو سو سالہ تاریخ کا جائزہ لیں تو اس نکتہ کو مرکز میں رکھیں کہ اس نے ایک بکھرے ہوئے ملک کو ہندوستان بنانے میں کیا کردار ادا کیا اورآزادی کے بعد ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کے دفاع میںکس عزیمت و استقامت سےکام لیا۔ پھراس پرضرور غور کریں کہ وقت نےہمارے اہل علم وقلم، ہماری صحافت اور ہمارے ذرائع ابلاغ پر جو ذمہ داریاںمنتقل کی ہیں، ہم وہ کتنی ادا کررہے ہیں؟ اور اگر ہم وقت کے تقاضوں اور چیلنجوں کا سامنا نہیں کرپا رہے ہیں تو اس کے اسباب اور حل کیا ہے؟ اس سے اس ملک اور سماج کوبھی روشنی ملےگی اور خود ہمارے ذہنوں سے بھی مایوسی اور کم ہمتی کی تاریکیاں دور ہوںگی۔
جہاں تک اردو صحافت کی تاریخ کا تعلق ہےتو میری رائے میںاس کو چار ادوار میں بانٹ کردیکھنازیادہ آسان اور مناسب ہوگا۔ پہلا دور ابتدا سے 1857ء تک کا ہے،جس کا باضابطہ آغاز کلکتہ سے ۱۸۲۲ء میں جام جہاں نما کی اشاعت کو مانا جاتا ہے۔اس سے پہلے بھی اس نوع کی کوششیں ہوئی ہوںگی جن کا ذکر بعض ماخذوں میں ملتا ہے لیکن اس سے انکار کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی کہ جام جہاں نما کے طابع و ناشر لالہ ہری ہر دت اور ایڈیٹر منشی سدا سکھ لعل نے کاروبار صحافت یا بزنس میڈیاکے لیے پہلی بار اردو زبان کی صلاحیت کو دریافت کیا، اسے باضابطہ عملی شکل دی اور ان کی اس دریافت نے نئے ہندوستان کے ذہن و مزاج کی تخلیق میں وہ کردار ادا کیا جس ذکر ہم یہاں پہلے ہی کرچکے ہیں۔لالہ ہری ہر دت ایک تربیت یافتہ صحافی اور باشعور کاروباری تھے۔ان کے دادابندھی دت اور والدتاراچند دت کمپنی کے ملازم اور کسٹم کے اہلکار رہ چکے تھے۔ تاراچند دت نے ۱۸۲۱ء میں راجہ رام موہن رائے کی تحریک پربھوانی چرن بندھوپادھیایے کے ساتھ مل کر ہندوستان میں کسی دیسی زبان کا پہلا اخبار ’ سمباد کمودی‘ جاری کیا تھا اور خود ہری ہر دت بنگالی زبان کے اس اخبارکی مجلس ادارت میں شامل رہ چکے تھے۔ منشی سدا سکھ لعل بھی ایک نہایت ذہین صحافی اور کئی زبانوں کےعالم تھے۔ وہ انگریزوں کو اردو پڑھاتے تھے ۔انگریزی، فارسی اور عربی پر بھی کامل دسترس رکھتے تھےاورانہوںنے 18کتابیں تصنیف و تالیف کیں جو قوانین، تاریخ ادب، زبان، اخلاقیات، شخصیات اور سائنس کے موضوعات پر لکھی گئی ہیں جس سے ان کی سوچ اور شخصیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔وہ اپنی فکر اورکاروبار صحافت کے تعلق سے کتنے سنجیدہ تھے، اس کا اظہار اس سے بھی ہوتا ہے کہ بعد میں آگرہ جاکر انہوں نے مطبع نورالابصار قائم کیا جس سے اسی نام کا ایک اخبار اردو میں اور دوسرا’ بدھی پرکاش‘ ہندی میں شائع ہوتا تھا۔’ جام جہاں نما‘ایک عوامی اخبارتھا،پیشہ وارانہ خطوط پر جاری کیا گیا تھااورضابطہ کے کاغذات میں اس کی زبان ہندوستانی لکھی گئی تھی۔
اردو صحافت کا دوسرا دور 1857ء کے انقلاب کی ناکامی کے بعد شروع ہوتاہےاور تیسرا دور 1947ء میں ملک کی آزادی اور تقسیم کے بعد جبکہ اس کا چوتھا دور 1991ء میں کھلی معیشت کی آمد کے ساتھ شروع ہوا جب مواصلاتی انقلاب اور کارپوریٹ کی سرمایہ کاری نےصحافت کے کاروبار اور میڈیا کے کردار کو کیا سے کیا بنا دیا۔ اس اجمال کی تفصیل میں جانے سے پہلے مناسب اور ضروری معلوم ہوتا ہے کہ میڈیا کے کاروباراور اس میں اردو کی صورت حال پر ایک نظر ڈال لی جائے تاکہ تصویرکا دونوں رخ نگاہوں میں آسکے ورنہ ہم جو بھی تصویر بنائیںگے، ناقص اور گمراہ کن ہوگی۔
۲
