تحریر : ڈاکٹر شفیع ایوب ، نئی دہلی
نرم دم گفتگو ، گرم دم جستجو کی بہترین مثال ہیں بھائی احمد جاوید۔ پہلی ملاقات ہفت روزہ نئی دنیا کے دفتر میں ہوئی تھی۔ پہلی ہی ملاقات میں اس شخص نے متاثر کیا۔ پہلی ہی ملاقات میں آدمی اچھے لگے۔ پہلے روز جو رائے قائم کی تھی وہ اب بھی قائم ہے۔ ہمارے رشتوں میں کبھی تلخی پیدا نہیں ہوئی۔ جاوید صاحب سے ہمارا محبت اور احترام کا رشتہ ہے۔ ہماری دوستی میں ایک دوسرے کے لئے احترام کا جذبہ بھی ہے۔ جب میں صحافت کی دنیا میں نووارد تھا تب احمد جاوید صاحب صحافت کی دنیا میں کافی رم چکے تھے۔ احمد جاوید کا مطالعہ بہت وسیع ہے۔ یادداشت قابل رشک ہے۔
گفتگو ہو یا تحریر ، اختصار سے خدا واسطے کا بیر ہے۔ علم کا ایسا خزانہ ہے کہ کسی بھی موضوع پر گھنٹوں بول سکتے ہیںاور صفحات در صفحات لکھ سکتے ہیں۔ بس کوئی یہ نہ کہہ دے کہ جاوید صاحب مختصر لکھ دیجئے۔ ہفت روزہ’’ نئی دنیا ‘‘ (نظام الدین ویسٹ ، نئی دہلی ) کے دفتر میں چیف اڈیٹر شاہد صدیقی صاحب عموماً بدھ کے روز مٹنگ کرتے تھے۔ (شاہد صاحب کے ساتھ بدھ کے روز مٹنگ ہوتی تھی۔) شاہد صدیقی صاحب ایک ایک مضمون سب کے حوالے کرتے تھے۔ مٹنگ سے باہر آنے کے بعد ہم سب آپس میں گپ شپ کرتے ۔ اور انجم نعیم صاحب ایک کونے میں بیٹھ کر قلم کی مزدوری شروع کر دیتے۔ چھوٹے چھوٹے حروف ، سجا سجا کر لکھتے۔ ایک صفحہ کا مضمون ایک صفحہ ہی ہوتا۔ نہ کم نہ زیادہ۔ بیٹھ جاتے اور مضمون مکمل کر کے ہی اٹھتے۔ درمیان میں ہم انھیں چائے کا آفر کرتے ، لیکن لکھنے کے دوران انھیں ڈسٹرب کرنا آسان نہیں تھا۔ وہ ہوں ہاں کر کے ٹال دیتے ۔ ہاں مضمون مکمل کر کے کمپوزر کے حوالے کرتے اور تب بخوشی ہماری چائے کی دعوت قبول کرتے۔ اس دوران احمد جاوید بہت سکون سے بیٹھے رہتے۔ ان کے برابر والی کرسی پر بیٹھے جمشید عادل علیگ کبھی بھی مضمون مکمل کر کے ایک ساتھ کمپوزر کے حوالے نہیں کرتے۔ منتشر خیالات ، منتشر تحریر ، انتشار کا کوہِ گراں ۔ کتنا لکھنا ہے ، کتنا لکھ چکے ہیں اور کتنا ابھی اور لکھیں گے یہ جمشید صاحب کو بھی نہیں معلوم ۔ رپورٹنگ کے انداز میں لکھتے ۔ قارئین کی پسند کا کوئی نہ کوئی نکتہ ضرور نکال لیتے جسے ہم ’’پنچ لائین‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ جمشید صاحب مضمون کی سرخی اچھی لگاتے ، ویسے تو احمد جاوید صاحب بھی سرخی لگانے میں ماہر تھے لیکن سرخیوں کے استاد ہم سب کے استاد شاہد صدیقی تھے۔