میڈیا آج دنیا کے چند سب سے بڑے کاروبارمیں سے ایک ہے اور جس رفتار سے بڑھ رہا ہے ، وہ ایک عام آدمی کے تصور سے بھی باہر ہے۔ 2020ء میں اس کا روبار کا حجم 2.3ٹریلین ڈالرتھا تورواں دہائی میں اس کی رفتارِ ترقی بتاتی ہے کہ 2023ء تک یہ 2.6ٹریلین ڈالر ہوجائے گاجبکہ ہندوستان میں اس کا کاروبار 2020ء میں19بلین (ایک کروڑ 90لاکھ) ڈالر تھا تو 2021ء میں 23.7بلین (دوکروڑ37لاکھ) ڈالر بتایا جاتاہے جس سے آپ یہاں اس کی رفتار ترقی کا اندازہ لگا سکتے ہیں(۶)۔یہ خبروں کے کاروبار اور تفریحی صنعت کی مجموعی صورت حال کا جائزہ ہے جس میں نیوز انڈسٹری سے متعلق اعدادو شمار علاحدہ نہیں پیش کیے گئے ہیں۔تخمینہ لگایا گیا ہے کہ 2024ء تک ذرائع ابلاغ کے 40% بازار پر ٹیلی ویڑن قابض ہوجائیگا جبکہ صرف 13%طباعت (پرنٹ میڈیا)، 12%ڈیجیٹل ، 9%سنیما اور 8% اوٹی ٹی (نیومیڈیا؍سمارٹ فون اور ان جیسے دوسرے آلات تر سیل پرپیش کی جانے والی نشریات)کے پاس رہ جائیگا۔ میرا خیال ہے کہ ان اعدادو شمار کو سامنے رکھ کر اس کاروبار میں اردو کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو آپ کو یہاں اردو کے حال اور مستقبل کا صحیح اندازہ ہوگاورنہ خوش فہمی یا مایوسی کی جو تصویربھی بنائی جائے گی، غیرحقیقی ہوگی۔
ہندوستان میں اخبارات کے رجسٹرار(آراین آئی) کی سالانہ رپورٹ کے مطابق2010-11ء میں یہاں ہندی کے اخبارات کی تعداد اشاعت 155494770، انگریزی کی 59370184اور اردو کی26639230 تھی جبکہ اس سے قبل اردو کے 2,844 اخبارات و جرائد کا مجموعی سرکولیشن صرف 61 لاکھ تھا۔2016-17ء میں اخبارات و جرائد کی مجموعی تعداداشاعت (سرکولیشن) 584185933 ہوگئی تو 2017-18ء میں 430066629ہے جن میں ہندی (195621990 ) سرفہرست، انگریزی (53453564)دوسرے اور اردو (25289731)تیسرے مقام پر ہے۔ ان اعدادو شمار سے اردو صحافت کی بہ ظاہرایک اطمینان بخش تصویر ابھرتی ہے ۔ان کی تعداد اشاعت کا غیرجانبدارانہ جائزہ ، آمدنی کا محاسبہ اور کام کے معیارکا مطالعہ گرچہ ان کے دعووں کو درست ثابت نہیں کرتا لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ اخباروں کی تعداد اشاعت بڑھ نہیں رہی ہے،صرف بڑھاکر دکھائی جارہی ہے۔نقل و حمل کے وسائل میں تیز رفتار اضافہ، سڑکوں کی تعمیر اور ذرائع مواصلات کی ترقی کے ساتھ دور دراز علاقوں میں اخبارات کی ترسیل ممکن ہو رہی ہے اور شرح خواندگی میں بھی اضافہ ہورہا ہے جس سے اخبارات و رسائل کے نئے قارئین پیدا ہورہے ہیں۔ ملک کی دوسری زبانوں کی طرح اردو کے اخبارات و جرائد کو بھی نئے علاقے اور نئے قارئین مل رہے ہیں۔یہ اور بات ہے کہ یہ رفتاریہاں ہندی اور انگریزی کے مقابلے میں بوجوہ بہت کم ہے۔
پاکستان میںیہ تصویر مختلف ہے۔ملک کے بیوروآف اسٹیٹکس(پی بی ایس) کے اعدادوشمارکے مطابق وہاں روزناموں اور میقاتی اخباروں کی تعداد 2007کے 1820کے مقابلے میں 2016میں 539رہ گئی تھی جبکہ ملک میں اخباروں کی یومیہ مجموعی اوسط تعداد اشاعت2007کے99لاکھ سے گھٹ کر 2008میں61 لاکھ پر آگئی جس میں 46لاکھ کے ساتھ اردو سب سے اوپر، 670743 کے ساتھ انگریزی دوسرے اور640897کے ساتھ سندھی تیسرے مقام پر ہے۔یہ تقریباً وہی رجحانات ہیں جو اس مدت میںیوروپ اور امریکہ میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔انٹرنیٹ کی آمد کے بعدپاکستان کے بیشتر کثیرالاشاعت اخباروں نے قارئین تک اپنی رسائی بڑھانے اوربرقرا رکھنے کے لیے آن لائن اشاعتیں شروع کیں۔ اسی طرح اکثر بڑے اخباروں نے ٹی وی چینل بھی جاری کیے۔ان دونوں ملکوں میں جو سماجی ، معاشی اور جغرافیائی لحاظ سے ایک ملک کی طرح ہیں اور ان میں بہ ظاہر صرف سرحدکی ایک لکیر کا فاصلہ ہے، ان کی نیوزانڈسٹری یا ذرائع ابلاغ کے شعبے میں رجحانات کا جوفرق یہ اعدادو شمار پیش کرتے ہیں، صحافت اور زبان کے طالبعلموں کے لیے اس کے اسباب و عوامل کا مطالعہ بھی ایک اہم موضوع ہے اور یہ بھی ایک دلچسپ حقیقت کہ انگریزی کے کئی چینلوں کو وہاں اپنا کاروبار جاری رکھنے کے لیے اردومیں آنا پڑاہے۔
۳
آج کرۂ ارض پر بنی نوع انسان کی دوسری سب سے بڑی آبادی ہندوستان ہے۔دنیا کا ہرپانچواں انسان یہاںرہتاہے۔چین کی آبادی ابھی اس سے صرف 0.4فیصد زیادہ رہ گئی ہے جس کو پیچھے چھوڑکر یہ کسی دن بھی دنیا کی سب سے بڑی آبادی والاملک بن جائے گا۔یہ دنیا کا چوتھا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ (447)زبانیں بولی جاتی ہیں۔جن میں سے کوئی بھی زبان قومی نہیں ہے۔2011کی مردم شماری کی رو سے اردوان میں اپنے سواچھ کروڑسے زائد بولنے والوں کے ساتھ ملک کی چھٹی سب سے بڑی زبان ہے(۱)۔سرکاری اعداد و شمارکے ایک تجزیہ کے بموجب یہ دنیا میں پہلی زبان کے طورپر بولی جانے والی اکیسویں سب سے بڑی زبان ہے جبکہ’ ایتھنولوگ ‘(۲) کے تازہ ترین جائزے کے مطابق اپنے بولنے والوں کی تعداد (۳) کے لحاظ سے یہ انگریزی، چینی، ہندی، ہسپانوی، عربی ، بنگالی ،فرانسیسی ،روسی اورپرتگیزی کے بعد دنیا کی دسویں سب سے بڑی زبان ہے جبکہ یہ جائزہ یہ بھی بتاتا ہے کہ’ ہندوستانی ‘ دنیا کی تیسری سب سے بڑی زبان ہے۔
اس تصویر کو آپ اردو؍ہندی اور ہندوستانی کے مخصوص لسانیاتی تناظر ،اس تقسیم کے سیاسی وسماجی محرکات اور فرقہ وارانہ عوامل کو سامنے رکھ کردیکھیںجب ہی صحیح نتائج تک پہنچ سکتے ہیں۔ زبانوں کو سیاست، ثقافت اور مذاہب کیوں اور کیسے متاثر کرتے یاان کو بنانے بگاڑنے میں یہ کیا کردار ادا کرتے ہیں ، ہندوستان میں اردو اور اس کی صحافت، اِس کی سب سے سلگتی مثال اور مطالعے کاایک بہت ہی دلچسپ وفکرانگیز موضوع ہے۔آپ اس کوپاکستان میں ہندی سنیما کے بازاراورہندستان میں پاکستانی ڈاراموں کے روزافزوں کاروبار یا دونوں ملکوں کی تفریحی صنعت(Entertainment industry )اور اس کی زبان کوسامنے رکھ کر زیادہ آسانی سے سمجھ سکتے ہیںکہ یہ زبانیں ایک دوسرے سے کتنی دور اور کس قدرنزدیک ہیںاور اس دوری ونزدیکی کے اسباب و عوامل کیا ہیں۔ صارفیت کے اس دور میں جب ہرچیزکی قدروقیمت اورامکانات بازار میں اس کی مانگ اور ضرورت طے کرتی ہے توعیاں راچہ بیاں کہ جس رفتار سے کسی زبان کے بولنے اور سننے سمجھنے والے گھٹتے جائیںگے، اس کے امکانات میں گراوٹ آتی جائےگی یا بہ صورت دیگراسی رفتار سے ان میں اضافہ ہوگا۔بلفظ دیگرجس زبان کا بازار جتنا بڑا اور جس قدرکثیرالجہات ہوگا،اس کی ترویج و ترقی کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوںگے۔
اکیسویں صدی میں ترقی کی رفتاراورٹکنالوجی کے پھیلتے دائرے میں ہر سطح پر انگریزی کی بالادستی نظر آتی ہے اوردنیاکی کئی زبانوں کو بقا کامسئلہ درپیش ہے لیکن اردو پھربھی اپنی توانا اساس اور غیرمعمولی قوت گویائی کی بدولت اپنی فتوحات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئی ہے۔ اکیسویں صدی میں کرۂ ارض پراردوکا نقشہ خاصاپیچیدہ اورچنوتیوں کا حامل توہے مگراسی کے ساتھ یہ گنجائشوں اور امکانات سے بھرپور ہوگیا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق آج یہ ہندوستان کے کم ازکم اٹھ کروڑ لوگوں کی زبان ہے۔ یہ پاکستان کی قومی زبان ہے جس کی 20کروڑ آبادی میں ایک محتاط اندازے کے مطابق کم ازکم دو کروڑ(8%) لوگوں کی مادری زبان ہے(۵)۔صرف ان دو ممالک کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اردو کو اپنی مادری زبان تسلیم کرنے والوں کی تعداد جرمن ، فرنچ ، فارسی اور اِطالوی جیسی زبانوں کے بولنے والوں کی تعدادسے کہیں زیادہ ہے۔یہ پورے پاکستان ، پورے شمالی ہند،جنوبی ہند کے کئی صوبوں، نیپال ، بنگلہ دیش ،ماریشش اورکئی اور ملکوں کے بعض شہروں اور علاقوں میں بھی رابطے کی زبان ہے،جنوبی ایشیا کے باہر بھی متعدد ملکوں میںبولی اور سمجھی جاتی ہے، مشرق وسطیٰ کے بیشتر ممالک میں عربی اور انگریزی کے بعد اردو تیسری بڑی زبان کے طور ابھر کر سامنے آئی ہے، برطانیہ میں ثانوی اور اعلیٰ ثانوی اسکولوں اور ابتدائی کالجوں میں اردو پڑھنے والے طلبہ کی تعداد ہزاروں میں ہے اورناروے کی راجدھانی اوسلو میں اس کی مقامی زبان ناروین کے بعد اردو دوسرے مقام پر ہے۔ امریکہ اور کناڈا جیسے ممالک میں بھی کوئی بڑا شہر ایسا نہیں ہے جہاں اردو بولنے والے خاصی تعداد میںنہ ہوں۔اردو زبان کی اس رسائی اور پھیلاؤ میں اس کے ڈجیٹلائزیشن کابڑااہم کردار ہے مگر یہ رسائی اوروسعت ابھی تک تحریری کم ، سمعی بصری اور تفریحی زیادہ ہے۔مواصلاتی انقلابات نے ہم پر امکانات کے نئے دروازے کھولے اورنئے آفاق روشن کیے ہیں لیکن ہم ابھی تک ان سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھاسکے اور اس میں ہندوستان کا حصہ اوربھی کم اورناقص ہے۔