سب سے مختصر مضمون میرا ہوتا ۔ کمپوزنگ کے بعد جب چودھری نفیس الرحمن پیج بنا رہے ہوتے تو کہتے بھائی میٹر ذرا کم پڑ رہا ہے۔ میں کہتا دو باکس نکال دیجئے ،ایک تصویر لگا دیجئے۔ اس طرح دو باکس اور ایک تصویر کے ساتھ میرے مضمون سے ایک پیج بنتا۔ مگر احمد جاوید کی تحریر کا کیا کہنا ؟ ایک صفحہ کے لئے مضمون لکھتے تو آپ آرام سے دو صفحہ بنا سکتے ہیں۔ اکثر جاوید صاحب کے مضمون کے نیچے لکھا ہوتا بقیہ صفحہ ۲۳ پر ۔ ہمیشہ بہت عالمانہ مضمون لکھتے۔ ہم انتظار کرتے کہ کبھی کمزور مضمون ہو ، مگر ناکام رہتے۔ جاوید صاحب روا روی میں لکھ دیتے تب بھی مضمون عالمانہ ہوتا۔ معلومات کا خزانہ ہوتا۔ موضوع کوئی بھی ہو اس کی جڑوں کو کھود ڈالتے۔ یروشلم میں کسی بم دھماکہ کی خبر ہوتی تو فلسطین کی تاریخ بیان کرتے ہوئے لیلیٰ خالد کی پوری داستان سنا دیتے ۔ اور ہم احمد جاوید کی تحریروں میں پوشیدہ لیلیٰ خالد کی شجاعت پر فریفتہ ہوتے ۔
احمد جاوید کو ہم کبھی جاوید بھائی تو کبھی جاوید صاحب کہہ کر پکارتے رہے ہیں۔ جاوید صاحب اکثر چھوٹوں کو بھی آپ کہہ کر پکارتے ہیں۔ ٹھہر ٹھہر کر اطمنان سے بات کرنے کا ان کا اپنا انداز ہے۔ اس انداز ’’ جاویدی ‘‘ پر پیار بھی آتا ہے اور کبھی کبھی جھنجھلاہٹ بھی ہوتی ہے۔ ہم نے ہر مشاعرے میں ماں کو یاد کرنے والے شاعر منور رانا کا ذکر کیا تو کلکتے کا ذکر نکل آیا۔ جاوید صاحب نے کلکتیہ بولی سے لیکر کلکتیہ پان تک ایک پوری داستان چھیڑ دی۔ ان کے علاقے کے کون کون سے اہم لوگ کلکتہ چلے گئے تھے۔ کس نے کیا روزگار اختیار کیا ، اس وقت پورب کے لوگ دہلی اور ممبئی کے مقابلے میں کلکتہ ہی کیوں جاتے تھے؟ جاوید صاحب نے کلکتہ کو پانی پانی کر دیا۔ ایک روز ہفت روزہ ’’ نئی دنیا ‘‘ کے دفتر میں پاکستان سے کسی شاعر نے اپنا نعتیہ مجموعہ بھیجا تھا۔ تبصرہ لکھنے کے لئے میں کتاب کی ورق گردانی کر رہا تھا۔ اردو میں نعتیہ شاعری کا ذکر ہوا تو احمد جاوید نے اردو میں نعتیہ شاعری کی پوری تاریخ بیان کر دی۔ اہم نعت گو شعرا کی خصوصیات بتاتے رہے۔ انھیں یہ بھی معلوم تھا کہ کہاں کہاں کن کن دانشگاہوں میں نعتیہ شاعری کے حوالے سے ایم فل اور پی ایچ ڈی ہوئی ہے۔ میں مبہوت سنتا رہا اور سوچتا رہا کہ آخر جاوید صاحب بھی تو ممتاز نعت گو شاعر علامہ شبنم کمالی کے تربیت یافتہ ہیں۔یہ بات کم لوگوں کو معلوم ہے کہ احمد جاوید نے تھوڑی بہت شاعری بھی کی ہے۔ تھوڑی بہت اس لئے کہ وہ باقاعدہ شاعر نہیں ہیں۔ شاعروں والی عادتیں بھی نہیں ہیں۔ کچھ غزلیں اور کچھ نعت نبی ان کی جھولی میں ہیں۔