۳
ذرائع ابلاغ میں کسی بھی زبان کی کارکردگی کا جائزہ آپ اس کے کاروبار کے حجم ،معیار اور اثرات کو سامنے رکھ کر لے سکتے ہیںاوریہ تینوں جہات یکساں اہمیت کے حامل ہیں۔کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس کام کا یہ تیسرا پہلواس کے اول الذکر دونوں پہلوؤںکے اتصال و امتزاج پر منحصرہوتاہے لیکن جہاں تک اردو میڈیا کا تعلق ہے، اس کے اثرات اس ملک میں ہمیشہ اس کے حجم اور معیار سے زیادہ رہے ہیں۔ ہمارا کاروبار آج اتنا بڑا یا اس قدر معیاری ہرگز نہیں ، جتنے اس کے اثرات ہیں۔ اردوصحافت اس ملک میں ہردور میںاپنے مخصوص سیاسی و سیاسی حالات و محرکات کے باعث مثبت و منفی ہردو صورت میں دوسروں سے زیادہ اورغیرمعمولی اثرات کی حامل رہی ہے۔
اردو زبان کی ابتدا و ارتقا اور اس کے فروغ میں جن طبقات کی خدمات بنیادی ، تشکیلی اور نسبتاً زیادہ ہیں ان میں صوفیا، شعرا اوروقائع نگارو اصحاب صحافت سرفہرست ہیں۔ یہی وہ طبقات نے جنھوں نے ہندوستان کو ہندوستان بنانے میں قائدانہ کردار ادا کیا۔ صوفیانے اس ملک میں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے شعوری طور پر اس زبان سے کام لیا جو ان کی مجلسوں اور خانقاہوں یا ان کے ربط میں آنے والوں میں ہر چھوٹے بڑے ، خواندہ ناخواندہ، شرقی غربی اور ہندومسلم تک بلاتفریق مافی ضمیر کی ترسیل کی صلاحیت رکھتی ہو۔صوفیہ کا مقصد زیادہ سے زیادہ لوگوں کے دلوںتک پہنچنا تھا اور اس کے لیے انہوں نے جہاں تک ممکن ہوا نظم و نثر کی ہر صنف کو اپنایا۔اسی لیے اس زبان میں نظم و نثر کے اولین نمونے بھی انہیں کے ہیں۔امیرخسرو اور ان کے معاصرین یا متقدمین و متبعین کے کلام ہوں جن کی روشنی میں زبان و ادب کے مورخین اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اردو کا ہیولا عہد خلجی میں ہی تیار ہوگیا تھا(۷) یا مثنوی چنداین (ملاداؤد)اور معراج العاشقین (خواجہ بندہ نواز گیسودراز)جیسی کتابیں، ان میں سے ہرایک کا خالق کوئی صوفی ہے۔ یہی مقصد صحافیوں کے پیش نظر بھی تھابلکہ ان سے کہیں زیادہ شعوری ، باضابطہ اورمتنوع۔ اس لیے اہل زبان و قلم کا جو طبقہ اردو کے فروغ اور اس کو کام کی زبان بنانے میں سب سے موثر کردار ادا کرتا ہے، یہی طبقہ ہے۔لسانی نقطہ نظر سے دیکھیں تو شعرا اور دوسرے مصنفین نے جو بیشتر مذہبی مبلغین و مصلحین اور طبقات صوفیہ سے تھے ، زبان کو روحانی اور جذباتی بنیادیں فراہم کیں اور اسے حسن معنوی و ظاہری سے آراستہ کیا ، اس کے خدو خال روشن کیے اور عام لوگوں میں مقبول بنایا تو صحافت نے اسے ٹھوس اساس اور مادی و مادیاتی اجزا سے مزین و مستحکم کیا۔
دیسی زبانوں میں اخبار نکالنااس وقت کوئی آسان کام نہ تھاجب لالہ ہری ہردت اور منشی سداسکھ لعل نے جام جہاں نما نکالا۔ ہندوستانی اشرافیہ اردو میں اخبار نکالنے کے خلاف تھی۔ اکثرلوگ اس کوفارسی کے خلاف سازش کا حصہ تصور کرتے تھے اوربڑی شدو مد سے فارسی کے اخبارات کی اشاعت کا سلسلہ چل پڑا تھا۔یہاں تک کہ یہ بہ مشکل پانچ سال جاری رہااورخود اس کے طابع و ناشرنے کوئی چھ یاآٹھ شمارے بعد اسی نام کافارسی اخبار بھی جاری کیا جوتقریباً ساٹھ سال جاری رہا لیکن ’جام جہاں نما‘کی اردو صحافت ہندستان میں ایک نئی لسانی بیداری کا محرک ثابت ہوئی۔گویا اس کے کاروبار کے حجم اور معیار سے کئی گنا زیادہ اثرات اس کے حصے میں آئے۔
اخبار ات اب تک انگریزوں کے لیے نکالے جاتے تھے،ان میں ان ہی کی دلچسپی کی خبریں ہوتی تھیں اور ان سے استفادہ بھی وہی کرتے تھے لیکن اب ایک ایک شہر سے کئی کئی اخبار نکلنے لگے۔ مراۃ الاخبار (اپریل 1822؍راجہ رام موہن رائے )، شمس الاخبار(1822؍ماسٹرموہن مترا)،آئینہ سکندر(1831؍مولوی سراج الدین احمد)،ماہ عالم افروز(1833؍مولوی وہاج الدین)،سلطان الاخبار (1835؍رجب علی حسینی لکھنوی)، مہرمنیر (1841؍محمدعلی)، گلشن بہار(1854؍ عبد القادر) اوردوربین (1853؍فداحسین)تو صرف کلکتہ سے شائع ہوتے تھے۔دہلی، مدراس، بمبئی، آگرہ ، لدھیانہ وغیرہ سے بھی فارسی کے اخبارات پے در پے جاری ہوئے۔ بنگلہ ، اردو اور فارسی کے علاوہ مراٹھی، تمل، گجراتی، پنجابی، وغیرہ زبانوں میں بھی صحافت نے اسی رفتار سے پرپرزے نکالے اور ایسا حکومت کی حوصلہ شکنی کے باوجود ہوا۔
1830ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے فارسی کی جگہ اردو کو سرکاری زبان بنایا۔انگریزوں کو ا س سے کیا سیاسی فائدہ پہنچا، اس پر تو گفتگو ہوسکتی ہے لیکن اردوزبان اور اس کی صحافت کو اس سے غیرمعمولی فائدہ ہوا۔ اردو کے اخبارات کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ انگریز افسران اردو سیکھنے کے لیے اخبارات پڑھتے تھے اور اخباروں کے بیشتر خریدار بھی وہی تھے،اس لیے اخباروں کی زبان آسان اور سلیس رکھی جاتی تھی۔ہمارے لیے اس ظاہرہ (Phenomena) کا زیادہ اہم اور قابل توجہ پہلویہی ہے۔جدید علوم اور سائنس کی اصطلاحات سے اردو کا دامن مزین کرنے کی کوششوں میں بھی اردو کے اس پہلے اخبار نے حسب استطاعت اپنا حصہ ڈالا۔ اس کے دستیاب شماروں میں دیکھا جاسکتا ہے کہ سائنس اورٹکنالوجی کی ترقی پر مبنی خبروں کو’جام جہاں نما‘ دلچسپ انداز میں پیش کیا کرتا تھا(۸)۔
’دہلی اردو اخبار‘ شمالی ہند میں اردو صحافت کی توسیع اورصحیح معنوں میں اردو صحافت کا نقش اول تھا۔اس کے بانی و مدیرمولوی محمد باقر دہلی کالج کے استاد اور دہلی میں برٹش سرکارکے منتظم اعلیٰ چارلس مٹکاف کی انتظامیہ میں تحصیلدار رہ چکے تھے۔ دہلی کالج کے سپرنٹنڈنٹ مسٹرفرانسس ٹیلرسے ان کے گہرے دوستانہ مراسم تھے جن کے مشورے سے انہوں نے1836 میں اپنامطبع قائم کیااور اسی پریس سے اردو کایہ پہلا مکمل، خود مکتفی اور باقاعدہ اخبار جای کیا،جس کی کامیابیوں سے تحریک پاکرایک ایک شہر سے کئی کئی اخبارشائع ہونے لگے۔خود دہلی میں ایک سے زائد اردو فارسی اخبارات تھے۔ان اخباروں نے زبان کی کیاخدمت کی اور اس میں کیاکیا تبدیلیاںمتعارف کرائیں، اس کو’دہلی اردو اخبار‘ اور سید محمد خاں کے’سید الاخبار‘(۷۳۸۱)کو سامنے رکھ کر زیادہ بہترطور پر سمجھا جاسکتا ہے۔’سیدالاخبار‘ کے ایڈیٹر مولوی عبدالغفور کو قانونی داؤپیچ سے گہری دلچسپی تھی اوروہ اس نوعیت کے مضامین اس میں اہتمام سے چھاپتے تھے ، اس لیے وکیلوں ، مختاروں اور عدالتی کارندوں میں یہ زیادہ مقبول تھا؛اوریہ تو مشہور ہی ہے کہ ’دہلی اردو اخبار‘ ذوق کاپرستار تھا تو’سید الاخبار‘ غالب کا طرفدار۔خود مرزا غالب کا اس اخبار سے گہرا تعلق تھا اورسرسید احمد خاں کی صحافتی زندگی کا آغاز یہیں سے ہوا۔سرسید اور ان کے معاصرین کی سوچ میں آپ جو فرق پاتے ہیں کم و بیش وہی فرق ’دہلی اردو اخبار‘ اور’ سید الاخبار‘ میں نظرآتاہے۔آگے چل کر زبان اور اسلوب ہردو سمتوں میں اردو کو جس رخ پر علی گڑھ تحریک نے بڑھایا ، اس کی بنیاد 1840ء کے عشرے میں ان ہی اخباروں نے رکھی۔ مرزاپور سے1837ء میں جاری کیے گئے عیسائی مشنری کے رسالہ ’ خیرخواہ ہند‘ ، دہلی کے ماسٹر تاراچندر کے ہفت روزہ ’ فوائدالناظرین‘اور رسالہ ’ محب ہند‘ اور اسپرنگر کے ’قران السعدین‘ کی صحافت کا ذکر نہ کرنامناسب نہ ہوگا۔ماسٹر تارا چند ر دہلی کالج کے استادتھے اوراس کے دارالترجمہ سے بھی تعلق رکھتے تھے۔’فوائدالناظرین ‘ایک باتصویر علمی اخبار تھا۔ سائنس اور تاریخ کو اس میں اہمیت کے ساتھ جگہ دی جاتی تھی جبکہ ’محب ہند‘ میں ریاضی، طبعیات، تاریخ ، جغرافیہ اورسوانح پر مضامین ہوتے تھے۔ دہلی کالج سے 1846ء میںکالج کے پرنسپل ڈاکٹر اسپرنگرنے ہفت روزہ ’قران السعدین ‘جاری کیا جس کا مقصد طلبہ و اساتذہ میں جدید علوم و فنون سے دلچسپی و آگہی پیدا کرنااور بیداری لانا تھا۔اسی طرح ’ خیرخواہ ہند‘ گرچہ مشنری کارسالہ تھا لیکن ہندوستان میں سائنس اور جدید علوم کے فروغ کے لیے کی گئی ابتدائی کوششوں میں اس کا اہم حصہ ہے۔آپ اس دور میں مختلف مقامات سے شائع کیے جانے والے نصف درجن سے زائد اور بھی ایسےاردو اخبارات و رسائل پاتے ہیں جو یہاں سائنس ، طب، ادب، سیاسیات ، سماجیات اور دوسرے جدید علوم و فنون کے فروغ کے لیے جاری کیے گئے تھے۔