احمد جاوید مسلکی جھگڑوں کی بڑی باریک سمجھ رکھتے ہیں۔ کوئی بات کسی مولانا کو اچھی لگے گی یا بری اس کی پرواہ کئے بغیر وہ سچ بات لکھتے ہیں اور بولتے ہیں۔ حالانکہ اس کا نقصان بھی انھیں اٹھانا پڑتا ہے ۔ لیکن یہ شخص بھی تو احمد جاوید ہے ۔ بڑی حد تک سود و زیاں سے بے نیاز ۔ احمد جاوید کی شخصیت میں اک شان بے نیازی ہے ۔ ایک خاندانی رکھ رکھائو ہے ۔ ایک مشرقی حیا ہے۔ تکلیف برداشت کر لیں ، اپنے غم کو سینے سے لگا کر رکھیں گے لیکن کیا مجال کہ کسی کے سامنے دست سوال دراز کریں ۔ دامن جھٹک کے منزل غم سے گزر گیا۔ اُٹھ اُٹھ کے دیکھتی رہی گرد سفر مجھے ۔ ایسے اشعار علی سردار جعفری نے اسی وقت کہے ہوں گے جب احمد جاوید جیسے کسی قلندر سے ان کی ملاقات ہوئی ہوگی ۔ احمد جاوید کی بنیادی شناخت آج ایک بے باک صحافی کی ہے ۔ لیکن وہ ایک باکمال ادیب اور شاعر بھی ہیں۔ ایک عالم دین ہیں ۔ اور سب سے بڑھ کر وہ آج بھی مطالعہ میں غرق رہنے والے طالب علم ہیں۔راقم السطور اور احمد جاوید میں ایک یکسانیت یہ ہے کہ دونوں کو پڑھنے کی بیماری ہے ۔ کتابوں کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے ۔
احمد جاوید بہار کے دربھنگہ کے ایک گائوں سے نکل کر آج ہندوستان میں اور ہندوستان کے باہر بھی اگر اپنی پہچان بنانے میں کامیاب رہے تو اس میں ان کی ذہانت ، شوق مطالعہ ، محنت، لگن اور ماں باپ کی دعائیں شامل رہی ہیں۔ علامہ اقبال نے احمد جاوید جیسے لوگوں کے لئے ہی کہا تھا کہ فطرت خود بہ خود کرتی ہے لالے کی حنا بندی ۔ احمد جاوید کو ماں باپ کی دعائیں ملیں، یار دوستوں کا پیار ملا ، علامہ شبنم کمالی اور شاہد صدیقی جیسے اساتذہ ملے ۔ خوش قسمتی سے ایک جاں نثار بیوی بھی میسر آ گئی۔ جو سچ مچ شریک سفر اور شریک حیات ہے ۔ روحی بھابھی کے ذکر کے بغیر کم از کم میں احمد جاوید کا ذکر نامکمل سمجھتا ہوں ۔ ایسی ہنر مند ، سلیقہ شعار اور صبر و قناعت والی بیوی اگر نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے ۔ احمد جاوید کے اندر کی آگ سرد نہ پڑنے پائے اس کا بھرپور خیال رکھا روحی بھابھی نے ۔ احمد جاوید اگر اپنی شرطوں پر زندگی گزار سکے اور گزار رہے ہیں تو اس میں ان کی اہلیہ محترمہ روحی جاوید کا بھی بڑا اہم رول ہے ۔احمد جاوید کا تخلیقی سفر جاری ہے۔ اردو صحافت اور اردو شعر و ادب کو دینے کے لئے ان کے خزانے میں ابھی بہت ہرے جواہرات موجود ہیں۔
تحریر : ڈاکٹر شفیع ایوب ، نئی دہلی