ہندوستان کو ایک آسان ، عام فہم ،جدید اور بامحاورہ زبان دینے اوراردویا ہندوستانی کو مقبول عام بنانےمیںشاہ رفیع الدین دہلوی (متوفی 1818ء )کے ترجمہ و تفسیر قرآن (1785 )اور اور شاہ عبدالقادردہلوی (متوفی 1815ء)کے ترجمہ ’ موضح القرآن (1790-95ء) کی بھی تاریخی اہمیت ہے،ڈاکٹر جان گلکرسٹ کی انگریزی ہندوستانی لغت(1769ء)، فورٹ ولیم کالج کے مصنفین و مترجمین ، دہلی کالج اور اس کے دارالترجمہ کابھی بڑااہم حصہ ہے لیکن ان سے کسی بھی طرح کم اس دور کی صحافت کابھی نہیں ہے۔ اسی دورمیں اردو ایک نئے اور مختلف رنگ میں سامنے آئی جبکہ اردو میں اس کی علمی و ادبی زبان و اسلوب میں زیادہ نمایاں تبدیلیاں اس کے دوسرے دور میں آئیں جو 1857ء کے بعد شروع ہوتا ہے۔
۴
اردو کے پہلے اخبار کی طرح اس زبان کےپہلےروز نامہ(اردوگائڈ) کی اشاعت کا سہرا بھی کلکتہ کے سر ہے جو 1858ء میں مان بیر مولوی کبیرالدین احمدخان بہادر نے جاری کیا۔اسی سال منشی نو ل کشورنے لکھنؤسے ’ اودھ اخبار‘ جاری کیا۔ یہ پہلےہفتے میں دو بار شائع ہوتا تھا، پھر(1874ء میں)روزانہ شائع ہونے لگا۔ جبکہ یکم جنوری 1875ء کو اردو کا تیسرا روزنامہ ’روزنامچہ پنجاب‘ لاہور سے جاری ہوا جس کے مالک خواجہ احمد حسن تھے۔اسی کے ساتھ کثیرالاشاعت روزناموں کا وہ دور شروع ہواجس کو برطانوی ہند میں اردو صحافت ہی نہیں،صحافت کا عہد زرین کہنا مبالغہ نہ ہوگا۔اودھ اخبار ہندوستان میں صحافت کا ایک عہد ساز موڑ ثابت ہوا۔ آپ دیکھتے ہیں کہ اس میںمواد اور پیشکش ہر محاذ پر تجربے کیے گئے جس نے اس کی مقبولیت میں اضافہ کیا۔فکاہیہ مضامین، مستقل کالم ،سلسلہ وار کہانیاں اور اس نوع کی دوسری چیزوں نے اردو صحافت کے کاروبار کو نئی بلندیاں دیں، ظریفانہ صحافت کا سلسلہ شروع ہوااور پڑھنے والوں کی تعداد تیزی سے بڑھی۔اودھ پنچ (لکھنؤ) سے الپنچ (پٹنہ ) تک ایسے اخبارں کی کثیر تعدادوجود میں آگئی جن کو اردوادب وصحافت میں طنزوظرافت کی تاریخ کا سنگ میل تسلیم کیا جاتا ہے۔منشی نول کشور نے نہ صرف طباعت و اشاعت کی صنعت کوہندوستان میں اس انقلاب سے روشناس کرایاجس کے نتیجے میں لکھنؤ، کانپور، دہلی ، لاہور اور کلکتہ جیسے شہر کتابوں کے کاروبار کے مراکز میں تبدیل ہوگئے ، انہوں نے اردو صحافت کو بھی اسی سنجیدگی سے فروغ دیا۔’ اودھ اخبار‘ کے لیے وقت کے ایک سے بڑھ کر ایک اہل قلم کی خدمات حاصل کیں۔ مولوی ہادی علی اشک سے پنڈت رتن ناتھ سرشار،عبدالحلیم شرر،مرزاحیرت دہلوی ، منشی شیو پرساد، مولوی احمدحسن شوکت اور منشی دیوی پرساد سحر تک اس کے ایڈیٹروں(1858۔1895) کی فہرست پر ایک نگاہ ڈال لینا ہی کافی ہوگا کہ’ اودھ اخبار‘ اپنے کاروبار میں کتنا سنجیدہ تھا۔منشی محبوب عالم کا’پیسہ اخبار‘اس وقت ملک میں اس نوع کا دوسرا کثیرالاشاعت اخبار تھا جو اپنی ارزاں قیمت اور دلچسپ مضامین کی بدولت ایسا پہلا اخبار تھا جس کی تعداد اشاعت دس ہزار سے زائد تھی ۔’اخبار عام‘ 1871ء میںفیروزوالا سے جاری کیا گیاتھا۔1891ء میں یہ لاہور منتقل ہوااور جلدہی روزنامہ ہوگیا۔1893ءمیں جب لاہورکا مشہور انگریزی اخبار’سول اینڈ ملٹری گزٹ ‘ صرف دو سو چھپتا تھا،اس کی روزانہ اشاعت دوہزار سے زائد تھی ۔روزنامہ ’خادم ہند‘ بمبئی(منشی کشن سروپ؍ 1883)، ’پیک آصفی ‘حیدرآباد (مولوی سعید احمد زید بلگرامی ؍1884)، ’ اتحاد‘ مدراس(1884)اور ’سفیردکن‘حیدرآباد(سیدامجدعلی اشہری؍1888) اس راہ کے وہ سنگ میل ہیںجو بتاتے ہیں اردو صحافت کا دائرہ کس رفتار سے بڑھا اور کتنا وسیع تھا۔
اس مقام پر سرسید کی صحافتی خدمات اور علی گڑھ تحریک کے اثرات کو نگاہوں میںرکھے بغیر تاریخ کے ساتھ انصاف نہیں کیا جاسکتا۔ سرسید نے 1860ء میں سائنٹفک سوسائٹی کااخبار’ علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ‘ جاری کیا جو پہلے ہفت روزہ اور بعد میں سہ روزہ تھا۔انہوں نے 1867ء میں انگلستان کا سفر کیاجہاں وہ اسپیکٹیٹرجیسے جرائد سے بیحد متاثر ہوئے اور واپس آکر1870ء میں ’تہذب الاخلاق‘ جاری کیا جس نے اردو زبان وادب ، صحافت اور سماج کو بڑے پیمانے پر متاثر کیا۔یہ زبان اور معاشرے کی اصلاح کی باضابطہ تحریک کے اخبارات تھے۔ 1864ء میں ’اخبار انجمن پنجاب‘ کا اجرابھی یقیناً علی گڑھ تحریک کے اثرات سے تھا۔ ہندوؤں، مسلمانوں اور سکھوں نے مل کر’ انجمن اشاعت مطالب مفید پنجاب‘ بنائی تھی۔بیسویں صدی کی آمد کے ساتھ اس تحریک نے مزیدپیش قدمیاں کیں جن میں اردو کے ان اخبارات و رسائل کی اشاعت بھی ایک ہے جنھوں نے ہندوستان کی جنگ آزادی میں قائدانہ کردار ادا کیا۔ مولانا حسرت موہانی کا’اردوئے معلی‘(1903)، شرر کا’ دلگداز‘، بیرسٹرعبدالقادر کا’ مخزن‘ اور دیا نارائن نگم کا’ زمانہ‘ جیسے معیاری علمی و ادبی رسائل وجرائد بھی اسی زمانے میں منظر عام آئے۔ مولانا سراج الدین احمد خاں نے1903 ء میںکرم آباد سے ہفت روزہ ’ زمیندار ‘ جاری کیا جس کا مقصد کاشتکاروں اور زمینداروں کے مسائل کے حل اور ان کی اصلاح و بہبود کے لیے کام کرنا تھا۔ یہی زمانہ ہے جب اردوزبان پر پنجاب کے اثرات زیادہ نمایاں صورت میں دیکھنے کو ملتے ہیں اور لاہور ہندوستان میں اردو کے سب سے بڑے مرکز کی صورت میں ابھرتا ہے۔’زمیندار‘ بہت ہی کم مدت میں ملک کا کثیرالاشاعت اخبار بن گیا۔ایک وقت تو یہ ہندوستان میں ایک دبستان زبان وصحافت تھا۔ 1909ء میں مولاناظفرعلی خاں نے اس کی ادارت سنبھالی اور اس کو لاہور منتقل کیاتو اس نے اس زمانہ کے سب سے کثیرالاشاعت روزنامہ ’ پیسہ اخبار‘ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔یہ اردو کا پہلا اخبار تھا جس نے خبروں کے حصول کے لیے ریوٹر اور ایسوسی ایٹیڈ پریس (اے پی) کی خدمات حاصل کیں۔آپ دیکھتے ہیں کہ’ الہلال ‘ (1912) اور ہمدرد(1913) کی اشاعت کے ساتھ اردو صحافت نے ایک قدم اور بڑھایااور ان اخباروں نے مواد،زبان اور اسلوب ہراعتبار سے اردو کو نئے تب و تاب سے ہمکنار کیا۔لاہورسے سیاست(1919)، ہمدم، پرتاپ، بندے ماترم ، ملاپ(1923)، انقلاب(1927)، دہلی سے الجمعیۃ (1925)، بمبئی سے روزنامہ خلافت(1927)، انقلاب (1938)اور ہندوستان(1839)،پٹنہ سے صدائے عام (1935)، کلکتہ سے ’ہفت روزہ پیغام(1931) ،آزاد ہند، عصرجدیداور لکھنؤ سے قومی آواز(1944)کی اشاعت اسی نئی سیاسی اور صحافتی بیداری کا نتیجہ تھی جس نے اردو کو جدید صحافت کی زبان اور اسلوب سے روشناس کیااور ہندوستان کو وہ زبان اور آواز دی جس نے اسے آزادی کی نعمت سے سرفرازکیا۔
۵
اردو میڈیا کاپہلادورگرچہ اس کا تشکیلی دور تھا مگر اسی دور میں اردو میڈیا نے صحافت اور آزادی کے لیے وہ کردار ادا کیا اور ایسی قربانیاں دیں جنھوں نے برصغیر میں صحافت اور سیاست کے پیمانے طے کئے۔جام جہاں نما کے منشی سدا سکھ لال اور ہری ہردت اس کی ابتدا ہیں تو مولوی محمدباقرشہید اس کا کلائمکس ۔ (۲) دوسرا دور ۱۸۵۸ء سے ۱۹۴۷ء تک جب اخبار اودھ ، پیسہ اخبار اور زمیندار جیسے کثیر الاشاعت اخبارات اور دلگداز، مخزن ، اردوئے معلی اور زمانہ جیسے معیاری رسائل و جرائد نے برعظیم کے ذہن و فکر کی نشوونما میں غیرمعمولی کردار ادا کیا۔اس دور کے دوسرے حصے( ۱۹۱۱ء سے ۱۹۴۷ءتک)میں وہ اخبارات و جرائد میدان میں آتے ہیں جنھوں نے ہندوستان کی قومی تحریک اور جنگ آزادی کو زیادہ طاقت سے آگے بڑھایابلکہ اس میں قائدانہ کردار ادا کیا۔ (۳) تیسراا دور ۱۹۴۷ء میں شروع ہواجب آپ قومی آواز،آزاد ہند، انقلاب، نئی دنیا، صدائے عام ،ساتھی ،سنگم ، سیاست، آبشار ،ندیم ،عوام اور اخبارمشرق جیسے اخباروں کو ہندوستان کے آئین اور جمہوریت کی بقا کی جنگ لڑتے اور اس راہ میں قسم قسم کی قربانیاں دیتے ہوئے پاتے ہیں، یہاں تک ایمرجنسی کےدور استبداد میں جس صحافی کو سب سے پہلے گرفتار کیاگیا ،وہ بھی اردو کا ہی ایک ایڈیٹر تھا۔۸۰سال کی عمر میں ’نئی دنیا‘ کے ایڈیٹرعبدالوحید صدیقی جمہوریت کی بقا کے لیے جیل گئےلیکن حکومت کے جبرو استبداد کے سامنے جھکنا منظور نہیں کیااور (۴)اب اردو صحافت کی دوسو سالہ تاریخ کے چوتھے دور میں جو۱۹۹۱ء میں شروع ہوا،آپ ملٹی ایڈیشن اخباروں کا وہ ظاہرہ دیکھ رہے ہیں جب ملک کی ایک سے زائدکارپوریٹ کمپنیاں اردو میڈیا میں سرمایہ لگارہی ہیں اورہماری صحافت انفرادی ملکیت کے اخباروں سے نکل کر میڈیا کی صنعت کے بڑے گھرانوں کے ہاتھوںمیں پہنچ گئی ہے۔ کثیرالاشاعت اخبارات، ٹی وی چینلوں ، پورٹلز اور او ٹی ٹیز (OTTs) میں اردو اپنے امکانات کی دنیا آباد کررہی ہے ، یہاں تک کہ دوسری زبانوں کی طرح اردو میں بھی جس رفتار سے اشاعتیں اور نشریات بڑھ رہی ہیں، اس تعداد میں اہل افراد نہیں مل رہے ہیں۔صحافت کے تعلق سے انگریزی کے مشہور صحافی، شاعر اور ناقد میتھو آرنولڈ کا ایک قول بہت مشہور ہے ۔ آرنولڈ زبان و ادب کے ساتھ ساتھ تہذیب و ثقافت کا بھی جو ہرشناس تھااور ثقافتی تنقید اس کی پہچان تھی۔ آج کی اصطلاح ’ نیومیڈیا‘ کی طرح انیسویں صدی میں اس نے ’نیو جرنلزم ‘ کی اصطلاح وضع کی تھی۔وہ چاہتا تھا کہ صحافت کے ساتھ وقتی کارگذاری یا دفتری روزنامچہ نگاری جیسا برتاؤروا نہ رکھا جائے۔اس نے کہا تھا’ ’ صحافت ایک ادب معجل ہے‘‘(journalism is literature in a hurry )۔ ہم اس کے اس قول کو دوہراتے تو خوب ہیں لیکن آج ہمارے یہاں اسی احساس کی زیادہ کمی ہے اور بلاشبہ ہماری یہی کمی ہمارے امکانات کو سب سے زیادہ متأثر کرتی ہے ۔
اردو میڈیا پرہندوستان میں دوہری ذمہ داریاں ہیں۔ ایک تو یہ اپنے کردار میں ایک کمیونٹی میڈیا ہے، جس پر ملک کی ایک بہت بڑی لسانی اقلیت کو باخبر رکھنے اور ایک مخصوص معاشرے کی ضروریات ترسیل و ابلاغ کی تکمیل کا سامان کرنے کی ذمہ داری آتی ہے۔ دوسرے یہ اپنے حلقہ اثر میں اور حکومت و عوام کے درمیان ایک قومی پریس کا کردار بھی ادا کرتا ہے۔ ان کی آنکھ ، کان اور زبان کی حیثیت رکھتا ہے۔ میڈیا کی ذمہ داری اگر ثقافتی وراثتوں کو محفوظ اورایک نسل سے دوسری نسلوں کو منتقل کرنا ہے تو ہماری گنگا جمنی تہذیب و تمدن کومحفوظ کرنے اور آگے بڑھانے کی ذمہ داری ہندوستانی میڈیا کے دوسرے حصوں سے کہیں زیادہ جذبے اور ایمانداری سے اردومیڈیاادا کرتاہےلیکن کیا آپ کوقدم قدم پر یہ احساس نہیں ستاتاکہ اس کی صلاحیتوں اوروسائل کو کئی گنا بڑھانے کی ضرورت ہے ۔ جتنابڑابازار ہمارے سامنے ہے، جتنے مواقع اور امکانات کے درکھلے ہوئےہیںاور ان پرقبضےکی جنگ جتنی تیز اور مشکل ہے، ان کی بہ نسبت ہمارے دست و بازوکتنے کمزور ہیںاورتربیت کی کمی اس پر مستزاد۔ کاش! ہماری عقل بھی ہوش کے ناخن لے اور وقت رہتے یہ سمجھ آجائےکہ:
یہ بزم مے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی (شاد)

حوالہ جات و حواشی
(۱)یہ ملک کے 50772631(4.19%)شہریوں کی پہلی، 11055287کی دوسری اور 1096428کی تیسری زبان ہے جن کی مجموعی تعداد 62772631(5.18%)ہوتی ہے۔
(۲) ایتھنولوگ (10 Top most spoken language,2022)؍ایس آئی ایل انٹر نیشنل(امریکہ)www.ethnologue.com
(۳)23کروڑ 10لاکھ
(۴)سرکاری زبان ترمیم ایکٹ ( The official language Act1963)
(۵)2017کی مردم شماری کے اعدادوشمارپرمبنی(Population and housing census-2017 Report / pBS )
(۶) فکی (FICCI)کی سالانہ رپورٹ 2021(ibef.org)
(۷) اردو ادب کی مختصر تاریخ ؍ڈاکٹر انور سدید؍ مقتدرہ قومی زبان ، اسلام آباد
(۸)ڈاکٹر اسعدفیصل فاروقی ؍اردوسائنسی صحافت ماضی اور حال کے آئینے میں؍ماہنامہ آجکل ؍ فروری 202؍ص 15؍ پبلی کیشنزڈویڑن، نئی دہلی
(۹)ایضاً
(۰۱) مبادیات صحافت و ادارت ؍احمد جاوید?؍2021رلڈویو پبلشرز، لاہور
(۱۱)ذرائع ابلاغ کا اردو زبان کی ترقی میں کردار؍ڈاکٹر محمد سیف اللہ خان ،انعم ناز، سناصر محمود؍ شعبہ ابلاغ عامہ،وفاقی اردو یونیورسٹی، کراچی؍2اپریل2020 (www.urdulinks.com)
احمدجاوید
۱۰۰۶؍۴۵، ذاکرنگر ،نئی دہلی

مصنف کے بارے میں

احمد جاوید

احمد جاوید اردو کے ممتاز صحافی، مصنف، مترجم اور کالم نگار ہیں۔ تاریخ و تمدن پر گہری نظر اور ادب و صحافت میں اپنے منفرد اسلوب سے پہچانے جاتے ہیں۔

مزید